القدس فلسطین کی کتھا؛ شاعروں کی زبانی

صیہونی ریاست اسرائیل کا قیام 1948 عیسوی میں ہوا مگر فلسطین قوم کو اس کا ذائقہ پہلی جنگ عظیم سے قبل ہی شروع ہوگیا تھا۔ اردو زبان ک شعراء نے اس ظلم اور استبداد کو دیکھا اور اس پر اپنے جذبات کا اظہار کیا۔ علامہ محمد اقبال سے لے کر فیض احمد فیض، حبیب جالب اور دگر کئ شعراء نے اس پر نظمیں لکھی ہیں۔ بینگ باکس کے قارئین کے لیے ذیل میں پیش کی جارہی ہیں۔

2023-11-27 16:17:33 - Muhammad Asif Raza

علامہ محمد اقبال


ضرب کلیم  شام و فلسطین

 

رِندانِ فرانسیس کا میخانہ سلامت

پُر ہے مئے گُلرنگ سے ہر شیشہ حلَب کا

ہے خاکِ فلسطیں پہ یہودی کا اگر حق

ہسپانیہ پر حق نہیں کیوں اہلِ عَرب کا

مقصد ہے مُلوکیّتِ انگلِیس کا کچھ اور

قصّہ نہیں نارنج کا یا شہد و رُطَب کا

___________________________________________________________

 

فلسطینی بچے کے لیے لوری فیض احمد فیض

 

مت رو بچے

رو رو کے ابھی

تیری امی کی آنکھ لگی ہے

مت رو بچے

 

کچھ ہی پہلے

تیرے ابا نے

اپنے غم سے رخصت لی ہے

مت رو بچے

تیرا بھائی

اپنے خواب کی تتلی پیچھے

دور کہیں پردیس گیا ہے

 

مت رو بچے

تیری باجی کا

ڈولا پرائے دیس گیا ہے

 

مت رو بچے

تیرے آنگن میں

مردہ سورج نہلا کے گئے ہیں

چندرما دفنا کے گئے ہیں

 

مت رو بچے

امی، ابا، باجی، بھائی

چاند اور سورج

تو گر روئے گا تو یہ سب

اور بھی تجھ کو رلوائیں گے

تو مسکائے گا تو شاید

سارے اک دن بھیس بدل کر

تجھ سے کھیلنے لوٹ آئیں گے

___________________________________________________________________ 

 

ایک ترانہ مجاہدینِ فلسطین کے لیے  فیض احمد فیض

 ہم جیتیں گے

حقّا ہم اِک دن جیتیں گے

بالآخر اِک دن جیتیں گے

کیا خوف ز یلغارِ اعداء

ہے سینہ سپر ہر غازی کا

کیا خوف ز یورشِ جیشِ قضا

صف بستہ ہیں ارواح الشہدا

ڈر کاہے کا!

ہم جیتیں گے

حقّا ہم اِک دن جیتیں گے

قد جاء الحق و زَہَق الباطِل

فرمودۂ ربِّ اکبر

ہے جنت اپنے پاؤں تلے

اور سایۂ رحمت سر پر ہے

پھر کیا ڈر ہے!

ہم جیتیں گے

حقّا ہم اِک دن جیتیں گے

بالآخر اِک دن جیتیں گے

___________________________________________________________________________



اے جہاں دیکھ لے!  حبیب جالب

 

اے جہاں دیکھ لے کب سے بے گھر ہیں ہم

 

اب نکل آئے ہیں لے کے اپنا علم

 

یہ محلات یہ اونچے اونچے مکاں

 

ان کی بنیاد میں ہے ہمارا لہو

 

کل جو مہمان تھے گھر کے مالک بنے

 

شاہ بھی ہے عدو شیخ بھی ہے عدو

 

کب تلک ہم سہیں غاصبوں کے ستم

 

اے جہاں دیکھ لے کب سے بے گھر ہیں ہم

 

اب نکل آئے ہیں لے کے اپنا علم

 

اتنا سادہ نہ بن تجھ کو معلوم ہے

 

کون گھیرے ہوئے ہے فلسطین کو

 

آج کھل کے یہ نعرہ لگا اے جہاں

 

قاتلو رہزنو یہ زمیں چھوڑ دو

 

ہم کو لڑنا ہے جب تک کہ دم میں ہے دم

 

اے جہاں دیکھ لے کب سے بے گھر ہیں ہم

 

اب نکل آئے ہیں لے کے اپنا علم

___________________________________________________


انقلاب فلسطین ۔۔۔ شہزادی کلثوم


دیکھتا ہے کون صحرا کے بگولوں کی طرف

 

جو نظر اٹھتی ہے بس جاتی ہے پھولوں کی طرف

 

عیش میں رہ کر ہمیں کچھ بھی خیال غم نہیں

 

مسکراہٹ لب پہ ہے آنکھیں مگر پر نم نہیں

 

دیکھتا اس کے کرشمے کس کو اتنا ہوش تھا

 

پتی پتی دم بخود تھی گل چمن خاموش تھا

 

محو نظارہ تھیں آنکھیں دل میں طاری بے خودی

 

مجھ کو دیوانہ کئے دیتی تھی پھولوں کی ہنسی

 

دیکھتی تھی میں بھی یہ حسن چمن رنگ بہار

 

ناگہاں آئی صدائے دل کہ غافل ہوشیار

 

کھول آنکھیں دیکھ اپنے مسلموں کا حال زار

 

ان کو تو ان کافر یہودوں نے بنایا ہے شکار

 

ان مظالم پر بھی تو سرشار ہے مدہوش ہے

 

مسجدوں میں جانور بندھتے ہیں تو خاموش ہیں

 

نام کو باقی نہیں اسلام کا عز و وقار

 

تیری آنکھوں سے مگر جاتا نہیں اب تک خمار

 

ہم ہیں حالانکہ بہت یہ ہو چکا ہے انقلاب

 

سن رہے ہیں داستان غم مگر کیا دیں جواب

 

ہو کے پابند حکومت کس قدر مجبور ہیں

 

یعنی کوسوں ہم عرب کی منزلوں سے دور ہیں

 

ہوک اٹھتی ہے یہ سن میرے دل ناکام میں

 

پلٹنیں کفار کی ہوں خانۂ اسلام میں



More Posts