ریاستیں یا تو بادشاہت ہیں یا جمہوریت نے ہمیشہ رعایا یا عوام پر باقاعدگی سے ٹیکس عائد کیا ہے۔ ٹیکس ریاستی محصول میں لازمی حصہ ہے، جو حکومت کی طرف سے لوگوں اور کاروبار پر لگایا جاتا ہے۔ یہ ہمیشہ سے ریاست اور عوام کے درمیان تنازعہ کی ہڈی رہا ہے۔ یہ مضمون پاکستان میں ٹیکس کے نفاذ اور ملک کے لوگوں پر اس کے اثرات پر گفتگو کرتا ہے۔
بِسۡمِ ٱللهِ ٱلرَّحۡمَـٰنِ ٱلرَّحِيمِ
ٹیکس؛ حکرانوں کا رعایا سے خراج؛ مگر کیونکر؟
آکسفورڈ ڈکشنری "ٹیکس" کو ریاست کی آمدنی میں ایک لازمی شراکت کے طور پر بیان کرتی ہے، جو حکومت کی طرف سے کارکنوں کی آمدنی اور کاروباری منافع پر لگایا جاتا ہے، یا کچھ سامان، خدمات اور لین دین کی لاگت میں شامل کیا جاتا ہے۔
سادہ الفاظ میں، ٹیکس ایک رقم ہے جو حکومت لوگوں سے ان کی آمدنی، ان کی جائیداد کی قیمت وغیرہ کے مطابق ادا کرنے کے لیے مانگتی ہے، اور اس رقم کو حکومت ریاست کے کاموں کو انجام دینے کے لیے استعمال کرتی ہے۔
لفظ 'ٹیکس' لاطینی لفظ "ٹیکسیر" سے ماخوذ ہے جس کا مطلب اندازہ لگانا یا قدر کرنا ہے اور تاریخ اس بات کی عکاسی کرتی ہے کہ یہ رومن سلطنت کے دور میں موجود تھا۔ پہلا معلوم ٹیکس قدیم مصر میں 3000-2800 قبلِ مسیح کے آس پاس لیا گیا۔ اور اس دور سے پہلے کی انسانی تاریخ کے بارے میں بہت کچھ معلوم نہیں ہے۔
اس لیے یہ کہا جا سکتا ہے کہ انسانی تاریخ سے لے کر اب تک ہر قسم کی حکومتیں عوام سے ٹیکس وصول کرتی رہی ہیں۔ معلوم انسانی تاریخ کے آخری 4000 سال اس بات کی عکاسی کرتے ہیں کہ وہ سلطنتیں، حکومتیں اور جاگیریں تھیں جو ٹیکس وصول کیا کرتی تھیں۔ حکومت اور عوام کا رشتہ زیادہ تر "حکمران" اور "رعایا" کا تھا اور مجبوریاں اور استحصال تھا اور عام انسان، "رعایا" ہونے کے ناطے مملکت، سلطنت یا جاگیر کے خلاف کچھ نہیں کر سکتے تھے۔ یہاں تک کہ جبری مشقت بھی لی گئی۔
بادشاہوں کو کسی اور طاقتور شخص یا افراد کے ایک گروہ نے چیلنج کیا اور بادشاہتیں ایک ہاتھ سے دوسرے ہاتھ میں بدل گئیں۔ تاہم ٹیکس جمع کرنے کا طریقہ شاہد ہی متاثر یا تبدیل ہوا۔ ٹیکس کے نفاذ اور وصولی کا عمل ہمیشہ نہایت ظالم اورستم رسیدہ رہا ہے اور مندرجہ ذیل نظم حقیقی انداز میں اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والے جذبات کی عکاسی کرتی ہے۔
فریڈرک کلاوز کی نظم " ٹیکس کے ہاتھوں مارا گیا"۔
"The Tax Poem" مگر بعینی یہی نظم بعنوان کے متعدد دعوےدار ہیں)
نظم " ٹیکس کے ہاتھوں مارا گیا"۔
اس کی زمین پر ٹیکس لگاو، اس کے بستر پر ٹیکس لگاو،
اس میز پر ٹیکس لگاو جس پر اسے کھانا کھلایا جاتا ہے۔
اس کے ٹریکٹر پر ٹیکس لگاؤ، اس کے خچر پر ٹیکس لگاؤ،
اور اسے سکھاؤ کہ ٹیکس کی حکمرانی ہے۔
اس کے کام پر ٹیکس لگاو، اس کی تنخواہ پر ٹیکس لگاو،
اور ویسے بھی اس کا معاوضہ مونگ پھلی کے دام سے زیادہ نہیں۔ !
اس کی گائے پر ٹیکس لگاو، اس کی بکری پر ٹیکس لگاو،
اس کی پتلون پر ٹیکس لگاو، اس کے کوٹ پر ٹیکس لگاو۔
اس کی " ٹائییوں" پر ٹیکس لگاو، اس کی قمیض پر ٹیکس لگاو،
اس کے کام کی جگہ پر ٹیکس لگاو، اس پر اٹی مٹی پر ٹیکس لگاو۔
اس کے تمباکو پر ٹیکس لگاو، اس کے مشروبات پر ٹیکس لگاو،
اگر وہ سوچنے کی کوشش کرے تو اس کی سوچ پر ٹیکس لگاو۔
اس کے سگار پر ٹیکس لگاو، اس کے بیئر پر ٹیکس لگاو،
اگر وہ روتا ہے تو اس کے آنسوؤں پر ٹیکس لگاو۔
اس کی گاڑی پر ٹیکس لگاو، گاڑی کے فیول پر ٹیکس لگاو،
اس کی سواری گدھے پر بھی ٹیکس کے نئےاطورا تلاش کرو۔
اس کے پاس جو کچھ ہے اس پر ٹیکس لگاو، پھر اسے بتاو؛
تم اس وقت تک ٹلو گے نہیں جب تک اس کے پاس آٹا ہے۔
اگر وہ چیختا ہے اور چلاتا ہے، تو اس پر مزید ٹیکس لگاو،
اس پر ٹیکس لگاو اس طرح کے اس کے زخم ہرے رہیں۔
پھر اس کے تابوت پر ٹیکس لگاو، اس کی قبر پر ٹیکس لگاو،
اس کے اس تابوت پر ٹیکس لگاو، جس میں وہ لٹایا گیا ہے۔
اس کی قبر پر پھر یہ لکھ دو " 'ٹیکس نے مجھے میری قبر میں پہنچا دیا "۔
جب وہ دفنا دیا گیا تو پھر بھی آرام نہ کرو،
اب میراث ٹیکس کا وقت آگیا ہے۔
ٹیکس لگانے کا خوفناک ڈرامہ چلتا رہا اور فرق تب ہی نظر آیا جب لوگوں نے مزاحمت کی، احتجاج کیا اور تب کوئی خدا پرست، انسان دوست، عدل و انصاف پسند اور مہربان حکمران تخت پر براجمان ہوا۔ ایسے حکمرانوں نے ٹیکس معقول، منصفانہ اور معاشی طور پر لگایا اور وہ بھی بنیادی طور پر امیروں سے۔ مقامی ٹیکسوں کو مقامی رہنماؤں پر چھوڑ دیا گیا تاکہ اخراجات کے بہتر استعمال اور بامعنی روزگار کے مواقع پیدا ہوں۔
تقریباً 300 سال قبل، انسانوں نے بادشاہت کے خلاف بغاوت کی اور دنیا کے مختلف حصوں میں جمہوریت نے اپنے قدم جمانا شروع کر دیے۔ ریاست کا جدید تصور یعنی قومی ریاستیں پچھلے 100 سالوں سے مسلط کی گئی ہیں، جس میں اصول "عوام ریاست ہیں" اور ریاست کے اعضاء اور حکومتوں کے افعال کو استعمال کیا گیا ہے۔ یہ تصور کیا گیا ہے کہ "نمائندگی کے بغیر کوئی ٹیکس نہیں"، اور اس لیے اسے ایک بنیادی عنصر کے طور پر نشان زد کیا گیا ہے کہ "ٹیکسیشن کی معاشیات کو ایک موثر ٹیکس نظام کے طور پر ڈیزائن کیا جائے گا جو لوگوں کے لیے منصفانہ، عادلانہ و شفاف، اور سمجھنے میں آسان ہو گا۔ ریاست کے" اور "حکومت کے اخراجات عوام کی منظوری اور آڈٹ سے مشروط ہوں گے"۔
تاریخِ انسانیت کا شاد و نادر واقعہ جب ٹیکس منصفانہ اور عدل کے ساتھ لگایا گیا تھا اور وہ بھی صرف امیروں پر وہ موقع تھا جب عظیم خالق اللہ کے پیغمبروں نے مذہبی حکم نافذ کیا تھا۔ یہ آخری بار "ریاست مدینہ" میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے چار خلفاء (رضی اللہ عنہ) کے دور میں مسلمانوں پر "زکوٰۃ اور عشر" اور غیر مسلموں کے لیے "جزیہ" کے طور پر دیکھا گیا تھا، جو کہ صرف سالانہ ٹیکس تھا۔ کوئی دوسرا ٹیکس نہیں لگایا گیا۔
ملک پاکستان کو 1947 میں آزادی ملی لیکن اس نے ریاست کے انتظامی افعال کو اسی انداز میں آگے بڑھایا اور استعمال کیا جیسا کہ برطانوی سلطنت نے "ہندوستان میں غلام رعایا" پر کیا تھا۔ " نمائندگی کے بغیر کوئی ٹیکس نہیں" کے اصول کو مسلسل نظر انداز کیا گیا ہے، اس کی خلاف ورزی کی گئی ہے اور طاقت کے ذریعے مسلط آمرانہ پالیسیاں نافذ کی گئی ہیں۔ ملک آزاد ہو گیا لیکن آئین کی خلاف ورزی کرتے ہوئے خفیہ بغیر بتائے ہوئے قواعد و ضوابط کو اس انداز میں بروئے کار لایا گیا کہ انگریزوں کی جگہ براون صاحب نے بطورحکومتی عملے کے "حکمران" کا درج پا لیا اور ملک کے عوام کو غلامی کے درجہ میں دکھیل دیا ؛ جو تعریف کے مطابق اصل "ریاست" ہیں؛ مگر انہیں غلام " رعایا " میں تبدیل کر دیا گیا ہے۔
بد انتظام ہنگامہ آرائی نے ملک کو ایک عظیم گڑبڑ اور ناقابلِ حکمرانی ریاست میں تبدیل کر دیا ہے کیونکہ بھاری ٹیکس عائد کئے جانے اور محصولات کی وصولی کے باوجود "وفادار محب وطن" جمہوری منتخب اور غیر منتخب حکمران اشرافیہ کی شاہ خرچیوں کے لیے کم پڑرہا ہے اور ان ادائگیوں کے لیے کچھ بچ نہیں رہا جو قرضوں کی اقساط پر کی جانی ہیں۔ اگر سرکس کو نہیں روکا گیا تو "ریاست" ناکام ہو جائے گی۔
عوامی مایوسی کا عالم یہ ہے کہ آج سے پہلے پاکستانیوں کے چہروں پر ایسی بے بسی اور مایوسی کبھی نہیں تھی۔ ایسی بے چینی، افسردگی، بے فکری اور بے روزگاری صرف غریبوں کے چہروں پر ہی نہیں بلکہ متوسط طبقے کے چہروں پر بھی جھلک رہی ہے۔ کسی بھی محفل میں مہنگائی کی بات کی جائے تو منہ سے چند ٹوٹے پھوٹے جملے نکلتے ہیں، ہاتھ سے ضبط کا سلیقہ پھسل جاتا ہے اور آنکھوں سے آنسو جاری ہوجاتے ہیں۔
لوگ چیخنا چاہتے ہیں، چلانا چاہتے ہیں، حکومت کو کوسنا چاہتے ہیں، حاکم کا گریبان پکڑنا چاہتے ہیں لیکن وہ فی الحال اپنا غصہ، اپنا غم اندر ہی اندر پیتے جا رہے ہیں۔ اور یہ گُھن ا ن کو اندر ہی اندر کھاتا جا رہا ہے۔ پاکستان ایک روایتی معاشرہ ہے، جہاں خاندان کا سارے کا سارا معاشی بوجھ زیادہ تر ایک مرد اٹھاتا ہے۔ اس مہنگائی اور اس بیروزگاری میں ایک غریب مرد کو سمجھ نہیں آ رہا کہ وہ گھر والوں کو کیسے بتائے کہ چیزیں اور اخراجات اس کے بس سے باہر ہوتے جا رہے ہیں۔
دوسری طرف پاکستان کی حکمران اشرافیہ آج بھی اے سی لگا کر ٹھنڈے کمروں میں بیٹھی ہوئی ہے، انہیں بس حکمرانی سے سروکار ہے اور مغربی آقاوں کی غلامی سے۔ ان حالات مین بغاوت فرض ہوجاتی ہے۔ وہ کب ہوگی، یہ وقت بتائے گا؛ مگر تاریخ گواہ ہے کہ جلد یا بدیر ایسا ہوتا ضرور ہے۔