خوف کا آسیب
انسان کی جبلی خصلتوں میں کئی خوبیاں اور خامیاں ہوتی ہیں۔ متعدد خوبیاں ہوتی ہیں اور اگر وہ نہ ہوں تو کمزوریاں بن جاتی ہیں۔ خوف بھی انسان میں، ہمت، جرات اور ایمان کی کمی کے باعث پیدا ہوتی ہے۔ خوف بڑا ظالم ہوتا ہے اور انسان کو اشرفا لمخلوقات کے درجے سے گرا دیتا ہے۔ یہ تحریر اس موضوع پر گفتگو کرنے کے لیے قلم زد کی گئی ہے۔
2024-08-31 18:00:01 - Muhammad Asif Raza
بِسۡمِ ٱللهِ ٱلرَّحۡمَـٰنِ ٱلرَّحِيمِ
خوف کا آسیب
زندگی سورج کی سنہری کرنوں، سروں پر پھیلا نیلگوں آسمان؛ فلک سے برستا پانی، زمین پر کھڑے پہاڑ، بہتے چشمےو دریا، رنگا رنگ شجر، پتے، پھول اور کلیاں، چرند، پرند، مچھلیاں اور ان سب کے درمیان حضرتِ انسان کی کہانی ہے۔ اس کہانی میں کیسا ربط ہے اور کیا آہنگ ہے؟ سب گیت اور نغمے اسی سے پھوٹتے ہیں۔ زندگی کے ساز اور سوز میں خوشی ہے، سرشاری ہے، انبساط ہے، مسرت ہے اور والِہانَہ لگاو ہے۔
انسان جب وارفتگی کے لگاوکو پاتا ہے تو اپنے خالق کو پہچان لیتا ہے؛ جس نے اس کو ان گنت نعمتوں اور عنایات عطا کرکے دنیا میں بھیج رکھا ہے۔ مگر ہمارے درمیان ایسے انسان کتنے ہوتے ہیں؛ جو زندگی میں محبوبِ حقیقی کے عشق و محبت میں ڈوبے زندگی سے گزرتے ہیں؟ انسان کی ایک کمزوری یہ ہے کہ اللہ بزرگ و برتر کو چھوڑ کر اس دنیائے فانی کو حاصل کرنے کی تمنائیں پالتا ہے؛ آس لگاتا ہے، اور امیدوں کی جوت لگا کر حسرتیں پالتا ہے۔
ہم دیکھتے ہیں کہ انسان کا دل آس پاس منعقد پذیر معمولی واقعات سے خوف پال لیتا ہے جو اس کی شخصیت کو تباہ کر دیتے ہیں اور مزید ستم یہ ہوتا ہے کہ جینے کی امنگ ہی چھن جاتی ہے۔ ایسے لوگ چلتے پھرتے نظر آتے ہیں مگر ان کے جلو میں ذہنی دباؤ، اضطراب، بے چینی، بے سکونی وغیرہ ان کے ساتھ ساتھ ہی رہتے ہیں۔ ان دیکھے مستقبل کےاندھیرے کا خوف؛ جانے انجانے دشمن کا خوف؛ اور ہر وقت اپنی ہی سوچوں سے پیدا کردہ وہموں اور اندیشوں کا خوف۔ یہ خوف کا احساس اذیت گیر ہوتا ہے؛ جو ایک آسیب بن کر لوگوں کی زندگی کا حصہ بن جاتا ہے۔
کیا انسان جنم کے ساتھ ہی جبلت کی خصوصیات نہیں پاتے؟ تو کیا خوف اور ڈر اسے پیدائش ہی سے ڈرپوک یا بزدل بنا دیتے ہیں؟ کیا زندگی کے درپیش مسائل اور واقعات انسان کے دل میں خوف کو جنم دیتے ہیں؟ انسان خوابوں کی دنیا میں بستا ہے؛ اچھے دنوں کے خواب؛ جائز اور ناجائز خواہشات کے حصول کے خواب، برتری اور قوی تر ہونے کے خواب تقریبا" ہر انسان ہی دیکھتا ہے۔ انسان کی آنکھوں میں خواب ہوتے ہیں اور لوگ کھلی اور بند دونوں طرح خواب دیکھتے ہیں۔ مگر اکثر افراد ان خوابوں کی تعبیر نہیں پاتے۔ نامکمل خواب انسانوں کے دلوں میں پھر خوف کو جنم دیتے ہیں۔
ہم جس زمین پر رہتے ہیں؛ یہاں کے بسنے والے مختلف نوع کی غلامی کا شکار رہے ہیں اور اس کی وجہ سے انکے رویوں میں ایک علالت نے مستقل شکل اختیار کرلی ہے۔
بطور قوم ہم ایسے مرض میں مبتلا جو حالیہ دنوں کہیں زیادہ سنگین ہوچکا ہے۔ ایسا دکھائی دیتاہے جیسے تمام معاشرہ آنکھ بند کرکے خوف میں مبتلا ہے۔ خوف نے ہماری بصارت ہی نہیں بلکہ بصیرت بھی چھین لی ہے۔ انگریز حکومت نے بطور حکمران ریاست، دہشت کو پھیلایا کہ رعایا میں بغاوت کی سوچ پیدا ہی نہیں ہوسکے۔ مگر برصغیر پاک و ہند سنہ 1947 میں آزاد ہوگیا تھا، مگر اسکے بسنے والوں کو یہ نعمت میسر نہیں ہوسکی۔ سو اس پر بسنے والوں کی اکثریت نے زندگی کی مسرتوں کے حصول کے لیے حقیقت سے راہ فرار اختیار کرتے ہوئے آنکھیں موند لیں کہ سامنے پیش آنے والے مسائل سے انکی آنکھیں پھیل جانی تھیں اور دل پھٹ جانے تھے۔ انھوں نے دلوں میں خوف کے آسیب پالے اور انکو سینچ سینچ کر اپنی نسلوں کو منتقل کیا۔
سوال یہ ہے کہ کیسے دور ہوں گے یہ خوف کے آسیب؟ آئیے اس سوال کا جواب ڈھونڈتے ہیں، مگر ذرا آہستہ آہستہ؛ کچھ شاعری کی مدد سے
نوشی گیلانی صاحبہ کی نظم " خوف"۔
فضا میں حَبس ہے
تاریکیاں کچھ اور گہری ہو گئ ہیں
مناظر میں یہ کیسی وحشتیں حیراں کھڑی ہیں
اور
ہَوائیں اس نگر کا راستہ بھولی ہوئ ہیں
دِلوں پر اِک اچانک حادثے کا خوف طاری ہے
حبیب جالب کی ایک غزل کے چند اشعار
شہر پہ خوف کے سائے ہیں
یہ کیسے دن آئے ہیں
روتے ہیں پیاسے نیناں
درد کے بادل چھائے ہیں
موت سے لڑنے والے لوگ
گھبرائے گھبرائے ہیں
چاند سے چہرے پھول سے لوگ
مرجھائے مرجھائے ہیں
آئیے کچھ اشعار سے اسی موضوع پر مقصد کو واضع کرتے ہیں۔
اطراف میرے کھینچا گیا خوف کا حصار
ڈہتے ہوئے مکان میں رکھا گیا مجھے
جہانگیر نایاب
چیخ اٹھتی ہوئی ہر گھر سے نظر آتی ہے
ہر مکاں شہر کا آسیب زدہ لگتا ہے
عدیم ہاشمی
عجیب خوف کا آسیب سر پہ رقصاں ہے
گزر رہا ہوں میں خود سے نظر بچاتا ہوا
ایاز اعظمی
اب ایسے خوف کے سائے میں خواب دیکھیں کیا
یہاں تو آنکھ بھی ڈرنے لگی جھپکتے ہوئے
نعمان شوق
کل تک جہاں میں جن کو کوئی پوچھتا نہ تھا
اس شہر بے چراغ میں وہ معتبر ہوئے
بدلا جو رنگ وقت نے منظر بدل گئے
آہن مثال لوگ بھی زیر و زبر ہوئے
خلیل تنویر
ہیں دن جو خوف کے سائے میں رات سہمی ہوئی
دکھائی دینے لگی کائنات سہمی ہوئی
قدم قدم پہ ہے اک ایسی موت کا سایا
گھروں میں رہ کے بھی ہے یہ حیات سہمی ہوئی
کہاں سے آئیں گے شاہدؔ خوشی کے مترادف
ہے لفظ لفظ ہماری لغات سہمی ہوئی
شاہد جمال
خوف کے سائے میں کیوں ختم ہو سوچوں کا سفر
آؤ ہنستے ہیں ہنساتے ہیں چلے جاتے ہیں
جس کو آنا ہے وہ آئے گا ہمیں فکر نہیں
ہم تو آواز لگاتے ہیں چلے جاتے ہیں
عبدالسمیع صدیقی نعیم
ادا جعفری کی نظم "سنو"، پیش کی جاتی ہے
جان
تم کو خبر تک نہیں
لوگ اکثر برا مانتے ہیں
کہ میری کہانی کسی موڑ پر بھی
اندھیری گلی سے گزرتی نہیں
کہ تم نے شعاعوں سے ہر رنگ لے کر
مرے ہر نشان قدم کو دھنک سونپ دی
نہ گم گشتہ خوابوں کی پرچھائیاں ہیں
نہ بے آس لمحوں کی سرگوشیاں ہیں
کہ نازک ہری بیل کو
اک توانا شجر ان گنت اپنے ہاتھوں میں
تھامے ہوئے ہے
کوئی نارسائی کا آسیب اس رہ گزر میں نہیں
یہ کیسا سفر ہے کہ روداد جس کی
غبار سفر میں نہیں
خوف فرد کا قائم کردہ ہو؛ ادارے کا، نظام کا، حکمران کی طاقت کا ہمیشہ نفرت کو جنم دیتا ہے۔ کمزور نفرت میں بددعا دیتا ہے اور جس جان میں زندگی ہوتی ہے وہ تڑپتا ہے اور یہ فکر پیدا ہوتی ہے کہ تبدیلی لائی جائے۔
رات کیوں خوف کے سائے میں گزاری جائے
وہ جو ہونا ہو کسی آن بھی ہو جاتا ہے
اشفاق عامر
مرے صیاد کو با وصف اسیری ہے یہ خوف
میں قفس میں بھی بنا لوں گا گلستاں کوئی
حیات وارثی
لہجے میں اگر رس ہو تودو بول بہت ہیں
انسان کو رہتی ہے محبت کی زبان یاد
پیر نصیر الدین نصیر
More Follow us on
Platform: https://www.bangboxonline.com/
Facebook: https://www.facebook.com/bangboxonline/
Instagram: https://www.instagram.com/bangboxonline/?hl=en
Twitter: https://x.com/BangBox7?t=rkbQiJCSW6a-fk-P8Nid2Q&s=09