بولی وڈ فلم انڈسٹری نے بہت سی لاجواب فلمیں تخلیق کی ہیں اور ان میں کئی ایک امر ہوچکی ہیں۔ ایسی ہی ایک فلم " شعلے " بھی ہے۔ یہ فلم آج سے تقریبا" 50 سال قبل ریلیز ہوئی تھی اور جب سے اس نے تین نسلوں کو متاثر کیا ہے؛ اور اس کے پسند کرنے والے برصغیر ہند و پاک کے تمام علاقوں کے درشک ہیں۔ اس کی مقبولیت کا اندازی اس بات سے لگائیے کہ جناب شہریار خان صاحب نے آج اس کی مناسبت یہ مضمون لکھ ڈالا ہے۔ بینگ باکس کے قارئین اس سے یقینا" محظوظ ہونگے۔
قلم دراز تبصرہ ! بھارتی فلم شعلے
ہمارابچپن بھی کیا پیارا بچپن تھا، ہر شے خالص ہوتی تھی، دوستی یاری، رشتے ناتے، کھانے پینے کی اشیا، دودھ میں کیمیکل تو کیا پانی کا سوچنا بھی گناہ تھا، چائے کی پتی میں رنگ دار لکڑی کا برادہ ملانے کا سوچنے والا بھی شاید واجب القتل ہوتا، گوشت خریدتے وقت یقین ہوتا کہ بڑا گوشت ویہڑے اور چھوٹا گوشت بکرے کا ہی ہوگا، شاید اس وقت تک پاکستان میں گدھوں کی پیداوار میں اضافہ نہیں ہوا تھا، اسی لیے ہم جیسے لوگ فلموں اور ان کے کرداروں کو بھی خالص سمجھ لیا کرتے تھے۔ ویسے بھی وہ زمانہ ایسا ہی تھا، واحد تفریح کا سامان ویڈیو کیسٹ ریکارڈر یعنی وی سی آر ہوا کرتا، وی سی آر بھی کسی کسی گھر میں ہوتا تھا اور اس کی افادیت آج کا بچہ کیا جانے؟
یہ اینڈرائیڈ کی دنیا میں آنے والے بچے۔۔ یہ کرایہ پر وی سی آر لے کر آنے والے کے چہرہ کی فاتحانہ مسکراہٹ کا اندازہ بھی نہیں لگا سکتے ، جنہیں اپنے پالنے میں ہی ٹیبلٹ اور وائی فائی کی سہولت میسر آ جائے وہ بچے کیا جانیں کہ نئی ریلیز ہونے والی فلم کی وڈیو کیسٹ سب سے پہلے لانے والا کتنا بڑا چیمپئین جانا جاتا تھا؟۔ وہ لوگ کتنے خوش نصیب ہوتے تھے جن کے دوست وڈیو فلموں کا بیوپار کرتے۔ کسی بڑی اور مشہور فلم کے ریلیز ہونے کے فوری بعد مارکیٹ میں کیسی ہلچل ہوتی تھی اوردوست یار پیسے اکٹھے کر کے کیسے ایک کمرے میں جمع ہو کر فلمیں دیکھا کرتے تھے اس کے لطف کو یو ٹیوب اور نیٹ فلکس پر ہر طرح کی مووی اور ڈرامے دیکھ لینے والے کیا جانیں؟۔
وہ لوگ جو فلم کسی مجبوری کے باعث نہیں دیکھ پاتے وہ کیسے چسکے لے لے کر سنتے اور سنانے والے ویرو اور جے کی داستانیں کیسے مزے لے لے کر سناتے۔۔ سب مزے لیتے ان فلموں کے جن میں سب کچھ ہوتا، سسپنس، ایکشن، کامیڈی اور رومانس، اور رومانس بھی وہ جہاں ہیرو اور ہیروئن دونوں کے قریب آنے پر دو پھولوں کے ہلنے کا منظر دکھایا جاتا، جسے دیکھ کر گھر کی دادی کھنگورا مارتی اور گھر کا سب سے سیانا بچہ اٹھ کر وی سی آر پر فلم فارورڈ کر دیتا ۔۔ سب ہی ون ونڈو آپریشن کے تحت ایک ہی فلم کی چھتری تلے میسر ہوتا۔۔
کیسے جے اپنے دوست کا رشتہ مانگنے گیا اور کیا کمال اس کی تعریفیں کیں۔۔ فلم بے حد اعلیٰ تھی لیکن ان سب کا بغور جائزہ لیا جائے تو پتا چلتا ہے کہ بعض چیزیں خالصتاً فلمی ہوتی ہیں۔ جیسے جے اور ویرو کے جیل کے حالات کسی بھی کچے ذہن کے بچے کے تصور میں یہ لا سکتے ہیں کہ جیل جانا تو کوئی بری بات ہی نہیں ہے۔ جے اور ویرو کی طرح چور ہونا تو اچھا ہوتا ہے، زمانے میں ان کو اچھی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے، ہیرو کی طرح ان کی پذیرائی ہوتی ہے، جیل کے اندر تو مزے ہی مزے ہوتے ہیں۔ جیل میں سب اسرانی کی طرح انگریزوں کے زمانہ کے جیلر ہوتے ہیں لیکن یہ تو حقیقت میں پنجاب کی جیل جانے والے کو پتا چلتا ہے کہ میانوالی کے پلسیئے جو چھتر پھیرتے ہیں وہ بارہ نمبر کا لتر کئی دن تک سیدھا لیٹنے یا بیٹھنے بھی نہیں دیتا۔
جیلوں میں اسرانی کے بجائے کالیا فلم کے جیلر بھی ہو سکتے ہیں جو کالیا کو جیل سے بھاگنے کا سوچنے پر سر سے پاﺅں تک لوہے کی زنجیریں بھی پہنا دیتا ہے۔ بے چارے کئی لوگ سوچتے ہیں چوری کرنے والے تو ویرو اور جے کی طرح فلم کے ہیرو ہوتے ہیں لیکن یہاں حقیقت کی زندگی میں اگر کوئی جے اور ویرو بننے کی کوشش کرے تو گدھے پر بٹھا کر منہ کالا کر کے بازار میں پھرایا جاتا ہے کیونکہ ہر آدمی عامر لیاقت کی طرح نصیب والا نہیں ہوتا، پولیس مقابلوں میں جاوید لنگڑا اور ناصر کانا مارے بھی جاتے ہیں جبکہ انہوں نے صرف ایک دو موبائل ہی چھینے ہوتے ہیں۔ کئی جگہ پر اہل علاقہ مل کر پکڑے جانے والے ڈاکوﺅں اور چوروں کو گیڈر کٹ بھی لگاتے ہیں اور پھر اس کے بعد پولیس والے بھی اپنی لمبی ڈیوٹی کا غصہ اسی چھوٹے چور پر نکالتے ہیں، بے چارہ سوچتا ہو گا کہ فلم میں تو ایسا نہیں ہوا تھا۔
کہیں کوئی یہ سوچنے لگے کہ اسے بھی ویرو اور جے کی طرح کوئی ہاتھوں کے بغیر ٹھاکر مل جائے گا تو یہ اس کی غلط فہمی ہوتی ہے۔۔ انہیں علاقہ کا کوئی قبضہ مافیا سربراہ ہی شاید ملے جو اپنے ہاتھوں سے ہونے والے قتل کا الزام اسے اپنے ذمہ لے کر جیل جانے پر بھاری رقم کا لالچ دیتا ہے اور پھر اس کی باقی زندگی کال کوٹھری میں گزر جاتی ہے۔ یہ بھی کئی لوگ سوچتے ہوں گے کہ ویرو کی طرح اسے بھی کوئی بسنتی مل جائے گی جو اپنی دھنو پر بیٹھ کر ہنٹر مارتے ہوئے شام کو گھر آتے ہوئے بھاری رقم بھی لے کر آئے گی اور اس کے ہاتھ پر رکھ دے گی حالانکہ ایسا صرف نبیل کے ڈراموں ہوتا ہے یا پھر شعلے فلم میں ہوتاہے۔
نہ ہی اصلی زندگی میں فلم کی موسی (خالہ) کی طرح کوئی سادہ سی خاتون دستیاب ہوتی ہے۔ ہم نے اپنے کئی دوستوں کو اپنے عشقیہ خطوط پکڑے جانے پر خالاﺅں کے ہاتھ سے ذلیل ہوتے دیکھا ہے۔ وہ بے چارے چور بھی نہیں تھے، نہ ان کے کسی دوست نے جا کر خالہ کو یہ بتایا کہ یہ بے چارہ اچھا ہے مگر شراب صرف اس وقت پیتا ہے جب جوئے میں ہارتا ہے اور جوا بھی صرف اس وقت کھیلتا ہے جب مجرا دیکھنے جاتا ہے۔ ایسے رشتہ مانگنے پر بھی خالہ اس وقت ویرو کو رشتہ دینے پر تیار ہو جاتی ہے جب ویرو شراب پی کر پانی کی ٹینکی پر چڑھ کے خود کشی کی دھمکی دیتا ہے۔ یہاں بے چارے انجینئرنگ یا ڈاکٹری پڑھنے والے پڑھاکو بچے بھی خالہ کی بے عزتی سے دلبرداشتہ ہو کر پڑھائی چھوڑ کر چاہے محلہ میں پان سگریٹ کا کھوکھا بھی لگا لیں تو خالہ کی بلا سے۔۔
اکثر چنگے بھلے پڑھے لکھے بچے پڑھائی سے ایسا بھاگے کہ وکیل بن گئے اورآپ بھی عدالت آنے والے سائلین کو مارتے اگر کسی وکیل کو دیکھیں تو سمجھ لیں کہ یہ بے چارہ وہی ہے جو لڑکی کی خالہ کے ہاتھوں بے عزت ہو کر پڑھائی سے دلبرداشتہ ہوا اور پھر وکیل بن بیٹھا۔ ویسے اب تو ایسے کئی لوگ اپنی محبوباﺅں کی خالہ جات یا اپنے کسی دوسرے احساس کم تری کا انتقام لینے کی خاطر چوری کی دولت سے اخبارات کے مالک بن بیٹھے ہیں یا ایسے ہی کسی مالک سے کارڈ خرید کر صحافی۔۔ ابھی اسلام آباد کے ایک سیکٹر سے ایک چور پکڑا گیا تو اس کم بخت کی جیب سے جہاں دنیا بھر کی نقدی، موبائل فون اور زیورات برآمد ہوئے وہیں دوسری جیب سے کرائم رپورٹر کا کارڈ بھی برآمد ہوا۔ اس واقعہ سے میرا یقین اس بات پر مزید پختہ ہو گیا کہ وکیل اور صحافی کا چولی دامن کا ساتھ ہے۔ کبھی آپ کا سامنا ایسے پولیس والے سے ہو جو مدعی کے ساتھ ملزم جیسا سلوک کر رہا ہو، تو سمجھ جائیے اس کی بھی کسی خالہ نے ٹھکائی کی ہے۔
کوئی ایسا ڈاکٹر جو بھاری فیس لینے کے باوجود چڑچڑے پن کے ساتھ آپ سے پیش آئے اور بغیر تشخیص ہی دوائی تجویز کر دے تو مان لیں کہ اس کا خط بھی لڑکی کی کسی خالہ یا پھوپھو نے پکڑ لیا تھا۔ جو ٹھیکے دار دام پورے وصول کرے مگر سیمنٹ کی جگہ بھی ریت ہی ڈال دے وہ بھی کوئی ناکام عاشق ہو سکتا ہے۔ آپ پھل خریدیں اور من مانے دام کی ادائیگی کے باوجود گھر لا کر لفافے کھولنے پر خراب پھل برآمد ہو تو سمجھ جائیں وہ ریڑھی والا بھی کسی نامکمل عشق کا بدلہ معاشرے سے لینے کا خواہاں ہے۔
بہرحال بات ہو رہی تھی شعلے فلم سے متاثر ہونے والی نسل کی، جس کے لوگ اس بات پر بھی متاثر ہوتے تھے کہ اس بستی میں ایک نابینا مولوی صاحب بھی تھے، ان مولوی صاحب کا سین جب بھی چلتا ہماری کام کرنے والی مائی کہا کرتی، یہ بابا جی اندھے ہیں لیکن آرام سے اپنی منزل پر پہنچ جاتے ہیں یعنی ان کو یہ یقین تھا کہ وہ حضرت حقیقت میں بھی اندھے ہیں۔ اگلی کسی فلم میں وہ انہیں اشوک کمار کے ساتھ ناچتا ہوا دیکھ لیتی تو اسے معلوم ہی نہ ہوتا کہ یہ وہی شعلے فلم والے اندھے حافظ جی ہی ہیں۔
وہ تو بھلا ہو ہم نے اشفاق احمد صاحب کی زاویہ پڑھ رکھی تھی ورنہ ہمارے زاوئیے بھی اسی طرح متاثر ہو سکتے تھے۔ اپنے اشفاق احمد کے بابا جی کی باتیں دماغ کو اچھی لگنے لگیں تو۔۔۔ یہ مت سوچیں کہ آپ بہت اچھے اور شریف انسان ہیں بلکہ یہ سمجھ لیں کہ آپ بہت سے گناہ کر چکے ہیں اور اب مزید گناہوں سے پہلے پچھلے گناہوں کا کفارہ ادا کرنے کا وقت آ چکا ہے۔ میرا بھی ایسا وقت ہو چکا ہے اس لیے اجازت دیجئے مزید کسی پرانی فلم پر تبصرے کے ساتھ پھر حاضر ہوں گے، تب تک کے لیے اجازت دیجئے، اللہ نگہبان۔
قلم درازیاں
شہریار خان
21 جون 2021
اسلام آباد
🪀: 0300 5572476