اسرائیل فلسطین تنازعہ تقریبا سو سال پرانا ہے اور حالیہ پیش رفت صرف اس کا پیش خیمہ ہے جس کی منصوبہ بندی بہت پہلے کی گئی تھی۔ شیخ عمران این حسین نے تقریباً دو عشرے قبل کتاب " یروشلم فی القرآن" لکھی تھی اور انہوں نے کہا کہ یہ کتاب آج سے قبل نہیں لکھی جا سکتی تھی، کیونکہ صرف پچھلے چند سالوں میں یہودیوں کے پوشیدہ منصوبوں نے ان حالات کو واضع کیا ہے۔ آج تو حالات اس قدر واضح طور پر سامنے ہیں کہ بہت کم لوگ اس بات پر شک کر سکتے ہیں کہ دنیا پر تسلط کے لیے یہودیوں نے منصوبہ بنا رکھا ہے۔ صیہونی یہودیوں کے غلبہ میں ڈوبے میڈیا کی طرف سے پھیلائے جانے والے پروپیگنڈے پر متبادل رائے کے لیے ہم یہاں اس کتاب کے اردو ترجمہ کا دوسرا حصہ باب سوم " اختتامی نتیجہ"؛ پیش کر رہے ہیں۔
﷽
یروشلم فی القرآن؛ از شیخ عمران این حسین اردو ترجمہ
دوسرا حصہ
باب سوم
اختتامی نتیجہ
" اور اگر ہم اس (کتاب) کو عجمی زبان کا قرآن بنا دیتے تو یقیناً یہ کہتے کہ اِس کی آیتیں واضح طور پر بیان کیوں نہیں کی گئیں، کیا کتاب عجمی ہے اور رسول عربی ہے (اِس لئے اے محبوبِ مکرّم! ہم نے قرآن بھی آپ ہی کی زبان میں اتار دیا ہے۔) فرما دیجئے: وہ (قرآن) ایمان والوں کے لئے ہدایت (بھی) ہے اور شفا (بھی) ہے اور جو لوگ ایمان نہیں رکھتے اُن کے کانوں میں بہرے پن کا بوجھ ہے وہ اُن کے حق میں نابینا پن (بھی) ہے (گویا) وہ لوگ کسی دور کی جگہ سے پکارے جاتے ہیں"۔
(قرآن، فصلت، 41:44)
اب وقت آ گیا ہے کہ ہم اس کتاب کے مرکزی نکات کی مختصر تکرار کے ساتھ بات ختم کریں؛ وہ درج ذیل ہیں۔
ایک عجیب انقلابی تبدیلی جس نے یورپ کو بدل دیا؛ ایک کافرانہ قبائلی تہذیب کے جگہ ایک بہت بڑے پیمانے پر عیسائی اور چند چھوٹے مگر بااثر یہودی پر مشتمل ایک معاشرے کا قیام ہوا جس نے بالآخر ایک زیادہ اجنبی انقلابی تبدیلی کو راستہ دیا جس کے نتیجے میں وہی یورپی لوگ پھر بنیادی طور پر بے دین ہو گئے۔ اس تبدییلی کے دوران ایک عیسائی اور یہودی کافی حد تک جدید بے دین سفید آدمی بن گیا ہے۔ اور بالترتیب عیسائیت اور یہودیت دونوں کو تباہ کر دیا اور جو کچھ ان نازل شدہ مذاہب میں بچا تھا اور جو ابھی تک مقدس تھے؛ اسے تباہ کر دیا۔
جدید سیکولر سفید فام آدمی اور اس کے بھورے، پیلے اور کالے رنگ کے 'نقل شدہ آدمی' اب اسلام کے ساتھ وہی کچھ کرنے کی کوشش کر رہے ہیں جو پہلےیہودیت اور عیسائیت کے ساتھ کیا گیا تھا۔ یہ 1000 سالہ قدیم اسلام کے خلاف جنگ کی بنیادی وضاحت کرتا ہے جو 11 ستمبر 2011 کے بعد بہت زیادہ زیادہ غصے سے شروع کی گئی ہے۔
اب ایک نفیس اور جامع کوشش کی جا رہی ہے کہ مسلمان اپنے دین اسلام پر نظر ثانی کریں اور اپنے مذہب میں اتنی ترمیم کریں کہ اس اسلام کو نئے عالمگیر بین الاقوامی بے خدا معاشرہ میں شامل کیا جا سکے۔ کوشش ہے کہ اسلام کا ایک نیا کاسمیٹک ورژن (لیپا پوتی کیا ہوا) ابھرنا چاہیے۔ جو یہودیوں کو دنیا کا حکمران تسلیم کرے گا اور اسرائیل کی ریاست کو دنیا کی حکمران ریاست تسلیم کرے۔ یہ ایک ایسا اسلام ہونا چاہیے جو جہاد کے تصورات سے خالی ہو۔
مسلمانوں کو بتایا جا رہا ہے کہ نئے عالمی معاشرے کی اقدار خالص اسلام کی اقدار کی طرح واقعی آفاقی ہیں۔ لیکن نیا عالمی معاشرہ اور اس کی کاسموپولیٹن اشرافیہ سیکولر مغربی تہذیب کی پیداوار ہے اور یہ اس تہذیب کی بے دین قدروں میں شریک ہے۔ ان اقدار میں سیاسی شرک بھی شامل ہے جس نے اب سب بنی نوع انسان کو جان لیوا طریقے سے اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے۔ اور مزید برآں، ربا پر مبنی جدید عالمی معیشت نے بنی نوع انسان کے گلے کو طوق بن گیا ہے جو ایک نئی معاشی غلامی لے کر آیا ہے۔
بے خدا مغربی تہذیب نے دو ریاسٹون کے قیام کو ممکن بنایا ایک یہودیوں کی اسرائیل کی ریاست، اور دوسرے سعودی عرب کی سعودی وہابی ریاست، اور اس تہذیب نے اسرائیل اور سعودی عرب دونوں کی پیدائش سے لے کر موجودہ اب تک کی بقا کو یقینی بنایا ہے۔ یہی وہ کلید نقطہ ہے جس سے مسلمان آج کی دنیا کو سمجھنے کی کوشش کر سکتے ہیں۔ ان میں سے کوئی بھی واقعہ قرآن کے بغیر بیان نہیں کیا جا سکتا۔
قرآنی وضاحت جو اس کتاب کے بنیادی حصے کے طور پر ابھری ہے وہ یہ ہے کہ دنیا اب یاجوج اور ماجوج کے ساتھ ساتھ دجال، جھوٹے مسیحا کا کنٹرول میں ہے (یا انکا راج ہے)۔
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک الہی منصوبہ کا مقصد بیان کیا۔ جس میں یہودیوں (یعنی اسرائیلی یہودی) کو ان کے مسیحا، کنواری مریم کے بیٹے کا رد، اور اُسے مصلوب کرنے کی کوشش کے بعد مقدس سرزمین سے نکال دیا گیا تھا۔ اللہ تعالیٰ رحمٰن نے پھر انہیں ایک خاص مدت دی جس میں اس کے رحم کی تلاش کی جائے۔ ("ہوسکتا ہے کہ آپ کا رب (ابھی) آپ پر رحم کرے۔" قرآن، بنو اسرائیل، 17:8)، اور اس نے ان کے لیے صرف ایک دروازہ کھلا چھوڑا جس سے وہ رحم حاصل کر سکتے تھے۔
وہ دروازہ (رحمت کا) وہ آخری نبی تھا جو ابھی آنا تھا۔ اور وہ تھے اللہ تعالی کی نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم۔ یہودی کو اللہ تعالی کی رحمت حاصل کرنے لیے؛ آپ ﷺ پر ایمان لانا اور ان کی پیروی کرنا، ان کی عزت کرنا اور ان کی مدد کرنا ہوگی۔ (قرآن، الاعراف، 7:157)۔
اگر بنی اسرائیل کے یہودی محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو جھٹلائیں تو اس کا مطلب یہ ہو گا کہ رحمت الٰہی کا دروازہ بند ہو جائے گا، اور یہ کہ جب آخری زمانہ کا آخری الٹی گنتی آن پہنچے گی تو اللہ تعالیٰ انہیں واپس لائے گا؛ ان کے سب سے بڑے جرائم کے مقام پر، یعنی مقدس سرزمین پر (قرآن، بنو اسرائیل، 17:104)۔
یہودی کی پاک سرزمین میں واپسی اس بات کی نشاندہی کرے گی کہ ان کے لیے آخری آسمانی سزا کو وقت شروع ہو گیا ہے۔
اس کتاب نے اعلان کیا ہے کہ وہ لمحہ آگیا ہے! رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مدینہ میں تشریف آوری کے بعد سترہ مہینے یہودی تاریخ میں سب سے اہم تھا۔ معافی کے لیے، دروازہ رحمت الہی کھلا تھا. جب سترہ مہینے کے آخر میں بالکل واضح ہو گئی کہ یہودیوں نے نہ صرف محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو جھٹلایا؛ بلکہ اسلام کو تباہ کرنے کی سازش میں لگ گئے تھے، اللہ تعالیٰ نے قبلہ کی تبدیلی کا حکم دیا۔ اس کا مطلب یہ تھا کہ اب یہودیوں کے لیے رحمت الٰہی کا دروازہ بند ہو چکا ہے۔ وہ دوبارہ کبھی مقدس سرزمین کے وارث ہونے کے اہل نہیں ہوں گے؟ اس کے بجائے یہ وراثت اب مسلمانوں کے پاس ہو گی۔
" اور وہی ہے جس نے تم (مسلمانوں) کو زمین میں (یہویوں کے بعد) نائب بنایا اور تم میں سے بعض کو بعض پر درجات میں بلند کیا تاکہ وہ ان (چیزوں) میں تمہیں آزمائے جو اس نے تمہیں (امانتاً) عطا کر رکھی ہیں۔(بنی اسرائیل کو دوسرے لوگوں سے زیادہ ملا) بیشک آپ کا رب (عذاب کے حق داروں کو) جلد سزا دینے والا ہے اور بیشک وہ (مغفرت کے امیدواروں کو) بڑا بخشنے والا اور بے حد رحم فرمانے والا ہے"۔
(قرآن، الانعام، 6:165)
یہ وہ وقت تھا، یعنی قبلہ کی تبدیلی کے بعد اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات سے پہلے کہ دجال اور یاجوج و ماجوج کی رہائی کا واقعہ پیش آیا. اب صرف ’ایک آنکھ والے‘ مسلمان یہودیوں کے ساتھ بین المذاہب خدمات اور مشترکہ دعائیہ نشستوں میں شامل ہونگے؛ اس کی وجہ یہ ہے کہ اب یہودی کو مقدس سرزمین پر واپس لا جا چکا ہے؛ ان کے بہت سے برے اعمال کے نتائج کا سامنا کرنے کے لئے؛ اور اس میں وہ برائی بھی شامل ہے جس کا وہ اب ارتکاب کررہے ہیں۔ اس فہرست میں سب سے اوپر ان کا اللہ تعالی کے عہد کے ساتھ دھوکہ ہے۔
یہودی پہلے ہی تسلیم کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ ان کو پہلے بھی کئی بار سزا دے چکا ہے۔ اس کتاب نے اسلامی نقطہ نظر کی وضاحت کی ہے کہ تاریخ اس سے پہلے ختم نہیں ہو سکتی جب تک کہ یہودیوں کو ان کی آخری سزا نہ مل جائے۔ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے اس موضوع پر انتہائی اہم معلومات عقل مندوں کے لیے فراہم کیں ہیں۔ ایک مسلم فوج یروشلم کو فتح کرے گا، جعلی ریاست اسرائیل کو تباہ کرے گا اور یہودیوں کو سزا دے گا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیروکار اس طرح مقدس سرزمین کو آزاد کرائیں گے۔
یہاں ایک بار پھر اس بارے میں حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشین گوئی پیش ہے۔
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: خراسان سے سیاہ جھنڈے نکلیں گے۔ ( وہ علاقہ جو اب افغانستان، پاکستان اور تھوڑا سا ایران اور وسطی ایشیا میں شامل ہے) اور کوئی طاقت انہیں اس وقت تک نہیں روک سکے گی جب تک کہ وہ ایلیا (یروشلم) میں داخل نہیں ہو جاتے۔
(سنن، ترمذی)
یہی وجہ ہے کہ ’ یروشلم فی القرآن‘ کو بار بار پڑھنا چاہیے، کہ کیسے یہ کتاب ہر قاری کو قرآن کے عمیق مطالعہ اور اسکی اس تفسیر کی طرف لے جائے گی جو نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے اس ضمن میں بیان کی تھیں؟ آپ ﷺ نے یروشلم اور آخری دور میں اس کے کردار کے بارے میں تفصیل سے بات کی ہے۔ ان چیزوں میں سے جو آپ ﷺ نے بیان کی ہیں کچھ مندرجہ ذیل ہیں:-
ضرت عوف بن مالک اشجعی ؓسے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: عزوۂ تبوک کے دوران میں، میں رسول اللہﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا۔ آپﷺ چمڑے کے ایک خیمے میں تشریف فرمارہے تھے۔ میں خیمے کے سامنے بیٹھ گیا۔ رسول اللہﷺ نے فرمایا: عوف! اندر آ جاؤ۔ میں نے کہا: اللہ کے رسولﷺ! سارا ہی آجاؤں۔ آپﷺ نے فرمایا: سارے ہی (آجاؤ) پھر فرمایا: عوف! یاد رکھو، قیامت سے پہلے چھ واقعات (پیش آنے والے) ہیں: ان میں سے ایک میری وفات ہے (یہ سن کر غم اور پریشانی کی وجہ سے) میں بولنے کے قابل نہ رہا (ہکا بکا رہ گیا) رسول اللہﷺ نے فرمایا: کہو (یہ) ایک (علامت ہے)، پھر بیت المقدس کی فتح، پھر تمہارے اندر ایسی بیماری پھیلے گی جس کے ذریعے سے اللہ تعالیٰ تمہیں اور تمہاری اولاد کو شہادت کا درجہ دے گا اور تمہارے اعمال کو پاک کردے گا، پھر تمہارے اندر مال و دولت آجائے گی۔ (فراوانی کے باوجود حرص بہت ہوگی) حتیٰ کہ آدمی کو سو دینار دیے جائیں گے، تب بھی وہ ناراض رہے گا۔ اور تمہارے اندر ایک فتنہ برپا ہوگا کہ وہ کسی مسلمان کے گھر میں داخل ہوئے بغیر نہیں رہے گا، پھر تمہارے درمیان اور نبو اصفر (رومیوں) کے درمیان صلح جنگ بندی) ہوگی۔ وہ تمہیں دھوکا دیں گے اور اسی جھنڈوں کے ساتھ تمہاری طرف (حملہ کرنے کے لیے) آئیں گے۔ ہر جھنڈےتلے بارہ ہزار (فوجی) ہوں گے۔
(صحیح بخاری)
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: " ”قیامت اس وقت تک قائم نہ ہو گی جب تک یہودیوں سے تمہاری جنگ نہ ہو لے گی؛ مسلمان یہودیوں کے خلاف لڑیں گے۔ مسلمان ان کو قتل کریں گے؛ یہاں تک کہ یہودی پتھر اور درخت کے پیچھے چھپ جائیں گے۔ اور وہ پتھر بھی اس وقت بول اٹھیں گے جس کے پیچھے یہودی چھپا ہوا ہو گا کہ اے مسلمان! یہ یہودی میرے پیچھے چھپا ہوا ہے اسے قتل کر ڈالو؛ لیکن درخت غرقد (ایسا) نہیں کہے گا، کیونکہ یہ یہودیوں کا درخت ہے۔"
(صحیح مسلم)
شاید تاریخ میں پہلی بار کوئی جنگ ’پتھروں‘ سے لڑی جا رہی ہے۔ فلسطینی مسلمانوں کی انتفاضہ (بغاوت) اسرائیل کے ظلم پر اپنا جواب پتھر سے دینے کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہے۔ یہ اسرائیل کے لیے واقعی ایک منحوس علامت ہے۔ اس کے علاوہ اسرائیل نے مقدس سرزمین میں درختوں کو کاٹنا شروع کیا ہوا ہے؛ اسکے علاوہ ہزاروں زیتون کے 'درختوں' کی بھی اندھا دھند تباہی میں مصروف ہے۔ مسلمان فلسطینی عوام کے ساتھ ساتھ عیسائیوں پر بھی معاشی مشکلات مسلط کی جا رہی ہیں۔
ان فسادات کے خلاف غم و غصہ (حیرت انگیز جبر اور شیطانیت ) ایسی ہے کہ پاک سرزمین میں اب ’درخت‘ اور ’پتھر‘ بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشینگوئی کی تکمیل کے لیے ’’بولنا‘‘ شروع ہو گئے ہیں۔ یقیناً درختوں اور پتھروں کی بولی کو بیرونی کانوں سے نہیں سنا جا سکتا۔ بلکہ، یہ ان کے لیے ہی ممکن ہے کہ جن کے دل ایمان سے منور ہونگے تبھی دل میں اندرونی سماعت کا نظام یہ کرے گا۔ کہ 'درخت' اور 'پتھر' کی بولی کو سنیں جب وہ بولیں۔
شاید یہی وجہ یہ ہے کہ سعودی، مصری، ترکی، اردنی اور پاکستانی حکومتوں کے ساتھ ساتھ دنیا کی بہت سی دوسری حکومتیں بھی، مقدس زمیں میں پتھروں کو بولتے ہوئے سننے سے قاصر نظر آتی ہیں۔
ہمارا خیال یہ ہے کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی مذکورہ پیشین گوئی آج فلسطینی انتفادہ میں پورا ہو رہا ہے۔ جیسے جیسے اب وقت گزر رہا ہے۔ پتھر اونچی آواز میں بولیں گے۔ صرف وہی لوگ اسے سننے میں ناکام ہونگے جو روحانی طور پر بہرے اور مردہ ہیں۔ اب ہر طرف سے پتھر دینا بھر کے مسلمانوں کو پکار رہے ہیں۔ کہ وہ مقدس سرزمین کو یہودیوں کے قبضے اور جبر سے آزاد کرائیں۔
اس کا مطلب یہ ہے کہ مسلمان اپنے آپ کو متحرک کریں اور اس جدوجہد میں اپنی تمام کوششیں، اپنے تمام وسائل وقف کر دیں۔ اور اس مقابلے کو ایسے دنیاوی اہداف پر ترجیح دی جائے؛ جیسے مثال کے طور پر ایسے لوگوں کے معیار زندگی کو بلند کرنا جو پہلے ہی آرام سے رہ رہے ہیں۔ یہ منطقی طور پر بہت واضع ہے کہ مسلمان ان علاقوں میں نہیں رہ سکتے جس زمین پر اسلام کے خلاف جنگ اور اسرائیل کی حمایت سب سے زیادہ واضح ہے۔
آج ایسے علاقے امریکہ، برطانیہ وغیرہ ہیں۔ مسلمانوں کو ایسے علاقوں سے ہجرت کر کے ایسی جکہوں پر رہنے کے لیے چلے جانا چاہیے؛ جہاں وہ اپنے ایمان کو بہتر طریقے سے محفوظ رکھ سکیں اور پاک سرزمین کی آزادی کے لیے جدوجہد کی حمایت کر سکیں۔
دنیا تیزی سے مجبور ہو رہی ہے کہ اسرائیل کی طرف سے پیدا کردہ اور برقرار رکھے جانے والے جبر کو تسلیم کریں۔ یہ جبر مسلسل بڑھتے جائیں یہاں تک کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشین گوئی کے مطابق کچھ یوں ہوتا:-
"…. ایک آدمی قبر کے پاس سے گزرے گا؛ اور اس پر لڑھکتا ہوا کہے گا؛ کاش میں قبر میں ہوتا (مردہ آدمی ہوتا) مذہبی وجوہات کی بناء پر نہیں بلکہ (مسلط کردہ) جبر کی وجہ سے" (صحیح، مسلم)
شاید سب سے اہم انتباہ جو یہ کتاب دیتی ہے وہ یہ ہے کہ ہر کل ایسا ہو گا کہ اب ان مسلمانوں پر ظلم بڑھتا جا ئے گا جو اسلام کے وفادار ہونگے۔ درحقیقت گیارہ ستمبر کے بعد سے ایسے مسلمانوں پر ظلم و ستم ڈرامائی طور پر پوری دنیا میں شدت اختیار کر چکا ہے۔ مسلمان اب ’سب کی ماں‘ آزمائش (سب آزمائش کی ماں) کے تحت زندگی گزار رہے ہیں۔ دنیا میں موجودہ حکمران ریاست (امریکہ) اگلی حکمران ریاست (اسرائیل) کے لیے دنیا کو محفوظ بنانے کی کوششوں کی قیادت کر رہی ہے۔
قرآن نے جو رہنمائی سورہ کہف میں دی ہے؛ وہ واحد رہنمائی ہے؛ جس سے مسلمان اس شیطانی طوفان سے بچنے کی امید کر سکتے ہیں۔ یہی وہ واحد رہنمائی ہے جو اس دور میں مسلمانوں کی کامیابی سے ہمکنار کر سکتا ہے؛ اور جو اس دور کی بابت سمجھا سکتا ہے؛ جس میں اب ہم زندہ ہیں۔ اس رہنمائی سے جو فہم قرآن اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث سے ماخوذ ہے؛ مسلمانوں کو سمجھ عطا کرتا ہے کہ وہ جدید سیکولر ریاست اور اس کی انتخابی سیاست کے نظام کے شرک کو سمجھیں۔ اور مسلمانوں کو اس کے سیکولر آئین پربیعت نہ کرتے ہوئے اس شرک سے باز رہنے کی تلقین کریں۔
وہ قرآنی فہم جدید معیشت کے ربا کو بھی سمجھائے گا۔ اور مسلمانوں کو ہر قسم کے سود سے زیادہ سے زیادہ پرہیز کرنے کی تلقین کرے گا۔ اس فہم سے ممکن ہوگا کہ وہ 'کاغذی رقم' کو حرام تسلیم کرے گا اور مسلمانوں کو سونے اور چاندی کے سکوں کے استعمال کی طرف لوٹنے کی ترغیب دینے کے لیے اقدامات کرے گا۔ کہ اس پیسہ کو مارکیٹ میں قانونی ٹینڈر کے استعمال کو رواج دے گا۔ (اس بات کا امکان نہیں ہے کہ 'بین الاقوامی یہودی' ملائیشیا کی حکومت کو سونا دوبارہ متعارف کرانے کی اجازت دے گا۔ یعنی چاندی کے سکے بطور 'قانونی ٹینڈر'۔)۔
یہ قرآنی فہم لوگوں کو چور دروازے سے ربا کی ترویج کی پہچان دے گا اور خبردار کرے گا؛ جو اسلامی بینکوں، کریڈٹ یونینوں اور دیگر مالیاتی اداروں کے ذریعہ عمل پذیر کیا جاتا ہے۔ اس طرح کا فہم آج کے دور کو یاجوج و ماجوج اور دجال باطل مسیحا کا زمانہ قرار دے گا۔ باقی سب صرف 'ہوا میں سیٹی بجا رہے ہیں'۔
میری کتاب بعنوان "سورۃ الکہف اینڈ دی ماڈرن ایج" جو اب لکھی جا رہی ہے۔ انشاء اللہ قرآن کی اس سورت کو سمجھانے کی کوشش کرے گی۔ جو ایسی رہنمائی فراہم کرے گا؛ جس کے بالکل مرکز میں سے جدید دنیا کے بے خدا شہروں سے رابطہ منقطع کرنا لازمی ہے۔ اور دیہی علاقوں میں منتقل ہونا بتاتا ہے جہاں زمین سستی ہے۔ اور جہاں پانی ہے۔ اس کے بعد ایسی جگہوں پر مسلم گاؤں قائم کیے جائیں۔ اور پھر اسلام کو دیہات کی زندگی کے طور پر قائم کرنے کی کوشش کی جائے۔
میرے استاذ مولانا ڈاکٹر محمد فضل الرحمن انصاری کا کام بعنوان ’’ مسلم معاشرے کی قرآنی بنیادیں اور ڈھانچہ" ’ بقا' کا نقشہ ہے۔ کیونکہ یہ قرآن کی مخصوص رہنمائی فراہم کرتا ہے جس کا اطلاق ایسے مسلمانوں کے دیہاتوں میں مستند اسلام کا قیام کے لی ضروری ہے۔ مسلمانوں کے ان دیہاتوں میں جو بے خدا دنیا سے منقطع ہونگے؛ ایسے بچے پیدا ہونگے جن سے مستقبل کی مسلم فوج نکلے گی جو ارض مقدس کو آزاد کرائے گی۔
یہ اس کتاب کا اختتام بھی ہے.
(یہ کتاب اسلامک بک ٹرسٹ سے منگوائی جا سکتی ہے ibtkl@pd.jaring.my)
شیخ عمران این حسین نے اس موضوع پر مختلف اوقات اور مقامات پر بہت تفصیل سے گفتگو کر رکھی ہے جو یو ٹیوب پر شیخ صاحب کے اپنے چینل کے علاوہ بے شمار دوسرے چینلز پر موجود ہیں۔ ذیل میں صرف دو ویڈیوز پیش کی جاتی ہیں۔