The Israel – Palestine Conflict is century old and it is impossible for a common man in the streets of the Muslim World to not get effected by the crisis. The Arab- Israel conflict has been created by World Powers then UK as leaders and now USA in lead role. Here is an article published in Daily Telegraph advising the Palestinians to stop resisting and leave the Holy Land for Zionist Israel.
بِسۡمِ ٱللهِ ٱلرَّحۡمَـٰنِ ٱلرَّحِيمِ
بہتر کل کے لیے فلسطینی تاریخی ظلم کو بھول جائیں؛ مگر کیوں؟
بہت سے لوگوں کے پاس المیے اور نقل مکانی کی یادیں ہوتی ہیں؛ لیکن کامیاب وہ ہوتے ہیں جو ماضی کو بھول کر آگے بڑھنے کے قابل ہوں
اگر اسرائیل حماس کو مکمل ختم کرنے میں کامیاب ہو جاتا ہے تو وہ فلسطینیوں کو اپنی قومی تقدیر کا ازسر نو جائزہ لینے کا ایک منفرد موقع فراہم کرے گا اور تاریخ ان کی رہنما ہو سکتی ہے۔ کیونکہ قوموں کو اپنے عزائم کو سیاسی، اور بالآخر عسکری کو عملی طور پر ڈھالنا چاہیے۔ اور یہ سچ کسی بھی قوم کے لیے خاص طور پرہ فلسطینی عربوں سے زیادہ سختی سے کون جان سکتا ہے۔
حماس کا یہ اعتقادی دعویٰ کہ یہ یہودیوں کو دریا سے سمندر تک نکالے گا، دراصل حماس ایک ایسا خواب بیچ رہی ہے جو صرف مزید المیہ اور ملبا لے کر آتا ہے۔ حماس کے تباہ ہونے کے بعد، غزہ کے لوگ صرف اسی صورت میں ترقی کر سکیں گے جب وہ دوسرے تمام لوگوں سے سیکھیں جنہوں نے 1940 کی دہائی کے آخر میں بڑے پیمانے پر آبادی کی منتقلی کا سامنا کیا، اور یہ کہ وہ بغاوت کو ترک کر دیں۔
نقبہ 1948 میں جب لاکھوں فلسطینی عرب اسرائیل سے نکالے گئے تھے اور مجبور کر دیے گئے تھے؛ کی مچی "تباہی" پر دوبارہ مقدمہ چلانے کی لامتناہی کوشش کرنے کے بجائے؛ فلسطینیوں کو اسے ایک ناقابل واپسی تاریخی حقیقت کے طور پر تقدیر کا لکھا، تسلیم کرنا چاہیے؛ ار بھول جانا چاہیے؛ ویسے بھی اب ایک صدی کا تین چوتھائی گزر چکا ہے۔ اسے ایک پرانا حادثہ مان کر انہیں قبول کرنا چاہیے۔ کیونکہ دوسری عالمی جنگ کے فوراً بعد کے دور میں، بہت سے یہودی قومی گروہوں کو انکی زمینوں سے بڑے پیمانے پر منتقل ہونا پڑا تھا۔ اور فلسطینی زمین پر یہود پہلے ہی قبضہ کر چکے تھے، اور خوشی صرف ان لوگوں کو ملتی ہے جو اس سے نمٹنے کے قابل ہو چکے ہیں۔
درحقیقت، 1940 کی دہائی کے اواخر میں، کچھ نسلی یہود گروہوں کو فلسطینیوں سے کہیں زیادہ فاصلہ طے کرنا پڑا، اور بہت زیادہ ، ان سے بھی زیادہ تکلیف دہ حالات دیکھنا پڑا تھا۔ مثال کے طور پر، ہندوستان میں بھی اقتدار کی منتقلی نے دیکھا کہ 16 ملین سکھ، مسلمان اور ہندو پنجاب اور شمال مغربی سرحدی علاقوں میں اپنے گھروں سے چلے گئے، اور پھر کبھی واپس نہیں آسکے۔ بہت سے لوگوں نے سفر صرف وہی کچھ لے کر کیا جو وہ لے جا سکتے تھے، اور انہوں نے واپسی کا مسلسل خواب نہ دیکھ کر جدید دور کے ہندوستان اور پاکستان کی تعمیر کی۔
کریمیائی تاتاری (جو اپنی تعداد کا 46 فیصد کھو چکے ہیں)، سوویت چیچن، انگوش اور بلکار، وولگا جرمن اور میسکھیتا ترک سبھی کو سٹالن نے لاکھوں کی تعداد میں "منتقل" کر دیا تھا (جیسا کہ اسے سوویت قرار دیتے تھے)۔ اور کہیں زیادہ ناقابل تصور سخت حالات میں، ان سب کو سوویت یونین میں اپنے لیے نئی زندگیاں بنانے پر مجبور ہونا پڑا تھا۔ مورخین کا اندازہ ہے کہ ان مہاجرین میں سے ڈیڑھ ملین تک مر گئے۔ لیکن اس کے باوجود زیادہ تر لوگوں نے زمینوں کی زبردستی قبضے اور بچوں کے قتل کے ساتھ واپس آنے کی سازش کرنے کے بجائے اپنی نئی زندگی کو بہترین کرنے کے موقع سے فائدہ اٹھایا۔
جاپانی اور کوریائی کورل اور سیکھلین جزائر کے باشندوں کو جنگ کے بعد کے دور میں بھی زبردستی ان کے گھروں سے منتقل کیا گیا تھا۔ یہاں تک کہ اسٹریا کے اطالوی بھی اس کا شکا رہوئے۔ حالیہ دنوں میں 1956 میں ترکی کے یونانی، 1974 میں قبرص کے یونانی اور 1975 میں ویتنامی کشتی کے رہائش لوگ بھی تو ہیں۔ اگرچہ یہ لوگ نقبہ سے زیادہ حال ہی میں بے گھر ہوئے تھے، لیکن انہوں نے اس ہلچل سے نمٹا اور جذباتی اور نفسیاتی چنگل سے آزاد ہو کر آگے بڑھے۔ مگر فلسطینیوں نے اس کا مظاہرہ نہی کیا۔
دہائی 1940 کے آخر میں، عرب سے تقریباً 800,000 یہودیوں کو، جن کے خاندان صدیوں سے وہاں مقیم تھے، کو بے دخل کر دیا گیا۔ 1945 میں جرمنی کی شکست کے بعد، تین ملین سے زیادہ نسلی جرمنوں کو اوڈر اور نیس دریاؤں کے مشرق میں سائلیسیا، سوڈیٹن لینڈ اور دیگر تاریخی طور پر جرمن علاقوں سے 300 میل مغرب کی طرف جانے پر مجبور کیا گیا۔ دوسرے پناہ گزینوں کی طرح، انہوں نے صرف وہی لیا جو گاڑیوں پر لے جایا جا سکتا تھا۔ اس کے باوجود ان کی آبائی زمینوں کی واپسی کے ان کے پرتشدد مطالبات کہاں ہیں جہاں ان زمینوں پر اس وقت پولش اور چیک کے باشندے رہتے ہیں؟
ان لوگوں میں سے کوئی بھی، اور نہ ہی چینی قوم پرست جنہیں 1949 میں سرزمین سے زبردستی تائیوان میں داخل کیا گیا تھا، آج فعال طور پر ان لوگوں کے قتل کے حق کا مطالبہ نہیں کر رہے ہیں جو اب اپنی سابقہ سرزمین پر سات دہائیوں سے رہ رہے ہیں۔ انہوں نے اس کے بجائے اپنے لیے نئی زندگیاں بنائی ہیں، پیچھے کی بجائے آگے دیکھ رہے ہیں۔ تائیوان، جس نے 1979 میں چینی سرزمین پر چھاپہ مارنا چھوڑ دیا تھا، آج انکا فی کس معیار زندگی اپنے پرانے دشمن سے کہیں زیادہ ہے۔ امریکہ ہجرت کرنے والے بہت سے ویتنامی آج امریکی خواب جی رہے ہیں۔
قومی تباہی سے آگے بڑھ کر ترقی کرنے کی اس سمجھدار اور پختہ پالیسی کا واحد استثناء فلسطینی انتہا پسند رہے ہیں، جنہوں نے کی بے اعتنائی برتی ہے اور بار بار انتفاضہ کا راستہ اختیار کیا ہے؛ اور جن کے ابھی کل کے جنوبی اسرائیل میں تازہ ترین افسوسناک حملے نے – غزہ شہر کے بیشتر حصے کو ملبے میں تبدیل کر دیا ہے۔
ایلڈوس ہکسلے نے 1959 میں لکھا، "یہ لوگ تاریخ کے اسباق سے زیادہ نہیں سیکھتے،" ان تمام اسباق میں سب سے اہم ہے جو تاریخ ہمیں سکھاتی ہے۔
جس طرح حماس فلسطینیوں کو شمالی غزہ پر اسرائیلی حملے سے جنوب اور دور جانے سے روکنے کے لیے راستے میں رکاوٹیں استعمال کر رہی ہے، اسی طرح وہ فلسطینیوں کو اسرائیل کی سرزمین پر دوبارہ قبضے کی مکمل تباہی کی امید سے آگے بڑھنے سے بھی روک رہی ہے۔ جب کہ 1940 کی دہائی کے اواخر میں بے گھر ہونے والے لوگوں کی اکثریت نے تشدد کا راستہ ترک کر دیا ہے، بجائے اس کے کہ وہ پرامن طریقے سے اپنی قومی کہانیوں کو آگے بڑھانے اور اپنے حالات سے بہترین فائدہ اٹھانے کی کوشش کریں، محنت کر کے اپنا بدلہ لیں، اچھی زندگی گزاریں اور خوش رہیں، غزہ کے لوگوں نے 2006 میں حماس کو ووٹ دیا تھا۔
اس طرح فلسطینی بیرونی ممالک کی مذموم پالیسی کے آمادہ دھوکے باز بن گئے ہیں تاکہ انہیں دنیا کی واحد یہودی ریاست کو دبانے اور غیر مستحکم کرنے کے لیے استعمال کیا جا سکے۔ اگر ہر ایک عرب ریاست 100,000 فلسطینیوں کو لے لیتی - یوکرینیوں کی تعداد سے کم جس کا برطانویوں نے استقبال کیا تھا - تو غزہ کے لوگ محفوظ رہیں گے۔ لیکن اس کا مطلب ایک محفوظ اسرائیل بھی ہوگا، جو کچھ عرب ریاستیں نہیں چاہتیں۔ جب تک فلسطینی آخر کار خود کو اس حقیقت کے مطابق ڈھال نہیں لیتے کہ اسرائیل یہاں رہنے کے لیے ہے، وہ کبھی بھی اطمینان حاصل نہیں کر سکتے۔
دریں اثنا، نام نہاد "عرب گلی" یمن میں گزشتہ سات سالوں میں سعودیوں کے ہاتھوں مارے جانے والے حوثیوں سے دور نظر آرہی ہے، اسرائیل کے خلاف احتجاج کرنے اور غزہ میں جنگ بندی کا مطالبہ کرنے کے بجائے اسے ترجیح دے رہی ہے۔
اسرائیل حماس کو مکمل تباہ کرنے سے پہلے جنگ بندی کا مطالبہ کرنے والوں کو بینجمن نیتن یاہو کا بہترین جواب ان کے ہیرو ونسٹن چرچل کا ہونا چاہیے، جس نے 14 جولائی 1941 کو کہا تھا، ’’ہم دشمن سے کوئی احسان نہیں مانگتے۔ ہم ان سے کوئی عار نہیں چاہتے۔ اس کے برعکس، اگر آج رات لندن کے لوگوں سے ووٹ ڈالنے کے لیے کہا جائے کہ کیا تمام شہروں میں بمباری روکنے کے لیے ایک کنونشن منعقد کیا جانا چاہیے، تو بھاری اکثریت پکار اٹھے گی، 'نہیں، ہم جرمنوں کو اس اقدام سے آگاہ کریں گے۔ اور اس پیمائش سے بھی بڑھ کر کہ انہوں نے ہم سے ملاقات کی ہے۔''... ہماری آپ کے ساتھ یا اس بدمعاش گروہ کے ساتھ کوئی معاہدہ یا بات چیت نہیں ہوگی جو آپ کی شرارتی مرضی سے کام کرتے ہیں۔ آپ اپنا برا کریں اور ہم اپنی پوری کوشش کریں گے۔
اس مضمون کے لکھاری اینڈریو رابرٹس ہیں جو Conflict: The Evolution of Warfare from 1945 to Ukraine کے شریک مصنف ہیں۔
موصوف برطانیہ کے ہاؤس آف لارڈز کے رکن ہیں اور معروف تاریخ دان اور بائیوگرافر بھی ہیں
اس مضمون پر کماندڑ [ر] محمد آصف رضا کا جواب بھی پیش کیا جا رہا ہے
مورخ اینڈریو رابرٹس برطانوہ سامراج کے تازہ ترین نمائیندہ ہیں اور اپنے پیش روں کی جانب سے کی گئی خوفناک غلطی اور سازش کو چھپانے کی کوشش کی ہے۔ تباہی انکے اقدام نے ڈھائی اور ظلم انکے عمل سے پھوٹا مگر اس تاریخی کمینگی کو درست کرنے کے بجائے مورخ موصوف اسے قسمت کا لکھا سمجھ کر برادشت کرنے کا مشوریہ دے رہے ہیں۔ تاج برطانیہ نے سو سال قبل ایک خونریز قدم اٹھایا تھا اور جس کے نتیجے میں فلسطین مسلسل لہولہان ہے؛ ایسا ہی ایک مہیب کام تاج برطانیہ نے کشمیر میں بھی کیا ہے۔
فلسطین کا مسئلہ محض زمین کا مسئلہ نہی ہے بلکہ ایک ارض مقدس پر صیہونیوں کا ناجائز قبضہ ہے جسے نا صرف فلسطین کا مسلمان بلکہ تمام ہوشمند امتِ مسلمہ کبھی تسلیم نہی کرسکتی۔ یہ مسلمانوں کے قبلہ اول کا معاملہ ہے۔
بینگ باکس کے قارئین ان صفحات پر اس بارے میں مزید مضمون بھی پڑھ سکتے ہیں
آرٹیکل ڈیلی ٹیلی گراف میں اکتوبر 30؛ 2023 کو چھپا تھا اور مندرہ ذیل لنک پر موجود ہے؛ اور اسے بینگ باکس نے اپنے قارئین کے لیے ترجمہ کیا ہے تاکہ اسرائیل فلسطین جنگ میں پھیلائے ہوئے مذموم پرپیگینڈا اور دیگر ہونے والی کاروائی سے آگاہ کرسکیں ۔
https://www.telegraph.co.uk/news/2023/10/30/palestinians-israel-history-grievance-future-forget/