تین بستیاں؛ تین واضع نشانیاں اور ایک کھلا سبق

ALLAH is the creator and sustainer of every thing. He has given clear directions through his messengers and Holy Books. This write up is about three human dwellings which are reflection of Quran's teachings and what lesson can be drawn from these examples by the people of Pakistan.

2024-01-20 05:28:39 - Muhammad Asif Raza

 


تین بستیاں؛ تین واضع نشانیاں اور ایک کھلا سبق

 

اس کائنات کا خالق اور مالک اللہ سبحان تعالی ہے اور وہی اس کا وارث بھی ہے۔ اس کی ہی بادشاہی ہے اور ہر جگہ اس کی حاکمیت قائم ہے؛ ہر شے اس کے حکم کے تابع ہے۔ ہر طرف ہر جگہ اور ہر وقت اس کی تسبیح بیان ہورہی ہے۔

اس نے چاہا کہ اس کی جانا جائے اور اس کو پہچانا جائے تو اس نے مخلوقات کو پیدا کیا اور انکو متنوع صلاحیتوں سے نوازا۔ پھر اس نے انسان کو تخلیق کیا اور اشرف المخلوقات کا درجہ دیا اور پوری کائنات میں صرف اس زمین پر اسے اپنا خلیفہ یعنی نائب بنایا۔ اور اس زمین پر بھیجا کہ اس کی حاکمیت کو قائم کرے۔ یہ اس کا امتحان ہوگا اور اس آزمائش کے بعد قیامت کے قائم ہونے کے بعد روزِ حساب کے دن فیصلہ ہوگا کہ کو ن کامیاب ہوا؟

اللہ سبحان تعالی نے یومِ الست انسان کو اپنی ربوبیت سے روشناس کیا اور اپنی بندگی کا عہد لیا۔ پھر اس نے حضرت آدم علیہ السلام کو مٹی کا جسم دیا اور انکی پسلی سے اماں حوا علیہ السلام کو نکالا اور پھر خلافت یعنی نائب کے کردار کے لیے زمین پر بھیج دیا۔ گاہے گاہے اس نے ابلیس لعین کی بنائی ہوئی گمراہی سے راہ دکھانے کے لیے پیغمبر، نبی اور رسول بھیجے۔

اس نے تقریبا" ایک لاکھ چوبیس ہزار بشیر اور نذیر بھیجے اور حضورِ اکرم محمدﷺ آخری رسول، نبی پیغمبر تھے۔ پھر کوئی پیغمبر نبی یا رسول نہی آئےگا؛ اب صرف اس کے بندے، آقا کریم محمدﷺ کے غلام، اس کا جھنڈا بلند کریں گے۔ یہ بات ذہن نشین کر لیجیے کہ اب اس زمین پر [ يا أيها الذين آمنوا ] أطيعوا الله وأطيعوا الرسول کا علم ہوگا تو درست ہوگا ورنہ ابلیس کی مجلس شوری ہوگی۔

 

آئیے ذرا اس کی بابت ذرا گفتگو کرلیں؛ اور مثالوں سے دیکھیں کہ اس کی کیا دلیل ہو سکتی ہے؟

 قرآن میں سورۃ یٰسٓ میں اک بستی، شہر کا ذکر ہوا ہے۔

 

اور ان سے مثال بیان کرو اس شہر والوں کی

 جب اُن کے پاس فرستادے آئے جب ہم نے اُن کی طرف دو بھیجے پھر انہوں نے ان کو جھٹلایا تو ہم نے تیسرے سے زور دیا اب ان سب نے کہا کہ بےشک ہم تمہاری طرف بھیجے گئے ہیں؛ بولے تم تو نہیں مگر ہم جیسے آدمی اور رحمٰن نے کچھ نہیں اُتارا تم نرے جھوٹے ہو؛ وہ بولے ہمارا رب جانتا ہے کہ بےشک ضرور ہم تمہاری طرف بھیجے گئے ہیں؛ اور ہمارے ذمہ نہیں مگر صاف پہنچا دینا؛ بولے ہم تمہیں منحوس سمجھتے ہیں بےشک تم اگر باز نہ آئے تو ضرور ہم تمہیں سنگسار کریں گے بےشک ہمارے ہاتھوں تم پر دکھ کی مار پڑے گی؛ اُنہوں نے فرمایا تمہاری نحوست تو تمہارے ساتھ ہے کیا اس پر بدکتے ہو کہ تم سمجھائے گئے بلکہ تم حد سے بڑھنے والے لوگ ہو (13-19)۔۔


معزز قارئین؛ ذرا غور کیجیے کہ اللہ کی حاکمیت اجتماعی ذمہ داری ہے مگر ہر انسان بذاتِ خود روز قیامت اپنے اعمال کا حساب دہ ہوگا۔ آقا کریم محمدﷺ کی حدیث کے مطابق، ایمان کے تین درجے ہوتے ہیں؛ ہر انسان جو ایمان کا دعوی دار ہوگا جہاں کہیں بھی ہوگا اور اس کے سامنے کوئی صورتحال پیش ہوگی اپنے ایمان کے درجوں کے مطابق عمل کرے گا۔ اوپر کی بستی میں اللہ سبحان تعالی صرف ایک شخص کی مثال بیان کر رہے ہیں (اللہ تعالی کے دربار میں ایک واحد بندہ بھی اہم ہوتا ہے؛ جو حق کے گواہی میں کھڑا ہوجائے)۔


وَ جَآءَ مِنْ اَقْصَا الْمَدِیْنَةِ رَجُلٌ یَّسْعٰى قَالَ یٰقَوْمِ اتَّبِعُوا الْمُرْسَلِیْنَ(20)

اور شہر کے پرلے کنارے سے ایک مرد دوڑتا آیا

بولا اے میری قوم بھیجے ہوؤں کی پیروی کرو

 

اللہ تعالیٰ نے دو رسولوں کو ایک شہر والوں کی طرف مبعوث فرمایا جنہوں نے ان شہر والوں کوتوحید و رسالت پر ایمان لانے کی دعوت دی لیکن ان کی دعوت سن کر شہر والوں نے انہیں جھٹلایا،اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے ایک تیسرے رسول کو پہلے دونوں کی مدد کیلئے بھیجا۔اب ان تینوں رسولوں نے قوم سے اِرشاد فرمایا کہ ہم تمہاری طرف رسول بنا کر بھیجے گئے ہیں، لیکن قوم نے اِس بات کو تسلیم کرنے کی بجائے وہی اعتراض کیا جو اکثر و بیشتر امتوں نے اپنے رسولوں پر کیا تھا اور وہ اعتراض یہ تھا کہ تم تو ہمارے جیسے انسان ہو، لہٰذا تم کیسے خدا کے رسول ہوسکتے ہو؟ یعنی اُن کافروں کے اعتقاد کے مطابق رسول انسانوں میں سے نہیں بلکہ فرشتوں میں سے ہونا چاہیے تھا اور یہ چونکہ انسان تھے اس لئے ان کے نزدیک رسول نہیں ہو سکتے تھے ۔ اس کے ساتھ کافروں نے یہ بھی کہا کہ خدائے رحمٰن عَزَّوَجَلَّ نے کچھ بھی نازل نہیں کیا یعنی وحی کے نزول کا دعویٰ غلط ہے اور تم جھوٹے ہو جو ہمارے سامنے رسالت کا دعویٰ کررہے ہو۔ اُن رسولوں نے سخت الفاظ کا جواب سختی کے ساتھ دینے کی بجائے بڑے خوبصورت انداز میں جواب دیا کہ ہمارا رب جانتا ہے کہ یقینا ہم خدا کے رسول ہیں اور مزید یہ بھی جان لو ہماری صرف یہ ذمہ داری ہے کہ تم تک خدا کا پیغام واضح طور پر پہنچادیں ۔ اس کے جواب میں قوم نے کہا کہ ہم تمہیں منحوس سمجھتے ہیں ، لہٰذا تم اپنی اس تبلیغ سے باز آجاؤ ورنہ ہم تمہیں سخت سزا دیں گے اور تمہیں پتھر مار مار کر ہلاک کردیں گے۔اُن رسولوں نے جواب دیا کہ ہمیں منحوس قرار نہ دو کیونکہ تمہاری نحوست تمہارے کفر و ضلالت کی صورت میں تمہارے ساتھ موجود ہے۔ کیا تم لوگ ہمیں اس لئے پتھر مارو گے کہ ہم نے تمہیں صحیح بات سمجھانے کی کوشش کی ہے،اگر یہ بات ہے تو تم حد سے بڑھنے والے لوگ ہو۔



پ

ھر اس سے آگے 22-27 آیات میں مزید تفصیل بیان کی گئی ہے؛ جو مندرجہ ذیل ہیں


 جب یہ مکالمہ جاری تھا اور قوم اُن رسولوں کو شہید کرنے ، ایذاء پہنچانے اور ان کے پیغام کو نہ ماننے پر تُلی ہوئی تھی ، اسی دوران یہ بات ایک مردِ مومن تک پہنچی جو شہرکے کنارے پر رہتا تھا،وہ اللہ تعالیٰ کے رسولوں کی تائید اوراپنی قوم کو سمجھانے کیلئے بھاگا ہوا آیااور ان سے کہنے لگا کہ اِن رسولوں کی پیروی کرو، اِن کے حقّانِیّت پرہونے کی یہ بڑی واضح دلیل ہے کہ اِن کا اِس پیغام پہنچانے میں کوئی دُنْیَوی مفاد نہیں، یہ تم سے کوئی معاوضہ نہیں مانگتے، نیز یہ ہدایت یافتہ ہیں کہ ان کی باتیں معقول اور سمجھ میں آنے والی ہیں ۔ نیز اے میری قوم ! میں بھی مسلمان ہوں اور خالقِ کائنات کی عبادت کرنے والا ہوں اور مجھے کیا ہے کہ میں اس خدا کی عبادت نہ کروں جس نے مجھے پیدا کیا، کیا میں اُس کے علاوہ ایسے بتوں کو معبود بناؤں جن کی سفارش مجھے کوئی نفع نہیں دے سکتی اور نہ وہ مجھے اس وقت بچا سکتے ہیں جب خدا مجھے نقصان پہنچانا چاہے۔ اگر اِس کے باوجود میں خدا کے علاوہ کسی کی عبادت کروں تو پھر میں کھلی گمراہی میں ہوں گا، پس میں تو اپنے رب پر ایمان لایا تو تم میری بات سنو اور اس بات پر غور کرکے ایمان لاؤ۔ مرد ِ مومن کی اِن باتوں کو سننے کے باوجود لوگ ایمان نہ لائے بلکہ اُسے انکی قوم نے شہید کردیا اور بعد ِوفات فرشتوں کی زبان سے اللہ تعالیٰ نے اُسے جنت کی بشارت سنائی ۔ جنت کی خوشخبری سن کر بھی اُس مردِ ناصح نے یہ تمنا کی:ـ کاش میری قوم کو معلوم ہوجائے کہ میرے رب عَزَّوَجَلَّ نے مجھے بخش دیا اور میری عزت افزائی فرمائی ہے۔



اوپ

ر کی تفصیل کے بعد اس کا نتیجہ پھر کچھ اس طرح آیات 28-29 میں بیان کیا گیا جو تمام عالم کے لیے ایک کھلا سبق ہے



وَ

مَاۤ اَنْزَلْنَا عَلٰى قَوْمِهٖ مِنْۢ بَعْدِهٖ مِنْ جُنْدٍ مِّنَ السَّمَآءِ وَ مَا كُنَّا مُنْزِلِیْنَ(28)


اِنْ كَانَتْ اِلَّا صَیْحَةً وَّاحِدَةً فَاِذَا هُمْ خٰمِدُوْنَ(29)


اور ہم نے اس کے بعد اس کی قوم پر آسمان سے کوئی لشکر نہ اتارااور نہ ہمیں وہاں کوئی لشکر اتارنا تھا؛

وہ تو بس ایک ہی چیخ تھی جبھی وہ بجھ کر رہ گئے

اللہ سبحان تعالی اپنے نافرمانوں پر زمین تنگ کردیتا ہے اور اپنے باغیوں کو تباہ کردیتا ہے۔

 

آئیے ایک دوسری بستی جسے اللہ سبحان تعالی نے مقدس بنایا کی مثال پر غور کرتے ہیں

 

اللہ سبحان تعالی نے اس زمین پر محمدﷺ کو اپنا حبیب بطور پیغمبر، نبی اور رسول بنا کر بھیجا اور ایک اسلامی ریاست کی بنیاد رکھوائی اور اس کے ذریعے رہتی دنیا تک ایک مثال قائم کروائی۔

قرآن الحکیم کی سورۃ الفتح میں اللہ سبحان تعالی نے اس کی نشاندھی فرمائی ہے

 

محمد اللہ کے رسول ہیں اور ان کے ساتھ والے کافروں پر سخت ، آپس میں نرم دل ہیں ۔ تُو انہیں رکوع کرتے ہوئے، سجدے کرتے ہوئے دیکھے گا ،اللہ کا فضل و رضا چاہتے ہیں ، ان کی علامت ان کے چہروں میں سجدوں کے نشان سے ہے ۔یہ ان کی صفت تورات میں (مذکور) ہے اور ان کی صفت انجیل میں (مذکور) ہے۔ (ان کی صفت ایسے ہے) جیسے ایک کھیتی ہو جس نے اپنی باریک سی کونپل نکالی پھر اسے طاقت دی پھر وہ موٹی ہوگئی پھر اپنے تنے پر سیدھی کھڑی ہوگئی، کسانوں کو اچھی لگتی ہے (اللہ نے مسلمانوں کی یہ شان اس لئے بڑھائی) تاکہ ان سے کافروں کے دل جلائے۔ اللہ نے ان میں سے ایمان والوں اور اچھے کام کرنے والوں سے بخشش اور بڑے ثواب کاوعدہ فرمایا ہے۔ (29)

 

بے شک ہم نے آپ کو کھلم کھلا فتح دی۔ (01)


بے شک اللہ مسلمانوں سے راضی ہوا جب وہ آپ سے درخت کے نیچے بیعت کر رہے تھے پھر اس نے جان لیا جو کچھ ان کے دلوں میں تھا پس اس نے ان پر اطمینان نازل کر دیا اور انہیں جلد ہی فتح دے دی۔

اور بہت سی غنیمتیں بھی دے گا جنہیں وہ لیں گے، اور اللہ زبردست حکمت والا ہے۔ (18-19)


وہی تو ہے جس نے ایمانداروں کے دلوں میں اطمینان اتارا تاکہ ان کا ایمان اور زیادہ ہو جائے، اور آسمانوں اور زمین کے لشکر سب اللہ ہی کے ہیں، اور اللہ خبردار حکمت والا ہے۔ (04)

اور اللہ ہی کے سب لشکر آسمانوں اور زمین میں ہیں، اور اللہ بڑا غالب حکمت والا ہے۔ (07)


بے شک جو لوگ آپ سے بیعت کر رہے ہیں وہ اللہ ہی سے بیعت کر رہے ہیں، ان کے ہاتھوں پر اللہ کا ہاتھ ہے، پس جو اس عہد کو توڑ دے گا سو توڑنے کا وبال خود اسی پر ہوگا، اور جو وہ عہد پورا کرے گا جو اس نے اللہ سے کیا ہے سو عنقریب وہ اسے بہت بڑا اجر دے گا۔ (10)

 عنقریب کہیں گے وہ لوگ جو پیچھے رہ گئے تھے جب تم غنیمتوں کی طرف ان کے لینے کے لیے جانے لگو گے کہ ہمیں چھوڑو ہم تمہارے ساتھ چلیں، وہ چاہتے ہیں کہ اللہ کا حکم بدل دیں، کہہ دو کہ تم ہرگز ہمارے ساتھ نہ چلو گے اللہ نے اس سے پہلے ہی ایسا فرما دیا ہے، پس وہ کہیں گے کہ (نہیں) بلکہ تم ہم سے حسد کرتے ہو، بلکہ وہ لوگ بات ہی کم سمجھتے ہیں۔ (15)


ان پیچھے رہ جانے والے بدوؤں سے کہہ دو کہ بہت جلد تمہیں ایک سخت جنگجو قوم سے لڑنے کے لیے بلایا جائے گا تم ان سے لڑو گے یا وہ اطاعت قبول کر لے گی، پھر اگر تم نے حکم مان لیا تو اللہ تمہیں بہت ہی اچھا انعام دے گا، اور اگر تم پھر گئے جیسا کہ پہلے پھر گئے تھے تو تمہیں سخت عذاب دے گا۔ (16)

 

معزز قارئین؛ یہ بات یاد رکھیے گا کہ اللہ سبحان تعالی نے آقا کریم محمدﷺ کو آخری نبی بنا کر بھیجا اور قرآن الحکیم اس کی آخری کتاب ہے سو ایک بات جو خوب اچھی طرح ذہن نشین کرلینی چاہیے وہ اسی سورۃ الفتح کی مندرجہ ذیل آیت میں بیان ہوئی ہے۔

سُنَّـةَ اللّـٰهِ الَّتِىْ قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلُ ۖ وَلَنْ تَجِدَ لِسُنَّـةِ اللّـٰهِ تَبْدِيْلًا (23)

اللہ کا قدیم دستور پہلے سے یونہی چلا آتا ہے اور تو اس کے دستور کو بدلا ہوا نہ پائے گا۔

 

اللہ سبحان تعالی نے اپنے حبیب محمدﷺ کے ہاتھوں ریاست مدینہ کی بنیاد رکھی اور آقا کریم محمدﷺ کے چار خلفائے راشدین کے ذریعے ایک اسلامی ریاست کے مظاہر دکھائے۔ اب قرآن الحکیم کی ہدایت کی روشنی میں اور ریاست مدینۃ الرسول کے نقش قدم پر کوئی بھی گروہِ انسان اس زمین پر اللہ کی حاکمیت کے تحت ریاست بنا سکتا ہے۔ اگر پچھلے چودہ سو سالوں کی تاریخ پر نظر ڈالی جائے تو یہ حقیقت اظہر من شمش ہے کہ زمین پر ایک خوشحال بستی ان اُصولوں پر ہی قائم ہوتی ہے جو ریاست مدینہ میں رائج ہوئے تھے؛ خواہ وہ انسانی بستی اللہ ذوالجلال کے ماننے والوں کی نہیں ہو؛ یعنی کفار یا غیر مسلمانوں کی ہو تب بھی۔

مگر ایک تنبیہ ہمیشہ پلے باندھ رکھنی چاہیے کہ زمین کی خوشحالی اور ترقی بعد از قیامت کی کامیابی کا ضامن نہی ہے اور نا ہی اس کا استعارا۔

ہم انسان اس زمین پر انفرادی طور پر دورِ آزمائش میں ہیں اور اجتماعی طور پر بھی۔

 

آئیے اب ذرا تیسری بستی کی مثال پر غور کرتے ہیں؛ یہ انسانی بستی ریاستِ مدینہ کے بعد پہلی آبادی تھی جو دین اسلام کی بنیادی اصول کے نظریہ پر قائم کی گئی۔ یہ اسلامی جمھوریہ پاکستان ہے جو تاجِ برطانیہ کے تحت ہندوستان کی تقسیم کے وقت کلمہ طیبہ کی بنیاد پر حاصل کیا گیا (پاکستان کا مطلب کیا؟ لا الہ الا اللہ محمد الرسول اللہ)۔۔


مسجد تو بنا دی شب بھر میں ایماں کی حرارت والوں نے ؛  من اپنا پرانا پاپی ہے برسوں میں نمازی بن نہ سکا ۔۔۔ اقبال پاکستان کی قومی شاعر ہیں اور یہ شعر انہی کا ہے اور بدقسمتی سے حضرت قائد اعظم محمد علی جناح کے ولولہ انگیز قیادت میں ملک تو حاصل ہوگیا تھا مگر یہ کسی طور پر ریاست مدینہ تو دور کی بات ہے ایک خوشحالی اور ترقی کے دنیاوی اصولوں پر چلنے والا ملک بھی نا بن سکا۔ ریاست اللہ سبحان تعالی کی حاکمیت کو قائم کرنے کے لیے حاصل کیا گیا تھا مگر اسے سادہ مسلمان ریاست بھی نہیں بنا سکے۔


پہلے تو ریاست آدھی رہ گئی جب 1971 عیسوی میں مشرقی پاکستان الگ ہوگیا اور لبرل سیکولر بنگلہ دیش بن گیا۔ باقی کا بچا کچا پاکستان چوں چوں کا مربہ بن گیا۔ اگر اس ملک کو سادہ طریقے سے بیان کیا جائے تو یہ کسی طور پر اللہ کی حاکمیت تو کجا دنیاوی ترقی والی سلطنت بھی نہیں ہے۔ اور اگر یہ اسی ڈگر پر قائم رہا تواللہ کی شریعت نہیں بدلتی اور اس کا کوڑا بے آواز ہوتا ہے۔ [ اللہ کا قدیم دستور پہلے سے یونہی چلا آتا ہے اور تو اس کے دستور کو بدلا ہوا نہ پائے گا۔ سورۃ الفتح آیت 23]

 

اہم بات جو ہمیشہ واضع طور پر یاد رکھنا ہوگا کہ زمین پر کوئی بھی خطہ ہو جہاں مسلمان آباد ہو اس کے لیے [ يا أيها الذين آمنوا ] أطيعوا الله وأطيعوا الرسول کا حکم لازم ہوگا۔

اس کی وضاحت کے لیے قرآن الحکیم کی سورۃ الفتح کی مندرجہ ذیل آیت پیش ہے:-۔

 

تاکہ (اے لوگو!) تم اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لاؤ اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دین) کی مدد کرو اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بے حد تعظیم و تکریم کرو، اور (ساتھ) اللہ کی صبح و شام تسبیح کرو۔ (9)

وہی ہے جس نے اپنے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ہدایت اور دینِ حق عطا فرما کر بھیجا تاکہ اسے تمام ادیان پر غالب کر دے، اور (رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی صداقت و حقانیت پر) اللہ ہی گواہ کافی ہے۔ (28)

 

قرآن الحکیم اپنی دلیل میں بہت صاف اور سادہ طریقے سے واضع ہے اور سورۃ التوبہ میں اللہ سبحان تعالی نے اس بات کو اس طرح بیان فرمایا ہے۔

 

ہُوَ الَّذِیۡۤ اَرۡسَلَ رَسُوۡلَہٗ بِالۡہُدٰی وَ دِیۡنِ الۡحَقِّ لِیُظۡہِرَہٗ عَلَی الدِّیۡنِ کُلِّہٖ ۙ وَ لَوۡ کَرِہَ الۡمُشۡرِکُوۡنَ (33)

وہی تو ہے جس نے بھیجا ہے اپنے رسول ﷺ کو الہدیٰ اور دین حق دے کرتا کہ غالب کردے اسے کل کے کل دین (نظام زندگی) پر خواہ یہ مشرکوں کو کتنا ہی ناگوار گزرے۔

 

معزز قارئین کرام؛ اللہ سبحان تعالی نے برصغیر ہند کے رہنے والوں پر احسان کیا کہ مملکتِ خداداد پاکستان عطا کیا تاکہ ان پر اپنا فضل و کرم نازل فرمائے اور اپنا انعام مکمل کردے۔ [ہم تو مائل بہ کرم ہیں، کوئی سائل ہی نہیں]۔ مگر قوم اس کے لیے تیار نہیں تھی اور اللہ سبحان تعالی نے اس اجتماعی ذمہ داری کی ناکامی پر قوم کو اپنے انعام سے محروم رکھا۔ آج ملکِ پاکستان زمانے بھر میں ایک مذاق کے سوا کیا ہے؟

 

آج پاکستان کو قائم ہوئے 76 سال سے زائد وقت ہوچکا ہے؛ اور اللہ تعالی ہر نسل کو اس کی آزمائش کے دور سے گذارتا ہے۔ آج 2024 عیسوی میں مملکت پاکستان کے باسیوں پر ایک اضافی اجتماعی ذمہ داری سرزمینِ القدس پر جاری حق و باطل کی جنگ ہے۔ یہ جنگ تمام دنیا کے مسلمانوں پر کچھ ذمہ داریوں کو فرض کرتا ہے۔ تفاصیل کے لیے شیخ عمران حسین کی کتاب " پروشلم فی القرآن "؛ پڑھیں۔ یہاں نہایت ضروری حکم درج کیا جاتا ہے:-؛


 مقدس سرزمین یروشلم تمام دنیا کے مسلمانوں کے لیے ایسے ہی عزیز ہو؛ جیسے مکہ اور مدینہ ہیں اور اس ارض مقدس کو صیہونی یہودیوں کے چنگل سے آزاد کرانے کی جدوجہد سب پر فرض ہے۔

رسول اللہ محمد ﷺ کے سچے پیروکاروں اور غیر مسلموں کے درمیان کبھی صلح نہیں سکتی اور آخرکار فتح اسلام کو حاصل ہو گی اور سرزمینِ القدس آزاد ہو گا۔


قرآن الحکیم نے سورۃ انفال میں باکل واضع حکم دیا ہے

وَ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا بَعْضُهُمْ اَوْلِیَآءُ بَعْضٍؕ-اِلَّا تَفْعَلُوْهُ تَكُنْ فِتْنَةٌ فِی الْاَرْضِ وَ فَسَادٌ كَبِیْرٌ (73 آیت)

اور جو لوگ کافر ہیں وہ ایک دوسرے کے مددگار ہیں، (اے مسلمانو) اگر تم (ایک دوسرے کے ساتھ) ایسا (تعاون اور مدد و نصرت) نہیں کرو گے تو زمین میں (غلبۂ کفر و باطل کا) فتنہ اور بڑا فساد بپا ہو جائے گا۔

 

اوپر کی دی گئی تین بستیوں کی مثال سے اللہ سبحان تعالی کی تین واضع نشانیاں عیاں ہوتی ہیں۔ اور ایک کھلا سبق جو حاصل ہوتا ہے وہ عرض کیا جاتا ہے

 

اللہ سبحان تعالی اپنے نافرمانوں پر زمین تنگ کردیتا ہے اور اپنے باغیوں کو تباہ کردیتا ہے۔

اللہ کا قدیم دستور یعنی شریعت قرآن الکریم میں بیان ہوا ہے اور اللہ تعالی اپنی شریعت کو نہی بدلتا ہے۔

تو کیا مملکت خداداد پاکستان کی باسی کسی تباہی کی طرف گامزن ہیں؟ حضور اکرم محمد ﷺ کی ایک حدیث پیش کی جاتی ہے:-۔

 

خباب بن ارت رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک بار کافی لمبی نماز پڑھی، صحابہ نے عرض کیا: اللہ کے رسول! آپ نے ایسی نماز پڑھی ہے کہ اس سے پہلے ایسی نماز نہیں پڑھی تھی، آپ نے فرمایا: ”ہاں، یہ امید و خوف کی نماز تھی، میں نے اس میں اللہ تعالیٰ سے تین دعائیں مانگی ہیں، جن میں سے اللہ تعالیٰ نے دو کو قبول کر لیا اور ایک کو نہیں قبول کیا، میں نے پہلی دعا یہ مانگی کہ میری امت کو عام قحط میں ہلاک نہ کرے، اللہ نے میری یہ دعا قبول کر لی، میں نے دوسری دعا یہ کی کہ ان پر غیروں میں سے کسی دشمن کو نہ مسلط کرے، اللہ نے میری یہ دعا بھی قبول کر لی، میں نے تیسری دعا یہ مانگی کہ ان میں آپس میں ایک کو دوسرے کی لڑائی کا مزہ نہ چکھا تو اللہ تعالیٰ نے میری یہ دعا قبول نہیں فرمائی"۔  (سنن ترمذی حدیث نمبر: 2175)



 

اوپر کی حدیث سے ہم یہ اخذ کرسکتے ہیں کہ مملکت پاکستان کے باسی خود اپنے پھیلائے ہوئے فتنہ و فساد سے دوچار رہیں گے؛ اور اس زمین کے باسی لوگ، خود آپس میں ایک دوسرے کی ہلاکت کا باعث ہوں گے۔ یہ ہماری اجتماعی ذمہ داری کی ناکامی کے باٰعث ہوگا۔



پاکستان ساری اسلامی دنیا میں ایک منفرد ریاست ہے۔ یہ ریاست ایک قانونی جدوجہد کے نتیجے میں قائم ہوئی تھی اور اس کی بنیاد میں آج کی دنیا کا مقبول ترین نعرہ جمہوری قدر شامل ہوا تھا۔ یہ جموری قدر ریاست کے لوگوں پر اجتماعی اور انفرادی ذمہ داری کو نافذ کرتا ہے۔ پاکستان کے لوگ اپنی اجتماعی ذمہ داری میں تو ناکام نظر آتے ہیں تو کیا انفرادی فرض بھی ادا نہی کر سکتے؟

آج کی دنیا میں قرون اولی کی " بیت " کا متبادل ووٹ ہے؛ تو کیا مملکت پاکستان کے بسنے والے اپنا ووٹ صحیح استعمال کرتے ہیں؟

آج تک تو نہیں کیا تو آخر کب تک؟

کیا انسانوں کی یہ بستی اپنا فرض جانتی ہے؟

اس بستی کے رہنے والے کب اپنا سبق سمجھیں گے؛ یاد کریں گے اور اس پر عمل کریں گے؟

More Posts