The Lanterns on the River" is a story shared by "Joel Lopez" on Face Book which set into area of mountain forest and river. It awakes message of love, hope and happiness. This write up "چراغ امید کا دریا" is Urdu Translation of the story for readers of Bangbox Online.
بِسۡمِ ٱللهِ ٱلرَّحۡمَـٰنِ ٱلرَّحِيمِ
"چراغ امید کا دریا"
دھند اور پہاڑوں سے گھرے ایک پر سکون گاؤں میں "اساؤ" نام کا ایک بوڑھا آدمی رہتا تھا۔ کبھی اپنی چمکیلی ہنسی اور مضبوط ہاتھوں کے لیے جانا جاتا تھامگر گذرے سالوں نے اسے خاموش کر دیا تھا؛ اور اس کی آنکھوں میں ایک غم کا بوجھ تھا جو کبھی ختم نہیں ہوتا تھا۔ گئے وقتوں کے ایک موسم میں، اس کا بیٹا، ہیرو، موسم گرما کے ایک خوفناک طوفان کے دوران غائب ہو گیا تھا۔ اس کے ساتھی دیہاتیوں نے جنگلوں میں اس کی تلاش کی اور بہتی ندی کا دور تک پیچھا کیا، لیکن لڑکے کا کوئی سراغ نہیں ملا۔
صرف کراہتی ہوا اور درختوں کی خاموشی اس کی آنکھوں کے سوالوں کے جواب کے طور پر رہ گئی تھی۔ مگر اساؤ نے کبھی تلاش کرنا بند نہیں کیا۔ ہر صبح، وہ اپنی بوسیدہ لکڑی کی کشتی میں خاموش دریا میں بہتی لہروں کے ساتھ چلتا؛ کناروں، پانیوں، آسمانوں کو دور تک گھورتا؛ گویا جیسے امید کر رہا تھا کہ ہیرو کہی سے ظاہر ہو جائے گا۔
شروع میں تو "اساؤ" کے ساتھیوں نے اس کا ساتھ دیا پھر امید ہار دی؛ مگر وہ نہیں ہارا؛ سو کچھ عرصے بعد لوگوں نے کہنا شروع کیا کہ بوڑھا آدمی بھوت کا پیچھا کر رہا تھا۔ پھر بھی، "اساؤ" نے عادت بنا لی تھی کہ ایک دن بھی نہیں چھوڑا کہ اس نے تلاش ختم کی۔ جب رات ہوتی تو وہ اپنی کشتی کے کنارے پر بیٹھ جاتا اور ایک لالٹین جلالیتا تھا- نرم روشنی کا ایک چھوٹا مکعب - اور اسے بہتی لہروں کے سپرد کرکے تیرنے دیتا۔
"میرے بیٹے، اس لالٹین کو تمہیں گھر کا راستہ دکھانے دو،" اس نے ہر بار سرگوشی کی۔
دریا، جو اساؤ کے دل کے اداسی کا خاموش گواہ تھا، ہر شام تیرتی روشنیوں سے چمکنے لگتا۔ ایک لالٹین سے کئی لالٹین بن گئی۔ ( ایک چراغ کیا جلا سو چراغ جل اٹھے )۔ گاؤں والے، اس کی محبوبیت سے متاثر ہو کر، کبھی کبھی اس کے ساتھ شامل ہو جاتے۔ وہ اپنی اپنی امید اور یاد میں لالٹین جلا کر پانی میں بہا دیتے۔ روایت بڑھتی چلی گئی؛ دریا، جو کبھی نقصان کی یاد کراتا، امید، محبت اور چاہت کا چمکتا ہوا روشن راستہ بن گیا۔
ایک دھندلی شام، جب ریشمی کفن کی طرح دھند پانی پر چھائی ہوئی تھی، اساؤ نے اپنی لالٹینیں تیار کیں۔ اس دن سفید پوش ایک نوجوان لڑکی نے اس کی مدد کی، ایک خاموش پڑوسی کا بچہ جو اس کا دلدادہ ہو گیا تھا۔ اس نے کشتی میں لائٹس کا بندوبست کیا، اور آہستہ سے آخری لالٹین کو دریا پر رکھ دیا۔ جیسے ہی وہ لاٹینیں بہتی ہوئی آگے بڑھی؛ دریا کی سطح پر نرم روشنی ایسے پھیل گئی جیسے ستارے پانی میں اتر گئے ہوں۔
پھر ایک دن اچانک ان سب نے کچھ عجیب دیکھا۔
ایک لڑکا، بھیگا، کانپتا، اور بغیر جوتے پہنا، دریا کے کنارے کھڑا تھا، اس کے بازو اس کے سینے پر مضبوطی سے جمے ہوئے تھے۔ "اساؤ" نے چپو چلاانا چھوڑ دیا۔ لڑکی نے ہانپ بھری۔ لیکن وہ "ہیرو" نہیں تھا۔ وہ لڑکا چھوٹا، سیاہ بالوں والے تھا؛ بھوک اور خوف سے اسکی آنکھیں پھیلی ہوئی تھیں۔
اساؤ احتیاط سے اس کے قریب گیا اور گھبراہٹ زدہ دل سے اس نے پوچھا "کیا تم کھو گئے ہو"؟
لڑکے نے آہستہ سے ہاں میں سر ہلایا۔ "میں… میں کئی دنوں سے چل رہا ہوں،" اس نے باریک اہستہ آواز میں کہا۔ "میرے پاس کوئی گھر نہیں ہے۔ راستے میں ایک لڑکے سے ملا… اس نے کہا کہ مجھے یہاں آنا چاہیے۔ کہ یہاں مجھے ایک محفوظ گھر مل سکتا ہے"۔"
اساؤ کو محسوس ہوا کہ ہوا اس کے پھیپھڑوں سے نکل گئی۔ وہ کشتی میں گھٹنے ٹیکتے ہوئے آنسو بہا تے ہوئے بولا "وہ لڑکا کیسا لگتا تھا؟"
لڑکے نے اس کا حلیہ بیان کیا: ایک لڑکا جس کی آنکھیں موسم بہار میں جنگل جیسی ہوتی ہیں، ایک پرسکون آواز اور اس کی بھنویں کے اوپر ایک داغ" [ بالکل اسی طرح کا داغ ہیروکا بھی تھا]۔ "اس نے مزید کہا کہ وہ میرے ساتھ نہیں آ سکتا، لیکن وہ جانتا تھا کہ آپ مدد کریں گے۔ اس نے بتایا کہ "وہ ہر رات روشنیوں کو دیکھتا تھا"۔"
اساؤ" نے لڑکے کے ہاتھ تھامے، اس کی بوڑھی انگلیاں کانپ رہی تھیں۔ ’’کیا اس نے اپنا نام بتایا"؟‘‘
لڑکے نے سر ہلایا۔ "وہ صرف مسکرایا اور کہا، 'اس سے کہو کہ مجھے سب کچھ یاد ہے۔ اور ہمت نہ ہارنے کا شکریہ"۔'
آخرکار "اساؤ" کے چہرے پر آنسو ٹوٹ پڑے اور دریا میں گرے؛ اس دریا میں جس نے ان تمام سالوں میں اس کا غم اٹھایا تھا۔
اساؤ لڑکے کو گھر لے آیا۔
اساؤ نے اسے گرم کھانا اور ایک نرم بستر دیا۔ اس نے بہت سے سوال نہیں پوچھے۔ کیونکہ اس سے کوئی زیادہ فرق نہیں پڑنا تھا۔ اس لڑکے کی آمد میں ایک پیغام تھا۔ دھند سے ایک سرگوشی۔ ایک وعدہ پورا ہوا۔ ہیرو نے روشنیاں دیکھی تھیں - اور جب وہ خود گھر نہیں آیا تھا، اس نے ایک ایسے شخص کو بھیجا تھا جس کو باپ کی ضرورت تھی؛ بالکل اسی طرح جیسے اساؤ اب بھی ایک مشفق باپ بننے کی خواہش رکھتا تھا۔
"خاموشی کا وزن"
اس لڑکے کا نام رین تھا۔
وہ زیادہ نہیں بولتا تھا، خاص طور پر اساؤ کے گھر میں شروعات کے دنوں میں۔ وہ ہر شام لکڑی کے برآمدے کے پاس بیٹھ کر پہاڑوں کے پیچھے جاتے سورج کی روشنی کو دیکھتا؛ اس کے چھوٹے چھوٹے ہاتھ اس کے کمزور جسم کے لیے بہت بڑا کمبل پکڑے ہوئے تھے۔ آساؤ، اگرچہ خاموشی سے سب دیکھتا تھا، مگر اس پر غور کرتا تھا — لڑکے کی آنکھیں ہمیشہ دریا کی طرف اٹھتی رہتی تھیں ۔ رین کبھی کبھی نیند میں سرگوشی کرتا تھا، کیتو نامی شخص کو پکارتا تھا، اور جس طرح سے وہ بجلی کی گرج کے ساتھ ڈر جاتا تھا۔
اساو نے رین کو بولنے پر مجبور نہیں کیا؛ اس نے اسے ہر روزگرم کھانا کھلایا؛ اس بات کو یقینی بنایا کہ چولہے میں کبھی آگ ٹھنڈی نہ ہو؛ اور ہر شام، رین کو اپنے ساتھ دریا میں لے گیا۔
وہ اب ایک ساتھ لالٹینیں کو بہاتے تھے۔
ایک ہیرو کے لیے۔
ایک کیتو کے لیے۔
ہر اُس گمنام روح کے لیے جو اپنا راستہ کھو چکی تھی۔
کبھی کبھی، رین پوچھتا، "کیا آپ کو واقعی لگتا ہے کہ اس نے لائٹس دیکھی ہیں"؟
اساؤ آہستہ سے سر ہلاتا؛ اس کی آواز بارش سے نرم ہوئی بجری کی طرح ہو گئی تھی۔ "مجھے یقین ہے کہ وہ ہر رات انہیں دیکھتا ہے۔ اور مجھے یقین ہے کہ اس نے تمہیں یہاں بھیجا ہے؛ کیونکہ وہ جانتا ہے… میرے پاس اب بھی دینے کے لیے بہت زیادہ پیار ہے"۔"
یہ سن کر رین کے ہونٹ کانپ اٹھے۔ کیونکہ کسی نے بھی، یہاں تک کہ اس کے حقیقی باپ نے بھی اس سے اس طرح بات نہیں کی تھی۔
لیکن غم وہ زخم نہیں ہے جو آسانی سے مندمل ہو جائے۔
ایک برساتی رات، رین بھاگ گیا۔
اساؤ گھر کے سامنے کا دروازہ کھلنے اور بھیگی زمین پر ننگے پیروں کی آواز پر اٹھا۔ وہ اس کے پیچھے بھاگا؛ دھڑکتے دل کے ساتھ اس کا نام پکارا۔ "رین رین"۔
طوفان سے دریا بڑھ گیا تھا، اور کشتی اپنے گودی کےمقام پر ہلچل کا شکار تھی کہ اس کی رسیاں تناؤ میں تھیں۔
وہیں، پھسلتی گودی پر کھڑے، رین نے گرداب زدہ پانی کو دیکھا۔
"میں یہاں سے تعلق نہیں رکھتا،" اس نے سرگوشی کی، بارش اس کے چہرے کو بھگو رہی تھی، اور یہ بتانا مشکل تھا کہ آنسو کہاں سے بہہ رہے تھے۔ "میں صرف وہ شخص ہوں جسے آپ نے اپنا لیا ہے۔ میں ہیرو نہیں ہوں۔ میں کبھی ہیرو نہیں بن سکوں گا"۔
اساؤ نے کیچڑ میں بے دم قدم رکھا۔ ’’تم ٹھیک کہتے ہو۔‘‘ اس نے آہستہ سے کہا۔ "تم ہیرو نہیں ہو"۔
رین روہانسا ہو گیا۔
"تم رین ہو اور میں نے تم سے پیار کرنا سیکھ لیا ہے۔"
لڑکا دھیرے دھیرے مڑ گیا، چہرہ بے اعتباری سے پھٹ رہا تھا۔
" میری توجہ اور دیکھ بھال کے لیے آپکا کوئی ہونا ضروری نہیں ہے۔" اساؤ نے گھٹنے ٹیکتے ہوئے کہا، یہاں تک کہ اس کے بوڑھے گھٹنے درد سے چٹخ گئے تھے۔ "تم کوئی نعم البدل نہیں ہو، تم ایک معجزہ ہو۔ اور اگر ہیرو نے تمہیں یہاں بھیجا تھا، تو وہ جانتا تھا کہ وہ کیا کر رہا ہے۔ تمہیں میری ضرورت تھی اور مجھے… مجھے بھی تمہاری ضرورت تھی"۔
رین ٹوٹ گیا۔ اس کا چھوٹا سا جسم اساؤ کے بازوؤں سے ٹکرا گیا، اتنی زور سے رو رہا تھا کہ دریا اور آسمان اس کے ساتھ رو رہے تھے۔ وہ ایک عجیب احساس کی حالت میں تھے؛ غم اور معافی میں بھیگے ہوئے اور دونوں سے زیادہ مضبوط ایک اور چیز تھی۔
اس رات، انہوں نے صرف ایک لالٹین کو دریا میں بہایا۔
اس پر کوئی نام نہیں لکھا تھا۔
کیونکہ یہ اب ان دونوں کا تھا۔
ایک مشترکہ دکھ۔
ایک نئی شروعات۔
اس دن سے رین نے پیچھے مڑ کر دیکھنا چھوڑ دیا۔ اس نے اساؤ اوٹسن کو باپ کہنا شروع کیا۔ اور اساؤ، اگرچہ وہ اب بھی دریا کا دورہ کرتا تھا، لیکن اس نے اپنے دل میں انتظار کی آرزو کا چراغ روشن نہیں کیا۔
کیونکہ ایک کھویا ہوئے لڑکے نے ایک دوسرے گھر کی قیادت سنبھال لی تھی — اور ایسا کرنے سے؛ ایک زخم بھر گیا جو بہت طویل عرصے تک کھلا رہ گیا تھا۔
اور کچھ پرسکون راتوں میں سے کسی ایک رات کو، جب دھند نے پانی کو خوب چاہت سے گلے لگایا ہوا تھا، اور لالٹینیں دریا میں اترے ہوئے ستاروں کی طرح چمک رہی تھیں، اساؤ نے قسم کھائی کہ وہ اب دریا میں صرف ہنسی کی گونج سنے گا۔
دو لڑکے۔
ایک باپ کی ہنسی کی گونج۔
اور ایک ہزار روشنیاں ان سب کے گھروں کے راستوں کو روشن کرتی رہیں گی اور کھوئے ہوئے کو راستہ دکھائیں گی
In the name of ALLAH, the Most Gracious, the Most Merciful
In a quiet village embraced by mist and mountains, there lived an old man named Isao. Once known for his bright laughter and strong hands, the years had turned him quiet, and his eyes carried the weight of a sorrow that never faded. Many seasons ago, his son, Hiro, vanished during a summer storm. The villagers searched the forests and followed the river downstream, but no trace of the boy was found. Only the howling wind and the hush of the trees remained as answers.
Isao never stopped searching.
Each morning, he rowed down the quiet river in his worn wooden boat, scanning the banks, the water, the skies—as if hoping Hiro would simply appear. Over the years, people said the old man was chasing a ghost. Yet, he never missed a single day. When night fell, he would sit on the edge of his boat and light a lantern—a small cube of soft light—and let it float on the current.
"Let this guide you home, my son," he whispered, every single time.
The river, a quiet witness to Isao’s heartbreak, began to glow with floating lights each evening. One lantern became many. Villagers, touched by his devotion, sometimes joined, sending their own lanterns in hope and in memory. The tradition grew. The river, once a mirror of loss, became a glowing path of love and longing.
One dusky evening, when the mist lay thick over the water like a silken shroud, Isao prepared his lanterns. A young girl in white helped him that day, a quiet neighbor’s child who had grown fond of him. She arranged the lights in the boat, gently placing the last one on the river. As it drifted, the soft light scattered on the surface like stars had fallen into the water.
Then they saw him.
A boy, soaked, shivering, and shoeless, stood at the riverbank, his arms crossed tight over his chest. Isao stopped rowing. The girl gasped. But it wasn’t Hiro. The boy was smaller, darker-haired, with eyes wide from hunger and fear.
Isao approached carefully, heart heavy. "Are you lost?" he asked.
The boy nodded slowly. "I… I’ve been walking for days," he said, voice fragile. "I don’t have a home. But I met a boy… he said I should come here. That your home is safe."
Isao felt the air leave his lungs. He knelt in the boat, tears welling. "What did this boy look like?"
The boy described him: A boy with eyes like the forest in spring, a calm voice, and a scar above his eyebrow—just like Hiro had. “He said he couldn’t come with me, but he knew you'd help. He said… he’d been watching the lights every night.”
Isao held the boy’s hands, his old fingers trembling. “Did he say his name?”
The boy shook his head. “He just smiled and said, ‘Tell him I remember everything. And thank you for not giving up.’”
Tears finally broke free down Isao’s face, falling into the river that had carried his grief all these years.
He brought the boy home.
He gave him food, warmth, and a bed. He didn’t ask many questions. It didn’t matter. In that boy’s arrival, there was a message. A whisper from the mist. A promise fulfilled. Hiro had seen the lights—and while he didn’t come home himself, he had sent someone who needed a father just as badly as Isao still longed to be one.
"The Weight of Silence"
The boy's name was Ren.
He didn’t speak much, especially during the first weeks in Isao’s home. He would sit by the wooden porch each evening, watching the last light dip below the mountains, his small hands clutching a blanket too big for his frail body. Isao, though quiet himself, noticed everything—the boy’s eyes always glancing toward the river, the way he sometimes whispered in his sleep, calling for someone named Kaito, and the way he flinched at thunder.
Isao didn’t press. He simply placed warm meals before him, made sure the fire never died in the hearth, and every evening, took Ren down to the river with him.
They floated lanterns together now.
One for Hiro.
One for Kaito.
One for every nameless soul who had lost their way.
Sometimes, Ren would ask, “Do you really think he saw the lights?”
Isao would nod gently, his voice like gravel softened by rain. “I believe he watched them every night. And I believe he sent you here because he knew… I still had more love to give.”
Ren's lip would tremble when he heard that. Because no one, not even his real father, had ever spoken to him like that.
But grief is not a wound that heals clean.
One rainy night, Ren ran away.
Isao woke to the front door creaking open and the sound of bare feet on soaked earth. He ran after him, heart pounding, calling his name. The river swelled from the storm, and the boat rocked at its mooring, ropes straining.
There, standing on the slippery dock, Ren stared into the churning water.
“I don’t belong here,” he whispered, rain soaking his face, though it was hard to tell where the tears began. “I’m just someone you took in. I’m not Hiro. I’ll never be Hiro.”
Isao stepped through the mud, breathless. “You’re right,” he said gently. “You’re not Hiro.”
Ren flinched.
“You’re Ren. And I’ve learned to love you.”
The boy turned slowly, face crumpling in disbelief.
“You don’t have to be someone else for me to care,” Isao said, kneeling even as his old knees screamed in pain. “You are not a replacement. You are a miracle. And if Hiro sent you here, then he knew what he was doing. You needed me—and I… I needed you.”
Ren broke. His small body crashed into Isao’s arms, sobbing so hard it seemed the river and the sky cried with him. They stayed like that, soaked in grief and forgiveness and something stronger than both.
That night, they floated only one lantern.
No name was written on it.
Because it belonged to both of them now.
A shared sorrow.
A new beginning.
From that day on, Ren stopped looking back. He started calling Isao Otōsan—Father. And Isao, though he still visited the river, no longer waited with only longing in his heart.
Because one lost boy had led another home—and in doing so, healed a wound too long left open.
And on certain quiet nights, when the mist hugged the water just right, and the lanterns shimmered like stars fallen to Earth, Isao swore he could hear laughter echoing down the river.
Two boys.
One father.
And a thousand lights guiding them all home.
In today’s competitive business landscape, companies need more than just internal manageme...
Jerawat adalah masalah kulit yang umum dan sering membuat percaya diri menurun.