صیہونی یہودی ریاست اسرائیل کا بھیانک چہرہ بینقاب
The book "Ten Myths About Israel" has been written by Illan Pappe. In this groundbreaking book, published on the fiftieth anniversary of the Occupation, the outspoken and radical Israeli historian Ilan Pappe examines the historical records to write this book. This book challenges the much propagated narratives of state of Israel and its mouth piece media circus in the West. This write up "صیہونی یہودی ریاست اسرائیل کا بھیانک چہرہ بینقاب" is a commentary on the book.
2025-02-16 17:39:33 - Muhammad Asif Raza
بِسۡمِ ٱللهِ ٱلرَّحۡمَـٰنِ ٱلرَّحِيمِ
صیہونی یہودی ریاست اسرائیل کا بھیانک چہرہ بینقاب
ایلان پاپے کی کتاب " اسرائیل کے دس جھوٹے مفروضے" پر تجزیہ و تبصرہ
ایک کتاب " اسرائیل کے دس جھوٹے مفروضے" جو مئی 2017 میں شائع ہوئی اور جس کے مصنف ایلان پاپے ہیں؛ نے صیہونی یہودی ریاست اسرائیل کا بھیانک چہرہ بینقاب کردیا۔ یہ کتاب "فلسطینی تاریخ کے سب سے فصیح مصنف" نے لکھی ہے۔ جس نے اسرائیلی ریاست اور اسرائیل فلسطین تنازعہ کے پس پردہ "خرافات اور حقیقت" کو ظاہر کیا؛ یہ رائے مشہور اخبار" نیو اسٹیٹس مین" میں چھپا ہے۔ جس میں مزید کہا گیا کہ "ایڈورڈ سید کے ساتھ ساتھ، ایلان پاپے فلسطینی تاریخ کے سب سے فصیح مصنف ہیں"۔
ایلان پاپے ایک مشہور بڑبولے اور بنیاد پرست اسرائیلی مورخ ہے، جس نے صیہونی یہودی ریاست اسرائیل کی ابتدا اور شناخت کے بارے میں سب سے زیادہ متنازعہ نظریات کا جائزہ لیا۔ اس نے ان مشہور "دس خرافات یا الوہی مفروضات" پر قلم اٹھایا ہے جنہیں میڈیا (میراث یافتہ پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا، اور جس میں اب سوشل میڈیا بھی شامل ہے) میں منظم طریقے سے بار بار دہرایا جاتا ہے؛ جسے اسرائیلی فوج کے ذریعے نافذ کیا گیا، اور جسے دنیا بھر کی حکومتوں نے بغیر کسی سوال کے قبول بھی کرلیا۔
کتاب کے اہم نکات:
یہ کتاب " اسرائیل کے دس جھوٹے مفروضے" دس بڑی جھوٹی داستانوں کو بے نقاب کرتی ہے جو اسرائیلی ریاست کے قیام اور اس کے بعد کی پالیسیوں کو جواز فراہم کرنے کے لیے مشہور ہیں۔ مندرجہ ذیل میں بنیادی طور پر دس ابواب کا ذکر ہے؛ جنہیں ہم دس خصوصیات والی خرافات یا الوہی مفروضات کہہ سکتے ہیں؛ جو باقی دنیا کو بے وقوف بنانے اور علاقائی جمود اور فلسطینی سرزمین پر کنٹرول کو تقویت دینے کے لیے تخلیق کی گئی ہیں:-۔
• اعلان بالفور کے وقت فلسطین ایک خالی زمین تھی۔
• یہودی ایک ایسی قوم تھے جن کے پاس زمین نہیں تھی۔
• صیہونیت اور یہودیت میں کوئی فرق نہیں ہے۔
•صہیونیت قبضے کا استعماری منصوبہ نہیں ہے۔
• فلسطینیوں نے 1948 میں رضاکارانہ طور پر اپنا وطن چھوڑا۔
• جون 1967 کی جنگ 'نو چوائس' کی جنگ تھی۔
• مشرق وسطیٰ میں اسرائیل واحد جمہوریت ہے۔
• اوسلو کے افسانے
• غزہ کے افسانے
• دو ریاستی حل
ایلان پاپے کون ہے؟
ایلان پاپے 1954 میں حیفا، اسرائیل میں اشکنازی یہودیوں کے ایک خاندان میں پیدا ہوئے۔ لہذا، وہ ایک اصل اسرائیلی پیدائشی حقیقی یہودی مورخ، سیاسی سائنس دان، اور سابق سیاستدان ہیں۔ وہ برطانیہ کی ایکسیٹر یونیورسٹی میں کالج آف سوشل سائنسز اینڈ انٹرنیشنل اسٹڈیز کے پروفیسر، یونیورسٹی کے یورپی سینٹر فار فلسطین اسٹڈیز کے ڈائریکٹر، اور ایتھنو پولیٹیکل اسٹڈیز کے ایکسیٹر سینٹر کے شریک ڈائریکٹر ہیں۔ پاپے اسرائیلی سیاسی جماعت ہداش کے بورڈ ممبر بھی تھے۔ برطانیہ آنے سے پہلے، وہ حیفہ یونیورسٹی (1984–2007) میں سیاسیات کے سینئر لیکچرر اور حیفہ میں ایمل توما انسٹی ٹیوٹ برائے فلسطینی اور اسرائیلی مطالعات کے چیئر (2000–2008) تھے۔ اس نے 2008 میں کنیسٹ میں مذمت کیے جانے اور متعدد جان سے مارنے کی دھمکیاں ملنے کے بعد اسرائیل چھوڑ دیا۔ (گوگل سرچ کے ذریعے)
ایلان پاپے کے والدین جرمن یہودی تھے جو 1930 کی دہائی میں نازیوں کے ظلم و ستم سے فرار ہو گئے تھے۔ 18 سال کی عمر میں، اسے اسرائیل ڈیفنس فورسز میں شامل کیا گیا اور 1973 میں یوم کپور جنگ کے دوران گولان کی پہاڑیوں میں خدمات انجام دیں۔ اس نے 1978 میں یروشلم کی عبرانی یونیورسٹی سے بیچلر آف آرٹس (BA) کی ڈگری کے ساتھ گریجویشن کیا۔ اس کے بعد انہوں نے آکسفورڈ یونیورسٹی میں برطانوی مورخین البرٹ ہورانی اور راجر اوون کی نگرانی میں 1984 میں ڈاکٹر آف فلاسفی (ڈی فل) کی ڈگری مکمل کی۔ ان کے ڈاکٹریٹ کے مقالے کا عنوان تھا "برطانوی خارجہ پالیسی برائے مشرق وسطی، 1948-1951: برطانیہ اور عرب اسرائیل تنازعہ"۔
ایلان پاپے؛ 1980 کی دہائی کے اوائل میں برطانوی اور اسرائیلی حکومت کے متعلقہ دستاویزات کے اجراء کے بعد سے؛ 1948 میں فلسطینیوں کی بے دخلی اور انخلا پر وسیع پیمانے پر لکھا ہے۔ ایلان پاپے کے کام سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ اخراج ایک منظم نسلی صفائی کا نتیجہ تھا، جس کے لیے پلان ڈیلیٹ نے ایک بلیو پرنٹ کے طور پر کام کیا۔ وہ "اسرائیل کے دس جھوٹے مفروضے" (2017)، فلسطین کی نسلی صفائی (2006)، جدید مشرق وسطیٰ (2005)، جدید فلسطین کی تاریخ: ایک سرزمین، دو لوگ (2003)، اور برطانیہ اور عرب-اسرائیل تنازعہ (1988) کے مصنف بھی ہیں۔
ایلان پاپے کو جان پِلگر اور ایک اور اسرائیلی اور برطانوی مؤرخ ایوی شلائم ایف بی اے نے "اسرائیل کا سب سے بہادر، سب سے زیادہ اصول پسند، سب سے زیادہ سخت مورخ" کے طور پر بیان کیا ہے، "جلاوطنی میں رہنے والے سب سے نمایاں اسرائیلی سیاسی مخالفین میں سے ایک؛ وہ تنازعہ کے ان چند اسرائیلی طلباء میں سے ایک ہے جو فلسطینیوں اور ان کے ساتھیوں کے بارے میں لکھتے ہیں"۔
یہ کتاب کیوں پڑھنا ضروری ہے؟
یہ کتاب 2017 میں لکھی گئی تھی اور اس وقت پوری دنیا صیہونی یہودیوں کے کنٹرول میں تھی اور اب بھی ہیں؛ اور اس طرح کی کتابیں بڑے پیمانے پرترویج اور اشاعت کے لیے پسند نہیں کی جاتی ہیں۔ تاہم، بہت سا پانی پلوں کے نیچے بہہ چکا ہے اور اس کے بعد سے بہت سے حقائق منظر عام پر آ چکے ہیں۔ 2023-2025 کی حماس اسرائیل جنگ نے اسرائیل کی کچھ اور خرافات و مفروضات یا خرافات و مفروضات کو بے نقاب کیا ہے۔ اس لیے اب کتاب کا معروضی تجزیہ کرنا بہت ضروری ہے۔ مصنف نے کتاب میں دس ابواب ترتیب دیے ہیں، جن میں ہر باب ایک متعلقہ افسانے یا مغالطے کو چیلنج کرتا ہے۔ کتاب میں ابواب یا "حکایات" کا ایک سادہ تجزیہ درج ذیل میں پیش کیاجاتا ہے۔ جس کے تبصرہ نگار جناب بطریس رضا ہیں؛ جنہوں نے ایلان پاپے کی کتاب کا اردو میں ترجمہ " اسرائیل کے دس جھوٹے مفروضے" کے نام سے کیا ہے؛ اور یہ تجزیہ و تبصرہ فیس بک پر لکھا گیا ہے۔:-۔
1. اسرائیل کی تخلیق: "یہ ایک خالی زمین تھی"
یہ پہلا مغالطہ اس صیہونی دعوے کو چیلنج کرتا ہے کہ فلسطین 1948 میں ایک خالی زمین تھی، جس پر یہودیوں نے آباد ہو کر اسرائیل کی بنیاد رکھی۔ مصنف تاریخی شواہد پیش کرتے ہیں کہ فلسطین میں پہلے سے عرب آبادی موجود تھی اور 1948 میں لاکھوں فلسطینی وہاں آباد تھے۔
2. فلسطینی عوام نے اپنی زمین "رضاکارانہ طور پر" چھوڑی
یہ دوسرا باب وضاحت کرتا ہے کہ فلسطینی عوام نے 1948 میں اپنی زمین خود نہیں چھوڑی، بلکہ انہیں جبری طور پر بے دخل کیا گیا۔ یہ باب نکبہ (نکبہ ) کے واقعات پر تفصیل سے روشنی ڈالتا ہے اور اسرائیلی فوج کی جانب سے کی گئی قتل و غارت گری، جبری انخلا، اور دیہاتوں کی تباہی کے ثبوت فراہم کرتا ہے۔
3. اسرائیل ہمیشہ "امن" کا خواہاں رہا ہے
یہ عام مغربی پروپیگنڈہ ہے کہ اسرائیل ہمیشہ امن کے لیے کوشاں رہا ہے، لیکن مصنف وضاحت کرتے ہیں کہ اسرائیل نے ہمیشہ فلسطینی عوام کے حقوق کو دبانے کے لیے جنگی حکمت عملی اختیار کی ہے۔ اس باب میں 1967 کی جنگ، 1982 کی لبنان جنگ، اور غزہ میں حملوں پر تفصیلی بحث کی گئی ہے۔
4. 1967 کی جنگ "دفاعی" جنگ تھی
مصنف اس مغالطے کو رد کرتے ہیں کہ اسرائیل نے 1967 کی جنگ اپنی بقا کے لیے لڑی تھی۔ وہ تاریخی حقائق پیش کرتے ہیں کہ اسرائیل نے یہ جنگ فلسطین، شام، اور اردن کے علاقوں پر قبضہ کرنے کے لیے خود چھیڑی تھی۔
5. فلسطینی عوام دہشت گرد ہیں
یہ باب مغربی میڈیا میں رائج اس تصور پر تنقید کرتا ہے کہ فلسطینی عوام دہشت گردی میں ملوث ہیں۔ مصنف تاریخی طور پر ثابت کرتے ہیں کہ فلسطینیوں کی مزاحمت ایک آزادی کی جنگ ہے، اور اسرائیل خود کئی دہشت گرد تنظیموں کی پشت پناہی کر چکا ہے۔
6. اسرائیل "واحد جمہوریت" ہے
یہ مغالطہ عام طور پر اسرائیل کے حق میں استعمال ہوتا ہے کہ وہ مشرق وسطیٰ میں واحد جمہوری ملک ہے۔ ایلان پاپے وضاحت کرتے ہیں کہ اسرائیل کی جمہوریت صرف یہودیوں تک محدود ہے، جبکہ فلسطینیوں کو بنیادی انسانی حقوق سے محروم رکھا گیا ہے۔
7. فلسطینی مہاجرین کو واپسی کا حق حاصل نہیں۔
یہ باب 1948 میں بے دخل کیے گئے فلسطینی مہاجرین کے حقِ واپسی (واپسی کا حق ) پر روشنی ڈالتا ہے اور وضاحت کرتا ہے کہ کس طرح اسرائیل نے نسلی صفائی (Ethnic Cleansing) کے ذریعے ان کے وطن واپسی کو ناممکن بنایا۔
8. اوسلو معاہدہ کامیاب امن عمل تھا
مصنف بیان کرتے ہیں کہ اوسلو معاہدہ اسرائیل کے لیے ایک حکمتِ عملی تھی تاکہ وہ فلسطینیوں کی زمین پر قبضہ جاری رکھ سکے۔
9. اسرائیل کا غزہ سے انخلاء "امن" کے لیے تھا
یہ باب اسرائیلی پروپیگنڈے کا پردہ چاک کرتا ہے کہ 2005 میں غزہ سے انخلاء فلسطینیوں کے حقوق کی تسلیم شدگی تھی۔ مصنف وضاحت کرتے ہیں کہ یہ انخلاء دراصل ایک فوجی حکمت عملی تھی، تاکہ غزہ کو مکمل طور پر محصور کر کے اسے ایک قید خانے میں تبدیل کیا جا سکے۔
10. دو ریاستی حل "واحد قابلِ عمل حل" ہے
کتاب کا آخری باب دو ریاستی حل (دو ریاستی حل) کے مغالطے کو مسترد کرتا ہے اور وضاحت کرتا ہے کہ اسرائیل نے فلسطین کو اس حد تک تقسیم کر دیا ہے کہ ایک خودمختار فلسطینی ریاست ممکن نہیں رہی۔ مصنف اس بات پر زور دیتے ہیں کہ واحد پائیدار حل ایک مشترکہ، مساوی حقوق پر مبنی ریاست ہے۔
کتاب کا مجموعی تجزیہ
اس کتاب پر مختلف علمی و سیاسی حلقوں میں ملا جلا ردعمل سامنے آیا ہے۔ اس کتاب نے اسرائیل-فلسطین تنازعے کے حوالے سے کئی اہم سوالات اٹھائے ہیں اور ایک متبادل تاریخی بیانیہ پیش کیا ہے جو مغربی میڈیا میں کم نظر آتا ہے۔
مثبت تبصرے:
1. تاریخی سچائی کو اجاگر کرنا
کئی ناقدین اور مورخین نے ایلان پاپے کی تحقیق کو سراہا ہے، خاص طور پر ان کی یہ جرات کہ انہوں نے سرکاری اسرائیلی بیانیے کو چیلنج کیا۔
معروف صحافی جان پلگر () نے کہا کہ ایلان پاپے اسرائیل کے سب سے بہادر اور اصول پسند مورخ ہیں۔
کتاب میں 1948 کے نکبہ ()، فلسطینی مہاجرین کے حقوق، اور اسرائیلی ریاست کی عسکری پالیسیوں پر روشنی ڈالی گئی ہے، جو عام طور پر مرکزی دھارے کے میڈیا میں کم زیر بحث آتی ہیں۔
2. مغربی بیانیے کو چیلنج کرنا
کتاب کو فلسطینی حمایت یافتہ حلقوں میں بہت پذیرائی ملی کیونکہ یہ اسرائیل کے "دفاعی" ہونے کے بیانیے کو رد کرتی ہے اور صیہونی تحریک کی استعماری نوعیت کو بے نقاب کرتی ہے۔
نئے مورخین () میں شامل کئی محققین، جیسے آوی شلائم () اور بیني مورس () نے بھی اس نقطہ نظر کی تائید کی ہے کہ اسرائیلی تاریخ کو ازسرنو پرکھنے کی ضرورت ہے۔
3. عام فہم اور آسان اسلوب
کچھ قارئین کے مطابق، کتاب کو عام فہم انداز میں لکھا گیا ہے، جو غیر ماہر قارئین کے لیے بھی اسے قابل فہم بناتا ہے۔
تاریخی حقائق کو سادہ زبان میں بیان کرنا اس کتاب کی ایک خاص خوبی سمجھی جاتی ہے۔
تنقیدی تبصرے:
1. "متعصبانہ اور یکطرفہ" نقطہ نظر
اسرائیل کے حامی ناقدین نے اس کتاب کو "متعصبانہ" اور "یکطرفہ" قرار دیا ہے۔ ان کے مطابق ایلان پاپے ایک نظریاتی مورخ ہیں جو اسرائیل مخالف ایجنڈے کو فروغ دیتے ہیں۔
مشہور مورخ بینی مورس ()، جو خود بھی اسرائیل کے ناقدین میں شامل رہے ہیں، نے پاپے پر "انتہائی یکطرفہ نقطہ نظر اپنانے" کا الزام لگایا ہے اور کہا ہے کہ وہ "سیاسی مقاصد کے لیے تاریخ کو مسخ کرتے ہیں"۔
2. ثبوت اور حوالہ جات کی کمی
بعض ناقدین نے نشاندہی کی ہے کہ پاپے کی تحقیق میں بعض جگہ مکمل تاریخی شواہد کا فقدان نظر آتا ہے۔
کتاب میں بعض دعوے ایسے ہیں جنہیں مزید مستند دستاویزات اور حوالہ جات کے ساتھ مضبوط کیا جا سکتا تھا۔
خاص طور پر 1948 کی جنگ اور 1967 کی جنگ کے متعلق ان کے کچھ تجزیوں کو چیلنج کیا گیا ہے اور کہا گیا ہے کہ ان کے ماخذ مکمل نہیں ہیں۔
3. دو ریاستی حل پر سخت مؤقف
کچھ ناقدین کے مطابق، پاپے کی کتاب میں دو ریاستی حل () کو مکمل طور پر مسترد کیا گیا ہے، جو حقیقت پسندانہ نقطہ نظر نہیں ہے۔
بعض تجزیہ نگاروں کے مطابق، اسرائیل اور فلسطین کے تنازعے کے حل کے لیے مکمل بائیکاٹ یا ایک واحد ریاستی حل پر زور دینا عملی طور پر ممکن نہیں۔
4. اسرائیلی حلقوں میں شدید ردعمل
اسرائیلی ذرائع ابلاغ میں کتاب پر سخت تنقید کی گئی اور ایلان پاپے کو "غدار" اور "خود اسرائیل مخالف اسرائیلی" قرار دیا گیا۔
اسرائیل کے دائیں بازو کے حلقوں میں انہیں "پروپیگنڈا مورخ" کہا گیا اور کہا گیا کہ ان کی تحقیق مغربی بائیں بازو کے حلقوں کو خوش کرنے کے لیے لکھی گئی ہے۔
مجموعی تجزیہ
حامیوں کے مطابق: یہ کتاب اسرائیلی پروپیگنڈے کو بے نقاب کرتی ہے اور فلسطینی عوام کی تاریخ کو ایک نئے زاویے سے پیش کرتی ہے۔
مخالفین کے مطابق: یہ یکطرفہ بیانیہ پیش کرتی ہے، تاریخی حقائق کو مکمل طور پر بیان نہیں کرتی اور سیاسی مقاصد کے تحت لکھی گئی ہے۔
یہ کتاب اسرائیل-فلسطین تنازعے پر غور و فکر کرنے والوں کے لیے ایک اہم مگر متنازعہ حوالہ بن چکی ہے۔
کتاب کے اثرات کا تجزیہ :
1. علمی و تحقیقی اثرات
یہ کتاب اسرائیل-فلسطین تنازعے پر لکھی گئی دیگر تحریروں میں ایک اہم حوالہ بن چکی ہے، خاص طور پر ان محققین کے لیے جو اسرائیلی بیانیے پر تنقیدی نظر ڈالتے ہیں۔
"نئے مورخین" (New Historians) جیسے آوی شلائم (Avi Shlaim) اور بیني مورس (Benny Morris) کے کاموں کے بعد یہ کتاب بھی اسرائیلی تاریخ کے سرکاری بیانیے پر سوالات اٹھانے میں اہم کردار ادا کر رہی ہے۔
بعض تعلیمی اداروں میں اس کتاب کو نصاب کا حصہ بھی بنایا گیا ہے، خاص طور پر ان یونیورسٹیوں میں جو مشرق وسطیٰ کی تاریخ پڑھاتی ہیں۔
کئی فلسطینی اور عرب اسکالرز نے اس کتاب کو "قابل قدر تجزیہ" قرار دیا ہے اور اسے فلسطینی بیانیے کی مضبوطی کے طور پر دیکھا ہے۔
2. مغربی دنیا میں سیاسی اثرات
کتاب کے بعد اسرائیل-فلسطین تنازعے پر مغربی دنیا میں مباحثے میں شدت آئی، خاص طور پر امریکہ اور یورپ میں بی ڈی ایس تحریک (BDS Movement - Boycott, Divestment, Sanctions) کے حامیوں نے اسے ایک اہم تحقیقی دستاویز کے طور پر پیش کیا۔
اسرائیل کے حق میں موجود روایتی مغربی بیانیہ (جو اسرائیل کو ایک "مظلوم ریاست" کے طور پر پیش کرتا ہے) کو چیلنج کرنے کے لیے بائیں بازو کے سیاسی حلقے اس کتاب کو ایک دلیل کے طور پر استعمال کر رہے ہیں۔
کچھ مغربی سیاست دانوں نے اس کتاب کو پڑھنے کے بعد اسرائیل کی پالیسیوں پر کھل کر تنقید کی، خاص طور پر فلسطینی عوام پر ہونے والے مظالم کے حوالے سے۔
3. اسرائیل اور صیہونی تحریک پر اثرات
اسرائیل میں یہ کتاب شدید تنازعے کا باعث بنی اور ایلان پاپے کو "غدار" () قرار دیا گیا۔
دائیں بازو کے اسرائیلی حلقوں نے اسے ایک "پروپیگنڈا کتاب" قرار دیا اور کہا کہ یہ کتاب "اسرائیل کے خلاف عالمی رائے عامہ کو بھڑکانے" کے لیے لکھی گئی ہے۔
بعض اسرائیلی یونیورسٹیوں نے ایلان پاپے کی تحریروں کو "متعصبانہ" قرار دے کر ان کے کام کو نصاب سے نکالنے کی کوشش کی۔
اسرائیل کے اندر آزاد خیال حلقے اس کتاب کو "حقیقت کا آئینہ" قرار دیتے ہیں اور اس بات پر زور دیتے ہیں کہ اسرائیل کو اپنی پالیسیوں پر نظر ثانی کرنی چاہیے۔
4. فلسطینی مزاحمت اور عوامی شعور
فلسطینی مزاحمت کاروں اور دانشوروں نے اس کتاب کو اپنی جدوجہد کے "علمی جواز" کے طور پر پیش کیا۔
فلسطینی نیشنل اتھارٹی (PNA) اور حماس کے کچھ حلقوں نے اس کتاب کی تعریف کی کیونکہ اس میں فلسطینیوں کے "نکبہ" ( 1948 میں فلسطینیوں کی جبری بے دخلی) کو تسلیم کیا گیا ہے۔
فلسطینی نوجوانوں میں اس کتاب نے سیاسی شعور بیدار کیا اور کئی لوگ اسے اسرائیلی قبضے کے خلاف "حقیقت پر مبنی دستاویز" سمجھتے ہیں۔
5. سوشل میڈیا اور عوامی مکالمہ
کتاب کی اشاعت کے بعد، سوشل میڈیا پر اسرائیل-فلسطین تنازعے پر بحث میں شدت آئی، خاص طور پر ٹویٹر، فیس بک اور دیگر پلیٹ فارمز پر فلسطینی حقوق کے حامیوں نے اس کتاب کے اقتباسات شیئر کیے۔
اسرائیلی ڈیجیٹل لابی (حسبارہ) نے اس کتاب کے خلاف جوابی پروپیگنڈا کیا اور کہا کہ یہ کتاب "نظریاتی طور پر جانبدار" ہے۔
کئی آن لائن فورمز اور مباحثوں میں یہ کتاب ایک اہم حوالہ بن گئی، خاص طور پر ان حلقوں میں جو اسرائیل-فلسطین تنازعے کو نوآبادیاتی اور نسل پرستی کے تناظر میں دیکھتے ہیں۔
کیا یہ کتاب پڑھنی چاہیے؟
اگر آپ اسرائیل فلسطین تنازعہ کے بارے میں کوئی متبادل تاریخی بیانیہ جاننا چاہتے ہیں تو یہ کتاب ضرور پڑھنی چاہیے۔ یاد رہے کہ معمول کے علمی کام کو زیادہ تر یہودیوں سے منسلک گروہوں کے ذریعے فنڈز فراہم کیے جاتے ہیں اور ایسے کاموں کی حمایت یا فنڈنگ نہیں کی جاتی ہے۔ تاہم، اس موضوع پر ایک جامع اور متوازن رائے قائم کرنے کے لیے مخالف نقطہ نظر کو بھی دیکھنا ضروری ہے۔
صیہونی یہودی ریاست اسرائیل کا بھیانک چہرہ بینقاب کیسے ہوا؟
ایلان پاپے نے یہ کتاب " اسرائیل کے دس جھوٹے مفروضے" نہیں لکھی بلکہ صیہونی یہودی ریاست اسرائیل کا وہ چہرہ؛ جسے ایک انسان دوست، جمہوری، مظلوم اور دہشت گردوں سے بھرپور گھرے پڑوسیوں میں ایک معصوم خوبصورت ریاست کا تھا؛ پر سے نقاب کھرچ ڈالا ہے۔اور جس کے پیچھے سے ایک بھیانک، انسان دشمن اور دہشتگرد ریاست برآمد ہوا ہے۔ یہ کتاب 2017 میں چھپی ہے اور آج 2025 کے اوائل میں اس کتاب کی اہمیت بہت زیادہ بڑھ گی ہے کہ ابھی کل ہی 19 جنوری 2025 کو اسرائیل حماس کی غزہ جنگ میں ٹھراو آیا ہے اور جنگ بندی کا اعلان ہوا ہے جس پر ابھی مکمل عمل درآمد ہونا باقی ہے؛ کہ دوسری طرف امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے غزہ کو تمامتر فلسطینوں سے خالی کرانے کے عزم کا اظہار کیا ہے۔ یہ محض ایک خواب نہیں ہے کہ ایسا ارادہ اس سے قبل خود اسرائیلی وزیر اعظم بنجامن نتنیاہو نے 2023 ستمبر میں اقوامِ متحدہ میں کی گئی ایک تقریر میں اس کا عندیہ دیا تھا۔
ایک ایسی ریاست جس کا وجود ہی غیر قانونی ہے اور جو دنیا کے تمام قانونی اور اخلاقی پہلووں سے غیر انسانی ذہن اور سوچ کی پیداوار لگتی ہے؛ کے لیے اس قدر قیمتی انسانی جانوں کا ضیاع صرف شیطانی منصوبہ ہی کہلا سکتا ہے۔ غزہ جنگ میں بھی اسرائیل کی فوج نے تمام انسانی بین الاقوامی قوانین کو بالائے طاق رکھ کر انسانت سوز اقدامات کئے ہیں جس کی تصاویر اور مناظر ساری دنیا نے دیکھے ہیں اور اس سے اس ریاست کی حقیقت کھل کر واضع ہوگئی ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ اس کتاب " اسرائیل کے دس جھوٹے مفروضے" کو وسیع پیمانے پر ترویج دیا جائے تاکہ غافل افراد تک اس سچ کو جلد از جلد پہنچایا جاسکے۔ اس سے ایک غیر اخلاقی بنیاد پر قائم ریاست کی حقیقت کا سب کو پتاچلے گا اورساری دنیا فلسطین کی آزادی کے لیے قائل ہوسکے گی۔