تاجدار کربلا سیدنا امام حسینؑ کا پیغام ابدی

The tragedy of Karbala is about Hazrat Imam Hussain (AS) and the unforgettable sacrifices rendered by the clan of Prophet Muhammad (PBUH) in the month of Muharram Ul Haram in 62 AH. This essay reflects that how Hazrat Imam Hussain (AS) at Karbala rejuvenated the religion of his grand father and what is the true message of his sacrifices for a true follower of Islam?

2024-07-16 19:36:39 - Muhammad Asif Raza

 

بِسۡمِ ٱللهِ ٱلرَّحۡمَـٰنِ ٱلرَّحِيمِ

 

تاجدار کربلا سیدنا امام حسینؑ کا پیغام ابدی

 

اللہ سبحان تعالی اس کائنات کے یک و تنہا خالق و مالک ہیں۔ وہ اپنی ذات میں ایک ہے اور یہ سب کچھ اس نے خواہش سے جیسا چاہا ہے، بنایا ہے۔ اس نے اس زمین پر ہم انسانوں کو ہدایت کے لیے بھیجی گئی آخری کتاب القرآن المجید، فرقان الحمید میں سورۃ الاخلاص میں فرمایا ہے:-

 

" تم فرماؤ وہ اللہ ہے؛ وہ ایک ہے؛ اللہ بے نیاز ہے؛ نہ اس کی کوئی اولاد اور نہ وہ کسی سے پیدا ہوا؛ اور نہ اس کے جوڑ کا کوئی ہے"۔

 

حاکمیت اعلی صرف اور صرف اللہ ذو الجلال و الاکرام کو حاصل ہے


حاکمیت اعلی صرف اور صرف اللہ ذو الجلال و الاکرام کو حاصل ہے۔۔۔۔۔۔۔۔

 

مالک ہے اُن سب چیزوں کا جو آسمانوں اور زمین میں ہیں اور جو زمین و آسمان کے درمیان میں ہیں اور جو مٹی کے نیچے ہیں

(سورۃ طٰہٰ : ۶)

 

لَهٗ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَ مَا فِی الْاَرْضِؕ- وَ هُوَ الْعَلِیُّ الْعَظِیْمُ (سورۃ الشوری: ۴)

اسی کا ہے جو کچھ آسمانوں میں ہے اور جو کچھ زمین میں ہے، اور وہی بلندی والا، عظمت والا ہے۔

 

جو کچھ آسمانوں میں ہے اور جو کچھ زمین میں سب اللہ کی تسبیح بیان کرتے ہیں ، اسی کی بادشاہت ہے اور اسی کیلئے سب تعریف ہے اور وہ ہر چیز پرخوب قادر ہے۔ (سورۃ اَلتَّغَابُن: ۱)

اَلَیْسَ اللّٰهُ بِاَحْكَمِ الْحٰكِمِیْنَ: کیا اللہ سب حاکموں سے بڑھ کر حاکم نہیں؟

اَلَیْسَ اللّٰهُ بِاَحْكَمِ الْحٰكِمِیْنَ (سورۃ التین: ۸) کیا اللہ سب حاکموں سے بڑھ کر حاکم نہیں؟ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،حضور پُر نور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’ جو سورۂ’’وَالتِّیْنِ وَالزَّیْتُوْنِ‘‘ پڑھتے ہوئے ’’اَلَیْسَ اللّٰهُ بِاَحْكَمِ الْحٰكِمِیْنَ ‘‘ پڑھے تو اسے چاہئے کہ وہ یہ کہے ’’بَلٰی وَاَنَا عَلٰی ذَالِکَ مِنَ الشَّاہِدِیْن‘‘ یعنی کیوں نہیں ، یقینا ہے اور میں اس بات پر گواہوں میں سے ہوں ۔( ترمذی، کتاب التفسیر، باب ومن سورۃ والتین، ۵ / ۲۳۰، الحدیث: ۳۳۵۸)




 

كُلُّ مَنْ عَلَیْهَا فَانٍ(۲۶)وَّ یَبْقٰى وَجْهُ رَبِّكَ ذُو الْجَلٰلِ وَ الْاِكْرَامِ(۲۷) سورۃ الرحمٰن

زمین پر جتنی مخلوق ہے سب فنا ہونے والی ہے۔ اور تمہارے رب کی عظمت اور بزرگی والی ذات باقی رہے گی۔

 

 زمین و آسمان اور ان میں موجود تمام چیزوں کا خالق، مالک اور ان کے بابت علم رکھنے والا، جاننے والا صرف اللہ تعالیٰ ہے، اس کی شان بھی بلند ہے اور اس کی مِلکِیَّت ، قدرت اور حکمت بھی عظیم ہے۔ حقیقی عظمت صرف اللہ تعالیٰ کی ہے۔ یہ زمین اور اس پر موجود ہر شے فنا ہونے والی ہے اور وہی آخری وارث ہے بلکہ سب وارثوں سے بڑھ کر وارث ہے۔ تمام مخلوق فنا ہو جائے گی اور صرف اور صرف ہمارے رب عَزَّوَجَلَّ کی ذات باقی رہے گی جو عظمت و کِبریائی والی ہے۔ اور اس کی قدرت کا کمال یہ ہے کہ سب جہانوں میں اس ہی کا کلمہ بلند ہوتا ہے اور سب اس کی مرضی اور منتہا کے ماتحت ہے۔ ہر جگہ اس ہی کا حکم چلتا ہے۔ اور ہر شے، ہر مخلوق اس کے فرمان کے تابع ہے۔ سب اس کی ثناء اور تعریف بیان کرتے ہیں۔ اللہ تبارک و تعالیٰ عظمت اور کامل تسلط کا مالک ہے، تمام مخلوق اپنی ربوبیت اور عبادت میں اس کی محتاج ہے۔





سورۃ الاسرائیل آیت ۴۴ میں اس نے واضع طور پر فرمایا ہے کہ ”اسی کی تسبیح میں لگے ہوئے ہیں ساتوں آسمان اور زمین اور وہ تمام مخلوق بھی جو ان میں ہے۔ اور کوئی چیز نہیں مگر یہ کہ وہ تسبیح کرتی ہے اس کی حمد کے ساتھ ‘ لیکن تم نہیں سمجھ سکتے ان کی تسبیح کو۔ اور وہ بہت زبردست ہے ‘ کمال حکمت والا"۔

 

اے میرے نبی ! آپ دیکھتے نہیں کہ آسمانوں اور زمین میں پائی جانے والی تمام مخلوقات اور فضا میں پر پھیلا کر اڑتی ہوئے پرندے/ الطیر سبھی اللہ کی تسبیح بیان کرتے ہیں، ہر مخلوق اپنی نماز اور اپنی تسیح کو جانتی ہے، اور اللہ ان سب کے اعمال سے خوب واقف ہے۔ (سورة النور: ۴۱)

مقصد حیاتِ ارضی


اللہ سبحان تعالی نے ارشاد فرمایا ہے کہ اس نے آسمان و زمین اور جو کچھ ان کے درمیان ہے؛ بیکار پیدا نہیں کیا بلکہ اس لئے پیدا کیا ہے کہ زمین و آسمان میں اس کی عبادت کی جائے؛ اس ہی کے اَحکامات کی پیروی کی جائے اور ممنوعات سے رکا جائے یعنی اللہ کی قائم کی گئی حدود کی پابندی کی جائے۔





ہم نے اس آسمان اور زمین کو، اور اس دنیا کو جو ان کے درمیان ہے، فضول پیدا نہیں کر دیا ہے یہ تو اُن لوگوں کا گمان ہے جنہوں نے کفر کیا ہے، اور ایسے کافروں کے لیے بربادی ہے جہنم کی آگ سے ﴿ سورۃ صٓ ۲۷ ﴾۔

 

وَ مَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَ الْاِنْسَ اِلَّا لِیَعْبُدُوْنِ (سورۃ الجن ۵۶)

اور میں نے جن اور آدمی اسی لئے بنائے کہ میری عبادت کریں ۔

 

 اس آیت سے معلوم ہوا کہ اللہ تعالی نے انسانوں اور جنوں کو بیکار پیدا نہیں کیا بلکہ ان کی پیدائش کا اصل مقصد یہ ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی عبادت کریں۔ یہاں یہ نقطہ ذہن نشین رکھیے کہ ساری مخلوقات اللہ کی عبادت میں ہمہ تن مصروف ہیں اور وہاں کسی کے پاس کوئی دوسرا راستہ نہیں ہے۔ اللہ تعالی نے صرف اور صرف جنوں اور انسانوں کو یہ موقع دیا ہے کہ اللہ کی نعمتوں کے لیے مشکور ہوں یا پھر انکار کردیں اور اپنی مرضی کی زندگی جئیں مگر موت کے بعد ان کو خالقِ کل کی سامنے اپنےاعمال کے لیے جوابدہ ہونا ہوگا۔ ایک مقام پر اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:-





’’ تَبٰرَكَ الَّذِیْ بِیَدِهِ الْمُلْكُ٘- وَ هُوَ عَلٰى كُلِّ شَیْءٍ قَدِیْرُۙ(ﰳ۱) الَّذِیْ خَلَقَ الْمَوْتَ وَ الْحَیٰوةَ لِیَبْلُوَكُمْ اَیُّكُمْ اَحْسَنُ عَمَلًاؕ-وَ هُوَ الْعَزِیْزُ الْغَفُوْرُ‘‘( سورۃ الملک:۱،۲)

 بڑی برکت والا ہے وہ جس کے قبضے میں ساری بادشاہی ہے اور وہ ہر چیز پر قادر ہے۔ وہ جس نے موت اور زندگی کو پیدا کیا تاکہ تمہاری آزمائش کرے کہ تم میں کون اچھے عمل کرنے والا ہے اور وہی عزت والا، بخشش والا ہے۔

خَلِیْفَةً فِی الْاَرْضِ

 

وَ اِذْ قَالَ رَبُّكَ لِلْمَلٰٓىٕكَةِ اِنِّیْ جَاعِلٌ فِی الْاَرْضِ خَلِیْفَةًؕ- (البقرہ 30)

 اور (اس وقت کا تذکرہ سنو) جب تمہارے پروردگار نے فرشتوں سے کہا کہ میں زمین میں ایک خلیفہ بنانے والا ہوں۔

 

اور اس کے بعد وہاں موجود تمام فرشتوں میں صرف ایک جن ابلیس تھا جس نے حضرت آدم کو سجدہ کرنے سے انکار کیا اور تادم قیامت مہلت پائی کہ اولاد آدم کو اللہ کی راہ سے بھٹکائے گا۔ اب ذرا غور کیجیے کہ اللہ تعالی اس ضمن میں کتنی صراحت سے سمجھا رہے ہیں کہ

 

اَلَمْ اَعْهَدْ اِلَیْكُمْ یٰبَنِیْۤ اٰدَمَ اَنْ لَّا تَعْبُدُوا الشَّیْطٰنَۚ-اِنَّهٗ لَكُمْ عَدُوٌّ مُّبِیْنٌ ( یٰس ۶۰) وَّ اَنِ اعْبُدُوْنِیْﳳ-هٰذَا صِرَاطٌ مُّسْتَقِیْمٌ ( یٰس ۶۱)

"اے اولادِ آدم کیا میں نے تم سے عہد نہ لیا تھا کہ شیطان کو نہ پوجنا بےشک وہ تمہارا کھلا دشمن ہے۔ اور میری بندگی کرنا یہ سیدھی راہ ہے۔"

 

وَ اِذۡ اَخَذَ رَبُّکَ مِنۡۢ بَنِیۡۤ اٰدَمَ مِنۡ ظُہُوۡرِہِمۡ ذُرِّیَّتَہُمۡ وَ اَشۡہَدَہُمۡ عَلٰۤی اَنۡفُسِہِمۡ ۚ اَلَسۡتُ بِرَبِّکُمۡ ؕ قَالُوۡا بَلٰی ۚ ۛ شَہِدۡنَا ۚ ۛ اَنۡ تَقُوۡلُوۡا یَوۡمَ الۡقِیٰمَۃِ اِنَّا کُنَّا عَنۡ ہٰذَا غٰفِلِیۡنَ ۔ (الأعراف ۱۷۲)

“اور جب آپ کے رب نے اولاد آدم کی پشت سے ان کی اولاد کو نکالا اور ان سے ان ہی کے متعلق اقرار لیا کہ کیا میں تمہارا رب نہیں ہوں؟ سب نے جواب دیا کیوں نہیں! ہم سب گواہ بنتے ہیں ۔ تاکہ تم لوگ قیامت کے روز یوں نہ کہو کہ ہم تو اس سے محض بے خبر تھے ۔

 

اللہ سبحان تعالی نے حضرت آدم علیہ السلام کو اور انکو اولاد کو افضلیت عطا کی اور انکو زمین پرخلافت عطا کی۔ اس خلافت سے مراد کیا ہوگی اور اس کو کیسے عمل پذیر ہونا ہوگا؟ اس ضمن میں قرآں میں ارشاد فرمایا ہے کہ

 

وَ لَقَدْ كَرَّمْنَا بَنِیْۤ اٰدَمَ وَ حَمَلْنٰهُمْ فِی الْبَرِّ وَ الْبَحْرِ وَ رَزَقْنٰهُمْ مِّنَ الطَّیِّبٰتِ وَ فَضَّلْنٰهُمْ عَلٰى كَثِیْرٍ مِّمَّنْ خَلَقْنَا تَفْضِیْلًا(سورة الإسراء/ بنی اسرائیل ۷۰)

اور بیشک ہم نے اولادِ آدم کو عزت دی اور انہیں خشکی اور تری میں سوار کیا اور ان کو ستھری چیزوں سے رزق دیا اور انہیں اپنی بہت سی مخلوق پر بہت سی برتری دی۔

 

اللہ سبحان تعالی نے حضرت آدم علیہ السلام کو اور ان کو اولاد کو زمین پرخلافت عطا کی تو کرنے کے کچھ کام بھی بتائے اور ہر نفس کو خود اس کی ذات پر گواہ بنا کر وعدے وعید بھی کروائے۔ تو پھر سب اولادِ آدم کا سب سے مقدم کام یا اعمال کیا ہوگا؟


اولاد آدم کا مقدم ترین عملِ خلافت دین اسلام کو نافذ کرنا ہے


 قرآن مجيد ميں اللہ سبحان تعاالی نے خلافتِ ارضی کے لیے اولادِ آدم کو سب سے مقدم عمل کے بارے میں تين باراپنی آیات کو دھرایا ہے ( سورة التوبه؛ آيت 33: ؛ س

ورۃ الصف؛ آیت 9: اور سورة الفتح، آيت: 28 ) ۔

 

سورۃ التوبۃ

هُوَ الَّذِیْۤ اَرْسَلَ رَسُوْلَهٗ بِالْهُدٰى وَ دِیْنِ الْحَقِّ لِیُظْهِرَهٗ عَلَى الدِّیْنِ كُلِّهٖۙ-وَ لَوْ كَرِهَ الْمُشْرِكُوْنَ(33)

اس نے اپنے رسول کو ہدایت اور سچا دین دے کر بھیجا ہے تاکہ اسے سب دینوں پر غالب کرے اور اگرچہ مشرک ناپسند کریں۔

 

سورۃ الصف

هُوَ الَّذِیْۤ اَرْسَلَ رَسُوْلَهٗ بِالْهُدٰى وَ دِیْنِ الْحَقِّ لِیُظْهِرَهٗ عَلَى الدِّیْنِ كُلِّهٖ وَ لَوْ كَرِهَ الْمُشْرِكُوْنَ(9)

 وہی ہے جس نے اپنے رسول کو ہدایت اور سچے دین کے ساتھ بھیجا کہ اسے سب دینوں پر غالب کرے پڑے بُرا مانیں مشرک

 

سورۃ الفتح

هُوَ الَّـذِىٓ اَرْسَلَ رَسُوْلَـهٝ بِالْـهُدٰى وَدِيْنِ الْحَقِّ لِيُظْهِرَهٝ عَلَى الـدِّيْنِ كُلِّـهٖ ۚ وَكَفٰى بِاللّـٰهِ شَهِيْدًا (28)

وہی تو ہے جس نے اپنے رسول کو ہدایت اور سچا دین دے کر بھیجا تاکہ اسے ہر ایک دین پر غالب کرے، اور اللہ کی شہادت کافی ہے۔

 

اللہ سبحان تعال نے اپنے حبیب حضرت محمدﷺ کو اس دنیا میں مبعوث فرما کر اوپر دیے گئے حکم کو عمل پذیر کرکے دکھایا۔ حضرت محمدﷺ نے اعلان نبوت کےبعد تیرہ سال اپنے خاندان اور قبیلے کے درمیان اللہ کا پیغام پہنچایا جو اللہ کی وحدانیت اور حقانیت پر ایمان لانا تھا۔ اس وقت دین کا پیغام صرف اتنا سادہ تھا کہ بتوں کی پوجا چھوڑ کر مسلمان ہوجایا جائے اور کلمہ طیبہ " لاَ اِلٰہَ اِلَّا اللہ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللہ " پڑھ لیا جائے۔ کلمہ پڑھ لینا اتنا آسان کام نہی ہے جتنا بعض افراد سمجھ لیتے ہیں؛ کلمہ طیبہ تصدیق بل السان نہی ہے بلکہ تصدیق بل القلب ہے اور اس کی اہمیت سمجھنا ہے تو حضرت بلال حبشیؓ اور شہید حضرت یاسر ؓ و حضرت سمیعہ ؓ کی تاریخ پڑھ لی جائے۔

کلمہ طیبہ نا صرف سچے دل سے دعوت اسلام کو قبول کرنا ہے اور دین اسلام کے لیے لبیک کہنا بلکہ عمل سے بھی ثابت کرنا ہوتا ہے کہ دینِ اسلام کا جذبہ اور ایمان واقعی صادق ہے۔

 

یہ شہادت گہہ الفت میں قدم رکھنا ہے

لوگ آسان سمجھتے ہیں مسلماں ہونا

اقبال رح

 

مکہ کی دعوت میں اسلام بطور دین اور ریاست کے اعمال نہی تھے۔ کیونکہ ریاست کا قیام بعد از رسول مقبولﷺ کی یثرب کی جانب ہجرت سے ممکن ہوا۔ اللہ سبحان تعالی کی منشاء تو یہ ہے کہ اولاد آدم اس زمین پر اللہ کی حاکمیت کو بطور خلیفہ ارض قائم کرے اور انفرادی اور اجتماعی زندگیوں کو اللہ کی احکام کے ماتحت کیا جائے؛ جو محض عبادت اور ریاضت نہیں ہے بلکہ معاشرت، معیشت، حکومت، سیاست، خلوت و جلوت کے سب ماحول میں عمل پذیر کیا جائے۔ آیے دیکھیے کہ قرآن الحکیم میں اللہ تعالی نے ارشااد کیا ہے:-

 

مومنو! اسلام میں پورے پورے داخل ہوجاؤ اور شیطان کے پیچھے نہ چلو وہ تو تمہارا صریح دشمن ہے"۔ ( سورۃ البَقَرَةِ ۲۰۸ )

 

آقا کریم؛ رسول کریم محمد ﷺ کو اللہ نے مبشر اور نذیر بنا کر بھیجا اور بنی نوع انسان کے تذکیہ اور تطہیر کا مشن دیا۔ آقا کریم ﷺ نے اپنا فرض ایسے ادا کیا کے تاریخ ورطہ حیرت میں ہے۔ آقا کریمﷺ کے اصحاب رضوان اللہ علیہم نے سارے عالم پر محض چند سالوں میں اپنا سِکہ بٹھا دیا۔ وقت نے دیکھا کہ بنی آدم کی ایک ایسی بستی تھی جو اپنے رب سے راضی تھے اور اللہ سبحان تعالی بھی ان سے راضی تھے۔ اللہ نے پھر اعلان کر دیا کہ اس نے اپنے بندوں کے لیے دینِ اسلام کو مکمل کردیا۔ اللہ سبحان تعالی نے ۲۳ سال تک اپنے محبوب حضرت محمدﷺ کے ذریعے براہِ راست بنی آدم کو امر و نواہی سے آگاہ کردیا۔ زمین پر اللہ کی حاکمیت کے رموز و مقاصد؛ اس کے لازم و ملزوم اور اس کےحدود و قیود طے کروادیے۔


 یہ نظام چار خلفائے راشدون رضوان اللہ علیہم کے دور تک جاری رہا۔ اسلامی ریاست " اَطِیْعُوا اللّٰهَ وَ اَطِیْعُوا الرَّسُوْلَ وَ اُولِی الْاَمْرِ مِنْكُمْۚ " اور " وَ اَمْرُهُمْ شُوْرٰى بَیْنَهُمْ۪ " کے تحت قائم تھی جس میں قرآن و سنت کے اصول معاشرت، معیشت، سیاست، حکومت، جلوت اور خلوت میں نافذ تھے۔ یوں قرآن کے حکم پر عمل ہورہا تھا کہ

 

یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اَطِیْعُوا اللّٰهَ وَ اَطِیْعُوا الرَّسُوْلَ وَ اُولِی الْاَمْرِ مِنْكُمْۚ- فَاِنْ تَنَازَعْتُمْ فِیْ شَیْءٍ فَرُدُّوْهُ اِلَى اللّٰهِ وَ الرَّسُوْلِ اِنْ كُنْتُمْ تُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰهِ وَ الْیَوْمِ الْاٰخِرِؕ-ذٰلِكَ خَیْرٌ وَّ اَحْسَنُ تَاْوِیْلًا۔ (سورۃ النساء۵۹ )

اے ایمان والو! اللہ کی اطاعت کرو اور رسول کی اطاعت کرو اور ان کی جو تم میں سے حکومت والے ہیں ۔ پھر اگر کسی بات میں تمہارا اختلاف ہوجائے تواگر اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتے ہو تو اس بات کو اللہ اور رسول کی بارگاہ میں پیش کرو۔ یہ بہتر ہے اور اس کا انجام سب سے اچھا ہے۔



وَ الَّذِیْنَ اسْتَجَابُوْا لِرَبِّهِمْ وَ اَقَامُوا الصَّلٰوةَ۪-وَ اَمْرُهُمْ شُوْرٰى بَیْنَهُمْ۪-وَ مِمَّا رَزَقْنٰهُمْ یُنْفِقُوْنَ(سورۃ الشوری ۳۸)

 اور وہ جنہوں نے اپنے رب کا حکم مانا اور نماز قائم رکھی اور ان کا کام ان کے آپس کے مشورے سے ہے اور ہمارے دئیے سے کچھ ہماری راہ میں خرچ کرتے ہیں


دیکھیے کہ کیسے امت محمدﷺ گمراہ ہوئی کہ اللہ نے جو ہدایت اہل کتاب کے لیے فرمائی وہ خود امت محمدﷺ نے بُھلا دی؟ سورۃ المائدہ کی آیت ۴۸ میں ارشاد کیا کہ

" تم فرمادو اے کتابیو! جب تک تم تورات اور انجیل اور جو کچھ تمہاری طرف تمہارے رب کی جانب سے نازل کیا گیا ہے اسے قائم نہیں کرلیتے تم کسی شے پر نہیں ہو

اور اے حبیب! یہ جو تمہاری طرف تمہارے رب کی جانب سے نازل کیا گیا ہے یہ ان میں سے بہت سے لوگوں کی سرکشی اور کفر میں اضافہ کرے گا تو تم کافرقوم پر کچھ غم نہ کھاؤ"۔ )

 

حضرت محمد ﷺ کی امت میں ابھی جبکہ امام حسین علیہ السلام موجود تھے اور کچھ صحابہ اکرامؓ بھی زندہ تھے کہ دین کا پیغامِ ابدی معدوم ہونے لگا اور لذتِ دنیا قدم جمانے لگا۔ ان حالات کو امیر معاویہ کی طرز حکومت نے مہمیز کیا۔ اور تباہی اس وقت غالب ہوگئی جب یزید بن معاویہ تختِ حکومت پر براجمان ہوگیا۔ کربلا کا حادثہ یک دم نہی ہوا تھا۔ مگر یہ خونچگاں ہوا؛ جب امام عالی مقام علیہ السلام کے ہاتھ میں اللہ کی حاکمیت کا جھنڈا تھا؛ جیسا کہ اللہ اور رسول کا حکم کے مطابق ہوتا چاہیے؛ اور دوسری طرف یزید کے سپاہ ابن زیاد وشمر کے ساتھی بھی نعرہ تکبیر ہی بلند کررہے تھے۔ اللہ سبحان تعالی کی حاکمیت سے اتنا بدنما مذاق نہی ہوسکتا تھا۔ اللہ سبحان تعالی نے سچ فرمایا کہ اسکا قرآن سرکشوں کے کفر میں اضافہ کرے گا۔

 

کربلا شناس و حکیم الامت علامہ اقبال نے سن اکسٹھ ہجری اور ہر دور کی یزیدیت کو بےنقاب کرتے ہوئے حضرت حسین علیہ السلام اور کربلا کی بابت انتہائی خوبصورت اور فصیح اظہار کیا اور دینِ اسلام میں اس کی اہمیت کو واضع کیا ہے:

 

عجب مذاق ہے اسلام کی تقدیر کے ساتھ

کٹا حسین (ع) کا سر نعرہ تکبیر کے ساتھ

سیدنا امام حسین علیہ السلام کا پیغام ابدی

 یزید بن معاویہ کی حکومت میں کم ہی تھے جو اللہ کی حاکمیت کو مقدم جانتے تھے اور کون نہیں تھا جو لذتِ دنیا کا حظ مقدم نہیں رکھتا تھا؟ ان حالات میں دین اسلام کے ذریں اصول ناقابلِ عمل ہوگئے تھے۔ اور یزیدیت یہ ہے کہ وہ اپنی بے راہ روی کو عزت بخشنوانے کے لیےامام عالی مقام علیہ السلام سے بیعت کی خواہش بھی رکھتا تھا؛ مگر امام عالی مقام علیہ السلام نے دکھایا کہ " لا الہ الا اللہ " کہنا کتنا آسان ہے اور ثابت کرنا کیسا ہے؟ دین اسلام کیا ہے؛ اس کی عملی تفسیر سکھائی ہے امام نے؛ کربلا میں؟ اس حیاتِ فانی کی کوئی اہمیت نہیں اور اصل کامیابی حصولِ جنت ہے۔

واقعہ یہ ہے کہ اللہ نے مؤمنوں سے اُن کی جانیں اور اُن کے مال اس بات کے بدلے خرید لئے ہیں کہ جنت اُنہی کی ہے۔ وہ اللہ کے راستے میں جنگ کرتے ہیں، جس کے نتیجے میں مارتے بھی ہیں، اور مرتے بھی ہیں۔ ( سورۃ التوبہ ۱۱۱) ۔

مقامِ شبیر سمجھنے کے لیے آنکھوں پر سے دنیا کی محبت کی پٹی اتارنے پڑتی ہے اور پیٹ کی آگ کو معدوم کرنا پڑتا ہے۔ کربلا ہر دور کی مسلمان کو بس ایک پیغام دیتا ہے کہ جو شخص قوانین خداوندی کی اتباع کو مقصود زندگی قرار دے لے اور اسی طرح اپنا عہد و پیمان اللہ سے باندھ لے، اس کی گردن میں کسی آقا کی غلامی اور محکومی کی زنجیر نہیں رہتی۔ اور اگر ایسا نہی ہے تو وہ جان لے وہ اللہ کا عبد نہی ہے۔ اللہ کا بندہ، صرف اللہ کی حاکمیت اعلی کے لیے اپنی زندگی کو صرف کرتا ہے اور حظ و لذت دنیا اس کی چاہ نہیں ہوتی۔

 

 حقیقت ابدی ہے مقام شبیری

بدلتے رہتے ہیں انداز کوفی وشامی

 

اے برادران اسلام؛ یاد رکھنا کہ اللہ سبحان تعالی کا ارشاد ہے کہ

 

اور دیکھو ہم تمہیں آزمائیں گے ضرور، (کبھی) خوف سے، اور (کبھی) بھوک سے، اور (کبھی) مال و جان اور پھلوں میں کمی کر کے۔ اور جو لوگ (ایسے حالات میں) صبر سے کام لیں اُن کو خوشخبری سنادو. سورۃ البقرۃ ۱۵۵

اور مزید فرمایا کہ

اور اپنے رَبّ کا صبح و شام ذکر کیا کرو، اپنے دِل میں بھی، عاجزی اور خوف کے (جذبات کے) ساتھ، اور زبان سے بھی، آواز بہت بلند کئے بغیر! اور اُن لوگوں میں شامل نہ ہو جانا جو غفلت میں پڑے ہوئے ہیں۔ سورۃ الاعراف ۲۰۵

 

رسول الله محمدﷺ نے فرمایا ہے کہ " جو شخص اس حال میں مرا کہ اس نے جہاد نہیں کیا اور اپنے دل میں بھی جہاد کی نیت نہیں کی تو وہ نفاق کی ایک شاخ پر مرا ۔“ (سنن ابوداؤد ، ۲۵۰۲)

 

لہٰذا اللہ کے راستے میں وہ لوگ لڑیں جو دُنیوی زندگی کو آخرت کے بدلے بیچ دیں۔ اور جو اللہ کے راستے میں لڑے گا، پھر چاہے قتل ہو جائے یا غالب آجائے، (ہر صورت میں) ہم اس کو زبردست ثواب عطا کریں گے۔ سورۃ النساء 74

 

مولانا محمد علی جوہر نے پیغامِ کربلا کو حیاتِ ابدی کا ایسا نسخہ بتایا ہے کہ اگر ہم مسلمان اس کو سمجھ لیں تو کوئی وجہ نہیں کہ ہم اللہ تعالی کی حاکمیت اعلی کو اس کی صحیح روح کے ساتھ نافذ نہیں کرپائیں گے۔



 قتل حسین اصل میں مرگ یزید ہے

اسلام زندہ ہوتا ہے ہر کربلا کے بعد


More Posts