ایک اور 16 دسمبر کا سورج ڈوب گیا؛ اور کتنے سورج ڈوبیں گے؟
سانحہ مشرقی پاکستان ہو یا سانحہ پشاور؛ قتل پاکستان کے مستقبل کا ہوا۔ پاکستان کا مستقبل یہ ہے کہ ایک اسلامی فلاحی ریاست قائم ہو جہاں اس کے تمام باشندے؛ تمام شہری اپنی زندگی اسلام کے زندہ و جاوید تعلیمات کے تحت بسر کرسکیں۔ اور سب اپنی زندگیوں میں اپنے خالقِ حقیقی کو راضی کرنے کی جستجو میں مگن ہوں۔ لیکن ایسا ہوا نہیں ہے؛ بلکہ ہر گزرتے دن ہم اپنی منزل سے دور ہی جارہے ہیں؛ ایسا کب تک جاری رہے گا؟
2024-12-17 19:46:23 - Muhammad Asif Raza
بِسۡمِ ٱللهِ ٱلرَّحۡمَـٰنِ ٱلرَّحِيمِ
ایک اور 16 دسمبر کا سورج ڈوب گیا؛ اور کتنے سورج ڈوبیں گے؟
ہندوستان میں مغل بادشاہ اورنگزیب عالمگیر کی وفات کے بعد کمزور ہوتی مسلم حکمرانی کو جانچ کر مشہورعالم دین شاہ ولی اللہ (1662-1703 ) نے برصغیر میں تحریک احیاء اسلام کی بنیاد رکھی . انیسویں اور بیسویں صدی میں معاشرتی اور مذہبی اصالحات کی تمام تحریکوں کا مخرج شاہ ولی اللہ کی تحریک ہے ۔ ان کے جانشینوں نے ان کی تعلیمات سے متاثر ہوکر سید احمد شہید بریلوی (1786-1831 )کی سربراہی میں ہندوستان کے شمال مغرب میں ا یک چھوٹی سی اسلامی ریاست کے قیام کی بھی کوشش کی ۔
لیکن سن 1857 عیسوی کو ہندوستان میں مسلم حکرانی کا سورج ڈوب گیا؛ لال قلعہ پر مغل شہنشاہ کا جھنڈا سرنگوں ہوا اور تاجِ برطانیہ کا جھنڈا لہرایا گیا۔
سو سالہ تاجِ برطانیہ کی حکمرانی میں برطانوی بحری قزاقوں نے بربریت کی مثالیں قائم کیں؛ مقامی غلام ہمرکاب تھے
سنہ 1940 کی قرارداد لاہور، جسے پاکستان کی قرارداد بھی کہا جاتا ہے، ایک یادگار سیاسی اعلان تھا جس نے جنوبی ایشیا کی تاریخ کی نئی تشریح کی۔ لاہور کے منٹو پارک میں 22 سے 24 مارچ 1940 تک آل انڈیا مسلم لیگ کے تین روزہ جنرل سیشن کے دوران پیش کی گئی اس قرارداد میں برطانوی ہند کے شمال مغربی اور مشرقی علاقوں میں مسلمانوں کے لیے آزاد ریاستوں کے قیام کا مطالبہ کیا گیا۔ یہ تجویز برٹش انڈیا میں مسلمانوں کے لیے ایک اہم موڑ تھی، کیونکہ اس نے 1947 میں پاکستان کے قیام کے لیے بنیادی اصول قائم کیے تھے۔
قرارداد لاہور کا پس منظر 20ویں صدی کے اوائل میں برطانوی ہند کے پیچیدہ سماجی و سیاسی ماحول میں ہے۔ جیسے جیسے ہندوستان کی آزادی کی تحریک زور پکڑتی گئی، مسلمانوں میں یہ احساس بڑھتا گیا کہ ان کی سیاسی اور ثقافتی شناخت کو تحفظ کی ضرورت ہے۔ لاہور کے اجلاس میں آل انڈیا مسلم لیگ کے قائد محمد علی جناح جیسے ممتاز مسلم رہنماؤں کے علاوہ دیگر بااثر شخصیات جیسے لیاقت علی خان، اے کے نے شرکت کی۔ فضل الحق اور نواب اسماعیل خان۔ اے کے بنگال کے وزیر اعظم فضل الحق نے باقاعدہ طور پر قرارداد پیش کی۔
قرارداد میں کہا گیا کہ مسلمان محض ایک اقلیت نہیں بلکہ خود ایک الگ قوم ہیں، جن کا حق خود مختار اور خود مختار وطن ہے۔ لاہور کی قرارداد میں واضح طور پر "پاکستان" کا ذکر نہیں کیا گیا۔ اس کے بجائے، اس نے شمال مغربی اور مشرقی ہندوستان میں جغرافیائی طور پر ملحق مسلم اکثریتی خطوں کو "آزاد ریاستیں" بنانے کا ایک وژن پیش کیا جہاں مسلمان اپنی ثقافتی اور مذہبی شناخت کے مطابق رہ سکیں۔ بنیادی عناصر میں " مکمل آزادی اور خودمختاری" شامل تھی: اس میں آزاد، خودمختار ریاستوں کے قیام کا مطالبہ تھا جہاں مسلمان آزادانہ طور پر اپنے سیاسی، سماجی اور مذہبی حقوق کا استعمال کر سکیں اور اپنے دین کی تعلیمات کے مطابق قانوں سازی کرسکیں اور آقا کریم محمدﷺ کی ریاستِ مدینہ کی طرز پر ایک اسلامی فلاحی ریاست کو قیام عمل میں لاسکیں۔
کیا ہماری زمین پر اسلام کا چمکتا چاند اسلامی احکامات کے تابندہ ستاروں سے مزیّن طلوع ہوگا؟
کتنے سُورج نکل کے ڈُوب گئے مگر وہ خواب جو قوم نے دیکھا وہ تعبیر نہیں ہوسکا؛ کیا کبھی اس شبِ دیجور کی سحر ہوگی؟ کیا ہماری زمین پر اسلام کا چمکتا چاند اسلامی احکامات کے تابندہ ستاروں سے مزیّن طلوع ہوگا؟
ہم نے آنکھ سے دیکھا کتنے سورج نکلے ڈوب گئے
لیکن تاروں سے پوچھو کب نکلے چمکے ڈوب گئے
اعجاز عبید
16 دسمبر آرمی پبلک اسکول پر حملہ علی عمران
میرا بچہ راہم جب اسکول سے لوٹا
میں نے اس سے بستہ اپنے ہاتھ لے کر اس سے پوچھا
اتنا بھاری کیوں ہے بستہ
تین کتابیں لے کر تم اسکول گئے تھے
اک پانی کی بوتل تھی اور لنچ بکس تھا
اتنا بھاری کیوں ہے بستہ
بولا بابا میں کیا بولوں
روز تو یہ ہلکا ہوتا ہے
آج نہ جانے بھاری کیوں ہے
مجھ کو کچھ تشویش ہوئی تو
میں نے اس کا بستہ کھولا
کھول کے دیکھا
تین کتابیں نہیں تھیں اس میں چھ تھیں
پانی کی بوتل بھی ایک نہیں تھی
دو دو تھیں
لنچ بکس بھی دو تھے لیکن ایک ہی جیسے
راہم کا کچھ خالی تھا پر دوسرا پورا بھرا ہوا تھا
سوچا کیسے ہو سکتا ہے
یہ تو راہم کا بستہ ہے
اک بستے میں ساری چیزیں دو دو کیوں ہیں
ایک دم مجھ کو یاد آیا کہ
کل اسکول کے چھلنی بچوں میں اک بچہ
راہم جتنی عمر کا بھی تھا
بالکل راہم کے جیسا تھا
راہم جیسا ہی بستہ تھا
پانی بوتل بھی ویسی
لنچ بکس کا کلر وہی تھا
وہ بھی میرا ہی بچہ تھا
وہ بھی کل اسکول گیا تھا
آج اس نے اسکول کی چھٹی کر لی ہے
اب وہ چھٹی پر ہی رہے گا
اس کا بستہ روز اٹھا کر
میرا بچہ گھر آئے گا
ایک اور سال بیت گیا اضطراب کا
ایک اور سال بیت گیا اضطراب کا
ایک اور شام ڈھل گئی بے چینیوں کی آج
عین رشید
ہم چل پڑیں ہیں؛
نئے زمانوں ، نئے جہانوں کی خاک ڈھونے
مگر نگاہیں اسی اُفق پر جمی رہیں گی۔۔
ہزار سورج اُبھر کے ڈوبیں گے
لاکھ موسم لباس بدلیں گے۔۔
کہکشاؤں میں کتنے روشن چراغ
اپنے مدار چھوڑیں گے۔۔
اور ہماری شب تب ڈھلے گی؛
جب اسلام کا تابندہ سورج طلوع ہوگا۔