یروشلم فی القرآن؛ از شیخ عمران این حسین اردو ترجمہ باب سوم
اسرائیل فلسطین تنازعہ تقریبا سو سال پرانا ہے اور حالیہ پیش رفت صرف اس کا پیش خیمہ ہے جس کی منصوبہ بندی بہت پہلے کی گئی تھی۔ شیخ عمران این حسین نے تقریباً دو عشرے قبل کتاب " یروشلم فی القرآن" لکھی تھی اور انہوں نے کہا کہ یہ کتاب آج سے قبل نہیں لکھی جا سکتی تھی، کیونکہ یہ صرف پچھلے چند سالوں میں یہودیوں کے پوشیدہ منصوبوں نے ان حالات کو واضع کیا ہے۔ آج تو حالات اس قدر واضح طور پر سامنے ہیں کہ بہت کم لوگ اس بات پر شک کر سکتے ہیں کہ دنیا پر تسلط کے لیے یہودیوں نے منصوبہ بنا رکھا ہے۔ صیہونی یہودیوں کے غلبہ میں ڈوبے میڈیا کی طرف سے پھیلائے جانے والے پروپیگنڈے پر متبادل رائے کے لیے ہم یہاں اس کتاب کے باب سوم " یروشلم فی القرآن؛ از شیخ عمران این حسین اردو ترجمہ " کو بینگ باکس آن لائن کے قارئین کے لیے شیئر کر رہے ہیں۔
2023-11-10 18:10:02 - Muhammad Asif Raza
﷽
یروشلم فی القرآن؛ از شیخ عمران این حسین اردو ترجمہ
باب سوم
قرآن میں یروشلم کی کہانی کا آغاز: یروشلم اور انبیاء
"لیکن ہم نے اسے (ابراہیم) اور (ان کے بھتیجے) لوط کو نجات دی (اور ان کو) زمین کی طرف ہدایت کی۔ جس میں ہم نے تمام انسانوں کے لیے نعمتیں رکھی تھیں۔"
(قرآن، الانبیاء، 21:71)
ابراہیم علیہ السلام
یروشلم اور مقدس سرزمین کے بارے میں حقیقی قرآنی کہانی اللہ کے رسول، سب سے اعلیٰ حضرت ابراہیم علیہ السلام سے شروع ہوتی ہے۔
اس نے مندر (جدید عراق میں ار) میں اپنی قوم میں موجود بتوں کو توڑ دیا؛ لیکن سب سے بڑے بت کو اپنی قوم کے لوگوں کو متاثر کرنے کے لیے کھڑا چھوڑ دیا تاکہ بت پرست لوگوں کو انکے بتوں کی پرستش کا باطل پن سمجھا سکھیں۔( قرآن، الانبیاء، 21:57-63)۔
اگر ابراہیم علیہ السلام آج واپس لوٹیں اور ایسی ہی حرکت کا اعادہ کریں تو سیکولر حکومتوں اور نام نہاد اسلامی سکالرز کی طرف سے اس کی مذمت کی جائے گی۔ اور اسے دہشت گردی اور بابل کے ثقافتی ورثے کی تباہی قرار دی جائے گی؛ اقوام متحدہ کسی بھی حکومت پر پابندیاں عائد کرے گا جس نے اسے پناہ دی۔ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ بھی کوئی مختلف سلوک نہیں کیا جائے گا اگر وہ واپس آئیں اور خانہ کعبہ میں بتوں کی تباہی کو دہرائیں ۔
اُر کے لوگوں نے اپنے بتوں کی تباہی اور جس تضحیک سے انکے بتوں کو نشانہ بنایا گیا تھا؛ پر غصے کا اظہار کیا۔ انہوں نے ابراہیم (علیہ السلام) کو سزا دی، آگ بھڑکائی اور انکو اس میں پھینکنا۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے مداخلت کی۔ آگ کو "اس کے لیے ٹھنڈی" اور "اُسے نقصان سے محفوظ رکھنے" کا حکم دیا (قرآن، الانبیاء، 21:68-9)۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے اعلان کیا کہ اس نے اسے نجات دی۔
اس کے بعد اللہ تعالی نے حضرت ابراہیم علیہ السلام اور لوط (علیہ السلام) کو اس سرزمین کی طرف روانی کیا جس میں اس نے تمام انسانوں کے لیے نعمتیں رکھی تھیں۔ وہ مقدس سرزمین تھی: "لیکن ہم نے اسے (ابراہیم) اور (ان کے بھتیجے) لوط کو نجات دی اور اس سرزمین کی طرف بھیجا جس میں ہم نے تمام انسانوں کے لیے نعمتیں رکھی تھیں۔
(قرآن، الانبیاء، 21:71)
اس آیت سے ہی مقدس سرزمین یا بابرکت سرزمین کا تصور تھا۔ جسے پہلی بار قرآن میں متعارف کرایا گیا۔ اس کی کیا اہمیت ہے؟ اللہ سبحان تعالی جو سب سے زیادہ عقلمند ہے، نے آخر کیوں تمام زمین میں سے ایک زمین کا انتخاب کیا اور اس کو مقدس بابرکت سرزمین قرار دیا؟ اور اس نے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) اور لوط (علیہ السلام) جو اس کے انبیاء اور رسول ہیں، کی رہنمائی ؛ اس مقدس سرزمین کی طرف ہجرت کرنے کے لیے، کیوں کی؟؟ ان سوالات کا ایک ہی جواب ہو سکتا ہے۔
تمام بنی نوع انسان میں سے اللہ، حکیم نے ابراہیم (علیہ السلام) کو اپنا دوست 'پیارے پیارے' (خلیل) منتخب کیا۔ (قرآن، النساء، 4:125)۔
اس نے ابراہیم (علیہ السلام) کا امتحان لیا۔ سب سے بڑے امتحانات اور آزمائشوں کے ساتھ جو ابراہیم علیہ السلام نے پاس کیے تھے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ انہیں تمام بنی نوع انسان کا مذہبی سربراہ (امام) مقرر کیا (قرآن، البقرہ، 2:124)۔
اوپر کی قرآنی دلیل کے بعد صرف ایک ہی 'حق' ہو سکتا ہے، اور اسی سے تمام بنی نوع انسان کے لیے 'ایک' مذہب کا ظہور ہونا چاہیے- حضرت ابراہیم علیہ السلام کا دین اور بنی نوع انسان کے لیے صرف ایک ہی سچا دین ہونا چاہیے؛ جو اس امام کا دین ہے؛ یعنی حضرت ابراہیم علیہ السلام کا دین۔ اس طرح باقی سب جھوٹے ہوجاتے ہیں۔ کوئی پادری یا ربی ممکنہ طور پر اس کو چیلنج نہیں کر سکتا۔ اور پھر جب ہم ایسا کہتے ہیں تو ربی ہم پر شاونزم کا الزام لگاتا ہے۔
جب اللہ تعالیٰ نے ایک سرزمین کا انتخاب کیا اور اس کو مقدس سرزمین بنایا اور پھر ابراہیم علیہ السلام کو اس سرزمین کی طرف ہجرت کرنے کی ہدایت کی، خدائی مقصد یا منصوبہ یہ تھا کہ مقدس سرزمین سچائی کے 'لٹمس ٹیسٹ' کے طور پر کام کرے۔ صرف حضرت ابراہیم علیہ السلام کا دین ہی سرزمین مقدس میں زندہ رہ سکتا تھا۔ باقی سب نکال دیے جائیں گے۔ دوسرے لفظوں میں، یہاں، سچائی کی ہمیشہ باطل پر فتح نظر آئے گی۔ اور تاریخ اس سر زمین میں باطل پر حق کی آخری فتح سے پہلے ختم نہیں ہو سکتی تھی۔ اور اسی لیے تقویٰ، پرہیزگاری، راستبازی اور اللہ تعالیٰ کے سامنے سر تسلیم خم کرنا جو ابراہیم علیہ السلام کے دین کا اصل سچائی کا جوہر ہے۔ عیسائیت، یہودیت، یا اسلام میں حقیقی سچ کون سا ہے؟ یروشلم پہلے ہی اس سوال کا جواب دے رہا ہے۔ سچائی کی توثیق کرنا یروشلم کا مقدر ہے۔ اور یہ یقینی طور پر اس کتاب میں جو اہم نکات بیان کیے جا رہے ہیں؛ ان میں سے ایک ہے۔
چونکہ ابراہیم علیہ السلام اور لوط علیہ السلام، اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہدایت یافتہ تھے۔ سو اس مقدس سرزمین کی طرف ہجرت کرنے اور وہاں رہائش اختیار کرنے کا مطلب یہ تھا کہ جب تک اللہ تعالیٰ ان کو دوبارہ کہیں اور ہجرت کرنے کا حکم نا دے گا، وہ اور ان کے اولاد اسی سرزمین میں آباد رہے گی۔ اس لیے یہ ان کی زمین تھی۔
سوال جو لاحق ہے اور یقینا" لازم ہوتا ہے کہ کیا مقدس سرزمین میں رہائش کی جو دعوت دی گئی تھی وہ غیر مشروط تھا؟ اگر ابراہیم علیہ السلام کی اولاد ہو اور انکے دین کو چھوڑ دے اور ملحد ہو جائے، یا جسم فروشی یا جبر میں ملوث ہو تو کیا پھر بھی دعوت باقی رہے گی؟ کیا یہ اب بھی جائز رہے گا؟ جبکہ اب یہود مقدس سرزمین میں ایک سیکولر ریاست قائم کرچکے ہیں؟ اسرائیل کی ریاست نے اعلان کیا ہے کہ 'اعلیٰ اختیار' ابراہیم کے خدا کی بجائے ریاست سے تعلق رکھتے ہیں، اور یہ کہ سب سے اعلیٰ قانون، اللہ کے قانون کے بجائے ریاست کا قانون ہوگا؟
کیا یہ اب بھی درست ہوگا اگر کوئی ریاست ہو اور جس چیز کو اللہ تعالیٰ نے حرام قرار دیا ہو؛ وہ ریاست اس ممنوع کو حلال (یعنی قانونی) قرار دے؟ ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ ابراہیم علیہ السلام کے خدا نے سود پر قرض لینا اور قرض دینا سے منع کیا ہے۔ سو یہودیوں نے تورات کو تبدیل کر دیا اور جائز قرار دے دیا ان لوگوں کو سود پر قرض دینا جو یہودی نہیں تھے۔ صرف ربا ہی نہیں جو آج مقدس سرزمین میں قانونی ہے، بلکہ اسی طرح بہت سی دوسری چیزیں بھی ہیں جن کی اللہ تعالی نے ممانعت کی تھی۔
دوسرا، ایک اور اہم سوال یہ ہے کہ اگر اللہ تعالیٰ نے اس سرزمین کو برکت دی ہے تو کیا تمام بنی نوع انسان کو اس مقدس زمین کی برکتوں
کے حصول کے لیے آزادانہ رسائی حاصل نہی ہونی چاہیے؟ کیا اس کا مطلب یہ نہیں ہوگا کہ بنی نوع انسان میں کوئی بھی جو وفاداری سے دین ابراہیمی کی پیروی کرتا ہے تو اس کو بھی ان نعمتوں تک رسائی حاصل ہو گی؟ کیا آفاقی بیان ایسا نہی ہونا چاہیے؟ اس کے بعد، یہودیوں کا مقدس زمین پر خصوصی ملکیت کا دعویٰ کہاں سے جائز بنتا ہے؟
ہم اس کتاب میں ان اہم سوالات کے جوابات دینے کی کوشش کررہے ہیں تو یہ بہت اچھا ہوگا کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام اور انکے رب اللہ تعالی کے درمیان درج ذیل گفتگو پر غور کرنے میں مدد کریں۔
" اور (وہ وقت یاد کرو) جب ابراہیم (علیہ السلام) کو ان کے رب نے کئی باتوں میں آزمایا تو انہوں نے وہ پوری کر دیں، (اس پر) اللہ نے فرمایا: میں تمہیں لوگوں کا پیشوا بناؤں گا (تمام بنی نوع انسان کا روحانی رہنما)، انہوں نے (ابراہیم) عرض کیا: (کیا) میری اولاد میں سے بھی؟ (کیا وہ بھی اس درجہ میں شریک ہوں گے؟) ارشاد ہوا: (ہاں! مگر) میرا وعدہ ظالموں (یعنی جبر و ناانصافی) کو نہیں پہنچتا"۔
(قرآن، البقرہ، 2:124)
ان اعمال میں سے جن کو قرآن ظلم کے اعمال کے طور پر تسلیم کرتا ہے۔ ایک ہے لوگوں کو اپنے گھروں سے نکال دینا اور اس سرزمین سے باہر کردینا جس میں وہ رہتے تھے اور وہ بھی کسی جواز کی بغیر۔
" ان لوگوں کو (اب اپنے دفاع کے لیے جنگ کی) اجازت دے دی گئی ہے جن پر (ناحق) جنگ مسلط کردی گئی ہے، (اور یہ اجازت) اِس وجہ سے (دی گئی ہے) کہ ان پر ظلم کیا گیا، اور بے شک اللہ ان (مظلوموں) کی مدد پر بڑا قادر ہے۔ (یہ) وہ لوگ ہیں جو اپنے گھروں (وطن) سے ناحق نکالے گئے صرف اس بنا پر کہ وہ کہتے تھے کہ ہمارا رب اللہ ہے، اور اگر اللہ انسانی طبقات میں سے بعض کو بعض کے ذریعے (قیامِ اَمن کی جدوجہد کی صورت میں) ہٹاتا نہ رہتا تو خانقاہیں اور گرجے اور کلیسے اور مسجدیں (یعنی تمام ادیان کے مذہبی مراکز اور عبادت گاہیں) مسمار اور ویران کر دی جاتیں جن میں کثرت سے اللہ کے نام کا ذکر کیا جاتا ہے، اور جو شخص اللہ (کے دین) کی مدد کرتا ہے یقینًا اللہ اس کی مدد فرماتا ہے۔ بے شک اللہ ضرور (بڑی) قوت والا (سب پر) غالب ہے"۔
(قرآن، الحج، 22:39-40)
یہ اوپر بیان کیا گیا بالکل وہی طریقہ تھا جس سے یہودی ریاست اسرائیل قائم ہوئی تھی۔
قرآن نے اپنی سب سے بڑی مذمت کو ظلم کے اس فعل کے لیے محفوظ رکھا ہے جو اس وقت ہوتا ہے جب اللہ کا کلام بدل دیا جاتا ہے اور اللہ پر جھوٹ بولا جاتا ہے۔ اور بالکل ایسا ہی تھا کہ اللہ تعالیٰ کے کلام کو بدلنا؛ جو یہودیوں نے کیا جب انہوں نے تورات کو دوبارہ لکھا اور اسے خراب کیا۔
اللہ پر جھوٹ یا جھوٹ بولنے والے سے بڑا ظلم کون کرے گا؟ اس کی نشانیوں کو رد کرتا ہے؟ لیکن ظالم کبھی فلاح نہیں پا سکتے۔"
(قرآن، الانعام، 6:21)
موسیٰ علیہ السلام
قرآن میں پاک سرزمین کا اگلا ذکر تقریباً 500 سال بعد آیا جب موسیٰ علیہ السلام نے بنی اسرائیل کو حکم دیا کہ وہ مقدس زمین اسرائیل پر قبضہ کرنے کے لیے لڑیں۔ اس نے انہیں مصر کی غلامی سے نکالا تھا، اور وہ ایک خدائی معجزہ ہوا تھا؛ جس میں سمندر ان کے لیے جدا ہو گیا لیکن ان کے دشمنوں کو غرق کر دیا۔ پھر سینا سے پاک سرزمین کو آزاد کرانے کے لیے جدوجہد شروع کی جانی تھی۔
" اے میری قوم! (ملکِ شام یا بیت المقدس کی) اس مقدس سرزمین میں داخل ہو جاؤ جو اللہ نے تمہارے لئے لکھ دی ہے اور اپنی پشت پر (پیچھے) نہ پلٹنا ورنہ تم نقصان اٹھانے والے بن کر پلٹو گے (دوسری چیزوں کے علاوہ اس زمین میں رہنے کا حق)"۔
(قرآن، المائدہ، 5:21)
قرآن کی اس آیت نے سورۃ الانبیاء، 21:71 جس کا اوپر حوالہ دیا گیا ہے؛ میں جو کچھ مضمر ہے اس کی تصدیق کی۔ بنی اسرائیل ابراہیم علیہ السلام کی اولاد تھے۔ اور سر زمین مقدس میں رہنے کے حقدار بھی رہتے اگر وہ اب بھی ابراہیم علیہ السلام اور اللہ کے نبی، موسیٰ علیہ السلام کے دین کی پیروی کر رہے ہوں۔ یہ مقدس زمین کے حقدار ہوتے تو یہ ان کی زمین تھی؟
موسیٰ (علیہ السلام) کی وفات کے کچھ عرصہ بعد بنی اسرائیل مقدس سرزمین میں داخل ہونے میں کامیاب ہو گئے۔ لیکن دشمن قبائل نے انہیں مسلسل ہراساں کیے رکھا۔ کبھی کبھی وہ یہاں تک کہ اپنی جان بچانے کے لیے بھاگنے پر مجبور ہوئے۔ قرآن نے اس کا حوالہ دیا ہے، ان کی ایک خواہش کی جو ایک ایسے بادشاہ کی تھی جو انہیں جنگ میں لے جائے جب وہ مقدس سرزمین پر مکمل کنٹرول حاصل کرنے کی جدوجہد کر رہے تھے۔
" کیا آپ نے ان لوگوں کو نہیں دیکھا جو موت کے ڈر سے اپنے گھروں سے نکل گئے حالانکہ وہ ہزاروں (کی تعداد میں) تھے، تو اللہ نے انہیں حکم دیا: مر جاؤ (سو وہ مرگئے)، پھر انہیں زندہ فرما دیا، بیشک اللہ لوگوں پر فضل فرمانے والا ہے مگر اکثر لوگ (اس کا) شکر ادا نہیں کرتے"۔
اللہ کی راہ میں (قیام امن اور تکریم انسانیت کے تحفظ کے لیے) جنگ کرو اور جان لو کہ اللہ خوب سننے والا جاننے والا ہے۔
کون ہے جو اللہ کو قرضِ حسنہ دے پھر وہ اس کے لئے اسے کئی گنا بڑھا دے گا، اور اللہ ہی (تمہارے رزق میں) تنگی اور کشادگی کرتا ہے، اور تم اسی کی طرف لوٹائے جاؤگے۔
کیا آپ نے بنی اسرائیل کے اس گروہ کو نہیں دیکھا جو موسٰی (علیہ السلام) کے بعد ہوا، جب انہوں نے اپنے پیغمبر سے کہا کہ ہمارے لئے ایک بادشاہ مقرر کر دیں تاکہ ہم (اس کی قیادت میں) اللہ کی راہ میں جنگ کریں، نبی نے (ان سے) فرمایا: کہیں ایسا نہ ہو کہ تم پر قتال فرض کردیا جائے تو تم قتال ہی نہ کرو، وہ کہنے لگے: ہمیں کیا ہوا ہے کہ ہم اللہ کی راہ میں جنگ نہ کریں حالانکہ ہمیں اپنے گھروں سے اور اولاد سے جدا کر دیا گیا ہے، سو جب ان پر (ظلم و جارحیت کے خلاف) قتال فرض کر دیا گیا تو ان میں سے چند ایک کے سوا سب پھر گئے، اور اللہ ظالموں کو خوب جاننے والا ہے"۔
(قرآن، البقرہ، 2:243-6)
وہ نبی جس نے ان سے (اوپر) بات کی تھی وہ سموئیل (علیہ السلام) تھے۔ ان کا ردعمل اس کے لیے تھا:
"ہم اللہ کی راہ میں لڑنے سے کیسے انکار کر سکتے ہیں یہ دیکھتے ہوئے کہ ہمیں اور ہمارے اہل خانہ کو ہمارے گھر سے نکال دیا گیا ہے؟"
(قرآن، البقرہ، 2:246)
اس جواب نے ان کے اپنے الفاظ میں، ان کی اپنی زبان میں یہ اصول قائم کردیا گیا تھا۔ ایک قوم کو ایک ظالم کے خلاف جنگ کرنے کا حق تھا کہ وہ زمین اور وہ گھر جس میں وہ رہتے تھے اور ظالموں نے انہیں اپنے ملک سے نکال دیا تھا۔ یہ اصول دنیا کے تمام خطوں کے لیے درست ہے یا یہ محض خاص طور پر مقدس سرزمین کے لیے مخصوص تھا۔
پھر، اسرائیل کی ریاست کے لیے یہ کیسے ممکن ہوا کہ جسے فلسطینیوں کو اپنے گھروں سے اور زمین سے باہر نکالنے کی پالیسی کی بنیاد پر قائم کیا گیا ہے؟ فلسطینی تو وہ لوگ ہیں جو یہودیوں کی طرح ابراہیم علیہ السلام ہی کے خدا کی پرستش کرتے ہیں؛ اور مزید برآں یہ کہ سختی کے ساتھ پچاس سال سے زیادہ ہوگئے ہیں کہ ان کی واپسی کا حق بھی انکو دینے سی انکار کیا ہوا ہے؟
حضرت یوشع علیہ السلام
بائبل ہمیں یہ بتاتی ہے کہ بنی اسرائیل کے لوگوں کو مصر سے نجات دلانے کے بعد (ایک بار پھر) مقدس سرزمین کو اللہ کی طرف سے مقرر کردہ وراثت کے طور پر یہودیوں کو عطا کی گئی۔ " یشوعا ان کو مقدس سرزمین میں لے جایا"۔ قرآن نہ اس کی تردید کرتا ہے اور نہ ہی اس کی تصدیق کرتا ہے۔ جوشوا کے نام کے ساتھ بائبل کا بیان:
"اور ہم نے اس قوم (بنی اسرائیل) کو جو کمزور اور استحصال زدہ تھی اس سرزمین کے مشرق و مغرب (مصر اور شام) کا وارث بنا دیا جس میں ہم نے برکت رکھی تھی، اور (یوں) بنی اسرائیل کے حق میں آپ کے رب کا نیک وعدہ پورا ہوگیا اس وجہ سے کہ انہوں نے (فرعونی مظالم پر) صبر کیا تھا، اور ہم نے ان (عالیشان محلات) کو تباہ و برباد کردیا جو فرعون اور اس کی قوم نے بنا رکھے تھے اور ان چنائیوں (اور باغات) کو بھی جنہیں وہ بلندیوں پر چڑھاتے تھے"۔
(قرآن، الاعراف، 7:137)
اس سے پہلے جب موسیٰ علیہ السلام نے انہیں ایسا کرنے کا حکم دیا تھا تو یہودیوں نے مقدس سرزمین میں داخل ہونے کے لیے لڑنے سے انکار کر دیا تھا۔ اس وقت ان میں سے دو لوگوں نے انہیں لڑنے کی تاکید کی تھی کہ مقدس سرزمین میں داخل ہونے کے لئے لڑیں۔ قرآن کے مفسرین یشوعا کو دو میں سے ایک کے طور پر پہچانتے ہیں۔
" ان (چند) لوگوں میں سے جو (اللہ سے) ڈرتے تھے دو (ایسے) شخص بول اٹھے جن پر اللہ نے انعام فرمایا تھا (اپنی قوم سے کہنے لگے:) تم ان لوگوں پر (بلا خوف حملہ کرتے ہوئے شہر کے) دروازے سے داخل ہو جاؤ، سو جب تم اس (دروازے) میں داخل ہو جاؤ گے تو یقیناً تم غالب ہو جاؤ گے، اور اللہ ہی پر توکل کرو بشرطیکہ تم ایمان والے ہو"۔ (قرآن، المائدہ، 5:23)
حضرت سلیمان علیہ السلام
پھر، مزید 500 سال بعد، قرآن نے مقدس سرزمین کا چوتھا حوالہ دیا۔ جب حکیم اللہ تعالیٰ نے بادشاہت سلیمان (علیہ السلام) کی بات یوں فرمائی:
اور (ہم نے) سلیمان (علیہ السلام) کے لئے تیز ہوا کو (مسخّر کردیا) جو ان کے حکم سے (جملہ اَطراف و اَکناف سے) اس سرزمینِ کی طرف چلا کرتی تھی جس میں ہم نے برکتیں رکھی ہیں، اور ہم ہر چیز کو (خوب) جاننے والے ہیں"۔
(قرآن، الانبیاء، 21-81)
یہ ان تمام الہی نعمتوں کا نتیجہ تھا کہ (اسلامی) ریاست اسرائیل جس پر سلیمان علیہ السلام نے حکومت کی وہ نہ صرف حکمران ریاست بن گئی۔ بلکہ، یہ بھی کہ دنیا کی اب تک کی سب سے شاندار ریاست کا مشاہدہ کیا گیا ہے۔ سلیمان کی ریاست اسرائیل کے ساتھ اسرائیلی لوگوں نے سنہری دور کا تجربہ کیا۔
حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم
آخر کار قرآن نے مقدس یا بابرکت سرزمین کا پانچواں حوالہ دیا جب اس میں نبی کریم محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے رات کے وقت کے معجزاتی سفر کو بیان کیا مکہ سے یروشلم اور پھر آسمانوں میں:
" وہ ذات (ہر نقص اور کمزوری سے) پاک ہے جو رات کے تھوڑے سے حصہ میں اپنے (محبوب اور مقرّب) بندے کو مسجدِ حرام سے (اس) مسجدِ اقصٰی تک لے گئی جس کے گرد و نواح کو ہم نے بابرکت بنا دیا ہے تاکہ ہم اس (بندۂ کامل) کو اپنی نشانیاں دکھائیں، بیشک وہی خوب سننے والا خوب دیکھنے والا ہے"۔
(قرآن، بنو اسرائیل، 17:1)
اس سب سے دور کی مسجد (ہیکل) کی شناخت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسجد اقصیٰ کے طور پر کی تھی۔ وہ مسجد جسے حضرت سلیمان علیہ السلام نے یروشلم میں تعمیر کیا تھا۔ :
جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا: جب قریش کے لوگوں کو مجھ پر یقین نہیں آیا (یعنی میرے رات کے سفر کی کہانی)، میں الحجر میں کھڑا ہوا اور اللہ تعالی نے یروشلم کو میرے سامنے دکھایا، اور میں نے اسے دیکھتے ہی ان کے سامنے بیان کرنا شروع کیا۔"
(صحیح بخاری)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمانوں کو تین مقامات کے علاوہ کسی اور مقدس جگہ کا سفر کرنے سے روک دیا۔:
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: سفر پر نہ نکلو مگر تین کے لیےمساجد (مسجد کی جمع) کے لیے؛ یعنی مسجد الحرام (مکہ میں)، رسول اللہ کی مسجد (مدینہ میں) اور مسجد اقصیٰ (یروشلم میں)۔ (بخاری)
میمونہ بن سعد رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں اس بارے میں شرعی حکم بتائیں؟
بیت المقدس (یروشلم) کا دورہ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جاؤ وہاں نماز پڑھو۔ (لیکن) اس وقت سب شہر جنگ سے متاثر تھے۔ (تو اس نے مزید کہا) اگر تم اس کی زیارت نہ کر سکو اور نہ وہاں نماز پڑھو تو پھر لیمپ میں استعمال کرنے کے لیے کچھ تیل بھیجو (یعنی مدد بھیجو)۔ (سنن ابوداؤد)
جنرل ٹائٹس کی قیادت میں رومی فوج نے 70 عیسوی میں اس مسجد اقصیٰ کو تباہ کر دیا جسے حضرت سلیمان علیہ السلام نے تعمیر کرایا تھا۔ یہ ابھی تک کھنڈرات میں پڑا تھا جب مسلم فوج نے خلیفہ عمر رضی اللہ عنہ کے دور میں یروشلم فتح کیا۔ اس نے یہ حکم دیا تھا۔ موجودہ مسجد اقصیٰ اصل ہیکل کے ان کھنڈرات کی جگہ پر تعمیر کی جائے جو جو سلیمان علیہ السلام نے بنوائی۔
(یہ کتاب اسلامک بک ٹرسٹ سے منگوائی جا سکتی ہے ibtkl@pd.jaring.my)