خطہ زمین برصغیرِ ہندوستان کی کوئی بھی کہانی ہو خلیج بنگال اور اس سے جنم لینے والے طوفان کا اس میں ذکر نا ہو ممکن ہی نہیں۔ مون سون کا گرجتا برستا ساون خلیجِ بنگال ہی سے اٹھتا ہے اور سارے قراقرم؛ ہمالہ اور ہندوکش کے علاقوں میں سیلاب بن کر بہتا ہے۔ تاریخ میں زیادہ دور مت جائیے صرف نواب سراج الدولہ ہی کا تذکرہ پڑھ لیجیے کہ کیسے انگریز وہاں قابض ہوئے اور پھر اس زمین پر قبضے سے پورے ہندوستان پر مسلط ہوگئے؟ یہاں اس تاریخ کو دھرانا مقصود نہیں بلکہ آج بنگلہ دیش میں جو طوفان طالب علموں کی تحریک کی صورت میں اٹھا ہے؛ دیکھنا ہے کہ وہ خطہ برِ صغیر کے مسلمانوں کے لیے کیا پیغام لے کر آتا ہے؟ اس پر ایک مختصر تبصرہ بینگ باکس کے قارئین کے لیے پیش خدمت ہے۔
بِسۡمِ ٱللهِ ٱلرَّحۡمَـٰنِ ٱلرَّحِيمِ
انسانی تاریخ کتنی پرانی ہے یہ تیقّن سے کوئی بھی نہی بتا سکتا؟ مگر زیادہ تر افراد کی تحقیق چار ہزار سال تک ہی پہنچ پاتی ہے۔ برِ صغیر ہندوستان کی تاریخ بھی تقریبا" چار ہزار سال ہی کی داستان سناتی ہے۔ ان چار ہزار سالہ تاریخ کا اہم ترین ثبوت رگ وید؛ مہا بھارت، رام لیلا اور مہان انڈیا کی داستانیں ہیں؛ قصے ہیں اور کہانیاں ہیں۔ ان سب میں مرکزی کردار دھرم ہے؛ دھرم داس اور دھرم داسیاں ہیں۔ یہ سب بھارت؛ انڈیا یا ہندوستان کے سب سے محترم عزت والے تھے۔ پھر وادی بطحاء سے اٹھنے والے اسلام نے اس زمیں پر اپنا قدم رکھا اور اپنے مزاج کے حساب سے پورے ہندوستان میں جم گیا۔
برصغیر کی زمین جب ہندوستان تھی تو رشی و جوگی تھے؛ سادھو تھے اور سنیاسی تھے۔ پھر مسلمان آئے تو درویش آباد ہوئے؛ قلندر ابھرے؛ غوث و ولی بسے اور صوفیوں کو رواج ملا۔ برِصغیر کی زمین پر لوگوں کا دھرم بدلا، مذہب بدلا مگر نیم نہیں بدلے؛ طریقہ نہیں بدلا۔ رواج نہیں بدلے۔ رہن سہن نہیں بدلا اور تقدر بھی نہیں بدلی۔ پراتھنا کرنے والے؛ عبادت گذار ہوگئے؛ ماتھا ٹیکنے والے سجدہ ریز ہوگئے؛ پرشاد بانٹنے والے نیاز بانٹنے اور کھانے لگے۔ بھگوان داس رام دین کا بھگت؛ اللہ وسایا کی رعایا بن گئی؛ الغرض برصغیرِ ہندوستان کے انسان غلام ہی رہے آزاد منش نہیں بن سکے۔ انکے گلے میں کوئی نا کوئی طوق پڑا ہی رہا۔ " پہلے پیٹ پوجا؛ پھر کوئی کام دوجا " کے مصداق آج بھی دو ارب انسان رہٹ کا بیل بنے ہوئے ہیں۔ مگر اس سب کے باوجود آج بھی اس خطہ زمین کا سے سے بڑا نیم، سب سے مستحکم نعرہ؛ اور سب سے مضبوط دلیل دھرم ہے، مذہب ہے۔
تقدیر اور تدبیر آزاد انسانوں کی ہوتی ہے؛ غلاموں کی پاس نا تو تدبیر کے عمل کا موقع ہوتا ہے اور نا ہی انکی کوئی تقدیر ہوتی ہے۔ برِ صغیر کے انسان ساری دنیا کے اولادِ آدم سے کچھ مختلف تھے اور اس کی وجہ اس خطہ زمین کی ساخت؛ اس کے موسم اور اس پر خداوندِ عالم کی مہربانیاں اور نعمتیں تھیں۔ سارے انسان اپنے نفس کے غلام ہیں؛ اور اپنی جبلتوں کے تحت اپنی روٹی روزی کا انتظام کرتے ہیں۔ برصغیر کے انسان اپنے نفس کے ساتھ ساتھ آسیب زدہ بھی تھے؛ وہم پرست تھے اور ان دیکھی طاقتوں کے غلام بھی ہوتے تھے۔ انکی زمین پر زرخیزی سے سبب غلہ خوب اگتا تھا، جانور خوب پلتے تھے اور پھل، پھول اور درخت بے بہا رنگ جماتے تھے اور ان سب میں انکی زیادہ محنت شامل نہیں ہوتی تھی۔ اس لیے یہ کاہل اور کام چور ہوتے تھے اور آزادی کو کوئی نعمت اور فخر نہی سمجھتے تھے۔
روٹی کپڑا اور مکان پچھلی صدی تک کے انسانوں کی بنیادی ضرورت ہوتی تھی۔ مگر صنعتی ترقی سے انسانوں کی ضروریاتِ زندگی میں تغیر آیا ہے۔ اب روٹی کپڑا اور مکان کے ساتھ ساتھ تعلیم، صحت اور روزگار بھی اس فہرست میں شامل ہیں۔ ان ضروریات نے انسانوں میں آزادئیے فرد کی اہمیت کو اجاگر کیا ہے۔ آزادئیے فرد؛ آزادی اظہار کے بغیر مکمل نہیں ہوتا۔ آج اکیسویں صدی کے چوبیسویں سال میں انٹرنیٹ بھی بنیادی انسانی حق کے لیے لازم و ملزوم ہوگیا ہے۔ برصغیر کے انسان اپنی جبلتوں کی انفرادیت کے باوجود دنیا بھر سے عمومی رویوں میں مختلف نہیں ہیں۔ اور دنیا کے دوسری قوموں سے سیکھنے کی ابتداء خود انگریز قوم کا تحفہ کی وجہ سے ہے؛ جس نے آج سے تقریبا" پونے تین سو سال قبل نواب سراج الدولہ کو شکست دے کر بنگال کی حکومت پر قبضہ کیا تھا۔
سرزمین بنگال اس وقت ایک آزاد زمین تھی جس پر بسنے والے ہندو تھے اور مسلمان بھی تھے۔ اور ہنسی خوشی بس رہے تھے اور انکا آپس میں کوئی دنگا فساد بھی نہیں تھا۔ بنگال کی زمین پر بہتے دریا تھے؛ دھان اور جوٹ تھا اور مچھلی تھی اور عام لوگ زندگی میں مگن تھے۔ انکی زندگی میں میگھا؛ میگھ ملہار اور دریاوں میں وافر مچھلیاں تھیں اور وہ تھے۔ وہ آزاد تھے اور بھگوان پرست اور خدا نصیب تھے۔ انگریز نے انکی زمین پر قبضہ کیا تو انکی آزادی کو سلب کیا؛ انکے رہن سہن کو چھیڑا؛ ان پر لگان لگائے اور بنیادی ضروریاتِ زندگی کا حصول بھی تنگ کردیا۔ انگریز نے ان سے بہت کچھ چھینا اور اور صرف اییک چیز سکھائی؛ جمہوری طرزِ حکمرانی اور اس کے تحت بنیادی انسانی حقوق۔ برصغیر ہندوستان میں جمھوری طرزِ حکمرانی اور بنیادی انسانی حقوق کا سبق سیکھنے والے سب سے پہلے بنگال والے تھے۔ اس میں دوسری کوئی اور رائے محض وقت کا ضیاع ہے۔
بنگال کے لوگ راسخ العقیدہ؛ شدت پسند مسلمان نہیں تھے مگر خدا نصیب ضرور تھے اور صوفیاء کی تعلیم کے تحت اللہ سبحان تعالی کی وحدانیت اور حقانیت کے قائل ضرور تھے۔ اور رسالتِ محمدﷺ کے دیوانے بھی تھے۔ انگریز کے دورِ غلامی میں سب سے پہلے مسلمانوں کی پہلی سیاسی تنظیم بنام مسلم لیگ کی بنیاد بھی مسلمانان بنگال کا مرہونِ منت تھا۔ یہ بنگال کے مسلمانوں کی سیاسی بلوغت کی واضع نشاندھی ہے۔ ہندوستان میں جب علامہ محمد اقبال نے آزاد مسلم ریاست کا خواب دیا اور قائدِ اعظم محمد علی جناح نے پاکستان کی جدوجہد کا اعلان کیا تو یہ بنگال کے مسلمانوں کی روح کو تحریک دینے سبب بنا؛ اور وہ تن من دھن سے اس کا حصہ بن گئے۔ اور پاکستان بن گیا تو اس کا نہایت مضبوط بندھن دو قومی نظریہ تھا جو ایک آزاد خودمختار اسلامی ریاست کا خواب تھا جس کی نظیر ریاست مدینہ کا ماڈل تھا اور اس کا نقشِ ثانی بننا تھا۔
مگر ملک خداداد کے بنتے ہی ردِ انقلاب کی قوتیں پس پردہ متحرک ہوگئیں اور قائدِ اعظم کے انتقال اور لیاقت علی خان کے قتل کے بعد نظریاتی بندھن توڑ دیا گیا۔ سکولر لبرل طاغوتی گروہ پھیل گئے اور مغربی، صیہونی اور ہندتوا کے غلام سازشوں کا جال بچھانے لگے۔ اورحکمران اشرافیہ جو دراصل مغربی آقاوں کےغلام تھے؛ نے نفرت کے بیج بوئے۔ اس کے لیے سرکاری ظلم کو روا رکھا گیا اور ایک بےدرد رسواکن رویے سے عام بنگالی کو تکلیف دی گئی اور اس کو نفرت کرنے پر مجبور کیا گیا۔ ظلم سے نفرت اگتی ہے اور نفرت سے بغاوت جنم لیتی ہے۔
پاکستان کا قیام حضرت قائد اعظم محمد علی جناح کی بصیرت اور تدبر کا نتیجہ تھا اور مسلمان عامۃ الناس کی والہانہ شمولیت کا پھل تھا اور اس کی بنیاد ایک نعرہ " پاکستان کا مطلب کیا ؟ لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللہُ مُحَمَّدُ رَّسُولُ اللہ" تھا اور حکمران اشرافیہ جو دراصل انگریز کے سدھائے ہوئے ملازم تھے اور جن کی وفاداری تاجِ برطانیہ سے تھی؛ انکا اس تحریک میں کوئی کردار نہی تھا۔ وقت نے بتایا کہ حکمران اشرافیہ وہ بدترین منافق گروہ بھی تھا جس نے قومی نعرہ "پاکستان کا مطلب کیا؟ لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللہُ مُحَمَّدُ رَّسُولُ اللہ" کو مذاق بنایا اور ریاست کو اس خواب سے الٹی راہ پر چلایا۔ جس کے نتیجے میں مشرقی پاکستان میں مغربی پاکستانی کی پہچان ایک گالی " شالہ پُنجابی"" بن گیا۔
مارچ 25؛ 1971 کو پاکستان کی فوج، جسکا بڑا حصہ مغربی پاکستان اور اس کے صوبے پنجاب پر مشتمل تھا؛ نے بنگالی عوام کی مقبول پارٹی عوامی لیگ کے خلاف فوجی آپریشن شروع کیا جس کا نام آپریشن سرچ لائٹ رکھا گیا تھا۔ کیا کبھی تاریخ میں سیاسی مذاکرات فوجی طاقت سے بھی کئے گئے ہیں؟ یہ یاد رہے کہ وہ سیاسی معاملات ایک ہی قوم کے دو سیاسی گروہوں کے درمیان تھے۔ لیکن جیسا کہ تاریخ سکھاتی ہے اور جو عقل کو بھی درست لگتا ہے کہ سیاسی مذاکرات فوجی طاقت سے حل نہی ہوتے؛ سو وہ تب بھی نہیں ہوئے اور " شالہ پُنجابی " محض گالی نہی رہا بلکہ مذہبی سیاسی دشمن بن گیا اور دشمن سے جنگ ہوتی ہے اور جنگ میں سب جائز ہوتا ہے۔ پھر چشمِ فلک نے ہولناک مناظر دیکھے اور وہ ظلم ہوا کہ ابلیس بھی شرماجائے۔ بنگالی اور غیر بنگالی کے واضع فرق سے لوٹ مار کی گئی اور قتال ہوا۔ اور اس فساد میں سب سے زیادہ نقصان غیر بنگالی، غیر شالہ پُنجابی بہاریوں کا ہوا جو ہندوستان کے صوبے "بہار" سے ہجرت کرکے آئے ہوئے انسان تھے۔ اور جو اپنے تئیں اسلامی ریاست پاکستان کی جنگ لڑرہے تھے اور وہ سب کچھ ہار گئے۔
کیا مشرقی پاکستان میں عوامی لیگ اور مجیب الرحمن سے سیاسی مذاکرات ٹیبل پر بیٹھ کر نہی ہوسکتے تھے؟[ ہوسکتے تھے؛ بلکل ہوسکتے تھے؛ اگر خواہش ہوتی تو]۔
کیا بنگلہ بندھو کے چھ نکات ناقابلِ عمل تھے اور کیا آج پاکستان میں کئے گئے 21 ویں ترمیم میں کوئی زیادہ فرق ہے؟ [ جس کو غداری قرار دیا گیا تھا وہ اب قوم کی آواز بنا کر پیش کیا گیا ہے]۔
کیا مکمل جدائی جنگ کے بغیر ممکن تھی؟ [ بات چیت کا دروازہ کھلا رہتا تو صوبائی خودمختاری کے تحت الگ ہوئے بغیر معاملات طے ہوسکتے تھے؛ مگر مقصد مکمل جدائی تھا کہ دو زمینی جسمانی دوری کے ساتھ ملک کبھی ایک نا ہوسکیں ]۔
کیا اپریشن سرچ لائٹ کا مقصد نفرت کی بیج سے دشمنی کا جنگل اگانا تھا؟ [ آپریشن سرچ لائٹ کا واحد مقصد نفرت کو مستقل کرنا تھا جبھی تقسیم کی ہنگامہ خیزی کو بنگلہ دیش میں باقائدہ نصاب کا حصہ بنایا گیا اور قومی شعور کا لازم ملزوم بنایا گیا]۔
کیا وجہ ہے کہ مغربی پاکستان میں مشرقی پاکستان کا کوئی سایہ بھی نہی پڑا؟ کیا کوئی خاندان اس طرح کی جدائی کے سوگ سے جان چھڑا سکتا تھا؟ بھٹو کی تقریر جو ایک عوامی جلسہ میں کی گئی تھی؛ اس کا جواب ہے؛ جس میں بنگالی قوم کو گالی دی گئی تھی؟
تاریخ کا جبر اور ظلم تو یہ ہے کہ جب نفرت اور بغاوت کو ہوا دی گئی تو اس کے پیچھے پس پردہ ہاتھ سامنے آیا تو اس نے قبا سیکولر لبرل نظریات کا پہنا ہوا تھا۔ اور سادگی یا کم عقلی کی انتہاء دیکھیے کہ دوںوں طرف کھل کھیلنے والے لبرل سیکولر ہی تھے۔ ایک طرف مجیب الرحمن اور دوسری طرف ذولفقار علی بھٹو تھے۔ اور وہ نظریہ جس کے تحت پاکستان قائم ہوا تھا کہیں پیچھے رہ گیا۔ بالآخر پاکستان ٹوٹ گیا اور مغربی پاکستان بھٹو کا نیا پاکستان بنا اور مشرقی پاکستان بنگلہ بندھو مجیب کا سیکولر لبرل بنگلہ دیش بن گیا۔
پاکستان کے توڑنے میں ذلفی بھٹو، مجیب الرحمن اور یحیی خان حکمران اشرافیہ کے سرخیل تھے اور تینوں قائدِ اعظم کے اسلامی ریاست پاکستان کے غدار تھے۔
یہ اشخاص اکیلے نہیں تھے؛ انکے پیچھے پورا گروہ تھا؛ ان میں جنرلز تھے، ججز تھے، جرنلسٹ و دیگر لکھاری تھے، نوکر شاہی کے سرخیل تھے، تاجر تھے اور مختلف نوع و اقسام کے سیاستدان تھے۔ لیکن نقصان صرف دونوں ملکوں کےان مسلمانوں کا ہوا، جو اللہ کی حاکمیت کا خواب دیکھ رہے تھے اور نظام مصطفی ﷺ کے تحت رہنے کی امید رکھتے تھے؛ وہ محب وطن پس مژدہ ہو کر رہ گئے۔ ان کی ہمت ٹوٹ گئی اور وہ بدحال ہوگئے۔ ایسے ہی پاکستانیوں کا ایک گروہ آج بھی میر پور کیمپ ڈھاکہ میں محصور ہے۔
دین اسلام کے ماننے والے زیادہ دیر تک مایوس نہی رہتے کیونکہ " اسلام کی فطرت میں قدرت نے لچک دی ہے؛ اتنا ہی یہ ابھرے گا جتنا کے دباو گے"۔
آج دوہزار چوبیس میں اگست کے مہینے میں بنگال نے ایک کروٹ لی ہے اور پاکستان میں بھی ایک جنگ جاری ہے۔ کیا پاکستان اور بنگلہ دیش کے مسلمانوں کی بیداری کی داستان پھر چھڑ گئی ہے؟ کیا مشرقی اور مغربی پاکستان کے عوام پھر ایک ہی طرح سوچنے پر مجبور ہو گئے ہیں؟ بنگلہ دیش کے مسلمان جب بھی اسلام کی طرف لوٹے توکیا وہ ریاستِ اسلام پاکستان کا خواب ہی ہوگا؟ اور کیا یہ دونوں مسلمان ملک اللہ کی حاکمیت اور رسول اللہ ﷺ کے نام پر باہم ایک متحد ریاست کا نمونہ بن سکتے ہیں؟
ان سوالوں کا جواب دینے سے پہلے 1971 کے سانحہ کے بعد ہونے والے واقعات کا ایک سرسری جائزہ لینا بہت ضروری ہے۔ ان واقعات سے اسلام مخالف قوتوں کے عزائم اور کردار پر روشنی ڈالنا بہت اہم ہے۔ ان ملکوں میں پیش آنے والے واقعات پر محض اچٹتی نگاہ ڈالیں تو عوام الناس اور اشرافیہ کے متعلق ایک بات متواتر کہی جاسکتی ہے کہ عوام غلام نہیں رہنا چاہتی مگر حکمران اشرافیہ اپنے آقاوں کی غلامی پر بضد ہیں اور ملک و قوم کی دولت و طاقت پر ان کا شکنجہ مضبوط ہے۔
محترم آصف محمود صاحب نے روزنامہ 92 نیوز میں اپنے کالم " جوئے بنگلہ رجاکار" میں تحریر کیا ہے کہ
" پاکستان نے پاکستان سے عشق کرنے والے جن پاکستانیوں کو ڈھاکہ کے مقتل میں اکیلے چھوڑ دیا تھا۔ آج وقت نے انہیں مقتل میں سر بلند کر دیا ہے۔ کیسے کیسے لوگ حسینہ واجد نے پھانسی پر چڑھا دیے، یاد کرنے بیٹھیں تو دل سے دھواں اٹھتا ہے۔ نسلیں پاکستان پر قربان ہو گئیں لیکن پاکستان کی حکومتوں نے مڑ کر ان کی طرف نہ دیکھا۔ بڑھاپے میں لوگوں کو مقتل میں لٹکایا گیا کہ جوانی میں انہوں نے پاکستان سے محبت کی تھی۔ آفرین ہے ان لوگوں پر ایک کے بعد ایک قتل ہوتا گیا، مقتولوں نے سروں کی مالا پرو دی۔ مکتی باہنی کے جرائم اور درندگی پر پردے ڈال دیے گئے ا ور البدر اور الشمس والوں پر مقدمے قائم ہونے لگے۔ گواہیوں کا معیار یہ تھا کہ اگر کسی کے خلاف عوامی لیگ کے کسی اخبار میں بھی کوئی خبر چھپی تھی تو وہ ثبوت قرار دیاگیا۔ 1971 کے واقعات پر 2022 اور 2024 میں پھانسیاں ہونے لگیں۔ جھوٹے مقدمے، سفاک عدالت اور پھر مقتل۔
مکتی باہنی کے مجرموں کے لیے آج بھی چالیس فی صد کوٹے پر اصرار اور احتجاج پر قتل و غارت، یہ رویہ بتا رہا ہے کہ باپ کی طرح بیٹی کا بھی جمہوریت سے کوئی واسطہ نہ تھا۔ یہ وحشت تھی۔ ایسی ہی وحشت کا علم شیخ مجیب نے بھی اٹھایا تھا اور جب قتل ہوا تو اگلے روز شائع ہونے والے بنگلہ دیش آبزرور کے اداریے کا آغاز اس فقرے سے ہوا کہ: ''The killing of Sheikh Mujib was a historic necessity.''
کیا کبھی ہم نے غور کیا کہ ساری خرابی اگر مغربی پاکستان کے فیصلہ سازوں ہی کی تھی تو بنگلہ دیش کی فوج نے اپنے بنگلہ بندھو کو تیسرے ہی سال کیوں قتل کر دیا؟ اس کا جواب بہت سادہ ہے؛ اس نے بھی وہی حرکتیں کی تھیں جو حسینہ واجد کر رہی تھی۔ شیخ مجیب کی فسطائیت بھی شرم ناک تھی، اس کی بیٹی کی فسطائیت بھی شرم ناک رہی۔
شیخ مجیب کو مارنے والے کون تھے؟ یہ مغربی پاکستان کے لوگ نہ تھے۔ یہ بنگلہ دیش کے اپنے فوجی تھے۔ اور عام فوجی بھی نہیں تھے۔ ان میں سے تین تو وہ تھے جو بنگلہ دیش کے باقاعدہ جنگی ہیرو تھے کہ انہوں نے مکتی باہنی کے ساتھ مل کر ”آزادی کی جنگ“ لڑی تھی۔ درجنوں گواہیاں موجود ہیں کہ یہ شیخ مجیب کے کارندوں کے ہاتھوں فوجی افسران کے اہل خانہ کی عصمت دری کا انتقام تھا۔ قاتل بھی وہی تھے جو مکتی باہنی کے ”ہیرو“ تھے۔
شیخ مجیب کے قاتلوں میں سے تین ایسے تھے جو بنگلہ دیش میں ہیرو کا درجہ رکھتے تھے۔ سوال یہ ہے کہ وہ کیوں قاتل بنے؟ ڈھاکہ عوامی لیگ کے صدر اور شیخ مجیب کے دست راست شیخ غلام مصطفی نے بنگالی میجر کی بیوی اور بیٹی کو اغوا کر لیا تھا۔ اور جب اس پر بنگلہ دیش کے فوجی دستے غصے میں ان کی تلاش کے لیے شہر بھر میں پھیل گئے تو شیخ مجیب نے انڈر ورلڈ کے ڈان کی طرح اپنے گھر پر صلح کروا دی۔ شیخ غلام مصطفی کے خلاف کوئی کارروائی نہ ہوئی البتہ افسران کو نوکری سے نکال دیا گیا۔ اتفاق دیکھیے کہ اسی رجمنٹ کے افسران بعد میں شیخ مجیب کے قتل میں شامل تھے۔
عوامی لیگ کے ایک غنڈے اور مقامی صدر مزمل نے ایک بارات میں سے دلہا اور دلہن کی کار کو قبضے میں لے لیا۔ دلہا وہیں قتل کر دیا گیا۔ دلہن کی عزت لوٹ کر دو روز بعد اس کی لاش پھینک دی گئی۔ فوج نے مزمل کو گرفتار کر لیا۔ شیخ مجیب نے حکم دیا اسے رہا کر دیا جائے۔ روایت ہے کہ میجر فاروق اسی واقعے کے رد عمل میں شیخ مجیب کے قاتلوں کے ساتھ شامل ہوا۔ عوامی لیگ کا یہی غنڈہ مزمل اس وقت بنگلہ دیش میں وفاقی وزیر تھا اور البدر کے لوگوں کی گرفتاریوں اور پھانسیوں کے معاملات انہی کی نگرانی میں چل رہے تھے"۔
دنیا بھر کے ذرائع ابلاغ میں بنگلہ دیش حکومت کے ظلم کی کہانیاں سنائی جارہی تھیں مگر مغرب کی انسان دوست حکمران انکھ بند کئے تھے۔ تین سال پہلے الجزیرہ انٹر نیشنل کی ایک دھماکہ خیز تحقیقات سے پتہ چلا کہ کس طرح ایک مجرم گروہ؛ سابق اسٹریٹ مافیا نے بنگلہ دیش کی سیکورٹی فورسز کے سربراہ اور شیخ حسینہ نے ریاست پر قبضہ کیا تھا۔ اس رپورٹ میں بنگلہ دیش کے اس وقت کے آرمی چیف کا بھائی فخر کرتا ہے کہ وہ پولیس اور نیم فوجی یونٹوں کو حریفوں کو اغوا کرنے اور کروڑوں کی رشوت کمانے کے لیے استعمال کر سکتا ہے۔
مسلم دنیا کی حکمران اشرافیہ کبھی بھی اپنی قوم سے وفادار نہیں ہوتے۔ ان کی پوری توجہ لوٹ مار پر رہتی ہے اور وہ اپنے خاندان کو بیرون ملک آباد کرنے میں دلچسپی رکھتے ہیں۔ یہ ہمیشہ ملک میں انارکی اور فساد مچائے رکھتے ہیں۔ یہ کسی طور پر انصاف اور عدل کا نظام قائم نہی ہونے دیتے؛ بلکہ اسے دولت کی لونڈی اور طاقت کا غلام بنائے رکھتے ہیں۔ ملک میں کرپشن، دھوکا اور فراڈ کو بڑھاوا دیتے ہیں۔ غربت اور افراطِ زر میں مسلسل اضافہ کرتے رہتے ہیں۔ الغرض عوامۃ الناس کی زندگی مسلسل تگ و دو میں گذرتی ہے۔
اسلام دنیا پہلی جنگِ عظیم کے بعد نو آبادیاتی غلامی سے نجات پانے لگے تو ایک واضع فرق طرزِ حکمرانی میں دیکھا گیا۔ کچھ ممالک میں بادشاہت قائم کی گئی۔ اور کچھ میں نیم جمھوری حکمتوں کو رواج دیا گیا۔ قابل غور بات اور فرق یہ ہے کہ جن ملکوں میں اسلام کی نشاۃ الثانیہ کی تحریک تھی اور کسی بھی نوع کی سیاسی بیداری تھی وہاں نیم جمھوری سیاست کے نظام کی داغ بیل ڈالی گی اور قوموں کو سیاسی گروہی لڑائی میں الجھا دیا گیا۔ اور وقتا" فوقتا" ڈکٹیٹر بھی نازل ہوتے رہے۔ ان تمام ممالک میں اسلامی فکر اور کردار کے حامل تمام افراد پر بے تحاشہ ظلم کیا جاتا رہا ہے۔ مسلسل قید اور قتل بھی کیا جاتا رہا ہے۔ پاکستان؛ بنگلہ دیش، مصر اور ترکیہ اس کی بہترین مثال ہیں۔
پاکستان کی 77 سالہ تاریخ میں جب بھی کسی نے اسلامی نظام قائم کرنے کے لیے کوشش کی اسے تختہ مشق بنایا گیا۔ مصر میں اخوان المسلمین کی کہانی ذرا بھی مختلف نہیں۔ ترکیہ میں بھی اسلامی فکر رکھنا جرم رہا ہے۔ بنگلہ دیش میں بھی اس طرح کا نظام قائم ہے۔ وہاں جماعت سلامی کے لیڈر میر قاسم علی کے بیٹے کو حسینہ کی حکومت کے قائم کردہ انتہائی متنازعہ بین الاقوامی جرائم کے ٹریبونل نے موت کی سزا سنائی تھی، اورعبداللہ الامان اعظمی جو سابق فوجی جنرل اور جماعت اسلامی کے سابق امیر غلام اعظم کے بیٹے ہیں کو بھی اسی عدالت نے عمر قید کی سزا سنائی تھی۔ متعدد رہنماوں کو پاکستان اور اسلامی نظام حکومت کے قیام کی حمایت کے الزام میں پھانسی دی گئی۔
اسلامی دنیا میں طوائف الملوکی کی واحد وجہ مسلمانوں کو احیاء اسلام اور نظم ریاست بحقِ نظام مصطفیﷺ سے روکنا ہے۔ یہ سارا تام جھام مسلمانوں کو گروہوں میں بانٹنے کے لیے ہے۔ ہمارے حق میں سیاسی پارٹی بنا کرباہم دستِ گریبان سیاست دان دراصل غیر ملکی آقاوں کے غلام ہوتے ہیں اور صرف ہمیں آپس میں الجھا کر، لڑا کر؛ کمزور کرنا چاہتے ہیں۔
کیا کبھی ان مغربی ممالک میں افراد آپس میں لڑتے ہیں اور کیا وہاں ووٹ چوری اور سیاسی خیانت کا کوئی واقعہ پیش آتا ہے؟
کیا پاکستان میں فروری دو ہزار چوبیس کے الیکشن کے واقعات ہماری آنکھیں کھولنے کے لیے کافی نہیں ہیں؟
کیا ہم جانتے ہیں کہ ان حکمران اشرافیہ میں بظاہر دیندار صاحبِ علم و فراست والے ملّا بھی ہوتے ہیں؟ ان کا کام دین کی تلاش میں سرکرداں سادے مسلمانوں کو گمراہ کرنا ہوتا ہے؟ یہ کسی طور پر سوائے منافق کے کچھ اور نہیں ہیں۔
کیا ہم آج بھی حکمران اشرافیہ اور انکے شتونگڑوں کے کردار اور انکے چہرے پہچان نہیں سکتے؟ یہ طاقت میں ہوتے ہیں تو گریبان پر ہاتھ ڈالتے ہیں؛ جوانوں بوڑھوں، عورتوں اور بچوں پر تشدد کرتے اور کرواتے ہیں۔ یہ اپنے مقصد کے حصول میں حائل افراد کو قتل کرنے سے بھی نہیں چوکتے۔ اور کبھی مشکل میں پڑ جائیں تو معافی مانگتے ہیں اور دین اور ایمان کی قسم کھا کر رحم کی بھیک مانگتے ہیں۔
اے میرے سادہ لوح مسلمانوں؛ اپنے دشمن کو پہچانو کہ کل شیخ حسینہ کے ڈھاکہ سے فرار کے بعد ہندوستان اور پاکستان کے ہائی کمیشنوں کا حال کیا تھا؟ وزیر اعظم حسینہ کی قیادت میں بنگلہ دیش کے ایک "قابل اعتماد دوست" ہونے کی وجہ سے ہندوستان کو اپنی ہائی کمیشن پر سیکورٹی کے چار سطحی باڑ لگانے پڑتے ہیں جبکہ پاکستان کمیشن کا مین گیٹ تقریباً کھلا ہوا تھا۔
خلیجِ بنگال سے اٹھنے والے اس طوفان کو اتنا پھیلانا ہوگا کہ یہ تمام برصغیرِ ہند و پاک پر برس جائے اور آگے بڑھ کر سارے عالم اسلام کو بیدار کرے کہ اٹھو اپنے زمین کے حکمران اشرافیہ کو پہچانو اور ان مغرب کے غلاموں سے نجات پاو۔ یہ بزدل ہوتے ہیں؛ کمزور اور کھوکلے ہوتے ہیں۔ عام لوگ متحد ہوں تو یہ اپنے سائے سے بھی ڈر جاتے ہیں۔ اور فورا" اپنے اصل آقاوں کی پناہ میں بھاگ جاتے ہیں؛ جو عوامی غیض و غضب دیکھ کر انکوٹھکرا دیتے ہیں۔ برصغیر ہند کے مسلمان خواہ وہ پاکستان کی باسی ہوں یا بھارت کے یا بنگلہ دیش کے؛ اور تمام دوسری زمینوں پر بسنے والے مسلمان اپنی مسلسل کمزوری اور تباہ حالی سے نجات پانا چاہتے ہیں تو انہیں علامہ اقبال کے سادہ پیغام کو سمجھنا اور عمل پیرا ہونا ہوگا۔
ایک ہوں مسلم حرم کی پاسبانی کے لیے
نِیل کے ساحل سے لے کر تا بخاکِ کاشغر
جو کرے گا امتیازِ رنگ و خُوں، مِٹ جائے گا
حکمتِ مغرب سے مِلّت کی یہ کیفیّت ہوئی
ٹُکڑے ٹُکڑے جس طرح سونے کو کر دیتا ہے گاز
ہو صداقت کے لیے جس دل میں مرنے کی تڑپ
پہلے اپنے پیکرِ خاکی میں جاں پیدا کرے
یہ گھڑی محشر کی ہے، تُو عرصۂ محشر میں ہے
پیش کر غافل، عمل کوئی اگر دفتر میں ہے!