Our Solar Calendar year comprises 12 months, four seasons, 52 weeks and 365 days. The year ends with December and starts with January. Each year, the world celebrates Happy New Year as soon as the bell rings midnight of 31 December. The Urdu poetry is rich in expressions about the human feelings about the New Year and the 1st month of the year, which incidentally falls as cold winter in most part of the world. Here in this write up, some selection from Urdu Poetry is being shared along with mesmerizing images of the season.
آؤ ہجرت کریں۔۔۔
عیسوی سال نو کے آغاز پر
آؤ ہجرت کریں
دلدل عصیاں سے
وادی ایماں کی طرف
آؤ ہجرت کریں
تہوار اغیار سے
ان کے اطوار سے
مشاغل بیکار سے
آؤ ہجرت کریں
ان کے نزدیک
تصور تفریح فقط
ساز و آواز ہے
محفل رقص ہے
شراب کا جام ہے
رشتوں کے بندھن سے آزاد ساتھ ہے۔
ان تفریحات کے تحائف بہت
تقسیم ہو گئے ہر طرف
ہم و غم ہے کہیں
کہیں حرص و ہوس
صحت و اخلاق ماند سب
ویلنٹائن۔۔ کرسمس ۔۔۔ نیوائیر نائٹ کی چکا چوند کے پس پردہ جھانکو ذرا
مچلتے قہقوں کے شور میں
سسکتی انسانیت کراہ رہی ہے سنو!!!
آؤ ہجرت کریں
عیسوی سال نو کے آغاز پر
تفریحات اغیار سے
یہ شمس و قمر
یہ شجر و ہجر
یہ مہکتی فضا
یہ برستی گھٹا
رشتوں کی ردا
ہمارے لیے
رب عزو جل کی عطا ہی عطا
وہ
حرا سے ہدایت کی اٹھتی ندا
معیار تفریح و خوشی
ہمیں دے گئے حبیب کبریاؐ
خوشی کے مواقع ہم منائیں کیسے بھلا؟
طیب و پاکیزہ غذا
خوبصورت و باحیا پیرہن
کھیل ہو دل لگی ہو
پر نہ بھولے خدا
اپنوں کا ساتھ ہو
ہو مسکراہٹوں کا بانکپن
خوشی جو ہم منا کر ہٹیں
خوش ہوں ساتھ سب
یہ ہوا یہ فضا
اور بندگان خدا
آؤ ہجرت کریں
عیسوی سال نو کے آغاز پر
دلدل عصیاں سے وادی ایماں کی طرف
ام محمد عبداللہ
کیا ستم ہو کہ نئے سال کو چل دیں ہم لوگ
اور تعاقب میں ، وہی روگ پرانے لگ جائیں
گزرے جو تیرے سنگ سبھی موسموں کی خیر
اے سال تیرے تین سو پینسٹھ دنوں کی خیر
جینا قریشی
چاہتا ہوں میں منیرؔ اس عمر کے انجام پر
ایک ایسی زندگی جو اس طرح مشکل نہ ہو
محبت نام ھے جس کا وہ محسن قید ایسی ھے
کہ عمریں بیت جاتی ھیں سزا پوری نہیں ھوتی
اک بار پھر کھڑے ہیں نئےسال کی دہلیز پہ ہم لوگ
یہ راکھ ہو جائے گا سال بھی ،حیرت کیسی؟
گزشتہ رات تیری یاد بھی نہیں آئی
اس برس کا یہ میرا آخری خسارہ تھا
نئے سال کی صبح اول کے سورج
..............
نئے سال کی صبحِ اول کے سورج!
میرے آنسوؤں کے شکستہ نگینے
میرے زخم در زخم بٹتے ہوئے دل کے
یاقوت ریزے
تری نذر کرنے کے قابل نہیں ہیں
مگر میں
ادھورے سفر کا مسافر
اجڑتی ہوئی آنکھ کی سب شعائیں
فِگار انگلیاں
اپنی بے مائیگی
اپنے ہونٹوں کے نیلے اُفق پہ سجائے
دُعا کر رہا ہوں
کہ تُو مسکرائے!
جہاں تک بھی تیری جواں روشنی کا
اُبلتا ہوا شوخ سیماب جائے
وہاں تک کوئی دل چٹخنے نہ پائے
کوئی آنکھ میلی نہ ہو، نہ کسی ہاتھ میں
حرفِ خیرات کا کوئی کشکول ہو!
کوئی چہرہ کٹے ضربِ افلاس سے
نہ مسافر کوئی
بے جہت جگنوؤں کا طلبگار ہو
کوئی اہلِ قلم
مدحِ طَبل و عَلم میں نہ اہلِ حَکم کا گنہگار ہو
کوئی دریُوزہ گر
کیوں پِھرے در بدر؟
صبحِ اول کے سورج!
دُعا ہے کہ تری حرارت کا خَالق
مرے گُنگ لفظوں
مرے سرد جذبوں کی یخ بستگی کو
کڑکتی ہوئی بجلیوں کا کوئی
ذائقہ بخش دے!
راہ گزاروں میں دم توڑتے ہوئے رہروؤں کو
سفر کا نیا حوصلہ بخش دے!
میری تاریک گلیوں کو جلتے چراغوں کا
پھر سے کوئی سِلسلہ بخش دے،
شہر والوں کو میری اَنا بخش دے
دُخترِ دشت کو دُودھیا کُہر کی اک رِدا بخش دے!
محسن نقوی
In competitive theater, especially in Texas, adhering to set design standards is essential...