دنیا میں ہزاروں انواع اور اقسام کے پھل ہیں اور آم برصغیر ہند و پاک کا مقبول ترین پھل ہے۔ اور پھلوں کا بادشاہ کہلاتا ہے۔ آم کو پھلوں کا بادشاہ کیوں کہا جاتا ہے؟ آئین اکبری اور تزک جہانگیری میں آموں کی اقسام کا تفصیلی بیان موجود ہے۔ یوں آم برصغیر ہند و پاک کے زبان و ادب اور تہذیب و تمدن کا حصہ ہے۔ آم کی کتنی قسمیں ہیں؟ آم کے فائدے کیا ہیں؟ اس مضمون کا مقصد بینگ باکس کے قارئین کو پھل آم سے متعلق معلومات مہیا کرنا ہے۔
بِسۡمِ ٱللهِ ٱلرَّحۡمَـٰنِ ٱلرَّحِيمِ
آم ہوں اور عام ہوں
اردو زبان کی ممتازشاعر اور استاذ الغزل جناب مرزا اسد اللہ خان غالب نے ایک محفل میں فرمایا تھا کہ " آم ہوں اور بہت ہوں " ۔ اردو زبان کے شاعر مشرق جناب علامہ اقبال کو آم میں لنگڑا بہت پسند تھا۔ شاعر اکبر الٰہ آبادی سے لنگڑے آموں کا تحفہ بذریعہ ڈاک پارسل کی رسید پر یہ مصرع لکھ بھیجا۔
اثر یہ تیرے اعجازِ مسیحائی کا ہے اکبر
الٰہ آباد سے لنگڑا چلا، لاہور تک پہنچا
آج ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ " آم ہوں اور عام ہوں"؛ تاکہ امیر و غریب سب کو میسر ہوں؛ اس طرح کہ ڈھیر سارے ہوں اور سستے ہوں۔ بلاشبہ ہم کہیں گے کہ " فَبِأَيِّ آلاءِ رَبِّكُمَا تُكَذِّبَانِ"۔
لفظ آم اصل میں سنسکرت لفظ آمْرَن سے ماخوذ ہے۔ کہا جاتا ہے کہ آم کا آبائی وطن جنوبی ایشیا اور جنوب مشرقی ایشیا ہے۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ اس کی ابتدا شمال مغربی میانمار، بنگلہ دیش اور شمال مشرقی ہندوستان کے درمیان کے علاقے سے ہوئی۔ لیکن آج یہ دنیا کے تمام استوائی علاقوں میں بکثرت پیدا ہوتا ہے۔ آج دنیا کے ہر گوشے میں آم پیدا ہوتا ہے، کیربیئن کے جزائر سے لے کر برازیل اور یہاں تک کہ پیرو میں بھی پایا جاتا ہے۔
آم ہندوستان، پاکستان اور فلپائن کا قومی پھل ہے، علاوہ اذیں آم کا درخت بنگلہ دیش کا قومی درخت ہے۔ بدھ مت میں آم کا درخت مذہبی اہمیت کا حامل ہے۔ آم کا برصغیر ہند و پاک سے تعلق گہرا ہے اور واضع ہے۔ اور آج اس زمین کا سب سے مضبوط تعرف اردو زبان ہے۔ اور اردو زبان و ادب نے آم کو اس زمین کی تہذیب سے جوڑ دیا ہے۔ اور اردو زبان و ادب پر مرزا غالب کا رنگ اچھوتا ہے ۔ جناب غلام احمد فرقت کاکوری نے اس ضمن میں کیا خوب انشاء پردازی کی ہے؛ آئیے ایک جھلک پیش کرتے ہیں:-
" آموں سے متعلق یوں تو مرزا صاحب کے بہت سے شعر ہیں مگر بعض آموں والے اشعار کو یاران طریقت نے غلط پڑھنا شروع کر دیا ہے، مثلاً ان کا ایک شعر اس طرح مشہور ہے ؎
کلکتہ کا جو ذکر کیا تو نے ہم نشین
اک ایسا تیر سینے پہ مارا کہ ہائے ہائے
حالانکہ یہ شعر یوں ہے ؎
آموں کا ذکر تو نے جو چھیڑا ہے ہم نشیں
اک آم ایسا سینے پہ مارا کہ ہائے ہائے
میں تو اسی شرط پر جنت قبول کروں گا کہ میری قیام گاہ کے آگے انواع و اقسام کے آم لگے ہوں اور مجھے اجازت ہو کہ چاہے ڈال کے کھاؤں چاہے پال کے۔ ؎ ۔
جنت بھی ہے قبول مگر ایک شرط پر
آموں کے کچھ قلم مرے ہمراہ آئیں گے۔
سنتا ہوں کہ حکومت وقت میرا مقبرہ تعمیر کرانے جا رہی ہے۔ صاحب میں مقبرہ لے کر کیا کروں گا۔ میں مر کر یہاں آیا تو میری قبر پر انہوں نے ٹاپا اوندھا دیا۔ دو ایک باغ آموں کے میرے نام وقف کر دئے ہوتے تو میں جانتا کہ حاتم کی قبر پر لات ماری۔ آموں کے ٹوکرے مزار پر چڑھتے، عرس کے موقعے پر قلمی اور تخمی آموں کی چادریں چڑھتیں تو میں خوش ہوتا کہ مرنے کے بعد میری قدر ہوئی"۔
چچا غالب کی آموں سے محبت کو جناب مفتوں کوٹوی نے کس خوبصورتی سے قلم بند کیا ہے کہ اردو ادب میں " غالب اور آم" کو دوام بخش دیا ہے۔
" غالب اور آم " مفتوں کوٹوی
نہ تھے شاعر ہی کچھ بڑے غالب
دل لگی میں بھی خوب تھے غالب
خوب ہنستے ہنساتے رہتے تھے
بڑی پر لطف بات کہتے تھے
عام ان کو پسند تھے بے حد
یعنی رسیا تھے آم کے بے حد
خود بھی بازار سے منگاتے تھے
دوست بھی آم ان کو بھجواتے
پھر بھی آموں سے جی نہ بھرتا تھا
آم کا شوق ان کو اتنا تھا
ان کے قصے تمہیں سنائیں ہم
ان کی باتوں سے کچھ ہنسائیں ہم
ایک محفل میں وہ بھی بیٹھے تھے
لوگ آموں کا ذکر کرتے تھے
آم ایسا ہو آم ویسا ہو
پوچھا غالب سے عام کیسا ہو
بولے غالب کہ پوچھتے ہو اگر
صرف دو خوبیوں پہ رکھیے نظر
بات پہلی یہ ہے کہ میٹھا ہو
دوسری بات یہ بہت سا ہو
ایک دن دوست ان کے گھر آئے
آم غالب نے تھے بہت کھائے
سامنے گھر کے تھے پڑے چھلکے
اس گلی میں سے کچھ گدھے گزرے
ان گدھوں نے نہ چھلکے وہ کھائے
سونگھ کر ان کو بڑھ گئے آگے
دوست نے جب یہ ماجرا دیکھا
سوچا غالب کو اب ہے سمجھانا
دوست بولے ہے شے بری سی آم
دیکھو کھاتے نہیں گدھے بھی آم
ہنس کے غالب یہ دوست سے بولے
جی ہاں بے شک گدھے نہیں کھاتے
بادشہ کر رہے تھے سیر باغ
خوش تھا آموں سے ان کا قلب و دماغ
بادشہ کے تھے ساتھ غالب بھی
ڈالتے تھے نظر وہ للچائی
جی میں یہ تھا کہ خوب کھائیں آم
بادشہ سے جو آج پائیں عام
گھورتے تھے جو غالب آموں کو
بادشہ بولے گھورتے کیا ہو
بادشہ سے یہ بولے وہ ہنس کر
مہر ہوتی ہے دانے دانے پر
دیکھتا ہوں یوں گھور کر میں آم
شاید ان پر لکھا ہو میرا نام
مقصد ان کا جو بادشہ پائے
پھر بہت آم ان کو بھجوائے
آم صرف بطور پھل ہی استعمال نہی ہوتا بلکہ پاکستان میں یہ بطور سالن بھی تیار کیا جاتا ہے؛ جسے روٹی کے ساتھ کھانے کے لئے استعمال کیا جاتا ہے ۔ آم کا گودا نکالیے پھر اس میں ہلکا سا نمک ڈالیے اور پیاز ولال مرچ ہلکی آنچ پر گرم کر کے ملا لیجیے؛ مزیدار سالن بن جائے گا۔ یقین مانیے کہ دوپہر کے کھانے میں خوب مزا دے گا۔
کچا آم؛ چاہے جھکڑ سے گرا ہو یا توڑا گیا ہو؛ کیری کہلاتا ہے اور ذائقہ میں انتہائی ترش ہوتا ہے۔ اس کچے آم کا آمچور چٹنی بنتی ہے۔ کچے آم کا سفوف اور اچار بھی بنایاجاتا ہے؛ اس میں گٹھلی نہیں ہوتی یا نکال دی جاتی ہے؛ اسے سارا سال استعمال کیا جاتا ہے اور یہ سب انسانوں کے کھانوں میں استعمال ہوتا ہے۔ مگر یہ اچار غریب کی فقر کا خوب ساتھ نبھاتا ہے اور روٹی اور چاول دونوں کے ساتھ کھایا جاتا ہے۔ مہنگائی کی بڑھتی ہو اٹھان میں اچار عامیوں کی بھوک کا سہارا بن جاتا ہے۔
آم برصغیر ہندوستان اور پاکستان کی تہذیب اور ثقافت کا حصہ بن گیا ہے۔ ساون کا مہینہ اور آم کا تعلق تو اساطیری کہانیوں کا محور بنا ہوا ہے۔
اگر آپ نے ایسے گھر میں آنکھ کھولی ہے جہاں آم کا پیڑ کھڑا تو امبوا کی ڈالی میں جھولا ضرور دیکھا ہوگا۔ برسہا برس سے ساون، انبوا کا پیڑ، پیڑ پے جھولا اور جھولے میں پینگیں بھرتی ناریاں؛ اور وہ بھی پیڑھی در پیڑھی؛ یعنی نانیاں اور دادیاں سب دلدادیاں تھیں۔ ساون میں برکھا برس رہی ہو اور ڈالیوں پر جھولے بھی ہوں تو آم کے ساتھ ساتھ بچے بوڑھے مرد اور عورتیں طرح طرح کے پکوان تیار کرتے ہیں اور اللہ کی نعمتوں کا لطف اٹھاتے ہیں۔
ساون کا مہینہ ہو تو سخت حبس زدہ گرمی کے موسم میں؛ جب مشرق سے کالی اودی گھٹائیں آسمان پر چھا جاتی ہیں تو آم اور جامن کے پیڑ پر چھپی کوئل مست ہو کر کوکنے لگتی ہےاور لڑکیاں بالیاں دیوانہ وار جھولےجھولنے نکل پڑتیں ہیں اور امبوا کی ڈالی پر جھولے سے لمبی لمبی پینگیں بھری جاتیں ہیں۔ اور چھم چھم برسات میں نہاتی لڑکیاں بالیاں دھل دھلا کر مزید نکھر کر دعوت نظارہ دینے لگتی ہیں۔
آموں کو بازار سے لاکر فورا" نہیں کھایا جاتا بلکہ پانی میں ڈبو کر برف ڈال کر، ٹھنڈا ہونے کے بعد استعمال کیا جاتا ہے۔ تمام گھر والے چارپائی کے گرد بیٹھ کر باری باری آم یخ پانی سے نکال کر اسے دونوں ہاتھوں سے دبا دبا کر نرم کرتے اور مزے لے لے کر چوستے ہیں۔ آپ کو شاید چوس کر آم کھانا ناگوار گذرے؛ اور آپ آم کو اس طرح کھاتا دیکھ کر ناک بھوں بھی چڑھائیں۔ لیکن ہمارے دادا جان کہا کرتے تھے کہ بیٹا " پائے اور آم تہذیب اور شرافت سے نہیں کھائے جاسکتے"۔ اگر پائے اور آم بدتمیزی سے نہ کھائے جائیں تو ایک سے 'پیٹ' اور دوسرے سے 'دل' نہیں بھرتا۔ آم ہوں اور عام ہوں اور بقول چچا غالب بہت ہوں؛ تو آپ ہی بتائیے کہ تہذیب سے کیسے کھائے جاسکیں گے؟
جب ساون کی گھٹاؤں میں جھومتے گھنے درختوں پر لگے آم گرمی اور حبس میں برستی بارش سے شرابور نہا لیتے ہیں تو ان کے ذائقے اور خوشبو میں تیزی آجاتی ہے۔
پاکستان میں جون جولائی کا مہینہ موسم گرما کے گرم ترین مہینے ہوتے ہیں ۔ اس شدید گرم تپتے موسم میں آم احساس تازگی و خوشگواری پیدا کرتا ہے؛ جس کے زرد رنگ اور ذائقے کے سامنے دیگر تمام پھلوں کے رنگ پیلے پڑ جاتے ہیں۔
آم کی تعریف کچھ اس طرح کی جا سکتی ہے کہ رس دار اور گودے دار پھل جو مختلف رنگ و بیضوی شکل میں نظر آتا ہے۔ اس کی سینکڑوں نہیں بلکہ ہزاروں اقسام ہیں اور برصغیر ہند وپاک میں اسے سب پھلوں کا بادشاہ سمجھا جاتا ہے۔ آم پورے برصغیر ہند و پاک میں بکثرت پیدا ہوتا ہے۔ مگر دنیا کے دیگر ممالک کے پیدا ہونے والے آموں کی اقسام کے مقابلے میں پاکستانی آم اپنے ذائقہ ، تاثیر ، رنگ اور صحت بخشی کے لحاظ سے سب سے منفرد ہیں۔ پاکستان میں پیدا ہونے والے آم کو مٹھاس اور بہترین ذائقے کے سبب دنیا بھر کے زرعی سائنس دانوں کی متفقہ رائے ہے کہ اس سے زیادہ میٹھا اور خوش ذائقہ آم کرہ ارض پر کہیں اور پیدا نہیں ہوتا ہے۔
پاکستان میں آموں کی مقبولیت کا کوئی طریقہ کار نہیں بنا؛ لیکن ایک محتاط اندازے کے مطابق مقبول ترین “انور رٹول” ہے اور یہ درمیانے سائز کا ہوتا ہے۔ چِھلکا چِکنا اور سبزی مائل زرد ہوتا ہے، گودا بے ریشہ، ٹھوس، سُرخی مائل زرد، نہایت شیریں، خوشبودار اور رَس درمیانہ ہوتا ہے۔ آپ کا جیسا دل چاہے اسے کھائیں مگر زیادہ مزا چوس کر کھانے میں آتا ہے۔
ایک اور قبول عام " آم ' لنگڑا " بیضوی و' لمبوترا' ہوتا ہے؛ پک جانے پر اس کی خوشبو تیز ہوجاتی ہے؛ خوب شیریں اور رس دار ہوتا ہے؛ جبکہ اس کا چِھلکا چِکنا، بے حد پتلا ہوتا ہے اور نفاست کے ساتھ گودے کے ساتھ چِمٹا ہوتا ہے؛ اور گودا سُرخی مائل زرد، مُلائم، شیریں، رَس دار ہوتا ہے۔ لنگڑا پکنے کے بعد بھی اپنا سبز رنگ برقرار رکھتا ہے۔
دوسری جانب " چونسا " کا ذائقہ تو اپنی مثال آپ ہے؛ یہ آم کی لاجواب قسم ہے جو دنیا بھر میں اپنے بڑے سائز اور کم ریشے کی وجہ سے شہرت رکھتی ہے۔ " چونسا آم " کی خوشبو اور مٹھاس اسے دوسروں سے ممتاز کرتی ہے۔ چونسا کا چھلکا درمیانی موٹائی والا مُلائم اور رنگت پیلی ہوتی ہے۔ اس کا گودا گہرا زرد، نہایت خوشبو دار اور شیریں ہوتا ہے۔ اِس کی گُٹھلی پتلی لمبوتری ہوتی ہے۔
پاکستانی آموں کی ایک اور قسم' سندھڑی' بھی انتہائی مشہور ہے۔ سندھڑی کا سائز بڑا، چِھلکا زرد، چکنا اور باریک ہوتا ہے؛ اس کا گودا شیریں، رس دار اور گُٹھلی لمبی اور موٹی ہوتی ہے۔ اس کے مزاج کا ایک اور آم " دسہری" کی شکل لمبوتری ہوتی ہے اور اس کا چھلکا خوبانی کی رنگت جیسا ہوتا ہے ۔
آم کی ایک اور قسم " الماس " کی ہے، جس کی شکل گول ہوتی ہے اور سائز درمیانہ، چِھلکا زردی مائل سُرخ، گودا خوبانی کے رنگ جیسا مُلائم، شیریں اور ریشہ برائے نام ہوتا ہے۔ جب کہ ایک اور گول شکل والا آم " گولا " کہلاتا ہے؛ جو سائز میں درمیانہ اور اس کا چِھلکا گہرا نارنجی رنگ والا پتلا ہوتا ہے۔ گودا پیلا ہلکا ریشے دار اور رسیلا ہوتا ہے۔
ابھی کچھ عرصہ پہلے پاکستان میں فلوریڈا سے لائ گئ ورائٹی "سنسیشن" متعارف کروائی گئی ہے۔ اس آم کی خاصیت اس کو گہرا جامنی مائل سرخ رنگ ہے۔ مقامی طور پر اس کو شان خدا اور لال بادشاہ کا نام دیا گیا ہے۔ اس آم کی ایک خصوصیت یہ ہے کہ یہ اس وقت پک کر تیار ہوتا ہے جب باقی آم کا سیزن اختتام پر ہوتا ہے۔ اس طرح لال بادشاہ کے سنسیشن سے سیزن کے اختتام پر لطف اندوز ہوسکتے ہیں۔
آموں کی مشہور و مقبول پاکستانی اقسام میں انور رٹول، دوسہری، سندھڑی، نیلم، چونسا، بیگن پھلی، انفانسو، گلاب خاصہ، زعفران، لنگڑا، سرولی، مالرا، سہارنی اور دیسی آم شامل ہیں۔ پاکستان میں آم کی مزید اقسام میں ثمر بہشت، طوطا پاری، فجری، نیلم، الفانسو، الماس، سانول، سورکھا، اوربادام، بیگم پسند، ثمر بہشت، سیندوریا، توتا پری، لال پری بھی ہیں۔
پھل انسانی صحت میں وٹامن کی ضرورت مہیا کرتے ہیں۔ آم بھی انسانی صحت کے لیے مفید پھل ہے۔ آم میں 20 سے زیادہ وٹامنز اور معدنیات پائے جاتے ہیں۔ اس میں وٹامن اے، پوٹاشیم، فولیٹ (وٹامن بی کی ایک قسم) بڑی مقدار میں پائے جاتے ہیں۔ اس کے علاوہ اس میں ریشہ بھی پایا جاتا ہے۔ آم میں ایک درجن سے زائد پولی فینول پائے جاتے ہیں۔ یہ ایک طاقت ور اینٹی اوکسیڈنٹ کے طور پر کام کرتے ہیں۔ آم میں وٹامن سی فائبر اور پیکٹین موجود ہوتا ہے۔ یہ کولیسٹرول کی بڑھتی ہوئی سطح کو کنٹرول کرنے میں مددگار ثابت ہوتا ہے۔
آ
م کا معتدل استعمال دل اور معدے کے امراض کو دور کرنے میں مدد دیتا ہے۔ اور خون بننے میں مدد ملتی ہے۔ اس سے پیٹ کی بیماریاں ختم کرنے میں بھی مدد ملتی ہے۔ آم دیگر خصوصیات کے ساتھ جلد کو صحت مند اور بالوں کوچمک ملائم اور خوب صورت رکھنے میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔ آم سے کینسر سے بچاو بھی ہوتا ہے۔ آم پورے جسم کی تیزابیت ختم کرتا ہے۔ آم کے پتے ذیابیطس میں مفید ہیں۔
ذیل میں چند احتیاطی تدابیر کا ذکر کیا جارہا ہے ان پر سختی سے عمل کریں۔ ورنہ آم جو ایک فائدہ مند پھل ہے نقصان دہ بھی ہوسکتا ہے۔
٭ منڈی سے آم لانے کے بعد اسے دھو کر کھایا جائے، تاکہ اس پر لگا ہوا مسالہ دھل جائے۔
٭ زیادہ آم کھانے سے اسہال ہو سکتے ہیں کیوںکہ ان میں فائبر زیادہ ہوتا ہے؛ اور ریشہ دار پھلوں کا زیادہ استعمال اسہال کا سبب بن سکتا ہے۔
٭ آم میں شوگر کی مقدار زیادہ ہوتی ہے جو ذیابیطس کے مریضوں کو نقصان پہنچا سکتی ہے۔
٭ چیز کتنی ہی اچھی کیوں نہ ہو، ہمیشہ اعتدال کو اپنائیں اور آم بھی اس طرح کھائیں کہ وزن میں اضافہ نہ ہو۔
یہ مضمون آزاد ویب نیٹ پر موجود متعدد مضامین کے مواد سے مرتب کیا گیا ہے