Shahida ta... @Mutaal 1 year ago اساطیری انداز
The Israel – Palestine Conflict is century old and it is impossible for a common man in the streets of the Muslim World to not get effected by the crisis. The Arab- Israel conflict has severely affected the sentiments of the Muslims across the globe. Here a poem from a Pakistani Poetess Shahida Tabassum "The Land of Palestine;ارض فلسطین" and a selected portion of an Urdu Fiction written by Akhtar Oranvi is presented for the readers of Bang Box Online.
محترمہ شاہدہ تبسم اردو شاعری کی ایک ابھرتی ہوئی شاعرہ ہیں اور چند سال قبل ہی انکا پہلا شعری مجموعہ رتجگوں کا ثمر شائع ہوا ہے۔ اس میں انہوں نے ایک نظم ارض فلسطین کے حوالے سے بھی رقم کی ہے۔ ہم یہاں اسے بنگ باکس آن لائن کے قارئین کے لیے پیش کر رہے ہیں۔
مسلم ہو تم کہاں پہ
دے پاو گے امان کیا؟
مندرجہ ذیل میں جناب اختر اورینوی کے افسانے "سپنوں کے دیس میں" کا ایک حصہ پیش کیا جاتا ہے۔ جو ارضِ فلسطین کا نوحہ بھی ہے؛ شاید
اے باب یر وشلم زاری کر! اے شہر رو! اے فلسطین تو برباد ہو گیا۔۔۔! کبھی عاشوریوں اور مصریوں میں جنگ ہوئی اور کبھی صلح۔ فلسطین مرکزی حیثیت سے پھلا پھولا اور پھر اپنی خطاؤں کی آگ میں آپ جل گیا۔
ہ
مالہ نے سنا، یسیماہ اور یر میاہ نے اسرائیل، یہودا اور صہیون کو نصیحتیں کیں۔ ان نبیوں نے یروشلم کو ڈرایا، مگر متکبر گردنیں نہیں جھکیں، سخت دل نہیں پگھلے۔ یہودانے کہا، پس میں اس سر زمین سے تمہیں نکال باہر کر دوں گا اور بیگانہ علاقوں میں تم غلامانہ زندگی بسر کروگے۔ مچھیر ے آئیں گے اور تمہیں پکڑلے جائیں گے۔ شکاری حملہ آور ہوں گے اور تمہیں نشانہ بنائیں گے۔ تمہیں کہیں پناہ نہیں ملےگی۔ میں نے زمین و آسمان بنائے ہیں۔ میں سارے آدمیوں اور تمام مخلوقات کا خالق ہوں۔ میں اپنی قدرتِ کا ملہ اور وسیع اختیارات کے تحت جسے چاہتا ہوں، زمین کا وارث بناتا ہوں اور اب میں نے ارض فلسطین اور بہت سارے ملک بخت نصر شاہ بابل کو عطا کر دیے۔ بادشاہوں اور قوموں کو اس کی اطاعت کرنی پڑےگی۔ آلِ اسرائیل اسیر کئے جائیں گے اور بابل کی غلامی کریں گے تا آنکہ ستر سالہ مدت پوری ہو جائےگی اور پھر میں ان کی رستگاری کی طرف متوجہ ہوں گا۔
-------------------------------------------------------------------------------
شہنشاہ
یثر
ب و بطحا آ گیا۔ خواجۂ بدر و حنین کا پر چم فضاؤں میں لہرایا۔ ما عرب و عجم نے طلوع کیا۔ رحمتِ عالم، فخر آدم ظاہر ہوا اور ا س کا فیض بے کراں جاری و ساری ہو گیا۔ آسمانی بادشاہت کا استحکام و استقلال منتظر آنکھوں نے دیکھا۔
-----
--
-----------------------------------------------------------------------
ہمال
ہ نے یہ بھی سنا کہ داعیِ اعظم نے پکار کر کہا کہ اے میری امت کے لوگو! تم بنی اسرائیل کے قدم بہ قدم چلو گے۔ یقیناً وہ ایک بزرگ رسول کا کلام تھا اور اس نے غیب کو افقِ مبین میں دیکھا تھا۔ سورج نے کہا تھا کہ ستاروں کو قیصر و کسریٰ کی سلطنتیں ملیں گی اور انھیں سونے کے کنگن پہنائے جائیں گے۔ پس یہ پیش گوئیاں پوری ہوئیں۔
---
-----------------------------------------------------------------------------
تو اسرائیل کی پہاڑیوں پر ٹوٹ پڑےگا۔ توطوفان کی طرح اٹھےگا۔ تیری حلیف قومیں اور تیری افواج ممالک پر ابر سیاہ کی طرح چھا جائیں گی اور ترشیش و شبادد روان کے سودا گر تجھ سے پرسش کریں گےکہ کیا تو مال لوٹنے نکلا ہے۔ کیا تو جتھا جمع کرکے شکار کے منصوبے سے باہر آیا ہے۔ وہ شیر بچے تجھ سے سوال کریں گے۔
---------------------------------------------------------------------------------
عالم نو نور افشاں بھی تھا اور ہوش ربا بھی۔ بڑی سخت کش مکش پیدا ہوئی۔ سخت تصادم رونما ہوا۔ بھیانک دھما کے ہوئے۔ کائنات لرزہ براندام ہو گئی۔ خواب کے پتلے فنا ہونے لگے۔ سپنوں کا سنسار تحلیل ہونے لگا۔ شاید بندو اور برہما کی کہانی ختم ہو رہی تھی۔ یہ عظیم دماغ کا ایک لمحہ تھا یا ابدیت کی ایک کڑی؟ کون جانے عظیم دماغ خلفشار عالم سے بیدار ہو رہا تھا۔ برہما کی نیند دھماکوں سے اچٹ گئی تھی۔ سپنوں کا سنسار چھایا! خواب کی دنیا مایا! کیا عظیم دماغ انگڑائی لے کر جاگ اٹھےگا؟ کیا برہما اپنے سپنوں کا سنسار رچےگا؟