Life is a journey; it is pleasant, beautiful and enjoyable too, but it offers its bounty to only those who undertake this journey as per some principles and time tested methods. ALLAH the Almighty has sent divine guidance through various prophets and Al Quran is the final Holy Book revealed upon the Last of Prophets Hazrat Muhammad (PBUH). The divine guidance helped humans to formulate their life for better livings. This write up in Urdu "صراط المستقیم؛ " مثالی معاشرے کی تعمیر" is a discussion for formation of a living society that strides for progress and development.
بِسۡمِ ٱللهِ ٱلرَّحۡمَـٰنِ ٱلرَّحِيمِ
اللہ کے نام سے شروع جو بڑا مہربان نہایت رحم کرنے والا ہے
"صراط المستقیم؛ " مثالی معاشرے کی تعمیر
مسلمان سورۃ الفاتحہ کی تلاوت میں عرض گذار ہوتا ہے "اهدنا الصراط المستقيم"؛ یعنی ہمیں سیدھے راستے پر چلا۔ سیدھا راستہ وہ ہے جس پر چل کر انسان اس قول کا حامل بنتا ہے "يقول ربنا آتنا في الدنيا حسنة وفي الآخرة حسنة"؛ "یعنی اے ہمارے رب! ہمیں دنیا میں بھلائی عطا فرما اور ہمیں آخرت میں (بھی) بھلائی عطا فرما"۔
الصراط المستقیم دنیا و آخرت میں حسنۃ یا خیر و بھلائی کی تلاش کا راستہ ہے۔ دنیا کی بھلائی میں ہر اچھی اور مفید شے داخل ہے خواہ وہ کفایت کرنے والا رزق ہو یا اچھا گھر یا اچھی بیوی یا اچھی سواری یا اچھا پڑوس وغیرہا۔ آخرت کی بھلائی تو ہی مغز یعنی اصل مقصد زندگی۔ ہم یہاں پہلے دنیا کی زندگی میں خیر تلاش کرتے ہیں؛ مگر وہ تلاش نکلے گا الصراط المستقیم سے؛ یعنی اس دنیا میں زندگی گذارنے کا سیدھا طریقہ، سیدھا راستہ۔ آئیے دیکھتے ہیں کہ وہ سیدھا راستہ کیا ہے؟
اللہ سبحان تعالی نے سورۃ يٰـسٓ کی آیات 60-61 میں فرمایا ہے کہ
اے آدم کی اولاد! کیا میں نے تمہیں تاکید نہ کردی تھی کہ شیطان کی عبادت نہ کرنا، کیونکہ وہ تمہارا صریح دشمن ہے۔ اور یہ کہ میری ہی عبادت کرنا، یہ صِرَاطٌ مُّسْتَقِـيْـمٌ یعنی سیدھا راستہ ہے۔
اوپر کی آیات کا ایک سبق یہ ہے کہ دنیا میں ایک حق سچ کا راستہ ہے اور ایک غلط یا گمراہی کا راستہ ہے۔ یاد رکھیے کہ بالکل اسی طرح اس دنیا کی زندگی میں ہر انسان کو ہر دم ہر لمحے ایک امتحان ایک آزمائش درپیش ہوتا ہے اور اس لمحے اسے فیصلہ کرنا ہوتا ہے کہ وہ صحیح راستہ چنتا ہے یا غلط۔؛ قانون کے درست سمت میں چلتا ہے یا مخالف سمت میں قانون توڑنے میں فخر محسوس کرتا ہے۔ ہر انسان کو دن کے چوبس گھنٹوں میں بارہا ایسے مراحل طے کرنے ہوتے ہیں کہ وہ صحیح اور غلط میں کس چناو کو اختیار کرتا ہے۔
اس مضمون کا مقصد صحت مند معاشرے کی تعمیر کی اہمیت اور افادیت پر توجہ دلانا ہے۔ ایک مثالی معاشرہ یا ترقی پسند یا زندہ معاشرہ کی تعمیر کا کیا راستہ ہو سکتا ہے؟ یعنی اس دنیا میں انسانی آبادیوں میں قائم معاشرے کیسے صراط مستقیم کے سیدھے طریقے، سیدھا راستے پر چلیں؟ اور کیسے کسی بھی قوم، ملک اور سلطنت میں زندہ معاشرے قائم ہوں جو اللہ سبحان تعالی کی رضا کا باعث ہوں اور فلاح انسانیت کا موجب ہوں؟
سب سے اولین یہ بات سمجھنے کی ہے کہ انسان معاشرتی جانور ہے۔ اور انسانوں کی آبادی معاشرے کی بنیاد بنتے ہیں؛ دیہات اور شہر آباد ہوتے ہیں۔ اللہ سبحان تعالی نے قرآن کی سورۃ البقرۃ میں حضرت ابراہیم کی دعا کا ذکر کیا ہے کہ: رَبِّ اجْعَلْ هَـَذَا بَلَدًا آمِنًا وَارْزُقْ أَهْلَهُ (البقره، 2: 126) ’’اے میرے رب! اسے امن والا شہر بنا دے اور اس کے باشندوں کو طرح طرح کے پھلوں سے نواز‘‘۔
ایک امن والا شہر جس کی آبادی پھلے پھولے ایک متوازن اور صحت مند معاشرہ کی تشکیل کی بنیاد فراہم کرتا ہے اور ایسا معاشرہ زندہ ہوتا ہے اور ترقی کے زینے پر آگے بڑھتا ہے اور فلاح کا راستہ پاتا ہے۔ مگر فکری انقلاب اور اخلاقی بصیرت و بصارت کے بغیرکوئی بھی معاشرہ کسی بھی طرح فلاح وبہتری کا اعلیٰ نمونہ نہیں بن سکتا۔ مزید برآں یہ کہ کوئی بھی معاشرہ اس وقت تک ترقی کی منازل طے نہیں کرسکتا جب تک اس معاشرے کی وافر یا واضع اکثریت اپنی ذمے داری سمجھتے ہوئے اپنی سطح پر معاشرے کی بہتری کے لیے کردار ادا نہ کرے۔
اللہ سبحان تعالی نے قرآن مجید فرقان الحمید میں سورۃ العصر میں فرمایا ہے کہ " زمانے کی قسم۔ بیشک آدمی ضرور خسارے میں ہے۔ مگر جو ایمان لائے اور انہوں نے اچھے کام کئے اور ایک دوسرے کو حق کی تاکید کی اور ایک دوسرے کو صبر کی وصیت کی"۔ اللہ سبحان تعالی نے بالکل واضع انداز میں معاشروں ا ور قوموں کی تباہی یا ترقی کا راز بتا دیا ہے کہ (بہتے سمے؛ بھاگتے ہوئے وقت اور گول گول گھومتے گھڑیوں کی قسم؛ سب انسان خسارے میں ہیں)۔ گزری ہوئی ساری تاریخ گواہ ہے کہ انسانی تاریخ میں کون کامیاب ہوئے ہیں اور کون ناکام؟
اللہ سبحان تعالی نے اس سورۃ میں چار باتوں کا ذکر کیا ہے اور ان چاروں چیزوں پر عمل پیرا معاشرہ حقیقی کامیابی حاصل کرتا ہے۔ مگر وہ گروہِ انسان جو اللہ پر ایمان نہیں لاتے اورغیر مسلم قوم تشکیل کرتے ہیں مگر اچھے اعمال کے حامل ہوتے ہیں، اور ایک دوسرے کو حق اور سچ کے راستے پر چلنے کی تلقین کرتے ہیں اور اس کے نتیجے میں سختیوں کے عوامل پر صبر کرتے ہیں؛ وہ خسارا نہیں پاتے یعنی کامیاب ہوتے ہیں۔
ہم اگر تاریخ پر غور نہ بھی کریں اور محض آج ہی کی قوموں پر نظر ڈالیں تو یہ جان جائیں گے کہ متعدد غیر مسلم قومیں مثلا" چاپان، چین، امریکہ اور یورپ کی ممالک خوب دنیاوی ترقی پا رہی ہیں۔ اور اس کی وجہ کوئی اور نہیں صرف یہ ہے کہ انہوں نے اپنے معاشروں کو زندہ اور متحرک کر رکھا ہے۔ کسی بھی زندہ معاشرہ کی پہلی ترجیح یہی ہوتی ہے کہ وہ اپنے لوگوں کو آزاد کرتی ہے اور ان آزاد لوگوں کی فکر اور سوچ کو تازہ اور توانا رکھتی ہے۔ آزاد انسانوں کی بستی، شہر اور ملک مثالی معاشرے اور مثالی قوم کو جنم دیتا ہے۔
مثالی معاشروں میں انسان آزد ہوتے ہیں؛ اور قوانین پر عمل پیرا ہوتے ہیں یعنی صراط مستقیم پر چلتے ہیں۔ ایک مثالی معاشرے میں صراط مستقیم کا سفر عدل وانصاف پر مبنی ہوتا ہے؛ جہاں سماجی انصاف بروئے کار لایا جاتا ہےاور تمام افراد کو مکمل انسانی حقوق و مساوی مذہبی آزادی میسر ہوتی ہے۔ مثالی معاشروں میں تمام افراد کے لیے ایسے تعلیمی ادارے قائم کئے جاتے ہیں جو کا مقصدِ اولین تربیت معاشرہ اور اقتصادی ترقی ہوتی ہیں۔
یہ بات سمجھنے کی ہے کہ ایک مثالی معاشرے کے افراد کا صراط مستقیم کے سفر میں صحتمند زندگی گزارنے کے لئےان کا ذہن، جذبات / احساسات اور باہم تعلقات کا صحتمند ہونا ضروری ہوتا ہے۔ اسلام اس ضمن میں امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا نظام وضع کرتا ہے۔ قرآن کی سورۃ العصر میں "وتواصوا بالحق" و "تواصوا بالصبر" ایک دوسرے کو حق کی تلقین، اور ایک دوسرے کو ثابت قدمی کی تلقین کرنا اسی مضمون کو مزید واضع کرتا ہے۔ قرآن پوری انسانیت کے لیے پیغام ہے اور نہ صرف ان لوگوں کے لیے جو اس پر ایمان رکھتے ہیں اور اس پر عمل کرتے ہیں۔ کیونکہ اگر فرد، خاندان، معاشرہ اور ریاست کی سطح پر صراط مستقیم کی پیروی کی جائے تو اس میں کوئی شک نہیں۔ کہ وہ کامیاب ہونگے۔
آئیے ہم ایک مثال سے دیکھتے ہیں کہ کیسے کوئی قوم جو مسلمان بھی نہ ہو مگر قرآن کی تعلیمات پر عمل کرے تو پھر کیسے ترقی نہ کرے۔
سنہ 1975 میں بھارت کی وزیر اعظم اندرا گاندھی نے اپنے بیٹے اور سیاسی مشیر سنجے گاندھی کے مشورے پر ہندوستان پر ایمرجنسی لگادی تو بھارت قوم نے شدید ردعمل دکھایا ۔ اس اقدام کے دو سال بعد اندرا گاندھی انتخابات کروانے پر مجبور ہو گئیں۔ خیر مارچ 1977ء میں الیکشن ہوئے اور تمام شمالی علاقوں اور ریاستوں میں کانگریس کو شکست ہوئی. جس کانگریس نے 1971ء میں 350 سیٹیں حاصل کی تھیں اسے صرف 150 نشستیں مل سکیں..جنتا پارٹی نے 298 سیٹوں پر کامیابی حاصل کی..
جب ساری دنیا انتخابی نتائج پر حیران ہو رہی تھی تو اندرا گاندھی کے اپنے حلقے رائے بریلی کا ڈپٹی کمشنر ونود ملہوترہ [ایک ہندو] زندگی کے سب سے بڑے امتحان سے گزر رہا تھا۔ وہ اس حلقے کا ریٹرنگ افسر تھا اورمسلئہ یہ تھا کہ ایک ڈپٹی کمشنر اتنی جرات کیسے کرے کہ ملک کی وزیراعظم کے ہارنے کا اعلان کرے؟
.ڈپٹی کمشنر کو علم نہ تھا کہ ہندوستان کے دیگر حصوں سے انتخابی نتائج کیا آ رہے ہیں.. کانگریس جیت رہی ہے یا ہار رہی ہے۔
اندرا گاندھی کا پولنگ ایجنٹ ماننے کو تیار نہ تھا کہ وزیراعظم بھی ہار سکتی ہیں اس نے تین دفعہ ووٹوں کی گنتی کرائی مگر نتیجہ شکست ہی تھا۔
ڈپٹی کمشنرکے سامنے دو راستے تھے وہ نتیجہ روک لے یا پھر فوراّ اعلان کر دے.. کافی سوچ بچار کے بعد جب بیوی کے پاس گیا جو گھر کے لان میں چارپائی پر اپنے چھوٹے بیٹے کے ساتھ کھیل رہی تھی۔
اس نے بیوی کو بتایا کہ اگر اس نے اندرا گاندھی کے ہارنے کا اعلان کر دیا تو انھیں اندرا کے غیض و غضب کا سامنا کرنا پڑے گا... بہت ساری مشکلات کھڑی ہو جائیں گی.. وہ ضمنی انتخابات میں دوبارہ جیت جائے گی اور حکومت اسی کی ہی بنے گی.. ڈپٹی کمشنر کی بیوی اطمینان سے اپنے بیٹے کے ساتھ کھیلتی رہی۔ ڈپٹی کمشنر نے بیوی سے دوبارہ پوچھا کہ وہ کیا کرے تو اس کی بیوی نے شانِ بے نیازی سے کہا کہ
" جاؤ وہی کرو جو جائز ہے، ہم برتن مانجھ لیں گے مگر بے ایمانی نہیں کریں گے.." [ یہ ہے صراطِ مستقیم؛ صحیح اور غلط کا ادراک ]
ہندو ڈپٹی کمشنر نے اندرا گاندھی کی ہار کا اعلان کردیا.. یہ جرآت بیوی نے ڈپٹی کمشنر کو دی تھی۔
بھارت آج دنیا میں ایک باوقار قوم بلاوجہ ہی نہی کہلاتی۔ جب عام شہری بھی آزادی سے زندہ رہ سکتا ہے اور فیصلے کا اختیار درست سمت میں کرتا ہے تو معاشرہ مثالی بن جاتا ہے۔
قرآن کا پیغام ہر انسان کے لیے ہے؛ ہدایت بھی انسانوں کے لیے ہے اور کامیابی کا وعدہ بھی انہی انسانوں سے ہے۔ قرآن کے پیغام کے مطابق اللہ سبحان تعالی اور آقا کریم محمدﷺ پر ایمان کے ساتھ صراط مستقیم کے سفر پرچلنے والا مسلمان جنت کا حقدار ہوجاتا ہے اور دنیاوی فوائد سے بھی ہمکنار ہوتا ہے۔ غیر مسلم معاشرے قرآن کی ہدایت میں اپنا دنیاوی نظام صراط مستقیم پر قائم کرنے والےاپنی دنیا خوب چمکاتے ہیں اور مثالی معاشرہ بنانے میں کامیاب ہوتے ہیں۔ اور آج کی ترقی یافتہ دنیا اس کی زندہ مثال ہے۔