"کرنل کی ڈائری سے" : لیفٹیننٹ کرنل ابرار خان (ریٹائرڈ) "یادِ ماضی عذاب ہے یا رب"
ہم شہرِ راولپنڈی کے علاقے سیٹلائٹ ٹاؤن، ڈی بلاک میں واقع اپنے آبائی گھر میں وارد ہوئے۔ ہمارا وہ گھر شہر کی مشہور سکستھ اور ففتھ روڈ کے عین وسط میں واقع تھا۔ سکستھ روڈ کے بعد سیونتھ روڈ بھی ہوا کرتی تھی مگر ناجانے سیونتھ روڈ سے آگے اور ففتھ روڈ سے پہلے والی سڑکوں کا ذکر کبھی کیوں نہ سنا۔ سیونتھ روڈ بھی ہمیں اس لیے یاد رہی کہ اس پر مشہورِ زمانہ پوسٹ گریجویٹ کالج فار وومن ہوا کرتا تھا بلکہ وہ اب بھی اپنی پوری رعنائیوں کے ساتھ وہیں موجود ہے۔ ہمارے بچپن میں، مرحوم والدِ محترم اکثر وہاں منقعدہ مشاعروں میں بطورِ شاعر و صحافی مدعو ہوا کرتے۔ ان کا دعوت نامہ ہمیشہ مع فیملی ہوا کرتا تو ہم بطور ننھے سامعین ان کے ہمراہ ہو لیتے۔ جب ہم کچھ بڑے ہوئے تو مشاعروں کا انتظار کیے بغیر ہی بن بلائے ہر روز کالج کے باہر پہنچ جایا کرتے۔۔۔
سیٹلائٹ ٹاؤن کے حدود اربعہ کی بات کریں تو شمال میں اس کی حد راولپنڈی کرکٹ اسٹیڈیم، مشرق میں صادق آباد، مغرب میں نیو کٹاریاں کے بعد نالہ لئی اور جنوب میں اصغر مال چوک ہے۔ سیٹلائٹ ٹاؤن اے، بی، سی، ڈی، ای، ایف اور 'این ڈبلیو' بلاکس پہ مشتمل ہے۔
کسی زمانے میں یہ راولپنڈی کا ایک پوش علاقہ ہوا کرتا تھا۔ ہر چند کے میں اسی علاقے کا باسی رہا ہوں جو اب بھی راولپنڈی کے مشہور علاقوں میں سے ہے مگر اب یہ پوش علاقہ نہیں رہا۔ سچ پوچھیں تو سیٹلائٹ ٹاؤن کا اصل مطلب جاننے سے پہلے ہم سیٹلائٹ سے مراد کوئی سیارہ ہی لیا کرتے تھے۔ مگر اب اس علاقے کی حالتِ زار، سڑکوں میں پڑے گڑھے اور جگہ جگہ کھڑے پانی کو دیکھ کر معلوم پڑتا ہے کہ یہ واقعی کوئی سیارہ ہی ہے جہاں اچھل اچھل کر چلنا لازم ہے اور آکسیجن بھی کم ہے۔
سیٹلائٹ ٹاؤن کے ہر بلاک میں دو سے تین بڑی مساجد اور چھوٹی چھوٹی بہت سی مساجد قائم تھیں۔ ان میں جامعہ رضویہ ضیاء العلوم، مدنی مسجد، مکی مسجد، عرشی مسجد، الفرقان مسجد، اقصیٰ مسجد اور علی مسجد قابلِ ذکر ہیں۔ محرم الحرام کے دوران سیٹلائٹ ٹاؤن ڈی بلاک کی مرکزی امام بارگاہ یادگارِ حسین میں مجالس برپا ہوا کرتیں اور عاشورہ کا جلوس انتہائی عقیدت و احترام سے نکالا جاتا۔ اہلِ علاقہ آپس میں ایک دوسرے کے مذہبی عقائد کا احترام کیا کرتے۔
طبی سہولیات کا ذکر کریں تو سرکاری سطح پہ ہولی فیملی ہسپتال کا نام ذہن میں آتا ہے۔ اس کے علاوہ سیٹلائٹ ٹاؤن کے تقریباً ہر بلاک میں بہت سے پرائیویٹ کلینک موجود تھے، ان میں سے ایک کلینک سابق ایم پی اے ڈاکٹر افضل اعزاز مرحوم کا تھا جبکہ ایک موسیٰ کلینک بھی تھا جس کے بارے میں مشہور تھا کہ ڈاکٹر کے انتقال کے بعد ان کے ڈسپنسر نے ازخود نوٹس لیتے ہوئے کلینک خود سے چلانا شروع کر دیا تھا۔
تعلیم و تدریس کے حوالہ سے سرکاری سطح پہ شملہ اسلامیہ گرلز ہائی اسکول، جونئیر ماڈل ہائی اسکول، مسلم ہائی اسکول، ایم سی پبلک اسکول، پوسٹ گریجویٹ کالج فار ویمن اور ڈگری کالج فار بوائز جس میں نامور شاعر انور مسعود اور پروفیسر احسان اکبر جیسے اعلیٰ پائے کے اساتذہ کرام پڑھایا کرتے تھے سیٹلائٹ ٹاؤن کی شان ہیں۔ اس کے علاوہ بے شمار پرائیویٹ اسکولز اور کالجز جس میں آئیڈیل کیمبرج اسکول، سینٹ پالز کیمبرج اسکول، صدیق پبلک اسکول اور لٹل اینجلز، قابل ذکر ہیں۔ موجودہ دور میں سکستھ روڈ بہت سے پرائیویٹ اسکولز اور کالجز کا گڑھ بن چکا ہے۔
سرکاری دفاتر میں پاسپورٹ آفس، شناختی کارڈ آفس (موجودہ نادرا)، اور راولپنڈی بورڈ آف سیکنڈری ایجوکیشن اور ڈسٹرکٹ آفس آف پاپولیشن اینڈ ویلفیئر بھی سیٹلائٹ ٹاؤن میں ہی ہوا کرتے تھے۔ یہاں کا بڑا ڈاکخانہ کمرشل مارکیٹ میں تھا جو بعد ازاں اسی جگہ پہ ایک عالیشان عمارت میں تبدیل ہو گیا۔
سیٹلائٹ ٹاؤنمیں تفریح سہولیات میں نادر سینما ایک منفرد مقام رکھتا تھا کہ شہر کے باقی سینما گھر اس علاقے سے خاصے دور تھے۔ آس پاس کے رہائشی کسی کو اپنے گھر کا راستہ سمجھانے کے لیے نادر سینما کو ہی بطور لینڈ مارک استمعال کیا کرتے تھے۔ پاکستانی فلم انڈسٹری پہ زوال آیا تو نادر سینما کو گرا کر نادر پلازہ بنا دیا گیا۔
دیگر تفریحی سہولیات میں کھیلوں کے میدان اور فیملی پارکس موجود تھے۔ ان میدانوں میں میونسپل اسٹیڈیم نمایاں حیثیت رکھتا تھا۔ سیٹلائٹ ٹاؤن کے رہائشی فٹبال اور کرکٹ بڑے ذوق و شوق سے کھیلتے تھے۔ گرمیوں کی چھٹیوں میں رات کو مصنوعی روشنی میں کرکٹ کے ٹورنامنٹ منعقد کرائے جاتے تھے جس میں علاقے کی مختلف ٹیمیں شرکت کیا کرتیں۔ دراصل سیٹلائٹ ٹاؤن کے ہر محلے میں ایک گراﺅنڈ ہونا لازم تھا پھر وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ان گراﺅنڈز میں سرکاری سکول اور کالجز بننے اور ٹیوب ویل نصب ہونے سے ان گراؤنڈز کا رقبہ محدود ہوتا گیا جس وجہ سے اب وہاں رہنے والے بچوں کے لیے کھیل کے میدانوں کا فقدان ہے۔
سیٹلائٹ ٹاؤن کے ڈی اور بی بلاک کے مکینوں کے لیے کمرشل مارکیٹ سے ملحقہ ایک وسیع و عریض پارک بھی ہوا کرتا تھا۔ پارک کے عین وسط میں پانی کا ایک فوارہ مع حوض موجود تھا جس میں کسی زمانے میں رنگ برنگی مچھلیاں بھی پائی جاتی تھیں۔ سرِ شام یہ فوراہ کھولا جاتا تو منظر قابلِ دید ہوتا۔ اس فوارے کے حوض کا قطر خاصہ بڑا اور اس کی دیواریں تقریباً دو فٹ چوڑی اور تین فٹ اونچی تھیں۔ جن پہ بیٹھ کے لوگ فوارے کے پانی کے چھینٹوں سے لطف اندوز ہوتے۔ اس پارک کو چار حصوں میں تقسیم کیا گیا تھا اور ہر حصے کو تقسیم کرنے کے لیے سیمنٹ سے تقریباً چار فٹ چوڑا ٹریک بنایا گیا تھا جس پر صبح نمازِ فجر اور شام نمازِ عصر کے بعد بزرگ شہریوں کی ایک بڑی تعداد سیر اور چہل قدمی کرتی نظر آتی۔ ایک حصے کو صرف گلاب کے خوبصورت پودوں کے لیے مخصوص کیا گیا تھا جو موسم کے لحاظ سے دیدہ زیب منظر پیش کرتے۔ ایک حصے میں بچوں کے جھولے ہوا کرتے۔ پینگ والے جھولے پہ چھوٹے بچے ہمیشہ خواتین کے اٹھنے کا انتظار ہی کرتے نظر آتے۔ اسی حصے کے ایک کونے کو باڈی بلڈنگ کے شوقین حضرات کے لیے معقول پردے کے ساتھ مخصوص کردیا گیا تھا۔ کھلے آسمان کے نیچے اس باڈی بلڈنگ کلب کو صبح اور شام کے اوقات میں کھولا جاتا اور اس کے روحِ رواں کو سب پہلوان کے نام سے جانتے تھے۔ پہلوان صاحب کی کمرشل مارکیٹ میں کھیلوں کے سامان کی دوکان بھی ہوا کرتی تھی۔ گزرتے وقت کے ساتھ انتظامیہ کی عدم توجہی کے باعث اس پارک کی رونقیں ماند پڑ چکی ہیں یوں پارک اب زبوں حالی کا شکار ہے۔
سیٹلائٹ ٹاؤن کے مشہور پاپولر سموسے، سپر گول گپے اور دھی بھلوں کے اسٹالز بھی کمرشل مارکیٹ کے پارک کی دیوار کے ساتھ ہی ایک قطار میں موجود تھے۔ لوگ پارک کی گھاس اور بینچوں پہ بیٹھ کے ان چٹ پٹی اور مزیدار چیزوں سے لطف اندوز ہوا کرتے۔ بعد ازاں وہاں ریفریشمنٹ سینٹر کھلا جس نے کھانے پینے والی باقی ساری دوکانوں کو پیچھے چھوڑ دیا۔ راولپنڈی کے دوسرے علاقوں کے رہنے والے بھی صبح حلوہ پوری کا ناشتہ اور شام کو دھی بھلوں، گول گپوں اور کھانے پینے کی دیگر بے شمار ورائٹی کے لیے ریفریشمنٹ سینٹر کا ہی رخ کرتے ہیں۔ مٹھائی کے لیے پہلے صرف لاہور سویٹس ہوا کرتی پھر مغل سویٹ ہاﺅس قائم ہوئی۔ اب وہاں راولپنڈی کی بڑی برانڈڈ مٹھائی کی دکان رشید سویٹس والوں نے بھی اپنی شاخیں قائم کر لی ہیں۔
سیٹلائٹ ٹاؤن کے مختلف بلاکس میں چھوٹی چھوٹی مارکیٹیں موجود تھیں جہاں ضرورت کی ہر شے دستیاب ہوا کرتی۔ البتہ بی بلاک سے ملحقہ کمرشل مارکیٹ کو سیٹلائٹ ٹاؤن کا دل کہا جائے تو غلط نہ ہو گا۔ کمرشل مارکیٹ پہنچنے کے بہت سے راستے تھے۔ مری روڈ پہ چاندی چوک سے ایک سڑک سیدھی کمرشل مارکیٹ کو آتی تھی۔ کمرشل مارکیٹ کو آنے والا دوسرا راستہ مری روڈ سے براستہ رحمان آباد چوک تھا۔ رحمان آباد کے تین کونوں پہ آٹھ آٹھ کنال پہ بنے ہوئے خوبصورت اور اونچی دیواروں والے بنگلے ہوا کرتے تھے، بچپن میں ہماری خواہش ہوا کرتی کہ کسی طرح ان بڑے بڑے بنگلوں کا گیٹ کھلا مل جائے تو اندر سے ان کی ایک جھلک ہی دیکھ سکیں۔ اسی چوک پہ کمرشل مارکیٹ کو مڑنے والے چوتھے کونے پہ باربی کیو ریستوران ، ٹائروں کو پنکچر لگانے والی دوکان اور ایک چھوٹی سی مسجد ہوا کرتی تھی۔ وقت کے ساتھ ساتھ باربی کیو ریستوران کو وسیع کرنے کا ارادہ کیا گیا تو ٹائروں کو پنکچر لگانے والی دوکان کی قربانی کام آئی۔ کمرشل مارکیٹ کے مغرب میں سید پور روڈ سے کالج چوک اور حیدری چوک کی سڑکیں کمرشل مارکیٹ میں ہی ضم ہوا کرتی تھیں۔
کمرشل مارکیٹ میں اپنے کاروبار میں مشہور ایوب جنرل اسٹور، دیر جنرل اسٹور، جدہ پیلس، منیر برادرز، اشفاق پان ہاوس، گڈ لک بیکری، شاہین بیکری، ریفریشمنٹ سینٹر، دھلی چاٹ ہاوس، پاپولر سموسے، سپر گول گپے، پارک ویو ہوٹل، حاجی حلیم ہوٹل، لاہور سویٹس، مغل سویٹ ہاوس، عروسہ گیسٹ ہاؤس، اقبال مارکیٹ، اور بکس اینڈ بکس قابلِ ذکر ہیں۔
اچھے وقتوں میں یہاں کے مکینوں کے لیے جی ٹی ایس کی ٢٢ نمبر بس چلا کرتی تھی، جس کی ابتدائی منزل ٢٢ نمبر چونگی اور آخری منزل کراچی کمپنی ہوا کرتی تھی اور اس کا اسٹاپ آئیڈیل کیمبرج اسکول کے سامنے ہوا کرتا تھا۔ دیگر سفری سہولیات میں جی ٹی ایس کی بسیں اور پرائیوٹ ویگنیں چاندنی چوک، صادق آباد چوک، رحمان آباد چوک، سکستھ روڈ چوک، کالج چوک، حیدری چوک اور کالی ٹینکی پہ رکا کرتی تھیں۔ پنڈورہ چوک سے بنی اور راجہ بازار جانے کے لیے بھی تانگے اور بعد ازاں سوزوکی پک اپ چلا کرتی تھیں۔ اندرونی سفر کے لیے مورس اور ڈاٹسن کی ٹیکسیاں بھی ہر جگہ باآسانی دستیاب ہوا کرتی تھیں۔
سیٹلائٹ ٹاؤن کے اے، سی اور ای بلاکس میں بڑے گھر اور بنگلے ہوا کرتے تھے جبکہ دیگر بلاکس میں زیادہ تر گھر سات مرلہ (آج کل کے دس مرلہ سے بھی بڑے) کے ہوا کرتے تھے۔ گھروں کے آگے چھوڑی گئی سرکاری جگہ کو دیوار بنا کے گھر کے باغیچہ کے طور پہ استعمال کرنا عام تھا۔ اندرونی سڑکوں پہ ٹریفک نہ ہونے کے برابر تھی تو محلے کے چھوٹے بڑے سب مل کر عصر سے مغرب کے درمیان بلا ناغہ کرکٹ کھیلا کرتے۔
سیٹلائٹ ٹاؤن کا قبرستان ہمارے گھر سے زیادہ دور نہ تھا۔ مغرب کے بعد کبھی تندور سے روٹی لینے کے لیے پیدل جاتے تو قبرستان راستے میں ہی پڑتا۔ ہم چھوٹے تھے تو وہاں سے گزرتے ہوئے ایک انجانا سا خوف رہتا، دو سے تین منٹ کا وہ سفر انتہائی طویل اور مشکل لگتا تھا۔ امی جی ہمیں سمجھاتیں کے بہادر بچے اللہ کے سوا کسی سے نہیں ڈرتے۔ پھر وہ وقت بھی آیا کہ اپنی پیاری امی جی کو سیٹلائٹ ٹاؤن کے اسی قبرستان میں اپنے ہاتھوں سے مٹی کے سپرد کر دیا۔ اب جبکہ ہم بچے نہیں بلکہ خود بچوں والے ہو گئے ہیں، قبرستان کے آگے سے گزرتے ہیں تو ڈرتے تو نہیں مگر وہ سفر جو پہلے طویل لگتا تھا اب طویل تر لگتا ہے کہ بچپن کی پوری زندگی جو ماں باپ کی آغوش میں وہاں گزاری تھی کسی فلم کی مانند آنکھوں کے سامنے چلتی ہے گویا ڈر کی جگہ اب دکھ نے لے لی ہے۔
آپ کی رائے میرے لیے اہم ہے۔
📧: abrarkhan30c@hotmail.com