اللہ سبحان تعالی اس کائنات کا خالق و مالک ہے اور جو کچھ ہم انسانوں کے فکر و نظر میں ہے سب اس ہی کے تخلیق کا مظہر ہے۔ اس لیے ہم انسانوں کے لیے سب حمد و ثنا کا سزاوار وہ معشوق حقیقی ہی ہے جس کے جمالِ جہاں آرا پر تمام عالم شیدا ہے؛ اور نعت کے قابل وہ برگزیدہ نبی محمد ﷺ ہیں جس کی محبوبیت پر ہر جن و انس فدا ہے۔ اردو ادب میں شعراء نے عشقِ حقیقی اور عشقِ مزاجی کو واضع تفریق کے ساتھ اپنے کلام کا موضوع بنایا ہے۔ آئیے ایک مختصر جائزہ لیتے ہیں۔
﷽
دلبرا ! رقص کر : رقص کرنا ہے تو پھر پاؤں کی زنجیر نہ دیکھ
دیکھ زنداں سے پرے رنگ چمن جوش بہار
رقص کرنا ہے تو پھر پاؤں کی زنجیر نہ دیکھ
مجروح سلطان پوری کا یہ شعر انسانوں کو مشکل وقت میں اچھے دن کے آنے کی آس میں جدوجہد کی ترغیب دیتا ہے۔ اور اسے یقین دلاتا ہے کہ اپنی جدوجہید سے ظلم کے تار پود اکھیڑ کے رکھ دے۔ اتنا ناچ کی زنجیر خود ہی ٹوٹ جائے۔ اور ظالم کی بنائی زنداں چمن بن جائے۔ کیا نمرود کی آگ حضرت ابراہیم علیہ اسلام پر باغ و بہار نہی بنی تھی؟
رقص کرتے ہوئے حسین ابن منصور الحاج سوُئے دار جا رہے تھے، اُنھیں ’انا الحق‘ کہنے کی سزا ملنے والی تھی۔
مولانا رُومی نے کہا۔۔۔ بہادر اپنے لہو میں رقص کرتے ہیں "رقص اندر خونِ مرداں کنند"۔
کیا ہم نے کبھی شاخوں پر پتوں کو نہیں دیکھا ہے، بادِ صبا کی حرکت سے ناچتے تالیاں بجاتے ہیں۔
غور کریں تو شاخوں پر پتے آپس میں ٹکراتے ہیں، تالیاں بجاتے ہیں، پتوّں کا رقص ہر آنکھ نہیں دیکھتی، پتوّں کی تالیوں کی آواز کسے سنائی دیتی ہے۔
اللہ کے سچے عاشق جب سوئے دار بڑھتے ہوئے جب اپنے لہو میں رقص کرتے ہیں تو اس میں تمام اشیاء و عناصر کا رقص شامل ہو جاتا ہے، اُن کے نغمے شامل ہو جاتے ہیں، اُن کا آہنگ اس میں شامل ہو جاتا ہے، ایسا رقص زندگی کے انتہائی حیرت انگیز تجربے کا رقص ہے جو مسرّت اور شادمانی اور جشنِ زندگی کی علامت ہے۔ اس رقص میں زندگی کا حسن ہر جانب بکھر نے لگتا ہے، یہ رقص باطن کی گہرائیوں سے باہر آتا ہے۔ وہ مطرب بھی ہوتے ہیں جو وجود کے اندر دَف بجاتے ہیں اور دَف کی آواز باہر ہر جگہ سنائی دیتی ہے۔
آئیے اب ذرا ایک نظم پڑھتے ہیں؛ اور دیکھتے ہین کہ کیسا خوبصورت رنگ باندھا ہے؛ یہ نظم جناب آصف رضا بلوچ صاحب کی ہے " دلبرا ! رقص کر"۔
دلبرا ! رقص کر
رقص کر ‘ میرے دل کی زمیں پر
نگاہوں پہ اپنا بدن عکس کر
رقص کر
میری آشاؤں کو چُن کے گھنگھرو بنا
میری ساری اناؤں کو پازیب کر
فرشِ دل ‘ جس کو ہم جانتے تھے کبھی عرشِ دل
اپنے پنجوں سے روند
ایڑیوں سے دَبا
دھول اِتنی اڑا ۔۔۔۔
مجھ کو تیرے سوا
کچھ دِکھائی نہ دے ‘ کچھ سُجھائی نہ دے
مجھ کو محبوب کر’ مجھ کو مصلوب کر
میری میں مار دے ‘ مجھ کو مجذوب کر
مجھ کو بے نقص کر
دلبرا ! رقص کر
غزل؛ ذاکر خان ذاکر: اے قلندر آ تصوف میں سنور کر رقص کر
اے قلندر آ تصوف میں سنور کر رقص کر
عشق کے سب خارزاروں سے گزر کر رقص کر
عقل کی وسعت بہت ہے عشق میں فرصت ہے کم
عقل کی عیاریوں کو درگزر کر رقص کر
در بدر کیوں ڈھونڈھتا پھرتا ہے نادیدہ صنم
اپنے دل کے آئنے پر اک نظر کر رقص کر
یہ جہاں اک مے کدہ کم ظرف ہے ساقی ترا
اس خرابے سے پرے شام و سحر کر رقص کر
رستم و دارا سکندر مل گئے سب خاک میں
بن کے سرمد زندگی اپنی بسر کر رقص کر
اس زمیں پر جسم خاکی ذہن و دل ہو عرش پر
یوں کبھی ذاکرؔ ریاضت میں بکھر کر رقص کر
غزل؛ ماجد صدیقی : ہے اگر زندہ تو آ اور رقص کر
ہے اگر زندہ تو آ اور رقص کر
ہاں وجود اپنا جتا اور رقص کر
خود کو پودوں، اور گُلوں میں ڈھال لے
آنکھ میں رُت کی سما اور رقص کر
فرش سے تا عرش یُوں بھی لَو لگا
چاہتوں کے پر بنا اور رقص کر
مُحتسب کی آنکھ سے بچ کر کبھی
مان لے تن کا کہا اور رقص کر
ہے اگر اِک یہ بھی اندازِ حیات
ہاتھ میں ساغر اُٹھا اور رقص کر
دیکھ یُوں بھی اپنے ماجِد کو کبھی
ظرف اِس کا آزما اور رقص کر
جیسا کہ اوپر ذکر کیا ہے؛ شاعروں نے عشق مزاجی میں بھی اس مضمون کو باندھا ہے تو دیکھیے یہ غزل جو جناب عارف امام صاحب نے قلم کیا ہے" زخم سب اس کو دکھا کر رقص کر"۔
زخم سب اس کو دکھا کر رقص کر
ایڑیوں تک خوں بہا کر رقص کر
جامۂ خاکی پہ مشت خاک ڈال
خود کو مٹی میں ملا کر رقص کر
اس عبادت کی نہیں کوئی قضا
سر کو سجدے سے اٹھا کر رقص کر
دور ہٹ جا سایۂ محراب سے
دھوپ میں خود کو جلا کر رقص کر
بھول جا سب کچھ مگر تصویر یار
اپنے سینے سے لگا کر رقص کر
توڑ دے سب حلقۂ بود و نبود
زلف کے حلقے میں جا کر رقص کر
اس کی چشم مست کو نظروں میں رکھ
اک ذرا مستی میں آ کر رقص کر
اپنے ہی پیروں سے اپنا آپ روند
اپنی ہستی کو مٹا کر رقص کر
اس کے دروازے پہ جا کر دف بجا
اس کو کھڑکی میں بلا کر رقص کر
ایسا بھی ہوسکتا ہے کہ شاعر اپنی غزل میں ایک ساتھ عشقِ حقیقی اور عشق مزاجی دونوں کو ایک ہی غزل کے مضمون مین باندھ لے۔ دیکھیے کہ شاعر جناب آصف انجم صاحب نے کیا کہا ہے؛ "بھول کر تو سارے غم اپنے چمن میں رقص کر"۔
بھول کر تو سارے غم اپنے چمن میں رقص کر
جاگ اے درویش جاں میرے بدن میں رقص کر
ڈال کر چادر وفا کی تو مزار عشق پر
دار منصوری پہ آ اس پیرہن میں رقص کر
تو گریباں چاک جو نکلا ہے غم کی بھیڑ میں
جا چلا جا چھوڑ سب تو اس کے من میں رقص کر
بارگاہ حسن میں جھک کر سلامی پیش کر
باندھ کر گھنگرو گلوں کے بانکپن میں رقص کر
کس لیے جلنے نہیں دیتی چراغوں کو مرے
اے ہوا تو جا کہیں کوہ و دمن میں رقص کر
یہ رموز معرفت تجھ پر عیاں ہوں گے تبھی
پی طریقت کا سبو اور اس اگن میں رقص کر
ن م راشد اردو زبان اور ادب کا بہت بڑا نام ہیں۔ اس مضمون کے آخر میں انکی نظم "رقص" پیش کیا جاتا ہے؛ جو سراسر عشق مزاج کا عنصر رکھتا ہے۔
اے مری ہم رقص مجھ کو تھام لے
زندگی سے بھاگ کر آیا ہوں میں
ڈر سے لرزاں ہوں کہیں ایسا نہ ہو
رقص گہ کے چور دروازے سے آ کر زندگی
ڈھونڈ لے مجھ کو، نشاں پا لے میرا
اور جرم عیش کرتے دیکھ لے!
اے مری ہم رقص مجھ کو تھام لے
رقص کی یہ گردشیں
ایک مبہم آسیا کے دور ہیں
کیسی سرگرمی سے غم کو روندتا جاتا ہوں میں!
جی میں کہتا ہوں کہ ہاں،
رقص گاہ میں زندگی کے جھانکنے سے پیشتر
کلفتوں کا سنگ ریزہ ایک بھی رہنے نہ پائے!
اے مری ہم رقص مجھ کو تھام لے
زندگی میرے لیے
ایک خونیں بھیڑیے سے کم نہیں
اے حسین و اجنبی عورت اسی کے ڈر سے میں
ہو رہا ہوں لمحہ لمحہ اور بھی تیرے قریب
جانتا ہوں تو مری جاں بھی نہیں
تجھ سے ملنے کا پھر امکاں بھی نہیں
تو مری ان آرزؤں کی مگر تمثیل ہے
جو رہیں مجھ سے گریزاں آج تک!
اے مری ہم رقص مجھ کو تھام لے
عہد پارینہ کا میں انساں نہیں
بندگی سے اس در و دیوار کی
ہو چکی ہیں خواہشیں بے سوز و رنگ و ناتواں
جسم سے تیرے لپٹ سکتا تو ہوں
زندگی پر میں جھپٹ سکتا نہیں!
اس لیے اب تھام لے
اے حسین و اجنبی عورت مجھے اب تھام لے!