The Monsoon rains are yearly rains in the region of Indo Pak Sub Continent. The normal time of such rains starts in mid July and it continues till September. These rains are known for various emotions in the region and Urdu language is rich with various type of poetic expressions. This write up is taking up the feelings of this climatic season.
بِسۡمِ ٱللهِ ٱلرَّحۡمَـٰنِ ٱلرَّحِيمِ
برکھا برسے رم جھم رم جھم
صبح ہوئی تو سورج نے خوب زور کا بھبکا ساکنان زمین کی طرف روانہ کیا؛ لو جی دن کا آغاز ہی گرمی کی لہر سے ہوا ہے اور حبس ہے کہ ابھی گھر سے باہر نکلا ہی تھا کہ قمیص گیلی ہوگئی جیسے میلوں بھاگ کر آیا ہو۔ یا اللہ خیر؛ ساون کا مہینہ ہے اور دور تک کوئی بارش کا نشان نہی۔ کیا آج کا دن بھی گرمی اور حبس کا سامنا کرنا ہوگا؟
اے مالک ساون کی برکھا بھیج جو برسے اور رحمت کی برسات ہو۔ ہر آدمی زیر لب دعاگو ہے؛ نگاہیں آسمان کی جانب ہیں کہ دیکھیں بادل کب ابھرتے ہیں؟
ایک گٹھا ایک جانب سے اٹھی اور پھر سارا آسمان ہی تیزی سے ڈھک گیا؛ ساتھ ساتھ ہوا بھی روان ہوگئی؛ اور آثار ایسے بنے کہ ہوائیں سائیں سائیں کرنے لگیں۔ اور پھر پہلا قطرہ گرا؛ پہلے قطرے کا ہی تو انتظار تھا؛ پھر کیا ہوا کہ ایک کے بعد ایک جھڑی بن گئی اور موٹی موٹی بوندیں برسنے لگیں۔
رم جھم رم جھم برکھا برس پڑی؛ اب آسمان کالے کالے بادلوں سے بھر گیا ہے؛ اور برسات جم کر برسے گی۔ اللہ تعالی کو اپنی مخلوق پر ترس آگیا۔ موسم خوشگوار ہوگیا۔ گرمی کے ستائے چہرے خوشی سے کھل اٹھے، بچے، بچیاں، منچلے نوجوان، بزرگ بارش مین نہانے نکل پڑے ہیں، سب ہی لطف اندوز ہو رہے ہیں۔ درخت، پودے، عمارات سب ہی دھل گئے ہیں؛ ہر شے پر حسن کو نکھار آگیا ہے۔ یہاں تک کہ چرند پرند کے چہرے بھی کھل اٹھے ہیں۔
بارش خالقِ کائنات کی رحمت ہوتی ہے مگر انسان نے اپنی کج فہمی سے اپنی بستاین ایسے بسائی ہیں کہ رحمت زحمت بن جاتی ہے۔ سڑکوں پر پانی تیز اور اونچا ہوجاتا ہے۔
بارش کا پانیں نشیبی علاقوں میں جمع ہوجاتا ہے اور شہریوں کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑجاتا ہے۔ شاہراہوں پر ٹریفک کی لمبی قطاریں بھی دیکھی جاتی ہیں؛ اور تو اور بارش ہوتے ہی متعدد علاقوں میں بجلی بھی غائب کردی جاتی ہے۔ برسات جو سنہری یادوں کو جنم دیتی ہیں؛ وہ تکلیف دہ بن جاتی ہیں۔ اور کبھ کبھی عمر پھر کا غم بھی دے جاتی ہیں۔ ساون کے مہینے کی یادیں؛ پرانی برساتیں، برکھا رت کی سوغاتیں خیالوں اور یاداشتوں میں دھومیں مچاتی ہیں۔
آئیے ذرا اردو ادب سے شاعروں کے کلام سے استفادہ کرتے ہیں کہ وہ ساون رت اور برسات کے مہینے کو کس طرح دیکھتے ہیں؟ سب سے پہلے معروف شاعرہ پروین شاکر کا شعر پیش ہے کہ
اب کون سے موسم سے کوئی آس لگائے
برسات میں بھی یاد نہ جب اُن کو ہم آئے
جناب ناصر کاظمی صاحب کا شعر بھی کیا خوب ہے کہ
پھر ساون رت کی پون چلی تم یاد آئے
پھر پتوں کی پازیب بجی تم یاد آئے
جناب حبیب جالب کا شعر ہے
حسیں پنگھٹوں کا وہ چاندی سا پانی
وہ برکھا کی رت وہ سماں چھوڑ آئے
جناب منیر نیازی صاحب کا اپنا ہی لہجہ ہے اور اپنا ہی انداز ہے
لائی ہے اب اُڑا کے گئے موسموں کی باس
برکھا کی رُت کا قہر ہے اور ہم ہیں دوستو
شاعر شہاب اشرف کا برسات سے متعلق کلام پیش خدمت ہے
رم جھم رم جھم برسے بادل
دل ہے کسی کی یاد سے جل تھل
بھیگی بھیگی لٹ جھٹکائے
رات کھڑی ہے باندھے پائل
کاہے مچائے شور پپیہے
تو بھی گھائل میں بھی گھائل
میرے آنسو بھی لے جانا
ان کے نگر جب جانا بادل
جیون اک بن باس ہو جیسے
کتنا گھنا ہے درد کا جنگل
ان سے ملے تھے دل بہلانے
ان سے مل کر دل ہے بیکل
تیری طرح یہ برکھا رت بھی
کتنی سلونی کتنی چنچل
پریت کرے اور پھر پچھتائے
دل سا نہ ہوگا کوئی پاگل
دنیا کی ہر چیز ہے فانی
تیرا گیت امر ہے کوئل
چاند اکیلا میں بھی اکیلا
رات ہے کتنی درد سے بوجھل
کوئی بھی منتر کام نہ آئے
ڈس لے اگر اس آنکھ کا کاجل
آج شہابؔ کو ہم نے دیکھا
عشق کا مارا حسن کا گھائل
فرحت عباس شاہ دور حاضر کے شاعر ہیں اور بہت مقبول ہیں۔ انکا کلام ساون رت سے متعلق آپکو یقینا" پسند آئے گا۔
بارشوں کے موسم میں
بارشوں کے موسم میں
زخم جو بھی لگ جائے
عُمر بھر نہیں سِلتا
وہ جو ایک دیوانہ
آتے جاتے راہی کو
راستوں میں ملتا تھا
اب کہیں نہیں مِلتا
اختر شیرانی کا گیت "بادل کا سندیسہ"۔
آئے ہیں بادل، چھائے ہیں بادل
کس کا سندیسہ لائے ہیں بادل؟
باغ میں کوئل کُوک اُٹھی پھر
دل میں ہمارے ہُوک اُٹھی پھر
کون نگر سے آئے ہیں بادل؟
کس کا سندیسہ لائے ہیں بادل؟
بِرہہ کو کیوں برباد کیا ہے؟
ہم کو یہ کِس نے یاد کیا ہے؟
یاد سی بنکر چھائے ہیں بادل
کِس کا سندیسہ لائے ہیں بادل
پی بِن ہے برسات اندھیری
چھا گئی من پر رات اندھیری
ایسے سمے کیوں آئے ہیں بادل
کس کا سندیسہ لائے ہیں بادل؟
اختر شیرانی اردو زبان کے معروف اور مشہور شاعر ہیں اور اپنا انداز رکھتے ہیں؛ ان کی نظم "ساون کی گھٹائیں"؛ پیش کی جاتی ہے۔
ساون کی گھٹائیں چھا گئی ہیں
برسات کی پریاں آ گئی ہیں
دِل دینے کی رُت آئی ہے
سینوں میں اُمنگ سمائی ہے
ارمانوں نے عید منائی ہے
اُمّیدیں جوانی پا گئی ہیں
کہیں سُنبل و گُل کی بہاریں ہیں
کہیں سرو و سمن کی قطاریں ہیں
کہیں سبزے نے رنگ نکالا ہے
کہیں کلیاں چھاؤنی چھا گئی ہیں
کہیں کوئل شور مچاتی ہے
کہیں بُلبُل نغمے گاتی ہے
کہیں مور ملہار سُناتے ہیں
گھنی بدلیاں دُھوم مچا گئی ہیں
شاعر گلزار کی برسات کے موسم پر ایک نظم
دیر تک بیٹھے ہوئے دونوں نے بارش دیکھی
وہ دکھاتی تھی مجھے بجلی کے تاروں پہ لٹکتی ہوئی بوندیں
جو تعاقب میں تھیں اِک دوسرے کے
اور اِک دوسرے کو چھوتے ہی تاروں سے ٹپک جاتی تھیں
مجھ کو یہ فکر کہ بجلی کا کرنٹ
چھو گیا ننگی کسی تار سے تو آگ کے لگ جانے کا باعث ہو گا
اس نے کاغذ کی کئی کشتیاں پانی پر اُتاریں
اور یہ کہہ کے بہادیں کہ سمندر میں ملیں گے
مجھ کو یہ فکر کہ اس بار بھی سیلاب کا پانی
کود کے اُترے گا کہسار سے جب
توڑ کے لے جائے گا یہ کچے کنارے
اوک میں بھر کے وہ برسات کا پانی
اَدھ بھری جھیلوں کو ترساتی رہی
اور بہت چھوٹی تھی، کمسن تھی، وہ معصوم بہت تھی
آبشاروں کے ترنم پہ قدم رکھتی تھی اور گونجتی تھی
اور میں عمر کے افکار میں گم
تجربے ہمراہ لئے
ساتھ ہی ساتھ میں بہتا ہوا، چلتا ہوا، بہتا گیا
آخر میں ایک گمنام شاعر کا کلام ؛ کہ کافی جان ہے اس میں
بارش ، بادل ، تم اور میں .
خوشبو ، موسم ، تم اور میں
کالے بادل ، رم جھم بارش ،
نیلا آنچل، تم اور میں
بہتی ندیاں ، گرتا پانی ،
آنکھیں ، آنْسُو، تم اور میں
پاس کسی دریا کے کوئی
بھیگا جھونپڑ، تم اور میں
دور کہیں کوئل کی کو کو ،
گہرا جنگل، تم اور میں
برکھا رم جھم گیت سنائیں ،
جھرمٹ ڈالیں ، تم اور میں
دور کہیں پر چھوٹا سا اک ،
کچا سا گھر، تم اور میں
کندھا تیرا اور سر میرا ،
پاگل سی چپ، تم اور میں۔۔
We will come with more on this special season of hearts.. Remain attached with Bangbox Online.