"To My Mother" (or "I Yearn for My Mother's Bread") is a well-known and powerful poem by By award-winning Palestinian author and poet Mahmoud Darwish (1941-2008) and is often considered one of his most famous works. “To My Mother” from Mahmoud Darwish was written when the young poet was in an Israeli prison. This bilingual write up is aimed at stirring thinking minds.
بِسۡمِ ٱللهِ ٱلرَّحۡمَـٰنِ ٱلرَّحِيمِ
In the name of ALLAH, the Most Gracious, the Most Merciful
To My Mother by Mahmoud Darwish Translated by A.Z. Forman.
“To My Mother” is one of Darwish's most famous poems. It was written when the young poet was in an Israeli prison as a way to reconcile with his mother and is addressed to her in the form of a letter. The poem begins by stating that the poet yearns for three things: his mother's bread, coffee, and touch. The imprisoned Darwish asks his mother for protection and uses words that are associated with concealment to articulate his need for her. Darwish also suggests that his mother is a saint who can purify him and grant him sanctification from his current dire circumstances. Darwish feels old and wishes for his mother to remind him of happier times — those of his childhood — and asks to be returned to the warmth of her nest.
Mahmoud Darwish's literature, particularly his poetry, created a sense of Palestinian identity and was used to resist the occupation of his homeland. "To My Mother" by Mahmoud Darwish has become an anthem for many Arabs, resonating with themes of longing, home, and the human connection.
Dearly I yearn for my mother’s bread,
My mother’s coffee,
Mother’s brushing touch.
Childhood is raised in me,
Day upon day in me.
And I so cherish life
Because if I died
My mother’s tears would shame me.
Set me, if I return one day,
As a shawl on your eyelashes, let your hand
Spread grass out over my bones,
Christened by your immaculate footsteps
As on holy land.
Fasten us with a lock of hair,
With thread strung from the back of your dress.
I could grow into godhood
Commend my spirit into godhood
If I but touch your heart’s deep breadth.
Set me, if ever I return,
In your oven as fuel to help you cook,
On your roof as a clothesline stretched in your hands.
Weak without your daily prayers,
I can no longer stand.
I am old
Give me back the stars of childhood
That I may chart the homeward quest
Back with the migrant birds,
Back to your awaiting nest.
محمود درویش (1941-2008) فلسطین کے مشہور ایوارڈ یافتہ مصنف اور شاعر ہیں؛ جنھوں نے اپنی شاعری کو فلسطینی مسئلے کو موضوع بنا کر اجاگر کرنے کے لیے استعمال کیا۔ محمود درویش پورے مشرقِِ وسطیٰ میں مشہور تھے اور انھیں فلسطین کا قومی شاعر سمجھا جاتا ہے۔ "ٹو مائی مدر" (یا "میں اپنی ماں کی روٹی کے لیے تڑپتا ہوں") ایوارڈ یافتہ فلسطینی مصنف اور شاعر محمود درویش کی ایک مشہور اور طاقتور نظم ہے اور اسے اکثر ان کی مشہور ترین تخلیقات میں سے ایک سمجھا جاتا ہے۔ محمود درویش کا "ٹو مائی مدر" اس وقت لکھا گیا جب وہ نوجوان تھے اور اسرائیلی جیل میں قید تھے۔
محمود درویش کی مشہور نظموں میں سے ایک "ٹو مائی مدر" ہے۔ یہ اس وقت لکھا گیا جب نوجوان شاعر اسرائیلی جیل میں تھا اور اس نے اپنی ماں کے ساتھ صلح کرنے کے لیے اسے ایک خط کی شکل میں مخاطب کیا گیا تھا۔ نظم کا آغاز یہ بیان کرتے ہوئے ہوتا ہے کہ شاعر تین چیزوں کے لیے ترستا ہے: اپنی ماں کی روٹی، کافی اور لمس۔ قیدی درویش اپنی ماں سے تحفظ مانگتا ہے اور اس کی ضرورت کو ظاہر کرنے کے لیے پوشیدہ جزبات کو الفاظ کا روپ دیتا ہے۔ درویش نے یہ بھی مشورہ دیا کہ اس کی ماں ایک ولی ہے جو اسے پاک کر سکتی ہے اور اسے اس کے موجودہ سنگین حالات سے آزاد کر سکتی ہے۔ درویش بوڑھا محسوس کرتا ہے اور اپنی کی ماں سے خواہش کرتا ہے کہ وہ اسے خوشی کے لمحات یاد دلائے - جو اس کے بچپن کے تھے - اور وہ ماں کے گھونسلے یعنی ماں کی گود کی گرمجوشی میں واپس آنے کی خواہش کرتا ہے۔
محمود درویش کے ادبی کاوشوں بالخصوص ان کی شاعری نے فلسطینی شناخت کا احساس پیدا کیا اور اسے اپنے وطن پر قبضے کے خلاف مزاحمت کے لیے استعمال کیا گیا۔ محمود درویش کا "ٹو مائی مدر" بہت سے عربوں کے لیے ایک ترانہ بن گیا ہے، جو آرزو، گھر اور انسانی تعلق کے موضوعات سے گونجتا ہے۔
محمود درویش کی نظم "او میری ماں"۔
میں اپنی ماں کی پکی روٹی کو ترستا ہوں؛
اور ماں کی پھینٹی کافی کو؛
اور ماں کا مرے سر پر پھیرتے ہاتھوں کے لمس کو۔
مجھ میں بچپن کلملاتا ہے؛
ہر گذرتے دن اس ٹرپ میں اضافہ ہوا ہے۔
اور میں زندہ رہنا چاہتا ہوں؛
کیونکہ اگر میں مر گیا تو؛
میری ماں کے آنسو مجھے شرمندہ کریں گے۔
مجھے تھام لینا، اگر میں ایک دن واپس آؤں؛
اپنی پلکوں پر شال کے طور پر؛
اپنے ہاتھ سےمیری ہڈیوں پر گھاس پھیلانا؛
تیرے بے نظیر قدموں سےمعتبر ہوں؛
جب آپ مقدس سرزمین پر چلیں۔
ہمیں بالوں کے لپٹ سے جکڑ دو؛
آپ کے لباس کے پشت سے ابھرے ہوئے دھاگے کے ساتھ۔
میں بلندی پا سکوں گا؛
میری روح کو خداشناسی عطا ہوگی؛
ہاں اگر میں آپ کے دل کی گہرائیوں کو چھوپاتا ہوں۔
مجھے سنبھال رکھو، اگر میں کبھی واپس آؤں؛
آپ تندور میں مجھے پھونک دینا کہ کھانا پک سکے؛
گھر کی چھت پر الگنی بنا لینا جو اپنے ہاتھوں سے کپڑے سکھانے کو پھیلائی ہو۔
آپ کی روزانہ کی نماز کے بغیر کمزور؛
میں مزید کھڑا نہیں رہ سکتا۔
میں بوڑھا ہوگیا ہوں؛
مجھے بچپن کے ستارے لوٹا دو؛
کہ میں گھر واپسی کا راستہ ڈھونڈ سکوں۔
مہاجر پرندوں کے ساتھ واپس آوں؛
تیرے منتظر گھونسلے(گود) میں واپس پہنچ جاوں۔
أحنّ إلى خبز أمي
و قهوة أمي
و لمسة أمي
و تكبر في الطفولة
يوما على صدر يوم
و أعشق عمري لأني
إذا متّ ،
أخجل من دمع أمي!
خذيني ، إذا عدت يوما
وشاحا لهدبك
و غطّي عظامي بعشب
تعمّد من طهر كعبك
و شدّي وثاقي ..
بخصلة شعر
بخيط يلوّح في ذيل ثوبك ..
عساي أصير إلها
إلها أصير ..
إذا ما لمست قرارة قلبك !
ضعيني ، إذا ما رجعت
وقودا بتنور نارك ..
وحبل غسيل على سطح دارك
لأني فقدت الوقوف
بدون صلاة نهارك .
هرمت ، فردّي نجوم الطفولة
حتى أشارك
صغار العصافير
درب الرجوع ..
لعشّ انتظارك!