یہ مضمون نوید مسعود ہاشمی کی تحریر " دیارِ غیر کی دوڑ " سے متاثر ہوکر لکھا گیا ہے۔ یہ تحریر غیر اسلامی ممالک میں ہجرت کرنے کے مضمرات پر غور و فکر کرنے کی دعوت ہے۔ قاری کا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے، کیونکہ زندگی میں ہر تصویر کے ہمیشہ دو پہلو ہوتے ہیں،اور ہر انسان کو اپنی طبعیت کے مطابق ہی نتائج پسند کرنے کی آزادی ہوتی ہے۔ ہمیں اپنے اعمال اور فیصلوں کے اچھے اور برے فوائد اورنقصانات کو سامنا بھی خود ہی کرنا ہوگا۔ یہ اس زندگی میں بھی ہوسکتا ہے اور اخروی زندگی میں بھی؛ کیونکہ " انا للہ واناالیہ راجعون"۔
بِسۡمِ ٱللهِ ٱلرَّحۡمَـٰنِ ٱلرَّحِيمِ
دائمی خوشحالی اور سنہرے مستقبل کی تلاش
یہ مضمون نوید مسعود ہاشمی کی تحریر " دیارِ غیر کی دوڑ " سے متاثر ہوکر لکھا گیا ہے۔ یہ تحریر غیر اسلامی ممالک میں ہجرت کرنے کے مضمرات پر غور و فکر کرنے کی دعوت ہے۔ قاری کا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے، کیونکہ زندگی میں ہر تصویر کے ہمیشہ دو پہلو ہوتے ہیں،اور ہر انسان کو اپنی طبعیت کے مطابق ہی نتائج پسند کرنے کی آزادی ہوتی ہے۔ ہمیں اپنے اعمال اور فیصلوں کے اچھے اور برے فوائد اورنقصانات کو سامنا بھی خود ہی کرنا ہوگا۔ یہ اس زندگی میں بھی ہوسکتا ہے اور اخروی زندگی میں بھی؛ کیونکہ " انا للہ واناالیہ راجعون"۔
" دیارِ غیر کی دوڑ "
آج بڑی تیزی سے اہل اسلام یورپ اورمسیحی ممالک کی طرف ہجرت کر رہے ہیں۔ پہلے بھی کرتے رہے ہیں، لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ بنیاد مضبوط نہ ہونے کی وجہ سے ان کی نسلیں ان کے ہاتھوں سے نکل رہی ہیں اور کنبے کا کنبہ مرتد ہوتا چلا جارہا ہے۔
معروف مصری عالم شیخ علی الطنطاوی کی پوتی مومنہ العظام کی اس سلسلے میں ایک چشم کشا، فکر انگیز اور دل و دماغ جھنجھوڑ دینے والی ایک رپورٹ پڑھیے۔
وہ کہتی ہیں کہ:میرے دادا شیخ طنطاوی نامور عالم و فاضل ہونے کے ساتھ بڑے روشن دماغ اور مستقبل شناس تھے۔
دادا کی عالمی شہرت کی وجہ سے ہمارے پاس یورپ جانے کے بہت سے مواقع تھے، آسانی سے ویزے مل سکتے تھے۔
لیکن وہ ہمیں ہمیشہ دیارِ غیر میں جانے سے روکتے تھے۔
مجھے بڑا غصہ آتا تھا کہ یہ کیا دقیانوسیت ہے، سارے لوگ ہجرت کررہے ہیں، زندگی کی آسائشوں سے لطف اندوز ہورہے ہیں۔
م
گ
ر ہمارے مذہبی خاندان نے عجیب قسم کی پابندی ہمارے اوپر لگا رکھی ہے۔
لیکن جب میں بڑی ہوئی، یورپ کے دورے کیے، اور بہت سارے مہاجر خاندانوں سے ملاقات کا اتفاق ہوا، تو دادا جان کے لیے دل سے دعائیں نکلیں اور ان کی دور اندیشی کو سلام کرنا پڑا۔ کیوں کہ ان کا خدشہ سو فی صد حقیقت ثابت ہوا۔
ان کا کہنا تھا کہ "کفر کی زمینوں پر رہنا، اور کافرانہ ملکوں میں بودوباش اختیار کرنا پیش آمدہ نسلوں کے ایمان وعقیدہ کے لیے بڑا خطرہ ہے"۔
ہوسکتاہے آپ اپنے بچوں کے ایمان کو بچالیں، لیکن ان کے بعد کیا ہوگا، اور پھر ان کے پوتوں کے پوتوں پر کیا بیتے گی اس کی کوئی ضمانت نہیں لے سکتا۔
بہت سے مذہبی لوگ یہ دعوے کرتے ہیں کہ الحمدللہ ہمارا گھرانہ بڑا کٹر دینی ہے، کہیں جائے اور کسی زمین پر رہے فرق نہیں پڑتا۔
مگر نہیں صاحب ایسا نہیں ہے، وقت گزرنے کے ساتھ فرق پڑتا ہے اور بہت بڑا فرق پڑتا ہے۔
مومنہ العظام کہتی ہیں کہ ایک دہائی قبل مجھے مہاجر خاندانوں خصوصا مشہور بیروتی مذہبی ’’رمضان خاندان‘‘ کی تحقیقات پر مامور کیا گیا۔
جب میں نے ریسرچ شروع کی، ان کے شجرات کھنگالے اور دنیا جہان میں پھیلے اس خاندان کے افراد کا جائزہ لیا تو قریبا پانچ ہزار لوگوں کا سراغ ملا۔ لیکن ان کی نسلوں کی مذہبی تباہی کی داستان بڑی دلخراش اور جگرشگاف تھی۔
پھر انھوں نے یورپ ہجرت کرجانے والے خاندانوں کا ایک گوشوارہ تیار کرتے ہوئے یہ انکشاف کیا کہ
100 سال قبل ہجرت کرجانے والوں کی پشتوں میں قریباً 96% غیرمسلم ہوچکے ہیں۔
80 سال قبل ہجرت کرجانے والوں کی پشتوں میں قریباً 75% مرتد ہوچکے ہیں۔
60 سال قبل ہجرت کرجانے والوں کی پشتوں میں قریباً 40% عیسائی ونصرانی بن چکے ہیں۔
40 سال قبل ہجرت کرجانے والوں کی پشتوں میں قریباً 25% اسلام چھوڑ چکے ہیں۔
قریباً 80 سال قبل ایک مشہور شیخ نے جنوب امریکہ کے ایک شہر ’ایکویڈور‘ کی طرف ہجرت کی، اور وہاں سب سے پہلی مسجد کی بنیاد رکھی۔
انھوں نے گھر کا ماحول مذہبی رکھا اور بچوں کو سختی سے دینی تعلیم بھی دی۔
لیکن آج بدقسمتی سے ان کے پوتوں میں کوئی بھی مسلمان نہیں۔
ایسا ہی کچھ معاملہ بیشتر مہاجر خاندانوں کے ساتھ ہے۔
دور کہاں جانا، ہم لوگ قریباً چالیس سال سے امریکہ میں مقیم اور یہاں کے شہری ہیں،
اور خود میرے دادا شیخ علی الطنطاوی کے پوتے پوتیوں میں سولہ غیرمسلم ہوچکے ہیں۔
یکویڈر میں رمضان خاندان کے 98 لوگ آباد ہیں۔ان کے آبا و اجداد 1923ء میں ہجرت کرکے یہاں پہنچے تھے۔
ا
ٓ
ج وہ سارے کے سارے عیسائی بن چکے ہیں
۔
جن میں سے میں نے جارج، کرسچین، اور امیلیو رمضان سے ملاقات بھی کی۔
ان کو میں نے ان کا تابناک خاندانی پس منظر بتایا اور ہر طرح سے مدد کرنے کی کوشش بھی کی کہ کسی طرح گھر واپسی کرلیں، لیکن نعوذ باللہ کوئی رضامند نہ ہوا۔
یہ رپورٹ میں نے کئی سال قبل پڑھی تھی، اور پڑھ کر بڑا دکھ ہواتھا کہ دنیا میں کیسے کیسے حادثا ت وواقعات رونما ہوتے رہتے ہیں۔
*پھر ذہن سے بات نکل گئی تھی۔ *
ابھی چند روز قبل قنوج میں منعقد احیاے تصوف کانفرنس کے لیے جانا ہوا تو وہاں ایک شیخ سے ملاقات ہوئی، اور باتوں ہی بات میں انھوں نے حیدر آباد کے ایک معروف عالم(کہ جن کی لکھی کتاب آج بھی درسِ نظامی کی ابتدائی جماعت میں پڑھائی جاتی ہے) کے بچوں کے امریکہ ہجرت کر جانے کا ایک دلخراش واقعہ سنایا، تو برسوں قبل پڑھی ہوئی مذکورہ رپورٹ کا نقشہ ذہن میں گھوم گیا۔
ش
ی
خ صاحب نے بتایا کہ مولاناکے دو بچے ایک زمانے سے امریکہ میں رہتے تھے، وہیں کے شہری بن گئے، وہیں ان کی اولادیں بھی ہوئیں، گھر سے انھوں نے کوئی تعلق نہیں رکھا۔ مدتوں بعد ابھی حال ہی میں جب انھیں اپنی مٹی کی یاد آئی تو ان میں سے ایک ہندستان گھومنے آیا۔
ا
س
ن
ے جب اپنے امریکی خاندان کی روداد سنائی تو سامعین پر سکتہ طاری ہوگیا کہ اس کے اپنے دو بیٹے دائرۂ اسلام سے خارج ہوچکے ہیں۔
ا
یک عیسائی بن گیا اور دوسرا ایتھیسٹ۔
آج وہ بہت بچتا رہا تھا، لیکن "اب بچھتاوے کا ہووت جب چڑیا چگ گئی کھیت"
واقعی اولاد کی تربیت اور ان کے قدموں کو دین پر جمائے رکھنا سب سے مشکل، صبر آزما اور اہم ترین کام ہے۔
مگر کیا کیجیے گا کہ ہمیں جب اپنے دین وایمان کی فکر ہی نہیں تو اپنی اولاد اور اولادوں کی اولاد کے ایمان وعقیدے کی فکر کیا ہوگی۔
جب کہ اپنی اولادوں کے ایمان وعقیدہ کے بارے میں فکرمند ہونا اور انھیں بہترین دینی واسلامی ماحول فراہم کرکے جانا یہ انبیاے کرام کی سنت ہے۔
اللہ جل مجدہ ہمارے حال زار پر رحم فرمائے اور ایمان وعقیدہ صحیحہ کی روشنی ہماری نسلوں میں باقی رکھے۔
آمین یا رب العالمین۔
________________________
عزیزانِ گرامی قدر؛ ہماری یہ دنیاوی زندگی محض ایک دھوکا ہے جیسا کہ قرآن نے فرمایا ہے کہ
اعْلَمُوا أَنَّمَا الْحَيَاةُ الدُّنْيَا لَعِبٌ وَلَهْوٌ وَزِينَةٌ وَتَفَاخُرٌ بَيْنَكُمْ وَتَكَاثُرٌ فِي الْأَمْوَالِ وَالْأَوْلَادِ ۖ كَمَثَلِ غَيْثٍ أَعْجَبَ الْكُفَّارَ نَبَاتُهُ ثُمَّ يَهِيجُ فَتَرَاهُ مُصْفَرًّا ثُمَّ يَكُونُ حُطَامًا ۖ وَفِي الْآخِرَةِ عَذَابٌ شَدِيدٌ وَمَغْفِرَةٌ مِّنَ اللَّهِ وَرِضْوَانٌ ۚ وَمَا الْحَيَاةُ الدُّنْيَا إِلَّا مَتَاعُ الْغُرُورِ (20 سورۃ الحدید )
جان لو کہ یہ دنیا کی زندگی محض کھیل اور تماشا اور زیبائش اور ایک دوسرے پر آپس میں فخر کرنا اور ایک دوسرے پر مال اور اولاد میں زیادتی چاہنا ہے، جیسے بارش کی حالت کہ اس کی سبزی نے کسانوں کو خوش کر دیا پھر وہ خشک ہو جاتی ہے تو تو اسے زرد شدہ دیکھتا ہے پھر وہ چورا چورا ہو جاتی ہے، اور آخرت میں سخت عذاب ہے، اور اللہ کی مغفرت اور اس کی خوشنودی ہے، اور دنیا کی زندگی سوائے دھوکے کے اسباب کے اور کیا ہے۔
سورۃ آل عمران کی آیت 14 میں فرمایا ہے
لوگوں کو مرغوب چیزوں کی محبت نے فریفتہ کیا ہوا ہے جیسے عورتیں اور بیٹے اور سونے اور چاندی کے جمع کیے ہوئے خزانے اور نشان کیے ہوئے گھوڑے اور مویشی اور کھیتی، یہ دنیا کی زندگی کا فائدہ ہے اور اللہ ہی کے پاس اچھا ٹھکانہ ہے۔
دنیا کی زندگی کا مزا اور چاشنی دھوکے کے سوا کچھ نہیں۔ یہ ایک لذت ہے؛ اور جو اس کے دائمی ہونے پر بھروسہ کرے گا؛ وہ اس سے دھوکا کھائے گا۔ ہر انسان کو یہ یقین کرنا ہوگا کہ اس عارضی مستقر میں کوئی بھی گھر؛ کوئی بھی ٹھکانہ مستقل نہی ہوتا؛ یہ سب چھوڑ کر اصل زندگی جو کامیابی یا ناکامی دونوں صورتوں مں دائمی ہوگا کی طرف واپس جانا ہوگا۔ اور یہ کہ آخرت کا گھر ہی اصل مقامِ ابدی ہے جس کے مقابلے میں اس ارضی دنیا کا ٹھکانہ محض حباب کی طرح معمولی ہے۔
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے؛ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا؛ "جنت میں ایک کوڑے کی جگہ، دنیا اور اس میں موجود ہر چیز سے بہتر ہے"۔ [بخاري 2796]
سہل رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا؛ " جنت میں ایک کوڑے جتنی جگہ دنیا اور اس میں جو کچھ ہے سب سے بہتر ہے اور اللہ کے راستے میں صبح کو یا شام کو تھوڑا سا چلنا بھی «الدنيا وما فيها» سے بہتر ہے"۔ [بخاري 6415]
کیا ہم اللہ سبحان تعالی کی رحمت سے مایوس ہیں؟
اللہ تعالی نے سورۃ الروم کی آیت 54 میں فرمایا ہے کہ
اللہ ہی ہے جس نے تمہیں کمزوری کی حالت میں پیدا کیا پھر کمزوری کے بعد قوت عطا کی پھر قوت کے بعد ضعف اور بڑھاپا بنایا، جو چاہتا ہے پیدا کرتا ہے، اور وہی جاننے والا قدرت والا ہے۔
اللہ تعالی نے کتنی خوبصورتی سے سمجھایا ہے کہ ہم جو وقتی طور پر کمزور ہوتے ہیں تو اللہ کی حکمت کے سبب ہی ہوتے ہیں۔ پھر ہمیں اللہ ہی ہر طور پر طاقتور بنا دیتا ہے؛ اور پھر ضعف بھی لا دیتا ہے؛ یعنی پیدائش سے قبر کا سفر، مسلسل اپنا روپ بدلتا رہتا ہے۔ سو اسی طرح انسانی عروج و زوال بھی دائم نہی ہوتا۔
اس سے یہ بات بھی سمجھ لینی چاہیے کہ ہم جو سنہرے مستقبل کی تلاش میں غیر اسلامی ممالک میں جا بستے ہیں؛ اور اس دنیا میں رزق کے مجبوری کو بہانہ بنا کر اگلی نسل کو غیراسلامی تہذیب، غیر اسلامی قوانین اور غیراسلامی ماحول اور رہن سہن کے حوالے کردیتے ہیں؛ ہم انکے ساتھ وہ ظلم کرتے ہیں جس کا جواب ہمیں روزِ حساب دینا ہوگا۔
سورۃ الحدید کی آیت 20 کو پڑھیں اور سمجھیں کہ کیسے ہم بارش کے بعد کی خوشحالی پا کر نہال ہوجاتے ہیں؟ اور جو ہماری اگلی نسل ارتداد کا شکار ہوجائے تو وہ بعد کو ہونے والی خشک فصل ہوگی؛ تو وہ زرد شدہ ہوگی جو چورا چورا ہو جائے گی۔ یہ تو سیدھا سیدھا عذاب قبر کا راستہ بن جائے گا اور روزِ حساب شرمندگی کا باعث ہوگا؛ جو سخت عذاب پر منتج ہوگا۔ کیا ہمیں یہ منظور ہے؟ کیا یہ صحیح دائمی خوشحالی اور سنہرا مستقبل ہے؟
﴿وَمَا عَلَيْنَا إِلَّا الْبَلَاغُ الْمُبِينُ﴾ ” اور ہمارے ذمے تو صاف صاف پہنچا دینا ہے۔“