Al Quran is the final Holy Book revealed upon the Last of Prophets Hazrat Muhammad (PBUH). The Quran & Sunnah is the only source of holy guidance as it entails detailed instructions for each and every walk of human life. Here guidance from Quran & Sunnah for the followers of Islam ( امانت دار کو نصیحت اور غافل کو تنبیہ ) admonition to the faithful and a warning to the heedless; is discussed for better living from Quran and Hadith of Prophet ﷺ. This is an Urdu translation of an Arabic article written by Dr Ehsan Samara on FB.
بِسۡمِ ٱللهِ ٱلرَّحۡمَـٰنِ ٱلرَّحِيمِ
ایمان والے کو نصیحت اور غافل کو تنبیہ
ملت اسلامیہ طویل عرصے سے گہری نیند میں ڈوبی ہوئی ہے، اس کے بچوں کے دل سخت ہو چکے ہیں، ان کی سوچیں بگڑ چکی ہیں، ان کے خیالات اور احساسات متزلزل ہو چکے ہیں، ان کی روحیں مر چکی ہیں، ان کے جذبات مدہم ہو چکے ہیں، ان کی فکریں منتشر ہو چکی ہیں، اور بے حسی اور لاپرواہی ان کی فطری خصوصیت بن گئی ہے، وہ غیروں کی تہذیب و تمدن میں گم ہو چکے ہیں۔ جس سےعمومی طور پر زیادہ تر اور کچھ میں مکمل طور پر اہل ایمان والی شجاعت، بصیرت، ہمدردی، اور غیرت کمزور پڑ گئی ہے اور جس کے نیتیجے میں وہ خود بے بسی اور کمزوری کی حالت پر زندگی گذارنے پرمجبور ہیں۔ انہوں نے اپنے آپ کو حقیقت حال کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا ہے۔ اور دنیا کی بے ہودگی سے مطمئن ہو کر، اس حالت کے اثرات، خطرات اور نقصانات سے غافل ہو کر جو انکی دنیا اور آخرت میں ہیں؛ زندہ رہ رہے ہیں۔
اس لیے اس مضمون کی اہمیت ہے کہ شاید یہ ان لوگوں کے لیے یاددہانی ہو گی جو مسلمانوں کے معاملات میں امانت دار اور انصاف پسند لوگوں ہیں اور اس ضمن میں حائل پیچیدگیوں کے پرچارک ہیں اور السلام کی نشاۃ ثانیہ کی بنیاد کے لیے مستعد ہیں جو ان کی شان و شوکت کا راز ہوگا۔ لیکن یہ مضمون ان افراد کے لیے تنبیہ ہے جومغرب سے مرعوب ہیں اور اس کی ثقافت میں ڈوبے ہوئے ہیں، یا وہ جو اپنی الجھنوں میں ڈوبے ہوئے، ان کی طرف مائل ہیں۔ اور وہ بھی جو ہوا جدھر لیجائے، مڑجائیں، اور جو لوگ ہر آہٹ اور چیخ و پکار کی پیروی کرتے ہیں، یا جو دف کی ہر دھن اور تھاپ پر ناچتے ہیں، اور وہ منافق بھی ہیں، اور ان کی طرح کے کتنے طاغوت اور روایات کے زمانے میں تھے؟ یا ان ڈیماگوگس سے جو اپنی زندگی جبلت کے تقاضوں کے مطابق گزارتے ہیں اور جس کے وہ عادی اور مریض بن گئے ہیں۔
امید ہے کہ یہ مضموں ایک گونج ہوگا اور صدا بصحرا نہیں ہوگا؛ خصوصاً ان حالات میں کہ امت آقا محمدﷺ جن اشتعال انگیز واقعات سے گزر رہی ہے وہ ہر ایک کو اس مصیبت سے باہر نکلنے اور جس حالت میں آج ہم ہیں؛ اس سے نجات کا راستہ تلاش کرنے پر مجبور کر رہے ہیں، اس لیے ہمیں اس راستے کی یاد دہانی کرانی چاہیے اور اسلامی نقطہ نظر سے اس کے بارے میں روشنی ڈالتے رہنا چاہیے۔
اسلام سے پہلے بھی تمام دنیا کو احکام الٰہی کی تعلیم دی گئی تھی۔ کیونکہ اس سے قبل بھی جنگل کا قانون غالب تھا، ظلم کے اثرات ظاہر تھے، اور طرح طرح کی ناانصافی جاری تھی، اور زمین کے کونے کونے میں کفر کا غلبہ تھا، اور باطل پھیل چکا تھا، اور فساد، خونریزی، ملکوں کی تباہی اور لوگوں کی بربادی ایک مستقل عادت اور قائم شدہ فطرت تھی۔ ان حالات میں اللہ سبحان تعای نے انسانیت کو بالعموم اور عربوں کو بالخصوص اسلام سے نوازا تھا۔
دینِ حق اور صراطِ مستقیم کا مقصد تھا کہ زمانے میں منصفانہ قوانین اور مثالی اور صالح پالیسیوں کے ساتھ ایک معاشرہ قائم ہو؛ جس میں عدل کا حصول آسان ہو، ناانصافی اور ظلم کی روک تھام ہو، اور ہر زمانے اور ہر جگہ پر خواہشات اور ظالموں کی پیروی میں لوگوں کو شامل ہونے سے روگا جائے جس سے مستقل خوشی اور مصائب سے پاک ایک اچھی زندگی فراہم کر کے لوگوں کو خوش رکھنا مقصود و محصول ہو۔
آج کل کی زندگی کیا ہے؟ جیسا کہ وہ کہتے ہیں. جہاں کفر پھیل گیا ہے، فساد پھیل گیا ہے، ظلم پھیل چکا ہے، اور زمین پر متکبر لوگوں اور ان کے کارندوں نے لوگوں کے ذہنوں کو مسخر کر رکھا ہے، اور انہوں نے فساد اور فتنہ کو عادت بنا لیا ہے، اور خونریزی اور باطل کی کفالت اور حمایت ایک قائم شدہ فطرت ہے، اور نیکی سے دشمنی اور اللہ کے الہامی اصولوں اور ہدایات کی قدر و منزلت کو بے توقیر کرنا ہے اور یہی آج کے طاغوت کی پالیسی اور اصولوں کی اصلیت ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے معزز صحابہ اکرام رضی اللہ عنہا نے اپنے ایمان کی طاقت اور اپنے عزم کی روشنی کے ساتھ پوری سنجیدگی اور خلوص کے ساتھ اسی طاغوت کا مقابلہ کیا تھا؛ یہاں تک کہ اسلام ایک ریاست اور دین بن گیا جس میں اسلام اور اس کے ماننے والے قابل احترام ہوگئے۔ اسلام کی طاقت اور ناقابل تسخیر ہونے سے کفر اور اس کے لوگ ذلیل و خوار ہوئے۔
اور آج ملتِ آقا محمدﷺ اور ان کی دنیا کے معاملات درست نہیں ہو سکتے سوائے اس کے کہ جس پر اسلام قائم ہوا اور جس سے اس کا آغاز ہوا، یعنی اس میں اسلام بطور دین اور مذہبیت کے علاوہ جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں تھا، اور ان کی زندگیوں کو دین اسلام کے طور پر قبول کرنا اور ان کی زندگی کے نقطہ نطر کو عزت و احترام کے ساتھ قبول کرنا ہوگا۔
اسلام ایک پادری مذہب یا پاپائیت نہیں ہے یعنی مذہبی جنونیت نہیں ہے؛ یعنی اسے ایک سیاسی نظریے کے طور پر اپنانا ہوگا؛ اس کے دیے ہوئے قانون اور طریقہ کار کے ساتھ ساری زندگی میں اس کی پوری طرح نمائندگی کرنا ہوگی؛ اور خداتعالیٰ کے حکم کے جواب میں اسے طرز زندگی اور طرزِ عمل سے ہم آہنگ کرنا ہوگا جیسا کہ قرآن مں آیا ہے:-
اے ایمان والو! اللہ اور اس کے رسول کی بارگاہ میں حاضر ہوجاؤ جب وہ تمہیں اس چیز کے لئے بلائیں جو تمہیں زندگی دیتی ہے اور جان لو کہ اللہ کا حکم آدمی اور اس کے دل کے درمیان حائل ہوجا تا ہے اور یہ کہ اسی کی طرف تمہیں اٹھایا جائے گا۔
اور اس فتنے سے ڈرتے رہو جو ہرگز تم میں خاص ظالموں کو ہی نہیں پہنچے گا اور جان لو کہ اللہ سخت سزا دینے والا ہے۔
سورۃ الأنفال: (24-25)
یہ اسلام کی اعلیٰ صلاحیتوں کی وجہ سے ہے کہ اسلام بطور دین روحوں کو زندہ کرتا ہے اور قوموں اور افرد کو انحطاط، زوال، تباہی اور نابود ہونے کے عوامل سے محفوظ رکھتا ہے؛ اور اللہ تعالیٰ نے یہ فرمایا ہےکہ:-۔
بھلا وہ شخص جو مردہ تھا پھر ہم نے اسے زندہ کر دیا اور ہم نے اسے روشنی دی کہ اسے لوگوں میں لیے پھرتا ہے وہ اس شخص کے برابر ہو سکتا ہے جو اندھیروں میں پڑا ہو وہاں سے نکل بھی نہیں سکتا، اسی طرح کافروں کی نظر میں ان کے کام آراستہ کر دیے گئے ہیں۔ سورۃ الانعام : (122)
یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے امت آقا محمدﷺ کی اسلام سے وابستگی اور اس پر عمل پیرا ہونے کو زمین پر اس کی حاکمیت اور اس کی جانشینی سے جوڑا ہے:-۔
اللہ نے ان لوگوں سے وعدہ کیا ہے جو تم میں سے ایمان لائے اور نیک عمل کیے کہ انہیں ضرور ملک کی حکومت عطا کرے گا جیسا کہ ان سے پہلوں کو عطا کی تھی، اور ان کے لیے جس دین کو پسند کیا ہے اسے ضرور مستحکم کر دے گا اور البتہ ان کے خوف کو امن سے بدل دے گا، بشرطیکہ میری عبادت کرتے رہیں اور میرے ساتھ کسی کو شریک نہ کریں، اور جو اس کے بعد ناشکری کرے وہی فاسق ہوں گے۔ سورۃ النور: (55)
اسی طرح اللہ تعالیٰ نے قوموں کی تباہی کو ان کے معدوم ہونے اور بدلنے سے جوڑ دیا۔ اور اس نے اس کے فساد، کفر اور اس کی پیروی کی دھوکہ دہی کے راستوں اور سب سے بڑے مجرموں کے حکم کی وضاحت کی، زمین پر ظالموں اور متکبر لوگوں سے اور ہر وہ ظالم جو زمین پر سربلندی اور تکبر چاہتا ہے، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
سو ان جماعتوں میں ایسے لوگ کیوں نہ ہوئے جو تم سے پہلے تھیں جو ملک میں فساد پھیلانے سے منع کرتے بجز چند آدمیوں کے جنہیں ہم نے ان میں سے بچا لیا تھا، اور جن لوگوں نے نافرمانی کی تھی وہ تو انہیں لذتوں کے پیچھے پڑے رہے جو ان کو دی گئی تھیں اور وہ مجرم تھے۔
اور تیرا رب ہرگز ایسا نہیں جو بستیوں کو زبردستی ہلاک کر دے اور وہاں کے لوگ نیک ہوں۔
سورۃ هود (116-117)
اللہ سبحان تعالی نے مزید فرمایا ہے
پھر جب وہ بھول گئے اس چیز کو جو انہیں سمجھائی گئی تھی تو ہم نے انہیں نجات دی جو برے کام سے منع کرتے تھے، اور ظالموں کو ان کی نافرمانی کے باعث برے عذاب میں پکڑا۔ سورۃ الاعراف : (165)
مندرجہ بالا کی تعمیل میں امت آقا محمدﷺ اور خاص طور پر سائنسی، سیاسی، میڈیا، اقتصادی اور فوجی اشرافیہ کو؛ اللہ کی ہدایت سے روگردانی اور سیکولر مادیت پرستی کے فلسفوں، ان کی کرپٹ اقدار، ان کی غیر منصفانہ پالیسیوں، اور ان کی غلط فکری گمراہی سے واقفیت کی اپنی حالت کو بدلنا ہوگا جو کہ انسانی فطرت کے خلاف عمل پذیر ہیں۔ اور زمین پر فساد پھیلانے، فصلوں اور اولادوں کو تباہ کرنے اور ان کی زندگی کے دھارے اور زندگی کی سمت کو بدلنے کی تحریک، اس لیے وہ اپنے ہوش و حواس میں لوٹتے ہیں اور راستی کو اپنا راستہ سمجھتے ہیں، اس کے جواب میں اپنے اور اپنی قوم کے لیے بھلائی چاہتے ہیں۔ جیسا کہ قرآن میں ہے کہ
اے اہل کتاب! تحقیق تمہارے پاس ہمارا رسول آیا ہے جو بہت سی چیزیں تم پر ظاہر کرتا ہے جنہیں تم کتاب میں سے چھپاتے تھے اور بہت سی چیزوں سے درگزر کرتا ہے، بے شک تمہارے پاس اللہ کی طرف سے روشنی اور واضح کتاب آئی ہے۔
اللہ سلامتی کی راہیں دکھاتا ہے اسے جو اس کی رضا کا تابع ہو، اور ایسے لوگوں کو اپنے حکم سے اندھیروں سے روشنی کی طرف نکالتا ہے، اور انہیں سیدھی راہ پر چلاتا ہے۔ سورۃ المائدۃ :(15-16)
اس لیے سب سے ضروری ہے کہ ہم نبوت آقا محمدﷺ کے طریقے پر اپنی اسلامی زندگی کو صحیح طریقے سے شروع کرنے کے لیے متحد ہو جائیں، لیکن بہت سے ایسے ہیں؛ جو اس سے باز نہیں آتے؛ بلکہ جس کی سیکولر مغربی استعماری قوتیں سازشیں کر رہی ہیں، جن کی قیادت امریکہ اور دیگر طاغوتی کر رہے ہیں اور جو بڑے مجرم زمین کو خراب کر رہے ہیں، اور ایسے لوگ ہیں جو ان کی پیروی کرتے ہیں اور ان کے احکامات کی پیروی کرتے ہیں اور اسلام کے بارے میں مذہبی اور عام تصورات کو بگاڑتے ہیں۔
دین میں استحکام لانے کے بہانے مسلمانوں کو اس سے دور لیجانا، اسلام کے خلاف ہونا اور اسلام والوں کی مخالفت کرنا، اور اسلام کے خلاف عالمی سطح پر متحرک کرنا اور لوگوں کو اس سے ڈرانا، حیلے بہانے اور من گھڑت واقعات کو گھڑنا، اور ایسے فکری اور سیاسی نمونے تیار کرنا جو اسلام اور مسلمانوں کے لیے نفرت انگیز اور توہین آمیز ہوں، کیا اسلام کی خدمت ہے؟
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اور ان کے صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم نے، کفار کی مخالفت کی اور انہیں کمزور کیا لیکن اس کے لیے ان کی شان میں گستاخی نہ کی۔ مگر کفار کے فتنہ و فساد اور دین الٰہی کے بارے میں ان کی فضول گفتگو کی وجہ سے نیکی کی دعوت دینے سی نہیں رکے۔ اس دور میں بھی مرتدوں نے دعوے کئے؛ انبیاء ہونے کا دعویٰ کرنے والوں اور آقا محمدﷺ کے لیے جو دیگر سازشیں اور جال بچھائے گئے تھے، مگر کچھ بھی، آقا محمدﷺ کو، ان کے ارادے اور اپنے مقصد کے حصول سے نہیں ہٹاسکا تھا۔ بلکہ وہ حق اور راستی کی راہ پر چلتے رہے، بصیرت کے ساتھ اللہ کی طرف بلاتے رہے؛ اللہ کی فتح پر یقین رکھتے رہے؛ حق کا اعلان کرتے رہے؛ کافروں سے منہ موڑتے رہے؛ اور حق پر الزام لگانے والے کے عیب جوئی سے نہ ڈرتے رہے۔ چنانچہ آقا محمدﷺ اور ان کے اصحاب ایسے ہی تھے جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن میں ان کے بارے میں بیان کیا:-۔
جن لوگوں نے اللہ اور اس کے رسول کا حکم مانا بعد اس کے کہ انہیں زخم پہنچ چکے تھے، جو ان میں سے نیک ہیں اور پرہیزگار ہوئے ان کے لیے بڑا اجر ہے۔
جنہیں لوگوں نے کہا کہ مکہ والوں نے تمہارے مقابلے کے لیے سامان جمع کیا ہے سو تم ان سے ڈرو تو ان کا ایمان اور زیادہ ہوا، اور کہا کہ ہمیں اللہ کافی ہے اور وہ بہترین کارساز ہے۔
پھر مسلمان اللہ کی نعمت اور فضل کے ساتھ لوٹ آئے انہیں کوئی تکلیف نہ پہنچی اور اللہ کی مرضی کے تابع ہوئے، اور اللہ بڑے فضل والا ہے۔
سورۃ آل عمران: 172-174
نتیجہ ہمیشہ نیک لوگوں کی فتح اور طاقت پر منتج ہوتا ہے، اور اللہ تعالی ظالموں اور کافروں کی چالوں کو کمزور کر دیتا ہے اور ان کو چھوڑ دیتا ہے اور ذلیل کر دیتا ہے، چاہے ان کا درجہ کتنا ہی بلند ہو۔ جس پر اللہ کا غضب اور لعنت ہو، وہ کچھ عرصہ بعد ہی چھوڑ دیا جائے گا، شکست خوردہ، ذلیل اور رسوا ہو گا۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ
ہم اپنے رسولوں اور ایمانداروں کے دنیا کی زندگی میں بھی مددگار ہیں اور اس دن جب کہ گواہ کھڑے ہوں گے۔ سورۃ المؤمن (غافر) 51
یہ تو ہو چکا اور بے شک اللہ کافروں کی تدبیر کو کمزور کرنے والا ہے۔ سورۃ الانفال 18
اور اللہ جل جلالہ و شانہ نے فرمایا ہے کہ
" ۔۔۔۔۔۔ اور اللہ اپنا کام جیت کر رہتا ہے لیکن اکثر لوگ نہیں جانتے"۔ سورۃ یوسف 21
اور آخر میں قرآن الحکیم کی سورۃ المائدۃ کی آیات 51-56 پیش کی جاتی ہیں؛ جو ہدایت یافتہ لوگوں کے لیے خوشخبری اور گمراہوں کے لیے تنبیہ ہے۔
پھر ظالم، وہ لوگ جن کے دلوں میں بیماری ہے اور کفار کے وفادار ایجنٹ جب پچھتاوے کا کوئی فائدہ نہ ہوگا تو پچھتاوے کی انگلیاں کاٹیں گے اور وہ اپنے انجام کو پہنچیں گے اور اپنے معاملات کی برائی کا مزہ چکھیں گے۔
اے ایمان والو! یہود اور نصاریٰ کو دوست نہ بناؤ وہ آپس میں ایک دوسرے کے دوست ہیں، اور جو کوئی تم میں سے ان کے ساتھ دوستی کرے تو وہ انہیں سے ہے، اللہ ظالموں کو ہدایت نہیں کرتا۔
پھر تو ان لوگوں کو دیکھے گا جن کے دلوں میں بیماری ہے کہ ان (مخالفین) میں دوڑ کر جا ملتے ہیں یہ کہتے ہوئے کہ ہمیں ڈر ہے کہ ہم پر زمانے کی گردش نہ آ جائے، سو قریب ہے کہ اللہ جلدی فتح ظاہر فرما دے یا کوئی اور حکم اپنے ہاں سے ظاہر کرے پھر یہ اپنے دل کی چھپی ہوئی بات پر شرمندہ ہوں گے۔
اور مسلمان کہتے ہیں کہ کیا یہ وہی لوگ ہیں جو اللہ کے نام کی پکی قسمیں کھاتے تھے کہ ہم تمہارے ساتھ ہیں، ان کے اعمال برباد ہو گئے پھر وہ نقصان اٹھانے والے ہو گئے۔
اے ایمان والو! جو کوئی تم میں سے اپنے دین سے پھر جائے گا تو عنقریب اللہ ایسی قوم کو لائے گا کہ جن کو اللہ چاہتا ہے اور وہ اس کو چاہتے ہیں، مسلمانوں پر نرم دل ہوں گے اور کافروں پر زبردست، اللہ کی راہ میں لڑیں گے اور کسی کی ملامت سے نہیں ڈریں گے، یہ اللہ کا فضل ہے جسے چاہے دیتا ہے، اور اللہ کشائش والا جاننے والا ہے۔
تمہارا دوست تو اللہ ہے اور اس کا رسول ہے اور ایمان دار لوگ ہیں جو نماز قائم کرتے ہیں اور زکوٰۃ دیتے ہیں اور وہ عاجزی کرنے والے ہیں۔
اور جو شخص اللہ اور اس کے رسول اور ایمان داروں کو دوست رکھے تو (مطمئن رہے کہ) اللہ کی جو جماعت ہے وہی غالب ہونے والی ہے۔
صدق الله العظيم۔ اللہ سبحان تعای کا فرمان ہی سچا ہوگا؛ ان شاء اللہ
اصل عربی از قلم داکتر إحسان سمارة ۔۔۔ ترجمہ شدہ
لقد طال الأمد على الأمة الإسلامية وهي تغط في سبات عميق، فقست قلوب أبنائها، وفسد تفكيرهم، واضطربت أفكارهم ومشاعرهم، وماتت نفوسهم، وتبلدت أحاسيسهم، وفترت همهم، وغدت اللامباﻻة والاستهتار سمة ملازمة لهم، إلى الحد الذي أفقدهم الثقة بأنفسهم وبدينهم، وبتراثهم الفكري والثقافي الإسلامي جملة وتفصيلا؛ مما أضعف فيهم المروءة والنخوة والنجدة وعزة المؤمنين، واستكانوا للعجز والوهن،
واستسلوا للواقع راضين بلعاعةٍ من الدنيا، غافلين عن تداعيات ومخاطر وأضرار هذه الحالة التي هم عليها في الدنيا والآخرة، ومن هنا تأتي أهمية هذه المقالة لعلها تكون تذكرة للمهتمين بأمر المسلمين من الثقاة العدول، وتبصرة للغافلين عن معقد عزهم وحفظ كرامتهم وأساس نهضتهم وسر مجدهم وقوتهم، سواء المفتونين بالغرب والمضبوعين بثقافته، أم السادرين في غيهم من الإمّعات، المائلين مع الريح حيث مالت، والتابعين لكل ناعق وزاعق، الراقصين عل كل نغمة أو نقرة دف من المنافقين، وما أكثرهم في زمن التُحُوتِ والرويبضات،
أو من الدهماء السائرين في حياتهم بحسب مقتضيات الغرائز وما ألِفوه واعتادوا عليه. آملًا أن يكون لذلك صدى وتجاوبًا، سيما وأن ما تمر به الأمة من أحداث مُستَفزة باعثة للجميع على الخروج من المأزق والبحث عن سبيلٍ ينقذون به مما هم فيه، فَنُذَكّر بهذا السبيل ونبصرهم به في المنظور الإسلامي، حيث إن العالم بأسره قبل الإسلام كانت الشرائع الإلهية فيه مندرسة،
وشريعة ألغاب متحكمة، وكانت آثار الظلم بادية، وصنوف الجور باقية، والكفر سائدا في مناحي الأرض، والباطل له صولة وجولة، والفساد وسفك الدماء وتخريب البلاد وإهلاك العباد عادة دائمة وطبيعة راسخة،
حتى مَنّ الله على البشرية عامة والعرب خاصة بالإسلام؛ الدين القويم والصراط المستقيم، بسننه العادلة وسياساته المثلى الفاضلة الهادفة لتحقيق العدل ومنع العسف والجور وإسعاد الإنسان بتوفير الحياة الطيبة الخالية من ألوان التعاسة والشقاء الملازمة لاتّباع الأهواء والطواغيت في كل زمان ومكان.
وما أشبه اليوم بالبارحة كما يقال؛ حيث اطبق الكفر وعم الفساد واستشرى الظلم واستخف المستكبرون في الأرض وعملائهم بالعقول واستهتروا بالشعوب فاتخذوا الفساد والإفساد عادة، وسفك الدماء ورعاية الباطل ومساندته طبيعة راسخة، ومعادات الخير ومصادره الإلهية واﻻستعداء على الدين ومفاهيمه وقيمه سياسة ثابتة، فتصدى النبي صلى الله عليه وسلم وصحابته الكرام لذلك بقوة إيمانهم ومضاء عزيمتهم، بكل جدية وإخلاص، حتى أصبح للإسلام دارًا ودولة يعز فيها الإسلام وأهله،
ويذل بقوتها ومنعتها الكفر وأهله، وﻻ يصلح أمر هذه الأمة والعالم اليوم إلّا على ما صلح عليه وبه أول أمرها، أي إلّا بالإسلام والتدين به على النحو الذي كان في حياة النبي صلى الله عليه وسلم وحياة الصحابة الكرام رضوان الله عليهم، وذلك باتخاذ الإسلام دينا حياتيا، ومنهاجا إيديولوجيا، وليس دينا كهنوتيا؛
أي اتخاذه عقيدة سياسية، لتمثله تمثلا كاملا في الحياة والتوجه في الحياة بشرعته ومنهاجه والاصطباغ به في طراز الحياة وأنماط السلوك استجابة لأمر الله تعالى:
(يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آَمَنُوا اسْتَجِيبُوا لِلَّهِ وَلِلرَّسُولِ إِذَا دَعَاكُمْ لِمَا يُحْيِيكُمْ وَاعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ يَحُولُ بَيْنَ الْمَرْءِ وَقَلْبِهِ وَأَنَّهُ إِلَيْهِ تُحْشَرُونَ وَاتَّقُوا فِتْنَةً لَا تُصِيبَنَّ الَّذِينَ ظَلَمُوا مِنْكُمْ خَاصَّةً وَاعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ شَدِيدُ الْعِقَابِ) الأنفال: (24-25).
وذلك لما في الإسلام من قدرة فائقة على بعث الحيوية في النفوس وتحصين الشعوب والأمم من عوامل التفسخ والانحلال والذوبان والتلاشي والإشراف على الفناء والاندثار والهلاك، قال سبحانه: (أَوَمَنْ كَانَ مَيْتًا فَأَحْيَيْنَاهُ وَجَعَلْنَا لَهُ نُورًا يَمْشِي بِهِ فِي النَّاسِ كَمَنْ مَثَلُهُ فِي الظُّلُمَاتِ لَيْسَ بِخَارِجٍ مِنْهَا كَذَلِكَ زُيِّنَ لِلْكَافِرِينَ مَا كَانُوا يَعْمَلُونَ) الأنعام: (122).
ولهذا ربط الله سبحانه بين التزام الأمة بالإسلام واستقامتها عليه وبين تمكينها في الأرض واستخلافها في قوله: (وَعَدَ اللَّهُ الَّذِينَ آَمَنُوا مِنْكُمْ وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ لَيَسْتَخْلِفَنَّهُمْ فِي الْأَرْضِ كَمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِينَ مِنْ قَبْلِهِمْ وَلَيُمَكِّنَنَّ لَهُمْ دِينَهُمُ الَّذِي ارْتَضَى لَهُمْ وَلَيُبَدِّلَنَّهُمْ مِنْ بَعْدِ خَوْفِهِمْ أَمْنًا يَعْبُدُونَنِي لَا يُشْرِكُونَ بِي شَيْئًا وَمَنْ كَفَرَ بَعْدَ ذَلِكَ فَأُولَئِكَ هُمُ الْفَاسِقُونَ) النور: (55).
وكذلك ربط الله سبحانه بين هلاك الأمم وزوالها واستبدالها؛ وبين فسادها وكفرها واتباعها سبل الغواية وأوامر أكابر المجرمين من الطواغيت والمستكبرين في الأرض وكل جبار يريد العلو والاستكبار في الأرض، حيث قال سبحانه: (فَلَوْلَا كَانَ مِنَ الْقُرُونِ مِنْ قَبْلِكُمْ أُولُو بَقِيَّةٍ يَنْهَوْنَ عَنِ الْفَسَادِ فِي الْأَرْضِ إِلَّا قَلِيلًا مِمَّنْ أَنْجَيْنَا مِنْهُمْ وَاتَّبَعَ الَّذِينَ ظَلَمُوا مَا أُتْرِفُوا فِيهِ وَكَانُوا مُجْرِمِينَ وَمَا كَانَ رَبُّكَ لِيُهْلِكَ الْقُرَى بِظُلْمٍ وَأَهْلُهَا مُصْلِحُونَ) هود: (116-117)؛
وقال سبحانه: (فَلَمَّا نَسُوا مَا ذُكِّرُوا بِهِ أَنْجَيْنَا الَّذِينَ يَنْهَوْنَ عَنِ السُّوءِ وَأَخَذْنَا الَّذِينَ ظَلَمُوا بِعَذَابٍ بَئِيسٍ بِمَا كَانُوا يَفْسُقُونَ) الأعراف: (165).
وطوعًا لما سلف يتوجب على الأمة خاصة النخب العلمية والسياسية والإعلامية والاقتصادية والعسكرية، أن يُغَيّروا ما هم عليه من الإعراض عن هدى الله، والتماهي في الفلسفات المادية العلمانية وقيمها الفاسدة، وسياساتها الجائرة، وضلاﻻتها الفكرية الباطلة غير المقنعة للعقل والمتناقضة مع فطرة الإنسان السوي،
والدافعة للإفساد في الأرض، وإهلاك الحرث والنسل، ويغيروا مسار حياتهم ووجهتهم في الحياة، فيعودوا إلى رشدهم ويتخذوا سبيل الرشد لهم سبيلا، ناشدين بذلك الخير لأنفسهم وأمتهم استجابة
لقوله سبحانه: (...قَدْ جَاءَكُمْ مِنَ اللَّهِ نُورٌ وَكِتَابٌ مُبِينٌ يَهْدِي بِهِ اللَّهُ مَنِ اتَّبَعَ رِضْوَانَهُ سُبُلَ السَّلَامِ وَيُخْرِجُهُمْ مِنَ الظُّلُمَاتِ إِلَى النُّورِ بِإِذْنِهِ وَيَهْدِيهِمْ إِلَى صِرَاطٍ مُسْتَقِيمٍ) المائدة: (15-16).
وذلك يقتضي منهم جميعًا أن تتظافر جهودهم لاستئناف حياتهم الإسلامية في خلافة راشدة على منهاج النبوة، وﻻ يثنيهم عن ذلك ما تقوم به الأجهزة الاستعمارية الغربية العلمانية، بقيادة أمريكا ومن يتبعهم ويسير بأوامرهم من الطواغيت وأكابر المجرمين المفسدين في الأرض، من شيطنة المسلمين المتدينين، وتشويه صورة الإسلام بشكل عام، وبلبلة الأفكار حول الإسلام السياسي واللغو فيه،
وصرف المسلمين عنه واستعدائهم عليه، والتعبئة العالمية ضده وتخويفهم منه، باختلاق الذرائع واصطناع الأحداث التي تخدم أغراضهم، وتجنيد العملاء لعمل نماذج فكرية وسياسية منفرة ومسيئة للإسلام والمسلمين، فالنبي صلى الله عليه وسلم وصحبه الكرام لم يوهن من عزيتهم ولم يثنهم عن الصدع بدعوة الخير شغب الكفار ولغوهم في دين الله، ولم يلفتهم عن قصدهم وتحقيق غايتهم دعاوى المرتدين ومُدَّعي النبوة وغيرها من المكائد والشراك التي نصبت لهم؛
بل مضوا في سبيل الرشد يدعون إلى الله على بصيرة وهم واثقون بنصر الله صادعين بالحق معرضين عن الكافرين ﻻ يخشون في الحق لومة ﻻئم، فكانوا كما وصفهم الله سبحانه:
(الَّذِينَ اسْتَجَابُوا لِلَّهِ وَالرَّسُولِ مِنْ بَعْدِ مَا أَصَابَهُمُ الْقَرْحُ لِلَّذِينَ أَحْسَنُوا مِنْهُمْ وَاتَّقَوْا أَجْرٌ عَظِيمٌ الَّذِينَ قَالَ لَهُمُ النَّاسُ إِنَّ النَّاسَ قَدْ جَمَعُوا لَكُمْ فَاخْشَوْهُمْ فَزَادَهُمْ إِيمَانًا وَقَالُوا حَسْبُنَا اللَّهُ وَنِعْمَ الْوَكِيلُ فَانْقَلَبُوا بِنِعْمَةٍ مِنَ اللَّهِ وَفَضْلٍ لَمْ يَمْسَسْهُمْ سُوءٌ وَاتَّبَعُوا رِضْوَانَ اللَّهِ وَاللَّهُ ذُو فَضْلٍ عَظِيمٍ)
آل عمران: (172-174).
فالعاقبة دوما والنصر والتمكين للمتقين، والله موهن كيد الطغاة والكافرين وخاذلهم ومخزيهم مهما علا شأنهم، فمن غضب الله عليه ولعنه لن يكون إلّا مخذوﻻً مدحورًا ذليلًا مهانًا ولو بعد حين. قال سبحانه:
(إِنَّا لَنَنْصُرُ رُسُلَنَا وَالَّذِينَ آَمَنُوا فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَيَوْمَ يَقُومُ الْأَشْهَادُ) غافر: (51)؛ وقال سبحانه: (ذَلِكُمْ وَأَنَّ اللَّهَ مُوهِنُ كَيْدِ الْكَافِرِينَ) الأنفال: (18)؛
وقوله سبحانه: (... وَاللَّهُ غَالِبٌ عَلَى أَمْرِهِ وَلَكِنَّ أَكْثَرَ النَّاسِ لَا يَعْلَمُونَ) يوسف: (21).
وحينئذٍ يعض الظالمون والذين في قلوبهم مرض والعملاء الموالين للكفار أصابع الندم حين ﻻ ينفع الندم، فيلاقوا مصيرهم ويذوقوا وبال أمرهم.
قال سبحانه: (فَتَرَى الَّذِينَ فِي قُلُوبِهِمْ مَرَضٌ يُسَارِعُونَ فِيهِمْ يَقُولُونَ نَخْشَى أَنْ تُصِيبَنَا دَائِرَةٌ فَعَسَى اللَّهُ أَنْ يَأْتِيَ بِالْفَتْحِ أَوْ أَمْرٍ مِنْ عِنْدِهِ فَيُصْبِحُوا عَلَى مَا أَسَرُّوا فِي أَنْفُسِهِمْ نَادِمِينَ وَيَقُولُ الَّذِينَ آَمَنُوا أَهَؤُلَاءِ الَّذِينَ أَقْسَمُوا بِاللَّهِ جَهْدَ أَيْمَانِهِمْ إِنَّهُمْ لَمَعَكُمْ حَبِطَتْ أَعْمَالُهُمْ فَأَصْبَحُوا خَاسِرِينَ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آَمَنُوا مَنْ يَرْتَدَّ مِنْكُمْ عَنْ دِينِهِ فَسَوْفَ يَأْتِي اللَّهُ بِقَوْمٍ يُحِبُّهُمْ وَيُحِبُّونَهُ أَذِلَّةٍ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ أَعِزَّةٍ عَلَى الْكَافِرِينَ يُجَاهِدُونَ فِي سَبِيلِ اللَّهِ وَلَا يَخَافُونَ لَوْمَةَ لَائِمٍ ذَلِكَ فَضْلُ اللَّهِ يُؤْتِيهِ مَنْ يَشَاءُ وَاللَّهُ وَاسِعٌ عَلِيمٌ إِنَّمَا وَلِيُّكُمُ اللَّهُ وَرَسُولُهُ وَالَّذِينَ آَمَنُوا الَّذِينَ يُقِيمُونَ الصَّلَاةَ وَيُؤْتُونَ الزَّكَاةَ وَهُمْ رَاكِعُونَ وَمَنْ يَتَوَلَّ اللَّهَ وَرَسُولَهُ وَالَّذِينَ آَمَنُوا فَإِنَّ حِزْبَ اللَّهِ هُمُ الْغَالِبُونَ) المائدة: (51-56)
صدق الله العظيم.
د. إحسان سمارة
01 ربيع الآخر 1437 ه – 11/01/2016 م