جہانِ فن، نوٹنکی و فلم کا ایک نادر کردار: اے جے کاردار

ناٹک ایک بناوٹی عمل؛ سوانگ؛ کھیل دکھانے والوں کی منڈلی؛ تھیٹر یا تماشاگاہ ہے۔ یہ تمثیل ہے جس میں ایک کہانی ، مکالمے اور اداکاری کے ذریعے سے تماشائیوں کے سامنے پیش کی جاتی ہے۔ فلم اور سینما کی تعریف کے مطابق یہ خیالات، کہانیاں، احساسات، جذبات، خوب صورتی یا ماحول کے ابلاغ کے تجربات کی نقل پیش کرنے کا فن ہے۔ پاکستان میں آزادی کے حصول کے ساتھ ہی فلم اور سینما کے میدان میں فنونِ لطیفہ میں دلچسپی رکھنے والوں نے خوب بڑھ چڑھ کر حصہ لیا اور فلم اور سینما کے متعدد لازوال اور نادر شخصیات نےاس میں اپنا اور ملک کا نام روشن کیا ہے۔ یہ تحریر ایسے ہی ایک نادر کردار اے جے کاردار کو خراجِ تحسین پیش کرنے کے لیے لکھی گئی ہے۔

2024-10-02 10:08:59 - Muhammad Asif Raza

بِسۡمِ ٱللهِ ٱلرَّحۡمَـٰنِ ٱلرَّحِيمِ

 

جہانِ فن، نوٹنکی و فلم کا ایک نادر کردار: اے جے کاردار

 

انسان یا اولادِ آدم کو حیوانِ ناطق کہا جاتا ہے۔ اس نے اپنی ذات کے اظہار کے لیے کئی رنگ اختیار کئے؛ ان میں ایک ناٹک بھی ہے۔ ناٹک کیا ہے؟ ایک بناوٹی عمل؛ سوانگ؛ کھیل دکھانے والوں کی منڈلی؛ تھیٹر یا تماشاگاہ۔ سو یہ کہہ سکتے ہیں کہ ناٹک عملی تمثیل یا ڈراما ہے جس میں ایک کہانی ، مکالمے اور اداکاری کے ذریعے سے تماشائیوں کے سامنے پیش کی جاتی ہے اور کہانی کے وقت اور اصلی زندگی کا درست بہروپ دکھانے کے لیے لباس ، مناظر ، احساسات اور جذبات کی عکاسی کرنے کی نقل یا کوشش کی جاتی ہے۔ اس کہانی کو اس طرح بیان کیا جاتا ہے کہ اس میں ربط ہو اور جو بالآخر کسی (طربیہ یا المیہ) نتیجے پر اختتام پذیر ہو ۔ ہم کہہ سکتے ہیں کہ نوٹنکی ایک طرح سے کوئی ڈرامہ، کھیل، دیہاتی ناٹک، کھیل تماشا یا تھیٹر ہے۔

 

برصغیر پاک و ہند میں ناٹک یا نوٹنکی کا ایک خاص مقام ہے۔ نوٹنکی کا شمار ہندوستان کے قدیم ترین تھیٹرز میں ہوتا ہے؛ کیونکہ نوٹنکی میں ہندوؤں کے تاریخی واقعات کا چربہ اتارا جاتا اور میلوں ٹھیلوں میں دیہاتی عوام کے سامنے پیش کیا جاتا تھا۔ سو نوٹنکی کو عوامی تھیٹر قرار دیا جاسکتا ہے۔ عشرت رحمانی نوٹنکی کے بارے میں لکھتے ہیں: ’’سنگیت یا سانگیت کی ابتدا قدیم ہندی ڈراما کے زوال کے ساتھ ہوئی۔ یہ رقص و نغمہ اور نقالی کی ملی جلی پیشکش تھی۔ اردو تھیٹر کی ابتدا میں نوٹنکی کا سب سے زیادہ حصہ ہے۔ نوٹنکی میں جو تمثیل پیش کی جاتی ہے، اس کو گیت یا سانگیت (یعنی غنائیہ ناٹک) کہتے تھے"۔

 

برصغیر پاک و ہند میں زیادہ تر ناٹک رامائن کی داستانیں ہی تھیں۔ اور دیگر اصناف سخن موقوف تھے۔ انگریز سرکار کے ساتھ ادب کی دوسری اقسام نے ہندستان میں قدم رکھا۔ جیسے "ڈرامہ"؛ ڈراما یونانی زبان کا لفظ ہے جس کے معنی ’’کرنا‘‘ یا کر کے دکھانا ہے۔ اسے ’’زندگی کی نقل‘‘ اور  ’’انسانی زندگی کی عملی تصویر‘‘ بھی کہا گیا ہے۔ چونکہ اس عملی تصویر کو اسٹیج پر دکھایا جاتا ہے۔ اس لئے اسٹیج سے اس کا بڑا گہرا تعلق ہے۔ اس کی صحیح تعریف یہ ہوئی کہ ’’ڈراما‘‘ ایک ایسی صنف ہے جس میں زندگی کے حقائق نقل کے ذریعہ اسٹیج پر ابھارے جاتے ہیں۔ (ڈاکٹر محمد حسن)

 

 ڈرامہ ادب کی صنف ہے۔ ڈراما عالمی ادب میں ایک امتیازی مقام رکھتا ہے اور فنون لطیفہ کی قدیم ترین شکلوں میں سے ہے۔ کہا جاتا ہے کہ ڈرامے کی تاریخ دو ہزار سال پرانی ہے۔ یہ بھی کہا گیا ہے کہ ڈرامے کا وجود دنیا کے وجود کے ساتھ ساتھ ہوا ہے۔ وحشیوں کا جنگلوں اور پہاڑوں میں لباس و آرائش سے بے نیاز ہو کر آگ روشن کرنا، ناچنا، گانا اور اپنی بولیوں میں آوازیں نکالنا ڈراما ہی تھا ا ور ان کے حالات، زندگی اور  وقت کا آئینہ دار تھا۔ ڈرامہ ادب سے تھیٹر کا جصہ بنا۔ پھر اس نے مستقل شکل اختیار کرلی اور شہروں میں اسکے مرکز عام ہوگئے۔ ڈرامہ بھر پور انداز میں ہندستان میں بھی رواج پزیر ہوا۔

 

شمالی ہندوستان میں سفری تھیٹرز عوام کی تفریح کا سب سے بڑا ذریعہ تھے۔ یہ تھیٹرز دیہی روایتی میلوں میں لگائے جاتے جہاں پر ہندو دیومالائی کہانیوں کے کرداروں کو پیش کیا جاتا۔ رامائن یا مہابھارت یا پھر لوک داستانوں کو عوام کے سامنے پیش کیا جاتا۔ ان کھیل تماشوں میں ہر کردار کہانی کی ضرورت کے مطابق رنگ روپ اختیار کرتا تھا۔ ان تماشوں میں نوٹنکی کرداروں میں حصہ لینے والے جھوٹی ادائیں دکھانے والے، ڈراما باز، بہروپیے کہلاتے تھے۔ ایسے نوٹنکی، سوانگ، نقل، ڈرامہ اور کھیل کے کردار کہانی کے کرداروں میں اس قدر ڈوب کے فن جگایا کرتے تھے کہ شائقین کے دلوں میں جاگذیں ہوجاتے تھے۔ بلکہ یہاں تک بھی ہوا ہے کہ شائقین اداکاروں کے اصلی نام بھول کے ڈرامے کے کرداروں سے پکارتے تھے۔ یہ نوٹنکی اور اس میں ہونے والی صداکاری اور اداکاری کی معراج تھی۔

 

وقت بدلا اور انسانی زندگی میں ٹیکنولوجی نے قدم رکھا تو فلم اور سینما کا وجود پذیر ہوا۔ برصغیر میں اس وقت انگریز حکمران تھے سو ان کے توسط سے فلم اور سینما کے دروازے سرزمین ہندوسان میں کھل گئے۔ فلم کیا ہے؟ فلم وہ ہے جسے مووی یا متحرک تصویر (موشن پکچر) بھی کہا جاتا ہے، ساکت تصاویر کا ایسا سلسلہ ہوتا ہے جو پردے (اسکرین) پر یوں دکھایا جاتا ہے کہ اس پر متحرک ہونے کا دھوکا ہوتا ہے۔ لفظ ’’سینما‘‘ عمومماً فلم اور فلم سازی یا فنِ فلم سازی کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ سینما کی رائج تعریف کے مطابق یہ خیالات، کہانیاں، احساسات، جذبات، خوب صورتی یا ماحول کے ابلاغ کے تجربات کی نقل پیش کرنے کا فن ہے۔

 

فلم سازی کا عمل فن بھی ہے اور صنعت بھی۔ فلمیں مخصوص ثقافت کے تحت تخلیق کی جاتی ہیں اور وہ ان ثقافتوں کو پیش کرنے کے ساتھ ساتھ اُن پر اثر انداز بھی ہوتی ہیں۔ موجودہ دور میں فلم کو فن کی ایک اہم شکل تصور کیے جانے کے ساتھ ساتھ، تفریح کا مقبول ذریعہ اور تعلیم و شعور پھیلانے کا مضبوط ترین ذریعۂ ابلاغ مانا جاتا ہے۔ بصری صورت میں پیش کیے جانے کے باعث فلم ایک کائناتی ابلاغ کا ذریعہ فراہم کرتی ہے۔ فلم جدید دور میں قوموں کی تعریف اور مقبولیت کے لیے بصری تیکنولوجی یا ڈیجیٹل تیکنولوجی میں قصہ گوئی اور کہانی سازی کی اہمیت دوچند ہوگئی ہے۔ اور دنیا کی ساری سمجھدار اور وضعدار قومیں اس فن میں مہارت کو بڑھا رہی ہیں۔

 

نئے کردار آتے جا رہے ہیں

مگر ناٹک پرانا چل رہا ہے

راحت اندوری

 

پاکستان میں آزادی کے حصول کے ساتھ ہی فلم اور سینما کے میدان میں فنونِ لطیفہ میں دلچسپی رکھنے والوں نے خوب بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ اس کی ایک وجہ تو انگریز دور ہی سے ہندوستان میں فلم کی صنعت کا آغاز ہوگیا تھا اور مغربی اور مشرقی پاکستان کی علاقوں کے مسلمان اور غیر مسلم کا اس میں شمولیت تھی۔ آزادی کے بعد لاھور؛ ڈھاکہ اور کراچی اس کے مرکز کے طور پر ابھرے۔ اور بڑے زور شور سے فلم اور سینما نے قدم جمالیے۔ پاکستان کی فلم اور سینما کے متعدد لازوال اور نادر شخصیات نےاس میں اپنا اور ملک کا نام روشن کیا ہے۔ ان میں سے اک نادر کردار اے جے کاردار کا بھی ہے۔

 

پاکستانی فلمی دنیا کی وہ نادر شخصیت " اختر جنگ کاردار " المعروف اے جے کاردار (پیدائش: 1926ء - وفات: 14 فروری، 2002ء) پاکستانی فلمی صنعت کے معروف ہدایتکار اور فلم سازتھے۔ انکا تعلق لاہور کے مشہور کاردار خاندان سےتھا۔ وہ کرکٹ کے مشہور کھلاڑی اور سیاست دان عبدالحفیظ کاردار اور مشہور فلم ساز اور ہدایت کار اے آر کاردار (عبدالرشید کاردار) کے چچازاد بھائی تھے۔ کاردار ایک دراز قد‘ سمارٹ اور خوبرو آدمی تھے۔ کھلتا ہوا گندمی رنگ‘ مناسب ناک نقشہ‘ گھنے بال جن میں سفید تار جھلملانے لگے تھے۔ باتیں بہت اچھی کرتے تھے۔

 

 اے جے کاردار کی وجہ شہرت فلمی دنیا میں فلم ساز اور ہدایتکار کی ہے اور بطور اس کردار کے ان کا کارنامہ مشہور پاکستانی فلم " جاگو ہوا سویرا " ہے؛ جس نے ان کی مہارت کا لوہا منوایا۔ انکی اُس فلم نے ماسکو انٹرنیشنل فلم فیسٹیول کا دوسرا انعام حاصل کیا تھا۔ علاوہ ازیں اسی فلم کو امریکا کی رابرٹ فلے ہارٹی فلم فاؤنڈیشن کا 1959ء کا کسی غیر ملکی زبان کی بہترین فلم کا اعزاز حاصل ہوا تھا۔

 

اس کے بعد 1969ء میں انہوں نے ایک اور فلم بنائی جس کا نام " قسم اس وقت کی" تھا جو نمائش پزیر ہوئی۔ اس فلم کی وجہ شہرت یہ تھی کہ اس کے نغمات جوش ملیح آبادی نے تحریر کیے تھے اور اس فلم کو نگار خصوصی اعزاز برائے سال 1969ء کا اعزاز ملا۔ اس فلم کو اچھے وسائل کے ساتھ بنایا گیا تھا مگر اس کے ساتھ بھی وہی المیہ ہوا کہ نہ یہ عوام میں مقبول ہوئی اور نہ ہی نقادوں کی نگاہوں میں جچی۔ یہ صرف ریکارڈ کی چیز بن کر رہ گئی ہے۔ اے جے کاردار نے 57 دستاویزی فلمیں بھی بنائیں جنہیں بین الاقوامی طور پر بڑی پزیرائی حاصل ہوئی اور ان دستاویزی فلموں نے متعدد بین الاقوامی اعزازات بھی حاصل کیا۔

 

اے جے کاردار کا مرکز لاہور تھا اور ایک طرح سے انکی ساری کاوشوں کا ہیڈ کوارٹرتھا۔ ان دنوں پڑھے لکھے افراد کا مستقر ترقی پسند تحریک ہوتا تھا سو تعلیم یافتہ طبقے کا اکثران ہی کے گرد حلقہ بنا ہوا تھا۔ نئی نسل کے لوگ جوق در جوق ان سے ملتے۔ طلبہ اور طالبات ان سے تبادلہ خیالات کرتے اور اپنے مستقبل کے حوالے سے خوابوں کاسلسلہ جوڑتے۔ ایسے ہی تعلیم یافتہ افراد اور دیگر فلم کے متعلق جاننے کے خواہش مند اس بہانے اکٹھے ہو کر فلموں کے حال اور مستقبل کے بارے میں بات چیت کر لیا کرتے تھے۔ اے جے کاردار نے جب نئی پود میں یہ شوق دیکھا تو چند ہم خیال دوستوں کے ساتھ مل کر لاہور میں ”فلم انسٹی ٹیوٹ آف پاکستان“ قائم کر لی۔ اس ادارے کے زیراہتمام کئی محفلیں سجیں اور وہ جگہ لاہور کے صحافیوں‘ نقادوں اور فلم سے وابستہ نئے خیالات کے مالک لوگوں کو ایک ٹھکانا تھا۔

 

”فلم انسٹی ٹیوٹ“ میں دنیا میں سینما کے نئے رحجانات‘ فلم سازی کے بدلتے ہوئے انداز‘ دنیا بھر کی فلمیں؛ فلم ساز‘ ہدایت کار اور اداکار وہاں زیربحث آتے تھے۔ اے جے کاردار نے وہاں ہالی ووڈ‘ لندن اور فرانس کے معروف فلمی جرائد کی فراہمی کا بھی بندوبست کر دیا تھا۔ اردو زبان و ادب کا ممتاز نام فیض احمد فیض صاحب کبھی کبھار یہاں آ جاتے تھے۔ آئی اے رحمن‘ حمید اختر‘ احمد بشیر‘ شمیم اشرف ملک اور زورین جیسے لوگ بھی یہاں آتے رہتے تھے۔ ”فلم انسٹی ٹیوٹ“ نے چند بار دنیا بھرکی کلاسیکی فلموں کا میلہ منعقد کیا۔ اس کے علاوہ یہاں مذاکرے اور مباحثے بھی ہوئے۔ وہ ایک طرح کا ”فلمی بیٹھک“ یا ”چوپال“ کی حیثیت کاحامل تھا۔ فلم اور عالمی سینما کی تحریکوں کے بارے میں اے جے کاردار کی معلومات بہت زیادہ اور تازہ ترین تھیں۔ فلم انسٹی ٹیوٹ کاردار کی بدولت ایک نعمت سے کم نہ تھا۔

 

فلم انسٹی ٹیوٹ لاہور کے فلمی شیدائیوں کا ایک ٹھکانا تھا اور وہاں بیٹھ کر باتیں کر کے اور دستیاب فلمی لٹریچر پڑھ کر بہت سے لوگوں نے بہت کچھ سیکھا تھا۔ اب اس ملک میں ایسا خیال ہی کہاں؟ اب کہاں کا عالمی سینما اور کیسا فلم انسٹی ٹیوٹ؟ پاکستان کی فلم انڈسٹری پہلے سسک رہی تھی اور اب دم توڑ چکی ہے۔ ادب اور علم کی دنیا کا شاید ہی کوئی فرد اب اس صنعت سے وابستہ ہے اور اس کی تجدید کے لیے کام کررہا ہے؛ سیکھنے اور سکھانے کا کام قوموں کی بتدریج ترقی اور عروج کا راستہ ہوتا ہے؛ جسے ہم نے نا صرف فلم اور سینما بلکہ شاید دوسرے طبقے زندگی میں بھی ختم کردیا ہے۔ مگر یہ کب تک ایسا ہی رہے گا؟ کیا اے جے کاردار کی قابلیت اور ہمت والے افراد اب اس زمین پر جنم نہیں لے رہے؟ کیا ہم بحیثیت قوم بانجھ پن کا شکار ہوچکے ہیں؟

 

اس تحریر کی تدوین کے لیے آزاد ویب نیٹ کی مدد حاصل رہی ہے۔


Below is the Film " Jago Hua Savera" by AJ Kardar (1959)

More Posts