Muhammad Asif Raza 1 week ago
Muhammad Asif Raza #education

چور، لٹیرے اور اخلاقیات

Morality forms the basis of any society and stealing is a moral issue because it fundamentally violates the principle of respecting others' property and possessions, causing harm and undermining trust within a society. This write up in Urdu " چور، لٹیرے اور اخلاقیات " from Lt Col Abrar Khan (R) is discussing the breaking up of moral fiber of the society in which we are living in Pakistan.

بِسۡمِ ٱللهِ ٱلرَّحۡمَـٰنِ ٱلرَّحِيمِ

اللہ کے نام سے شروع جو بڑا مہربان نہایت رحم کرنے والا ہے

 

چور، لٹیرے اور اخلاقیات

 

معزز قارئینِ کرام کو "چور، لٹیرے" اور "اخلاقیات" ایک ساتھ پڑھنے میں تعجب ضرور ہو رہا ہوگا۔ مگر میں آگے چل کر اس کی وضاحت کروں گا۔ ایک دفعہ ایک جیب کترے نے میرے والدِ محترم کی جیب پبلک ٹرانسپورٹ میں سفر کے دوران کاٹ لی۔ رقم کے علاوہ ان کا قومی شناختی کارڈ، دفتری کارڈ، اور چھوٹی سی ٹیلی فون نمبروں والی ڈائری بھی ساتھ چلی گئی۔ اس زمانے میں موبائل فون نہیں تھے، لہٰذا بات چیت کے لیے صرف پی ٹی سی ایل کی لینڈ لائن ہی استعمال ہوتی تھی۔ چونکہ میرے والد ایک صحافی تھے، اس لیے اس جیبی ٹیلی فون ڈائریکٹری میں ان کے بہت سے اہم نمبر درج تھے، جن کے چلے جانے کا انہیں خاصا افسوس تھا۔ مگر ایک ہفتے کے اندر اندر، رقم کے علاوہ، بقیہ تمام کاغذات بذریعہ ڈاک گھر کے پتے پر موصول ہو گئے۔ جیب کترے کو صرف پیسوں سے غرض تھی سو وہ اس نے رکھ لیے، وہ باقی غیر ضروری چیزیں ضائع کر سکتا یا پھر کہیں پھینک بھی سکتا تھا، مگر شاید اس جیب تراش میں کچھ اخلاقیات باقی تھیں۔

 

اسی طرح، میں نے ایک مضمون پڑھا جس میں کسی غریب تنخواہ دار کی جیب کٹتی ہے، جس میں اس کا ماں کے نام لکھا خط بھی تھا۔ خط میں وہ اپنی نوکری چلے جانے کے سبب ماں کو پیسے نہ بھیجنے کی اطلاع دے رہا تھا۔ مگر کچھ دن بعد ماں کا خط موصول ہوتا ہے، جس میں وہ پیسوں کی وصولی پر بیٹے کو دعائیں دے رہی ہوتی ہے۔ پھر جیب کترے کا خط موصول ہوتا ہے: "پریشان مت ہونا، ماں کو پیسے بھیج دیئے ہیں، کہ مائیں تو سب کی سانجھی ہوتی ہیں۔"

 

اسی طرح کا ایک حقیقت پہ مبنی واقعہ میرے چھوٹے بھائی نے سنایا، جہاں اے ٹی ایم مشین پہ ایک لٹیرا آگیا۔ لٹنے والے نے لٹیرے کو بتایا کہ وہ دوست کی والدہ کے علاج کے لیے اکاؤنٹ میں جو تھوڑے بہت پیسے تھے، وہ نکلوانے آیا تھا۔ ثبوت کے طور پر دوست کا میسج بھی لٹیرے کو پڑھوا دیا تو حیرت انگیز طور پر لٹیرے شخص نے اپنی طرف سے بھی کچھ رقم اس کے حوالے کر دی۔

 

اب میں موجودہ دور کے چوروں اور جیب تراشوں کی طرف آتا ہوں۔ یہ حرم پاک جیسے مقدس مقامات پر بھی جیبیں کاٹ لیتے ہیں، جہاں دوسرے ممالک سے آئے ہوئے زائرین اپنے پاسپورٹ جیسی اہم دستاویزات سے بھی ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں۔ یہ چور اور لٹیرے نمازِ جنازہ اور تدفین کے مواقع پر بھی جیبیں کاٹنے سے نہیں کتراتے۔ ایک سینیئر صحافی کے جنازے پر بہت سے صحافی اپنے موبائل فونوں سے ہاتھ دھو بیٹھے، جبکہ ایک صحافی کے لیے موبائل فون انتہائی اہمیت کا حامل ہوتا ہے۔ یہی لٹیرے طالب علموں کے لیپ ٹاپ اور موبائل بھی چھین لیتے ہیں، جن میں ان کی سالہا سال کی محنت ہوتی ہے۔ کچھ ہی عرصہ قبل، کراچی کا ایک طالب علم محض ایک موبائل فون کے پیچھے گولی مار کر قتل کر دیا گیا۔ طالب علم کا سارا فائنل ائیر کا پروجیکٹ اس کے موبائل میں تھا، جس کی مزاحمت پر وہ گولی کا نشانہ بن گیا۔

 

یہاں میں معزز قارئین کے لیے اپنی ذاتی کہانی بیان کرنا چاہوں گا۔ ایک دن دفتر سے واپسی پر کچھ سودا سلف لینے کی نیت سے گاڑی دکان کے باہر کھڑی کی اور دکان کے اندر چلا گیا۔ واپسی پر پتا چلا کہ کسی نے گاڑی کا شیشہ توڑ کر ڈگی کھول کر اس میں سے میرا لیپ ٹاپ نکال لیا۔ اس لیپ ٹاپ میں نہ صرف میری کتاب کا مسودہ تھا بلکہ ضروری دستاویزات، قیمتی ڈیٹا اور پوری زندگی کی تصاویر بھی شامل تھیں۔ واردات کے بعد پولیس کی بے حسی کی اپنی الگ ایک کہانی ہے مگر سی سی ٹی وی فوٹیج سے یہ ثابت ہو گیا کہ یہ کارروائی کس نشئی شخص نے کی تھی جن کا پورا گروہ نزدیک ہی موجود کوڑا دان کے پاس بیٹھ کر نشہ کرتا تھا۔ یہاں یہ بتانے کا مقصد یہ ہے کہ اس نشئی شخص کو لیپ ٹاپ کی قیمت اور اہمیت کا اندازہ یقیناً نہیں ہوگا۔ اصل لٹیرے تو کمپیوٹر مارکیٹ میں بیٹھے وہ دکان دار ہوتے ہیں جو ایسے چوروں سے چوری شدہ فون اور لیپ ٹاپ اونے پونے داموں خرید لیتے ہیں۔ یہ لوگ نہ صرف موبائل فون اور لیپ ٹاپ کی قیمت سے واقف ہوتے ہیں بلکہ ان میں موجود لوگوں کے ذاتی ڈیٹا کی اہمیت سے بھی بخوبی واقف ہوتے ہیں۔ اس کے باوجود وہ اپنے مالی فائدے کے لیے کسی کا بڑے سے بڑا نقصان کرنے میں بھی کوئی عار محسوس نہیں کرتے۔ یہی اصل لٹیرے ہیں جو اخلاقیات سے بالکل عاری ہیں۔

 

اپنے لیپ ٹاپ کی چوری کے بعد، یعنی اپنی کتاب کے مسودے کے ضیاع کے بعد، میں اتنا دل برداشتہ ہوا کہ لکھنا لکھانا ہی موقوف کر دیا۔ اور چوری کی واردات کے بعد کئی دنوں تک ڈاک کا انتظار کرتا رہا کہ شاید مجھے بھی میری ہارڈ ڈسک گھر کے پتے پر موصول ہو جائے گی، مگر ایسا نہ ہوا۔

 

اس واقعے اور موجودہ ملکی حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے مجھے اب اس بات کا ادراک ہو چکا ہے کہ پاکستان کے تمام "چوروں اور لٹیروں" میں اخلاقیات کا دور دور تک کوئی تعلق نہیں، لہٰذا مضمون کا عنوان پڑھ کر قارئین کرام کا تعجب بالکل جائز تھا۔

 

تحریر : لیفٹیننٹ کرنل ابرار خان (ریٹائرڈ)

ادارتی تبصرہ

 اللہ سبحان تعالی نے سورة الْحِجْر کی آیت ۸۵ میں فرمایا ہے کہ " وَمَا خَلَقْنَا السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ وَمَا بَيْنَهُمَآ اِلَّا بالْحَقِّ؛" کہ پروردگار عالم نے اس کائنات کو ایک با مقصد وجہ سےتخلیق کیا ہے؛ یہ سب کچھ کوئی کھیل تماشا نہیں ہے۔ تو منطقی سوال اٹھتا ہے کہ پھر انسان کو کس لیے پیدا کیا گیا ہے؟ اس کا جواب انسان کے اندر پیدا کی گئی روحانی اخلاقی حس ہے۔ وہ اخلاقی حس انسان کو پیدائشی طور پر نیکی اور بدی کی تمیز عطا کرتی ہے۔ مگر پھر بھی دنیا میں انسانی آبادیوں میں اخلاقیات کے اصولوں کے برعکس چوری چکاری؛ ڈاکا زنی اور لوٹ مار جنم لیتی ہے۔ تو آخر ایسا کیوں ہوتا ہے؟

 

اخلاق کسی بھی معاشرے اور قوم کی زندگی کیلئے ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے۔ اخلاق انسان کی روحانی بیداری اور ذہنی اور نفسیاتی بلوغت کی نشاندہی کرتا ہے۔ اخلاق انسانی معاشرے میں شرافت اور شائستگی کو رواج دیتا ہے اور اخلاق کی کمی سے قوموں میں غیرت، حمیت اور باہمی انسانی رواداری غائب ہوجاتی ہے۔ یہ ایک ناقابل تردید حقیقت ہے کہ اخلاقی بگاڑ آج ہماری قومی زندگی کے ہر شعبے میں داخل ہو چکا ہے۔ معاملہ عبادات کا ہو یا معاملات کا، حقوق و فرائض ہوں یا تعلیم و تربیت، امانت، دیانت، صدق، عدل ،ایفاے عہد، فرض شناسی اور ان جیسی دیگر اعلیٰ اقدار کا آج شدید فقدان ہے۔




علامہ محمد اقبال نے اپنے فارسی کلام میں ایک شاندار بات کہہ دی ہے

گر نہ داری از محمد رنگ و بو

از زبان خود میسا لا نام او

یعنی اگر تمہاری سیرت و کردار ، اخلاق و اطوار اپنے نبی کریمﷺ کے رنگ و بو سے بہرہ ور نہیں ، یا تم سے آپﷺ کے اخلاق حسنہ کی بو نہیں آتی تو تمہیں قطعاً یہ زیب نہیں دیتا کہ اپنی ناپاک زبان سے آپﷺ کا نام پاک لینے کی جسارت کرو؛ مسلمان کہلوانا تو بہت دور کی بات ہے۔ ہم نے قوم ملک سلطنت یعنی ریاست کے حصول کے لیے نام تو اسلام کا لیا تھا مگر ہم نے اپنی ذاتی؛ گروہی، اجتماعی اور قومی زندگی میں اخلاق ایمان اور عمل کو منافقت کے اعلی مازل سے بھی آگے کی طرف گامزن کرلیا ہے۔ کیا ہم نے اپنی روحوں کا مردہ کرلیا ہے۔ کیا ہمارا معاشرہ چلتی پھرتی لاشوں کے انبوہِ کثیر کا جمگھٹا ہے؟ 

0
217
MASTERING DAMASCUS KNIFE CARE: ESSENTIAL TIPS FOR LONGEVITY

MASTERING DAMASCUS KNIFE CARE: ESSENTIAL TIPS FOR LONGEVITY

defaultuser.png
BazaarLimited
8 months ago

AI in Medical Imaging Market to Witness Promising Growth Opportunities...

The new market report titled ‘AI in Medical Imaging Market,’ published by Roots Analysis i...

defaultuser.png
Dwayne
4 weeks ago
Pizza Slice Boxes: Convenient Takeout Packaging

Pizza Slice Boxes: Convenient Takeout Packaging

defaultuser.png
Lily hazel
8 months ago

Oppenheimer: A Cinematic Masterpiece Unveiling the Secrets of History

Have you seen this top-hit movie already? Do you want to know if it is worth watching or n...

1695682923.jpeg
Saher Malik
1 year ago

Vacuum Bagging Film Market 2024: Key Growth Drivers and Opportunities...

defaultuser.png
Prity
3 months ago