زندگی ماہ و سال کی کہانی ہے؛ ہر گذرتا دن تاریخ کا حصہ بن جاتا ہے اور یہ زمین پر بسنے والے انسانی تاریخ کی کہانی بن جاتی ہے۔ انسانی تاریخ قوموں کے عروج و زوال کی داستان ہے؛ اس داستان کا اہم حصہ اقوام کی افواج ہوتی ہیں۔ یہ تحریر پاکستان کے عساکر کی زندگی کے اہم سامان "بستر بند " سے متعلق ہے کہ کیسے یہ ایک فوجی کی زندگی میں اہم ہوتا ہے۔ اور یہ تحریر اسی زندگی میں ایک روزن ہے جسے لیفٹیننٹ کرنل ابرار خان (ریٹائرڈ) نے قلم زد کیا ہے۔
کرنیلیاں
فوجی بستر بند
کچھ عرصہ قبل "کالا بکسا" کے عنوان سے ایک تحریر قارئین کی نذر کی۔ اس چھوٹی سی تحریر میں میں نے کالے بکسے سے فوجیوں کی لازوال دوستی اور محبت کا تذکرہ کیا تھا۔ جہاں قارئین نے اس تحریر کو بے حد سراہا وہیں متعدد فوجی قارئین نے یہ مطالبہ بھی کیا کہ کالے بکسے کے ساتھ ساتھ فوجی بستر بند کا بھی تذکرہ ضروری ہے جو کالے بکسے کی طرح کبھی ہر فوجی کے سامان کا لازمی جزو ہوا کرتا تھا۔ مطالبہ معقول تھا جس کے بعد ذہن میں گویا ریوائنڈ کا بٹن دب گیا ہو۔۔۔ میں فلموں کے فلیش بیک کی طرح اچانک پینتیس سال پہلے کے زمانے میں پہنچ گیا۔۔۔
میٹرک کا امتحان پاس کر کے کالج میں ابھی ایک سال ہی مکمل ہوا تھا کہ جونئیر کیڈٹس اکیڈمی، منگلا میں بطور جونیئر کیڈٹ منتخب ہونے کا پروانہ موصول ہو گیا۔ نامہ ہاتھ میں آنے کی دیر تھی کہ جونئیر کیڈٹس اکیڈمی، منگلا جانے کی تیاریاں شروع ہو گئیں۔ سب سے پہلے جست کی چادر کا بکسا (ٹرنک) بازار سے آرڈر پہ تیار کرایا جس پہ کالا رنگ کر کے جلی حروف سے اپنا نام بھی لکھوا لیا اور ضرورت کا سارا سامان بکسے میں رکھتے رہے۔ یہ بکسا پاکستان ملٹری اکیڈمی، کاکول تک ہمارا اکیلا ہی ساتھی رہا۔ البتہ جب ہم اپنے کاندھوں پہ سیکنڈ لیفٹینی کے پھول سجائے اپنی پہلی تعیناتی پہ ملتان چھاؤنی روانگی کے لیے پر تول رہے تھے تو ہمارے ایک فوجی کزن نے ہمارے والد صاحب کو بتایا کہ بکسے کے ساتھ فوجی کے لیے بستر بند کا ہونا بھی انتہائی ضروری ہے۔ اس بستر بند کے حصول کے لیے ہمیں بازار جانے کی ضرورت پیش نہیں آئی بلکہ گھر کے اسٹور روم سے ایک انتہائی معیاری اور تقریباً نیا بستر بند ہمیں میسر آگیا۔ یہ بستر بند کسی زمانے میں ایک شہر سے دوسرے شہر، خاص طور پہ ریل گاڑی کے سفر کے دوران استعمال ہوا کرتا تھا۔ کینوس اور چمڑے سے بنے اس بستر بند کو انگریزی میں Holdall کہتے ہیں۔ راولپنڈی کے صدر بازار میں ریلوے اسٹیشن کے راستے میں ایک ہی قطار میں بہت سی دکانیں ہیں جہاں اب بھی ترپال، ٹینٹ اور فوجی ساز و سامان دستیاب ہوتا ہے وہیں یہ بستر بند بھی ملا کرتا تھا۔ اسی طرح ہر بڑے شہر اور چھاؤنیوں کے صدر بازاروں میں یہ بستر بند باآسانی دستیاب ہوا کرتا تھا۔۔۔۔
کینوس کے اس بستر بند کو اگر زمین پہ کھول کر پھیلا دیا جائے تو یہ ہماری چارپائی کی لمبائی اور چوڑائی سے تھوڑا سا بڑا ہی ہوتا تھا۔ اسی لیے اس میں بستر پہ بچھایا جانے والا روئی کا گدّا، رضائی، کمبل اور تکیہ باآسانی سما جایا کرتے۔ اندر سرہانے اور پائنتی کی طرف تکیے کے غلاف کی طرح دوہری سلائی سے تھیلی کی مانند جگہ ہوا کرتی۔ پائنتی کی تھیلی بڑی جبکہ سرہانے کی تھیلی نسبتاً چھوٹی ہوتی۔ چھوٹی تھیلی پہ عموماً تکیہ رکھا جاتا۔ افسران کے بستر بند کو کھولنے اور باندھنے کی ذمہ داری اردلی کی ہوا کرتی۔ وہ اس میں کمبل، گدّا، تکیہ، فالتو کپڑے، جوتے اور ناجانے کیا کیا بھر دیا کرتا کہ اس کے بعد بستر بند کو باندھنا گویا اسی کی ہمت ہوتی۔
ہم نے بھی اس بستر بند میں امّی جی کے ہاتھ سے تیار شدہ رضائی اور ایک عدد روئی کا گدّا ڈالا اور کالے بکسے کے ہمراہ ریل گاڑی سے ملتان کے لیے روانہ ہو لیے۔ اگر کسی کو فوجی چھاؤنیوں کے ریلوے اسٹیشن کے پلیٹ فارموں کا منظر یاد ہو جہاں اکثر کالے بکسوں کے اوپر بستر بند نظر آیا کرتے تھے۔ جس کا مطلب ہوتا کہ فوجی حضرات ایک چھاؤنی سے دوسری چھاؤنی تبادلے پہ جا رہے ہیں۔۔۔
ہم بھی ملتان چھاؤنی کے ریلوے اسٹیشن سے رجمنٹ پہنچے تو اگلے ہی دن موسم سرما کی مشقوں کے لیے خیرپورٹامیوالی روانگی ہو گئی۔ دو مہینوں سے زائد کی ان مشقوں میں ہمارا ایک ٹھکانا نہ تھا بلکہ ہمیں سفر در سفر ہی درپیش رہے۔ یوں ہمارا اردلی یا بستر بند کھول رہا ہوتا یا باندھ رہا ہوتا۔
سبز رنگ کے کینوس سے بنے اس بستر بند کے اوپر چمڑے کے اسٹریپ تھے جن کے ایک سرے پہ لوہے کے مضبوط بکل اس کو بند کرنے کے کام آتے۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ کینوس کا وہ معیار برقرار نہ رہا جو پہلے کبھی ہوا کرتا تھا۔ چمڑے کے بکل کی مضبوطی بھی ویسی نہ رہی۔ یہی وجہ تھی کہ اکثر فوجی جوان اپنے بستر بند رسی سے ہی باندھ رہے ہوتے۔ ایک دفعہ ہماری رجمٹ میں فوجی مشقوں کے دوران ایک جوان نے بستر بند کے باہر والی رسی کھولی تو اندر سے ایک رسی اور برآمد ہو گئی غور سے دیکھنے پہ معلوم ہوا کہ وہ رسی نہیں بلکہ سانپ تھا۔ اس واقعے کے بعد جوانوں کو خاص تاکید کی گئی کہ بستر بند کھولنے اور باندھنے سے پہلے اچھی طرح تسّلی کر لیا کریں کہ کوئی سانپ یا بچھو تو اس میں موجود نہیں۔
کالے بکسے کی طرح بستر بند پہ بھی پہچان کے لیے افسران اور جوانوں کے نام درج ہوتے۔ البتہ بستر بند پہ نام موٹے کالے مارکر سے ایسے لکھے جاتے کہ بستر بند کو باندھنے کے بعد نام واضح طور پہ نظر آئے۔ ایک ہی اسکواڈرن، کمپنی یا بیٹری میں ایک جیسے نام کے حامل جوان یا تو اپنا آرمی نمبر ساتھ لکھا کرتے یا پھر ان کے نام کچھ اس طرح لکھے جاتے:
"سپاہی اللہ رکھا (فٹبالر)"
اور
"سپاہی اللہ رکھا (رانگڑ)"
فوجی مشقوں کے دوران بستر بند خالی ہو جاتا تو اردلی حضرات اسے بڑی نفاست سے تہ لگا کر چارپائی کے نیچے رکھ دیا کرتے یا پھر چارپائی پہ گدّے کے نیچے ہی بچھا دیا کرتے۔ اسی طرح کالے بکسے سے کپڑے اور وردیاں نکال کر ہنگر اسٹینڈ پہ لٹکا دیئے جاتے اور بکسے پہ خاکی کپڑا ڈال کر اس سے میز کا کام لیا جاتا۔ کالے بکسے اور بستر بند کی دوستی اس وقت تک برقرار رہی جب تک رضائی کی جگہ سلیپنگ بیگ نے اور روئی کے گدے کی جگہ فوم کے گدے نے لے لی۔
اس دوستی کے ختم ہونے کے بعد کالے بکسے نے ایک طویل عرصہ اپنے عزیز دوست "بستر بند" کے بغیر گزارا اور آخر کار اس کالے بکسے کی جگہ بھی پہیے والے سوٹ کیس نے لے لی۔ موجودہ دور میں بستر بند تو تقریباً ناپید جبکہ کالے بکسے صرف ہم ایسے ریٹائرڈ فوجیوں کے پاس ہی رہ گئے ہیں۔ بستر بند اور کالا بکسا رہے نہ رہے لیکن ان دونوں چیزوں سے جڑی ہماری خوشگوار یادوں کا سلسلہ ہم ایسے ریٹائرڈ فوجیوں کے ساتھ ہمیشہ ہی جڑا رہے گا۔
-+-+-+-+-
✍️:لیفٹیننٹ کرنل ابرار خان (ریٹائرڈ)
١٥ ستمبر ٢٠٢٤
🪀: 0340 4303030
📧: khanabrar30c@gmail.com