اس کائنات کی ہر چیز ایک قانون کے دائرے میں ہے اور وہ ہے قانون فطرت۔ جنگل کا قانون جانوروں کی خصلتوں اور جبلتوں پر مبنی قوانین کی ایک ایسی دستاویز ہے جسے کسی کاغذ پر لکھا جاتا ہے اور نہ انھیں لاگو کرنے کے لیے وکلاء، عدالتیں اور منصف اعلی ہوتے ہیں۔ فطرت ان قوانین کو نافذ کرتی ہے اور کسی جنگل میں آج تک کوئی تہذیبی یا تمدنی تباہی نہی ٹپکی۔ آج دنیا میں کہنے کو جدید دور ہے مگر کسی چیز کی شدید قلت ہے تو وہ ہے قانون کی حکمرانی۔ ہر طرف شتر بے مہار؛ جس کی لاٹھی اس کی بھینس کا دور دورہ ہے۔ تو کیا انسانی تہذیب اور تمدن خطرے میں ہے؟
بِسۡمِ ٱللهِ ٱلرَّحۡمَـٰنِ ٱلرَّحِيمِ
جنگل کا قانون اور انسانی بستی
کسی بھی جنگل کے ساتھ ظلم ہوتا ہے جب گدھےعربی گھوڑا بن جاتے ہیں؛ اور طرفہ تماشہ تب ہوتا ہے جب سارے حیوان گدھوں کو ہی گھوڑے سےافضل مان لیتے ہیں اور انہیں جنگل کی تقدیر سمجھ کر سجدہ ریز ہوجاتے ہیں؛ ایسے جنگل میں لگڑ بگھے؛ گیڈر اور گدھ ہر وقت شاد رہتے ہیں؛ اور گدھوں کی عظمت پر گواہی دیتے ہیں۔ ایسے جنگل میں خنزیر حرام نہی رہتے بلکہ جنگل کی عزت اور شان کی علامت کہلاتے ہیں۔
مگر کسی بھی جنگل کا بادشاہ تو شیر ہوتا ہے؛ تو ایسے جنگل میں شیر نہی ہوتے اور اگر کہیں آہی جائیں تو اسے جنگل کی سلامتی کے لیے خطرہ سمجھ کر کنگرو کورٹس کی مدد سے پابندِ سلاسل کردیا جاتا ہے۔ ناٹک کی گمبھیرتا اس دوہرائے پر تیز ہوجاتی ہے جب گدھے جنگل سے باہر خود کو ذہانت اور بہادری کا اتم پہاڑ بنا کر پیش کرتے ہیں۔ اس وقت گدھے اپنی اوقات پر آجاتے ہیں؛ مگر انکے دست راست اس حقیقت کو جنگل کے باسیوں کو چھپائے رکھتے ہیں اور گدھوں کی خدمات کا ایسا طلسم باندھتے ہیں کہ الامان الحفیظ ۔ الغرض جنگل کچھ عرصے تک تو آباد رہتا ہے پھر فطرت اس گدھا پن کو سمیٹ دیتی ہے۔
یہاں محترمہ زہرا نگاہ کی ایک معروف نظم پیش کی جاتی ہے۔
سنا ہے جنگلوں کا بھی کوئی دستور ہوتا ہے
سنا ہے شیر کا جب پیٹ بھر جائے تو وہ حملہ نہیں کرتا
درختوں کی گھنی چھاؤں میں جا کر لیٹ جاتا ہے
ہوا کے تیز جھونکے جب درختوں کو ہلاتے ہیں
تو مینا اپنے بچے چھوڑ کر
کوے کے انڈوں کو پروں سے تھام لیتی ہے
سنا ہے گھونسلے سے کوئی بچہ جب گرے تو سارا جنگل جاگ جاتا ہے
سنا ہے جب کسی ندی کے پانی میں
بئے کے گھونسلے کا گندمی رنگ لرزتا ہے
تو ندی کی روپہلی مچھلیاں اس کو پڑوسن مان لیتی ہیں
کبھی طوفان آ جائے، کوئی پل ٹوٹ جائے تو
کسی لکڑی کے تختے پر
گلہری، سانپ، بکری اور چیتا ساتھ ہوتے ہیں
سنا ہے جنگلوں کا بھی کوئی دستور ہوتا ہے
خداوند! جلیل و معتبر! دانا و بینا منصف و اکبر!
مرے اس شہرمیں اب جنگلوں کا ہی کوئی قانون نافذ کرو!
ایسے جنگل کے رہائشی انسان نہیں ہوتے؛ جارج آرویل جو چاہے کہے؛ کیونکہ وہ اشرف المخلوقات ہوتے ہیں۔ جن معاشروں میں قانون کی حکمرانی کا نام و نشان نہیں ہوتا، جہاں حکمرانی سے متعلق سارے ادارے اور خود قانون دان؛ قانون، انصاف اور عدل کو اپنے پاؤں تلے روندنا فخر محسوس کرتے ہوں، وہاں حقوقِ انسانی، انسانیت، اور انسانی شرف کتابی باتیں بن کر رہ جاتی ہیں۔
”مہذب“ معاشرے میں زندگی گزارنے کے اصول بدل جائیں تو”تہذیب“ چکنا چور ہوتی ہے۔ تکریمِ آدمیت پر مبنی معاشروں کا تمدن انکی اخلاقی عمارت کی بنیاد پر کھڑا ہوتا ہے۔ اخلاقی پستی سے تمدن ملیامیٹ ہوجاتا ہے۔
لیکن اگر کوئی انسانی بستی ایسی بن جائے جس کا اوپر ذکر ہوا ہے تو وہ عذاب الہی سے گذر رہی ہوتی ہے۔ انسانوں کی پہچان انکی تہذیب اور تمدن ہوتا ہے اور قانون کی حکمرانی؛ عدل و انصاف ؛ اخوت و مواخات؛ ایثار و قربانی اور تقدم انسانیت اس کی شان ہوتی ہے۔ ہم انسانوں کی کیسی بستی ہیں؟ ہماری کیا تہذیب اور تمدن ہے؟