Hazrat Muhammad (PBUH) was born in the Islamic month of Rabi Ul Awwal; and every year Muslims across the world celebrate the birthday of Holy Prophet (PBUH) with religious zeal and zest.
جشنِ آمد رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ۱۴۴۵ ہجری
تمام عالم اسلام کو ربیع الاول کا چاند مبارک ہو۔ ہم سب جانتے ہیں کہ آقا کریم؛ سرورِ کونین؛ سردار الانبیاء؛ خاتم النبین؛ رحمت العالمین محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سنہ۵۷۱ عیسوی میں ماہِ ربیع الاول میں حضرت آمنہ کے ہاں ولادت پذیر ہوئے۔ سیرت کی کتابوں سے معلوم ہوتا ہے کہ اس دن اللہ سبحان تعالی نے ساری کفر کی دنیا کو اس دن اپنے حبیب کبریا ﷺ کی آمد کا اعلان کروا دیا تھا؛ جب بت کدوں کی آگ بجھ گئی تھی؛ قیصرو کسری کے کنگر گر گئے تھے۔
پھر اللہ سبحان تعالی نے جیسا چاہا وقت کا پہیہ آگے بڑھا اور چالیس سال کی عمر میں اللہ تعالی نے اپنے حبیب کو بطور نبیﷺ مبعوث کیا اور پھر تیرہ سال کے بعد انہوں نے یثرب کی جانب ہجرت کی جو انکی آمد کے بعد مدینۃ الرسول کہلایا۔
حضور پْر نور محمد صلی اللہ علیہ و الہٖ وسلّم جب مکّہ مکرمہ سے ہجرت کر کے مدینہ منورہ تشریف لائے تو اہلِ علاقہ ( خصوصاََ خواتین اور ننھی ننھی بچیوں) نے جو اشعار گاکر آپ صلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلم کا والہانہ استقبال کیا تھا‘ وہ درج ذیل ہیں۔
طَلَعَ الْبَدْرُ عَلَیْنَا
مِنْ ثَنَیَاتِ الْوِدَاعِ
وَجَبَ الشُّکْرُ عَلَیْنَا
مَا دَعَا لِلّٰہِ دَاعِ
ہم پر وداع کی گھاٹیوں سے چودھویں رات کا چاند طلوع ہوگیا(یعنی حضور پْر نور صلی اللہ علیہ و الہٖ وسلّم مدینہ منّورہ میں تشریف لے آئے
ہم پر (خدا کا) شکر لازم ہے‘ جب تک اللہ کو پکارنے (دعا کرنے) والا کوئی بھی اْسے پکارتا رہے۔ (یعنی اس احسانِ عظیم پر واجب ہے کہ ہم ابدالآسباد تک خدا کا شکر ادا کرتے رہیں۔)
اس کا منظوم ترجمہ پروفیسر ڈاکٹر محمد اشرف نے یوں کیا ہے۔
ان پہاڑوں سے جو ہیں سوئے جنوب
چودھویں کا چاند کیا نکلا ہے خوب
شکر اس دن تک کریں اللہ کا
مانگیں جب تک مانگنے والے دعا
اگرچہ عام کتابوں میں اوپر والے پہلے دوشعر ہی مرقوم ملتے ہیں لیکن کچھ سیرت نگاروں نے تیسرے شعر کی نشاندہی بھی کی ہے۔
اَیّْھَا المبَعْوثْ فِیْنَا
جِئتَ بِالْا مْرِ الْمْطَاعٖ
علامہ عبدالمصطفےٰ اعظمی نے اپنی تصنیف ’’ سیرتِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و الہٖ وسلّم ‘‘ میں مزید تین اشعار کی نشان دہی کی ہے :
اَنْتَ شَرَّ فْتَ الْمَدِ ینْہ
مَرْحَباََ یَا خَیْرَ دَاعٖ
فَلَبِسْنَا ثَوْبَ یَمَنِ
بَعْدَ تَلْفَیْقِ الرِّ قَاعٖ
فَعَلَیْکَ اللہْ صَلّٰی
مَا سَعٰی لِلہِ سَاعٖ
آپ نے مدینہ کو مشرف فرما دیا ‘ تو آپ کے لیے خوش آمدید ہے اے بہترین دعوت دینے والے۔ پس ہم لوگوں نے یمنی کپڑے پہنے حالانکہ اس سے پہلے پیوند جوڑ جوڑ کر پہنا کر تے تھے۔ تو آپ پر اللہ تعالیٰ اْس وقت تک رحمتیں نازل فرمائے جب تک اللہ کے لیے کوشش کرنے والے کوشش کرتے رہیں۔
پروفیسر محمد رفیق نے مندرجہ بالا تین اشعار کے بعد یہ شعر بھی متّصلََا درج کیا ہے۔
نَحْنُ جَوَا رُُ مِنْ بَنِی النَّجَّارِ
یَا حَبَّذَا مْحمَّدْْ مِنْ جَارٖ
’’ ہم بنو نجّار کی لڑکیا ں ہیں۔ واہ! محمد صلی اللہ علیہ و الہٖ وسلّمکتنے اچھے ہمسائے ہیں۔
یہ نغماتِ مسرت سن کر رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اپنی آرام گاہ سے باہر تشریف لائے اور ان بچیوں سے فرمایا کہ کیا تم محمدؐ سے محبت کرتی ہو؟ انہوں نے عرض کیا: اللہ کی قسم، یارسولؐ اللہ! آپ نے فرمایا: میں بھی اللہ کی قسم! تم سب سے محبت کرتا ہوں، آپ نے یہ جملہ تین مرتبہ ارشاد فرمایا، آپ ﷺنے ان بچیوں کو دعائیں بھی دیں۔ (سنن ابن ماجہ، رقم الحدیث، ۱۵۵۳، مسند ابی یعلی، رقم ۳۴۰۹)
آئیے اپنی زندگی کو نعتِ رسول ﷺ سے مزین کریں کہ اس سے بہتر کوئی ورد نہی؛ کوئی ذکر نہی۔ اوپر کی حدیث کے مطابق کیا خبر آقا کریم محمدﷺ ہماری ضمن میں ایسے ہی جذبات کا اعادہ کردیں۔ ہم تو غلام ابنِ غلام ہیں اور ہر عاشقِ رسول ﷺ کا اعجاز یہی ہے کہ آقا کریم ﷺ ہمیں اپنا کہہ دیں
شاہ ﷺ تم نے مدینہ اپنایا،واہ! کیا بات ہے مدینے کی اپنا روضہ اِسی میں بنوایا، واہ! کیا بات ہے مدینے کی
میرے آقا ﷺ مدینے جب آئے، بچّیوں نے ترانے تھے گائے چار سُو خوب کیف تھا چھایا، واہ! کیا بات ہے مدینے کی