ماں بننا ایک اتنا بڑا افتخار و اعزاز ہے کہ اس کے سامنے دنیا کے باقی سب اعزازات، اسناد ماند پڑجاتی ہیں۔ ہم ماں کی پرورش سے بڑے ہوتے ہیں سو اس نے ہمارے سب رنگ دیکھ رکھے ہوتے ہیں مگر ایسا کیا ہے جسے ہماری آنکھیں دیکھ نہیں پاتیں؟ ماں ہمیں چلنا سکھاتی ہے،کھانا سکھاتی ہے، بولنا سکھاتی ہے، اٹھنا سکھاتی ہے،سلا کر خود جاگتی ہے اور ایک بار بھی محسوس ہونے نہیں دیتی کہ اسے بھی کوئی تکلیف ہو سکتی ہے۔ یہاں تک کہ ہم جوان ہوکر ماں سے دور جابستے ہیں؛ اس دم اس کی آنکھ میں دیکھ پائیں تو جانیں کہ وہ کیا غم ہے جو اس کی آنکھوں میں چھپا ہوتا ہے؟
تیری آنکھوں کے سوا دنیا میں رکھا کیا ہے
زندگی بڑا امتحان لیتی ہے اور ماں خود ہی اپنے لختِ جگروں کو کوئی بھی بہانہ ہو؛ پردیس بھیج دیتی ہے۔ ایسے لوگ پھر چاہیں بھی کہ ماوں کی خدمت کریں؛ لیکن دیارِ غیر میں ہونے کی وجہ سے نہیں کر پاتے۔ بہت سے ہیں جو ان کے پیار کیلئے ترستے ہیں اور غم روزگار کی مجبوری کی سبب ماں سے دور ہوتےہیں۔ جب ماں نہیں ہوتی تب احساس ہوتا ہے وہ وقت جو ادھر اُدھر ضائع کیا‘ کاش ماں کے ساتھ بِتایا ہوتا۔ مگر جب ماں نہیں رہتی تو پھر غم ہی رہ جاتا ہے۔ لیکن زیادہ غم اس وقت ہوتا ہے جب یہ معلوم ہوتا ہے کہ آخری وقت میں ماں اس کو پکار کر آنسو بہاتی تھی تو دل میں ہوک اٹھتی ہے کہ ماں کی آنکھ میں کیا غم تھا؟
کس کو اب ہوگا وطن میں آہ میرا انتظار
کون میرا خط نہ آنے سے رہے گا بے قرار
خاک مرقد پر تری لے کر یہ فریاد آؤں گا
اب دعائے نیم شب میں کس کو میں یاد آؤں گا
علامہ اقبال
ایک مدت سے مری ماں نہیں سوئی تابشؔ
میں نے اک بار کہا تھا مجھے ڈر لگتا ہے
عباس تابش
چلتی پھرتی ہوئی آنکھوں سے اذاں دیکھی ہے
میں نے جنت تو نہیں دیکھی ہے ماں دیکھی ہے
اس طرح میرے گناہوں کو وہ دھو دیتی ہے
ماں بہت غصے میں ہوتی ہے تو رو دیتی ہے
منور رانا
مدتوں بعد میسر ہوا ماں کا آنچل
مدتوں بعد ہمیں نیند سہانی آئی
اقبال اشہر
ماں نے لکھا ہے خط میں جہاں جاؤ خوش رہو
مجھ کو بھلے نہ یاد کرو گھر نہ بھولنا
اجمل اجملی
ﺍﭘﻨﯽ ﻣﺎﮞ ﮐﮯ ﺑﮩﺘﮯ ﺁﻧﺴﻮ ﺩﯾﮑﮫ ﮐﮯ ﺍﮎ
ﻣﻌﺼﻮﻡ ﺳﺎ ﻟﮍﮐﺎ
ﺍﭘﻨﯽ ﻣﺎﮞ ﮐﻮ ﭼﻮﻡ ﮐﮯ ﺑﻮﻻ
ﭘﯿﺎﺭﯼ ﻣﺎﮞ ﺗﻮ ﮐﯿﻮﮞ ﺭﻭﺗﯽ ﮨﮯ؟
ﻣﺎﮞ ﻧﮯ ﺍﺱ ﮐﺎ ﻣﺎﺗﮭﺎ ﭼﻮﻣﺎ ،ﮔﻠﮯ
ﻟﮕﺎﯾﺎ،ﺍﺱ ﮐﮯ ﺑﺎﻟﻮﮞ ﮐﻮ ﺳﮩﻼﯾﺎ
ﮔﮩﺮﯼ ﺳﻮﭺ ﻣﯿﮟ ﮐﮭﻮ ﮐﺮ ﺑﻮﻟﯽ
’’ﮐﯿﻮﻧﮑﮧ ﻣﯿﮟ ﺍﮎ ﻋﻮﺭﺕ ﮨﻮﮞ‘‘
ﺑﯿﭩﺎ ﺑﻮﻻ،ﻣﯿﮟ ﺗﻮ ﮐﭽﮫ ﺑﮭﯽ ﺳﻤﺠﮫ ﻧﮧ ﭘﺎﯾﺎ
ﻣﺎﮞ ﻣﺠﮫ ﮐﻮ ﮐُﮭﻞ ﮐﺮ ﺳﻤﺠﮭﺎﺅ
ﺍﺱ ﮐﻮ ﺑﮭﯿﻨﭻ ﮐﮯ ﻣﺎﮞ ﯾﮧ ﺑﻮﻟﯽ
’’ﺑﯿﭩﺎ ﺗﻢ ﻧﮧ ﺳﻤﺠﮫ ﺳﮑﻮ ﮔﮯ‘‘
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
ﺷﺎﻡ ﮨﻮﺋﯽ ﺗﻮ ﭼﮭﻮﭨﺎ ﻟﮍﮐﺎ،ﺑﺎﭖ ﮐﮯ ﭘﮩﻠﻮ
ﻣﯿﮟ ﺟﺎ ﺑﯿﭩﮭﺎ
ﺑﺎﭖ ﺳﮯ ﭘﻮﭼﮭﺎ’’ﻣﺎﮞ ﺍﮐﺜﺮ ﮐﯿﻮﮞ ﺭﻭ ﺩﯾﺘﯽ
ﮨﮯ‘‘
ﺑﺎﭖ ﻧﮯ ﺍﺱ ﮐﻮ ﻏﻮﺭ ﺳﮯ ﺩﯾﮑﮭﺎ ،ﮐﭽﮫ
ﭼﮑﺮﺍﯾﺎ،ﭘﮭﺮ ﺑﯿﭩﮯ ﮐﻮ ﯾﮧ ﺳﻤﺠﮭﺎﯾﺎ
’’ﯾﮧ ﻋﺎﺩﺕ ﮨﮯ ﮨﺮ ﻋﻮﺭﺕ ﮐﯽ،ﺩﻝ ﮐﯽ ﺑﺎﺕ
ﮐﺒﮭﯽ ﻧﮧ ﮐﮩﻨﺎ
ﻓﺎﺭﻍ ﺑﯿﭩﮫ ﮐﮯ ﺭﻭﺗﮯ ﺭﮨﻨﺎ‘‘
ﺑﺎﭖ ﮐﺎ ﻣُﺒﻠﻎ ﻋﻠﻢ ﺗﮭﺎ ﺍﺗﻨﺎ ،ﺑﯿﭩﮯ ﮐﻮ ﺑﺘﻼﺗﺎ ﮐﯿﺎ
ﺍﺱ ﮐﮯ ﺳﻮﺍ ﺳﻤﺠﮭﺎﺗﺎ ﮐﯿﺎ
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
ﺟﺐ ﺑﭽﮯ ﻧﮯ ﮨﻮﺵ ﺳﻨﺒﮭﺎﻻ
ﻋﻠﻢ ﻧﮯ ﺍﺱ ﮐﮯ ﺯﮨﻦ ﻭ ﺩﻝ ﮐﻮ ﺧﻮﺏ ﺍﺟﺎﻻ
ﺍﺱ ﻧﮯ ﺍﭘﻨﮯ ﺭﺏ ﺳﮯ ﭘﻮﭼﮭﺎ
ﻣﯿﺮﮮ ﻣﺎﻟﮏ ﻣﯿﺮﮮ ﺧﺎﻟﻖ، ﺁﺝ ﻣﺠﮭﮯ ﺍﮎ
ﺑﺎﺕ ﺑﺘﺎ ﺩﮮ
ﺍﻟﺠﮭﻦ ﺳﯽ ﮨﮯ ﺍﮎ ﺳﻠﺠﮭﺎ ﺩﮮ
ﺍﺗﻨﯽ ﺟﻠﺪﯼ ﺍﺗﻨﯽ ﺟﮭﭧ ﭘﭧ ﮨﺮ ﻋﻮﺭﺕ
ﮐﯿﻮﮞ ﺭﻭ ﺩﯾﺘﯽ ﮨﮯ
ﺩﯾﮑﮫ ﮐﮯ ﺍﺱ ﮐﯽ ﯾﮧ ﺣﯿﺮﺍﻧﯽ،ﺑﮭﻮﻟﮯ ﺳﮯ
ﻣﻦ ﮐﯽ ﻭﯾﺮﺍﻧﯽ
ﭘﯿﺎﺭ ﺧﺪﺍ ﮐﻮ ﺍﺱ ﭘﺮ ﺁﯾﺎ،ﺍﺱ ﮐﻮ ﯾﮧ ﻧﮑﺘﮧ
ﺳﻤﺠﮭﺎﯾﺎ
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
ﻋﻮﺭﺕ ﮐﯽ ﺗﺨﻠﯿﻖ ﮐﺎ ﻟﻤﺤﮧ ﺧﺎﺹ ﺑﮩﺖ
ﺗﮭﺎ
ﻣﺮﺩ ﮐﻮ ﺳﺐ ﮐﭽﮫ ﺩﮮ ﺑﯿﭩﮭﺎ ﺗﮭﺎ ﭘﮭﺮ
ﺑﮭﯽ ﻣﯿﺮﮮ ﭘﺎﺱ ﺑﮩﺖ ﺗﮭﺎ
ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﭼﺎﮨﺎ ﻋﻮﺭﺕ ﮐﻮ ﮐﭽﮫ ﺧﺎﺹ ﮐﺮﻭﮞ
ﻣﯿﮟ
ﭼﮩﺮﮦ ﻣﻘﻨﺎﻃﯿﺴﯽ ﺭﮐﮭﻮﮞﻠﯿﮑﻦ ﺩﻝ ﻣﯿﮟ
ﯾﺎﺱ ﺑﮭﺮﻭﮞ ﻣﯿﮟ
ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﺍﺱ ﮐﮯ ﮐﺎﻧﺪﮬﻮﮞ ﮐﻮ ﻣﻀﺒﻮﻁ
ﺑﻨﺎﯾﺎ
ﮐﯿﻮﻧﮑﮧ ﺍﺱ ﮐﻮ ﺑﻮﺟﮫ ﺑﮩﺖ ﺳﮯ ﺳﮩﻨﮯ
ﺗﮭﮯ
ﺍﻭﺭ ﭘﮭﺮ ﺍﻥ ﮐﻮ ﻧﺮﻡ ﺑﮭﯽ ﺭﮐﮭﺎ
ﮐﯿﻮﻧﮑﮧ ﺍﻥ ﭘﺮ ﺳﺮ ﮐﻮ ﺭﮐﮫ ﮐﺮ
ﺑﭽﻮﮞ ﺍﻭﺭ ﺷﻮﮨﺮﻧﮯ ﺩﮐﮭﮍﮮ ﮐﮩﻨﮯ ﺗﮭﮯ
ﺍﺱ ﮐﻮ ﺍﯾﺴﯽ ﻃﺎﻗﺖ ﺑﺨﺸﯽ ﮨﺮ ﺁﻧﺪﮬﯽ
ﻃﻮﻓﺎﻥ ﮐﮯ ﺁﮔﮯ ﻭﮦ ﮈﭦ ﺟﺎﺋﮯ
ﭘﺮ ﺩﻝ ﺍﺗﻨﺎ ﻧﺎﺯﮎ ﺭﮐﮭﺎ ﺗﯿﮑﮭﮯ ﻟﻔﻆ ﺳﮯ
ﺟﻮ ﮐﭧ ﺟﺎﺋﮯ
ﺍﺱ ﮐﮯ ﺩﻝ ﮐﻮ ﭘﯿﺎﺭ ﺳﮯ ﺑﮭﺮ ﮐﺮ ﮔﮩﺮﺍﺋﯽ
ﺍﻭﺭﻭﺳﻌﺖ ﺩﮮ ﺩﯼ
ﭘﮭﻮﻟﻮﮞ ﺟﯿﺴﺎ ﻧﺎﺯﮎ ﺭﮐﮭﺎ ﭘﮭﺮ ﺑﮭﯽ
ﮐﺎﻓﯽ ﻗﻮﺕ ﺩﮮ ﺩﯼ
ﺗﺎ ﻭﮦ ﺍﭘﻨﮯ ﭘﯿﭧ ﺟﻨﻮﮞﮑﮯ ﺳﺮﺩ ﺭﻭﯾﻮﮞ ﮐﻮ
ﺳﮩﮧ ﺟﺎﺋﮯ
ﺍﻥ ﺭﺍﮨﻮﮞ ﭘﺮ ﭼﻠﺘﯽ ﺟﺎﺋﮯ ﺟﻦ ﭘﺮ ﮐﻮﺋﯽ
ﭼﻞ ﻧﮧ ﭘﺎﺋﮯ
ﺑﭽﻮﮞ ﮐﯽ ﮔﺴﺘﺎﺧﯽ ﺟﮭﯿﻠﮯ ،ﭘﯿﺎﺭ ﮐﺎ ﺍﻣﺮﺕ
ﺑﺎﻧﭩﮯ
ﺍﭘﻨﯽ ﺭﻭﺡ ﭘﮧ ﺟﮭﯿﻞ ﺳﮑﮯ ﻓﻘﺮﻭﮞ ﮐﮯ
ﺗﭙﺘﮯ ﭼﺎﻧﭩﮯ
ﺷﻮﮨﺮ ﮐﯽ ﺑﮯ ﻣﮩﺮﯼ ﺑﮭﻮﻝ ﮐﮯ ﮨﺮ ﭘﻞ ﺍﺱ
ﮐﻮ ﭼﺎﮨﮯ
ﺍﺱ ﮐﯽ ﭘﺮﺩﮦ ﭘﻮﺷﯽ ﮐﺮ ﮐﮯ ﺯﺧﻢ ﭘﮧ
ﺭﮐﮭﮯ ﭘﮭﺎﮨﮯ
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
ﺍﺗﻨﺎ ﺑﻮﺟﮭﻞ ﺟﯿﻮﻥ ﺍﺱ ﮐﻮ ﺩﮮ ﮐﺮ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ
ﺳﻮﭼﺎ
ﻧﺎﺯﮎ ﺳﯽ ﯾﮧ ﮈﺍﻟﯽ ﺍﺗﻨﮯ ﺑﻮﺟﮫ ﺳﮯ ﭨﻮﭦ
ﻧﮧ ﺟﺎﺋﮯ
ﺍﺱ ﮐﮯ ﻧﺎﺯﮎ ﮐﺎﻧﺪﮬﻮﮞ ﭘﺮ ﺟﺐ ﺭﮐﮭﺎ ﺍﺗﻨﺎ
ﺑﺎﺭ
ﺍﺱ ﮐﯽ ﺁﻧﮑﮭﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﺭﮐﮫ ﺩﯼ ﭘﮭﺮ
ﺍﺷﮑﻮﮞ ﮐﯽ ﻣﻨﺠﺪﮬﺎﺭ
ﺍﺱ ﮐﻮ ﻓﯿﺎﺿﯽ ﺳﮯ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﺑﺨﺸﯽ ﯾﮧ
ﺳﻮﻏﺎﺕ
ﺗﺎ ﻭﮦ ﺩﯾﭗ ﺟﻼ ﮐﺮ ﮐﺎﭨﮯ ﻏﻢ ﮐﯽ ﮐﺎﻟﯽ ﺭﺍﺕ
ﻏﻢ ﮐﯽ ﺑﮭﺎﭖ ﺑﮭﺮﮮ ﺟﺐ ﺩﻝ ﻣﯿﮟ ﯾﮧ
ﺭﻭﺯﻥ ﮐﮭﻞ ﺟﺎﺋﮯ
ﺭﻭ ﮐﺮ ﺍﺱ ﮐﮯ ﺩﻝ ﮐﯽ ﺗﻠﺨﯽ ﭘﻞ ﺑﮭﺮ
ﻣﯿﮟ ﺩﮬﻞ ﺟﺎﺋﮯ ﺟﺎﺋﮯ
ﺍﺱ ﮐﮯ ﺳﻨﺪﺭ ﻣﮑﮭﮍﮮ ﭘﮭﺮ ﺭﻭﭖ ﻭﮨﯽ
ﻟﻮﭦ ﺁﺋﮯ