برسات؛ بِرہا کی ماری بِرہن کا موسم کیا ہوگا؟

برسات کا موسم آتا ہے تو چاروں طرف خوشیاں اور ہریالی چھا جاتی ہے۔ برسات کا موسم ، یادوں کا موسم بھی کہلاتا ہے، خاص طور پر انکے لیے جن کا محبوب ان سے دور ہوتا ہے۔ برہا یا جدائی کے مارے اس موسم میں اپنوں ک دوری کو ستم جانتے ہیں اور دکھ کا اظہار کرتے ہیں۔ یہ مضمون برسات کے موسم میں جدائی میں برہن، اپنے محبوب سے جدا عورت اور مرد کے جزبات کی ترجمانی کے لیے لکھا گیا ہے۔ یہ تحریر آزاد ویب نیٹ پر موجود مختلف ذرائع سے دستیاب مواد کی مدد سے مرتب کی گئی.

2024-08-24 15:45:11 - Muhammad Asif Raza


 برسات؛ بِرہا کی ماری بِرہن کا موسم کیا ہوگا؟


بھگت کبیر کلاسک اردو زبان و ادب کا بڑا نام ہے۔ بھگت کبیر پندرہویں صدی کے ایک صوفی شاعر اور سّنت تھے۔ انکی شاعری سے برِ صغیر ہند وپاک کی زمین پر پھوٹنے والی زندگی اور جزبات کے جمالیات کا حسن اجاگر ہوتا ہے۔ اس زمین پر انسانوں کے مزموم شیطانی مقاصد سے قبل کا آدم حسن وعشق کے مفہوم سے آشناء تھا اور وہ اس کی روئیدگی کو زندگی کا حاصل جانتا تھا۔ اس وقت کے انسان کو بہار اور خزاں کا موسم اور برسات کے نیرنگی اپنے اپنے رنگ میں دکھتا تھا سو وہ اسے ویسا ہی برتتا بھی تھا۔ 


ان کے کلام سے یہ مستعار لیا جاسکتا ہے کہ " اے ہنس ہم اُس دیس اُڑ چلیں کہ جہاں میرے عشق کی حکومت ہے ، جہاں میرے پریم کی روشنی ہے ، جہاں میری محبت حکمران ہے ، جہاں رسّی اور ڈول بنا سہاگنیں کنویں سے پانی نکال لیتی ہیں ، جہاں بادل نہیں لیکن بارش ہوتی ہے اور اس بارش سے جسم کے بغیر ہمارا وجود بھیگ کر شرابور ہو جاتا ہے ، ہر شب پورے چاند کی شب اور ہر دن چمکتے اور روشن سورج کا دن ہوتا ہے ، ایک سورج کی بات نہیں وہاں اَنگنت سورج ہیں کہ جن کی تابانی اور ضیا پاشی کا بیان ممکن نہیں"۔


بھگت کبیر کا محبوب آدم کا اصل رنگ ہے؛ جو وصل کی نزاکت اور لذت سے آشنا ہے۔ دیکھیے کہ کیا خوب منظر کشی کی ہے کہ " اے میرے محبوب میری آنکھیں نیند سے بوجھل ہو رہی ہیں ، آ جا، ہم دونوں بستر پر چلیں ،   ّمحبت سے سرشار میرا جسم تتلی کی مانند کانپ رہا ہے ، میں دو میٹھے شبد بھی بول نہیں سکتی، میں نے جن پھولوں سے بستر کو سجایا اب وہ بھی مرجھائے جا رہے ہیں ، بستر پر آہستہ سے پاؤں رکھنا، میری نند اور جیٹھانی اب تک جاگ رہی ہیں۔ کبیر کہتے ہیں سنو بھائی سادھو لوگوں کی باتوں اور آوازیں کسنے کی وجہ سے محبوب سے ملنا بھی مشکل ہو گیا ہے۔ اپنے محبوب میں جذب ہونے میں شرم آ رہی ہے"۔


کبیر کا آدم زاد انوکھا نہیں ہے؛ وہ غم دوراں کا شکار ہوتا ہے تو گھر سے کہیں دور بھی چلا جاتا ہے پھر وہ پیچھے ایک برہن کا ماری کو چھوڑ جاتا ہے جو کیسے دن رات بتاتی ہے اس کی منظر کسی پر غور کیجیے کہ " خواب میں میرا محبوب میرے پاس آیا، اس نے مجھے آہستہ سے چھوا تو میں جاگ پڑی، اپنے خواب کے حسن و جمال اور رحمت کو قائم رکھنے کے واسطے میں نے آنکھیں نہیں کھولیں ، میرے ننھے سے معصوم دل پر میرے محبوب نے اپنی  ّمحبت کا پیغام نقش کر دیا، میں نے پانی نہیں پیا کہ یہ پیغام دھُل نہ جائے۔ اے میرے محبوب ایک بار بس ایک بار میری آنکھوں میں سما جاؤ، جیسے ہی تم آنکھوں کے اندر آؤ گے میں جھٹ آنکھیں بند کر لوں گی، پلکوں کے اندر تمھیں چھپا لوں گی اس واسطے کہ صرف میں تنہا تمھیں دیکھتی رہوں اور تم بھی کسی اور کو نہ دیکھ سکو"۔


کہانی مزید کھلتی ہے اور برہن یوں پبتا سناتی ہے کہ " مرلی کی دھُن سن کر مجھ سے رہا نہیں جاتا، میں یہاں ٹھہر نہیں سکتی، مجھے ابھی اسی وقت اُس جانب جانا چاہیے کہ جس جانب سے مرلی کی آواز آ رہی ہے ، سریلی آواز اُسی کی بانسری کی ہے ، اُس جانب جانا چاہیے کہ جہاں سال بھر کنول کھلے رہتے ہیں اور شہد کی  ّمکھیوں کی آواز مسلسل سنائی دیتی ہے ، جہاں آسمان ہر وقت بادلوں سے بھرے ہوتے ہیں اور ان کے درمیان بجلی کی تیز روشن لکیریں دِکھائی پڑتی ہیں اور بارش ہوتی ہے اور کنول کھلتے رہتے ہیں ، میرے اندر، میرے وجود میں ہلچل سی ہے ، ایک عجیب لہر اُٹھتی ہے ، میں کانپ کانپ جاتی ہوں ، اپنے محبوب کو پانے کے لیے بے چین ہو جاتی ہوں ، کانپنے لگتی ہوں ، میرا ذہن وہاں پہنچ جاتا ہے کہ جہاں میرے مالک کا جھنڈا لہراتا رہتا ہے ، اے میرے محبوب میری موت کا بس یہی لمحہ ہونا چاہیے ! اِسی لمحے میں مر جاؤں تو کتنا اچھا ہو"۔


بابا فرید ہماری زمین کے مستند صوفی شاعر ہیں اور انکا حوالہ صوفیانہ رنگ میں استاد کا ہے؛ اپنے کلام میں برہا کا ذکر یوں کیا ہے 


بِرہا بِرہا آکھیے

بِرہا تُوں سُلطان

جِت تن بِرہوں نہ اُپجے

سو تن جان مسان

کہنے کے تو ہر کوئی برہا کی بات کرتا ہے لیکن اسے سلطان کوئی کوئی ہی دل سے تسلیم کرتا ہے۔ اے فرید! جس تن کو برہا راس نہ آئے اسے تو مسان (گور) ہی جان۔


برہا کی ماری برہن کا سکھ اور دکھ بیان کرنے والے زیادہ تر مرد شاعر اور ادیب ہیں اور اس پر تنقید بھی کی جاتی رہی ہے۔ پروین شاکر اردو زبان میں ایک مستند آواز بن کر ابھریں؛ اور عورت کے جزبات کو مستحکم طریقے سے پیش کیا؛ سو انکا ایک شعر پیش ہے جو برسات کی رات کی کسک کو ظاہر کرتا ہے۔ 


اب بھی برسات کی راتوں میں بدن ٹوٹتا ہے 

جاگ اٹھتی ہیں عجب خواہشیں انگڑائی کی 

پروین شاکر


ایک شعر خاتون شاعرہ دعا علی کا بھی پیش ہے؛ جو اس مضمون کو مزید واضع کرتا ہے۔ 


اکیلی کیوں رہے برہن یہ بارش نے کہا مجھ سے 

بلا لے پاس تو ساجن یہ بارش نے کہا مجھ سے 

ذیل میں متعدد شعراء کے اشعار پیش ہیں

امید ہے کی قاری ان کے مضامین کو اس ہی تناظر میں سمجھ پائیں گے جیسا کہ اوپر بھگت کبیر کے حوالے سے پیراگراف لکھا گیا۔ 


برسات کے آتے ہی توبہ نہ رہی باقی 

بادل جو نظر آئے بدلی میری نیت بھی 

حسرت موہانی


ٹوٹ پڑتی تھیں گھٹائیں جن کی آنکھیں دیکھ کر 

وہ بھری برسات میں ترسے ہیں پانی کے لیے 

سجاد باقر نقوی


رات بھر سونی رہی برہن کی سیج 

اور آنگن میں دیا جلتا رہا 

ساحر ہوشیارپوری


کلی کلی برہن کی چتا بن جاتی ہوگی 

کالے بادل گھر کر آگے لگاتے ہوں گے 

کالی داس گپتا


برہا کا گیت ہوں مظلوم کی آواز ہوں میں 

تم جو چاہو تو حسیں نغمہ بنا لو مجھ کو 

پیام فتحپوری


موں برہن کو پیا تج دیتھ سووت کا پکڑو ہاتھ 

نیازؔ پیا بن کیسے گجرے کیوں کر کٹے دن رات 

شاہ نیاز احمد بریلوی


روتی چھوڑ کے برہن کو تم کون سے دیس سدھار گئے

تکتے تکتے راہ تمہاری نین ہمارے ہار گئے

نا معلوم


جھڑی برسات کی جب آگ تن من میں لگاتی ہو

گلوں کو بلبل ناشاد حال دل سناتی ہو

کوئی برہن کسی کی یاد میں آنسو بہاتی ہو

اگر ایسے میں تیرا دل دھڑک جائے تو آ جانا

راجندر ناتھ رہبر


حضرت امیر خُسرو کو اردو شعر کا موجد کہا جاتا ہے۔ امیر خسرو نے اردو شاعری کو مثنوی، قصیدہ، غزل، دوہے، پہیلیاں اور گیت وغیرہ عطا کی ہیں۔ غزل میں پانچ دیوان یادگار چھوڑے۔ ہندوستانی موسیقی میں ترانہ، قول اور قلبانہ انہی کی ایجاد ہے۔ بعض ہندوستانی راگنیوں میں ہندوستانی پیوند بھی لگائے۔ اس مضمون کے سلسلے میں ان کا کلام پیش خدمت ہے۔


شام سویرے نین بچھا کے

راہ تکوں میں ساجن کی

رام ہی جانے کب چمکے گی

قسمت مورے آنگن کی


نین چرا کے جب سے سیاں

دورکہیں پردیس گئے

برہن کی اکھیوں سے برسے

بن ساون رُت ساون کی

برکھا رُت جب چھم چھم برسے

منواروں نے  نیناں ترسے

تاروں نے جب چندا چمکے

درد اُٹھے من میں تھم تھم کے

بِرہا سلگے جب مورے تن میں

چپکے چپکے من آنگن میں


آ س کے بندھن ٹوٹ گئے ہیں


بالم مو سے روٹھ گئے ہیں

سولی اُوپر سیج ہماری

 کِسبَد سو نہ ہوئے

گگن منڈل پرسیج پیا کی 

کِسبَد مل نہ ہوئے

جوہری قیقت جوہری جانے

جو کوئی جوہری ہوئے

گھائل قیقت گھائل جانے

کے جن لاگی ہوئے


درد کی ماری بَن بَن ڈولوں وید نہ ملیوکوئی

میراں کی تبتیر مٹے جب وَیرسنوریا ہوئے

جوگنیا کابھیس بنا کے

پی کوڈھونڈن جاؤں ری


نگری نگری دوارے دوارے

پی پی شبد سنا ؤں ری

ترس بھکارن جگ میں ہوکے

درشن بچیا پاؤں ری




تن من اُن پر واروں

سجنی جو گنیا کہلاؤں ری


پیا ملن کی آس ہے من میں


نینوں میں برساتیں ہیں

تنہائی کے چپ آنگن میں


میری اُن سے باتیں ہیں

مورے باں کے سنجیلے سا وریا

لاللہ موہے اب درس دِکھا

بن درسن مر نہ جاؤں کہیں


مورا جیون ہے تورے درشن میں

تورے یاد کرک موہا انگ انگ ہے

مورابھاگ سہاگ تورے سنگ ہے

اک بار جو آ مورے آنگن میں


ہو جاؤں سہاگن سکھ ین میں

موہے چھب دکھلا مورے سا وریا

توری پریت میں ہوگئی باں وریا

توہے نگر نگر میں ڈھونڈ پھری

توہےقوقت ہوں میں بن بن میں

موہے پریت تیہاری مار گئی

تم جیت گئے میں ہار گئی

میں ہار کے بھی بل ہار گئی

ایسا پریم بسا مورے تن من میں


 بھگت کبیر پندرہویں صدی کے ایک صوفی شاعر اور سّنت تھے؛ اور انکا کلام پرانی اردو زبان میں شاہکار سمجھا جاتا ہے؛ ایک نمونہ ذیل میں پیش کیا جاتا ہے۔


چرکھا چلے سُرَت برہن کا 

کایا نگری بنی اتی سندر محل بنا چیتن کا 

سُرَت بھانوری ہوت گگن میں پیڑھا گیان رتن کا 

مِہین سوت بِرَہِن کاتیں مانجھا پریم بھگتی کا 

کہیں کبیرؔ سنو بھائی سادھو مالا گونتھو دن رین کا 

پیا مور اَیہیں پگا رکھیہَیں آنسو بھیٹ دیہوں نین کا 


پریم کی ماری بِرہن (جو اپنے پریتم سے جدا ہو گئی ہے) چرخا چلا رہی ہے۔ جسم کا شہر اپنے سارے جلال و جمال کے ساتھ ابھر رہا ہے اور اس کے اندر دل کا محل تعمیر ہو رہا ہے۔ آسمان پر پیار کے پھیرے پڑ رہے ہیں اور عرفان کے جواہرات کا بنا ہو اتخت بچھا ہے۔ بِرہن سُوت کا مہین کات رہی ہے اور اس سے پریم اور بھگتی کا عروسی جوڑا تیار ہو رہا ہے۔ سنو بھائی سادھو کبیرؔ کہتے ہیں کہ ’’میں دن اور رات کی مالا گوندھ رہا ہوں۔ جب میرے پریتم آئیں گے اور (میرے گھر میں) اپنے قدم رکھیں گے تو میں اپنی آنکھوں کے آنسو نذر کروں گا۔ (ترجمہ: سردار جعفری) 

برہا کی ماری برہن پر کیا گذرے؛ بیدردی بالماں کیا جانے؟

طفیل ہوشیارپوری کی غزل " آگ میں برہا کی یوں برہن جلے"۔


آگ میں برہا کی یوں برہن جلے 

آنسوؤں کی آنچ سے دامن جلے 


آگ چاہت کی بھی کیسی آگ ہے 

روشنی چہرے پہ ہو اور من جلے 


کامنائیں بھسم ہوں آشائیں راکھ 

من جلے تو من کا ہر بندھن جلے 


نام رکھے کیا کوئی اس آگ کا 

رات دن جس آگ میں جیون جلے 


وہ لگا کر چل دئے برہا کی آگ 

اب کسی کا تن جلے یا من جلے 


آگ برہا کی انوکھی آگ ہے 

چاندنی کی چھاؤں میں آنگن جلے 


جلنے والا ہی سمجھتا ہے طفیلؔ 

کون کس کے غم میں کس کارن جلے 


 قتیل شفائی اردو کے ممتاز شاعر ہیں اور فلمی گیتوں کے لیے بھی بہت مشہور ہی۔ ان کی نظم " دیا جلے ساری رات " پیش کیا جاتا ہے؛ اس کلام کو گائیکی کا ایک نہایت ممتاز نام استاد نصرت فتح علی خان نے یوں پیش کیا ہے

ناصر کاظمی کے کلام میں ان کا عہد بولتا ہوا دکھائی دیتا ہے۔ کئی حوالوں سے ان کے کلام میں دکھوں کی داستان، زندگی کی یادیں، نئی اور پرانی بستیوں کی رونقیں اور بچھڑنے کا غم ہے۔ اس مضمون سے متعلق ایک نظم پیش کیا جاتا ہے۔ 


پھر ساون رت کی پون چلی تم یاد آئے


پھر ساون رت کی پون چلی تم یاد آئے 

پھر پتوں کی پازیب بجی تم یاد آئے 


پھر کونجیں بولیں گھاس کے ہرے سمندر میں 

رت آئی پیلے پھولوں کی تم یاد آئے 


پھر کاگا بولا گھر کے سونے آنگن میں 

پھر امرت رس کی بوند پڑی تم یاد آئے 


پہلے تو میں چیخ کے رویا اور پھر ہنسنے لگا 

بادل گرجا بجلی چمکی تم یاد آئے 


دن بھر تو میں دنیا کے دھندوں میں کھویا رہا 

جب دیواروں سے دھوپ ڈھلی تم یاد آئے

________________________________________


حسرت جے پوری کا گیت فلم برسات کے لیے


چھوڑ گئے بالم مجھے ہائے اکیلا چھوڑ گئے 

توڑ گئے بالم میرا پیار بھرا دل توڑ گئے

سردار صابر صاحب کا کلام برہا کے موسم میں برہن کا دکھ اور التجا کو پیش کرتا ہے۔


‏پت جھڑ موسم لنگھ گیا ماہی 

آیا پھگن تے شاخاں پُھٹیاں

بھنورے رقص کرن پھول ٹیہکن 

اتے بلبلاں موجاں لُٹیاں

وچھڑیاں کونجاں گھر نوں آئیاں 

جہڑیاں رزق بہانے پُھٹیاں

سردار مسافر سب گھر آ گئے 

تینوں کون نئیں دیندا چُھٹیاں؟



 نغمہ نگار آنند بخشی نے فلم " میرے ہمسفر" میں میں برہن کا سوز پیش کیا ہے جسے گلوکارہ لتا منگیشکر نے شاندار آہنگ دیا ہے۔


میرا پردیسی نہ آیا

سب کے من کے میت ملے ہیں

باغوں میں پھر پھول کھلے ہیں

میرا من مرجھایا

More Posts