Pakistan is an agricultural country where various crops are grown through out the four seasons. The mustard or "Sarson-سرسوں" in local dialect and is a famous crop that is grown in winters for multiple uses. This write up in Urdu "سکل بن پھول رہی سرسوں" is about the crop and the beauty it spreads in various nook and corners of the human dwellings.
بِسۡمِ ٱللهِ ٱلرَّحۡمَـٰنِ ٱلرَّحِيمِ
سکل بن پھول رہی سرسوں
پاکستان ایک زرعی ملک ہے جہاں چار موسموں میں مختلف فصلیں کاشت کی جاتی ہیں۔ سرسوں جو مقامی بولی کہا جاتا ہے دنیا بھر میں " مسٹرڈ" کہا جاتا ہے اور یہ ایک مشہور فصل ہے جو سردیوں میں متعدد استعمال کے لیے اگائی جاتی ہے۔ جیسے جیسے سردیوں کا موسم ختم ہوتا ہے؛ سرسوں کے کھیت نمایاں ہونے لگتے ہیں۔ پنجاب کے کسان خوشی سے سرسوں کی بوائی کرتے ہیں۔ سرسوں کے ساگ اور مکئی کی روٹی کے ساتھ لسی کا ایک بڑا گلاس پنجاب کا مقبول پکوان ہے اور سردیوں کا ایک مزیدار تحفہ ہے۔
سرسوں کی تیزی سے نشوونما ہوتی ہے، لہذا آپ تقریباً 4 ہفتوں میں پتے چننا شروع کر سکتے ہیں۔ جب پتے 6 سے 8 انچ لمبے ہوں؛ اکیلے چھوڑ دیں، تقریباً 6 ہفتوں میں پتے اپنے 15 سے 18 انچ لمبے سائز تک پہنچ جاتے ہیں۔ سرسوں کی بہترین نشوونما اس وقت ہوتی ہے جب درجہ حرارت پچھتر ڈگری فارن ہائٹ سے زیادہ نہ ہو اور درجہ حرارت بتیس ڈگری فارن ہائٹ تک کم نہ ہو؛ جوان پودوں کو شدید نقصان پہنچاتا ہے۔
سرسوں بیشتر علاقوں میں اچھی طرح اگتی ہے، لیکن یہ سب سے زیادہ تعداد میں بیج صحت مند اچھی طرح سے نکاسی والی اور اچھی طرح سے تیار شدہ مٹی میں پیدا ہوتی ہے۔ مگر اس میں تیزابیت پی ایچ 6.0 سے کم نہ ہو۔ اگر مسلسل نمی دی جائے تو یہ پھلتا پھولتا ہے۔ سرسوں کو ٹھنڈا موسم پسند ہے۔ ہلکی ٹھنڈ ذائقہ کو بھی بہتر بنا سکتی ہے۔ پاکستان میں کنولہ [ سرسوں کی ایک قسم] اور سرسوں کی فصلوں کے لیے موزوں ماحول ہے، اور یہ پاکستان کے تمام صوبوں میں بویا جاتا ہے۔ پاکستان میں اس فصل کے بہت سے فوائد کی وجہ سے کنولہ اور سرسوں کی کاشت آبپاشی اور غیر آبپاشی والے علاقوں میں کی جاتی ہے۔
سرسوں گروپ کے ممبروں کا سب سے مشہور استعمال مصالحہ جات کے طور پر ہے، لیکن کچھ انواع تیل کے بیج کے طور پر اہم ہیں۔ پتے بڑے پیمانے پر سبزی کے طور پر استعمال ہوتے ہیں، خاص طور پر ملک کے تمام حصوں میں خاص طور پر "ساگ" کے طور پر، لیکن خاص طور پر پنجاب میں، جبکہ معتدل زراعت میں سرسوں کو سبز کھاد، ڈھانپنے والی فصلوں اور چارے کے طور پر بڑے پیمانے پر استعمال کیا جاتا ہے۔ عام طور پر سرسوں کے بیج ہماری غذا میں صحت سے متعلق فوائد کی وجہ سے ایک اچھا اضافہ ہیں۔ پیلے سرسوں کے دانے ہلکے اور مصالحہ جات کے لیے زیادہ موزوں ہوتے ہیں، جبکہ کالی سرسوں کے دانے زیادہ گرم ہوتے ہیں اور گرمی اور خوشبو کے لیے برتنوں میں شامل کیے جا سکتے ہیں۔
سرسوں کے کھیت موسم بہار میں کھلتے ہیں اور اس کے پھول پیلے رنگ کے ہوتے ہیں۔ یہ پھول بہت خوبصورت ہیں، یہ پھول ماحول کو خوشگوار بنا دیتے ہیں۔ موسمِ بہار کا جوبن اگلا مہینہ اپریل ہوتا ہے جس میں زمیں دلہن کی طرح سج جااتی ہے۔ اور شاید اسی لیے مارچ کے مہینے میں زمین خود کو پیلے رنگ میں ڈھال لیتی ہے؛ جسے ابٹن لگالیتی ہے۔ دور دور تک ہرے اور پیلے رنگ کی بسنت سج جاتی ہے۔ کیونکہ کھیت کھلیانوں میں سرسوں بھی پھولوں سے بھر جاتی ہے جو پیلے ہی رنگ کے ہوتے ہیں۔ یوں زمین میں جگہ جگہ پیلا رنگ چھا جاتا ہے۔ ہوا جب ان نرم و نازک پھولوں سے اٹھلا کر چلتی ہے، تو سرسوں کے کھیت لہلہانے لگتے ہیں، جیسے زمین پر سنہری موجوں کی لہریں تہ بہ تہ بہہ رہی ہوں۔ سرسوں سے بھینی بھینی ہلکی میٹھی خوشبو ہر طرف پھیل جاتی ہے، جو سانسوں کو تازگی بخشتی ہے؛ تو بھلا پھر تتلیاں ان پیلے پھولوں کے گرد کیسے نہ منڈلائیں؟ اور کسان خوشی خوشی اپنی رب کی دین پر مسکراتے ہیں اور شکر ادا کرتے ہیں۔
سرسوں کی فصل نہ صرف حسن و دلکشی میں بے مثال ہے بلکہ ہماری زراعت کا بھی ایک اہم حصہ ہے۔ سرسوں کے پھولوں کے اندر بیج بنتے ہیں۔ ان بیجوں سے نکالا جانے والا تیل سرسوں کا تیل کہلاتا ہے۔ سرسوں کے تیل کے بے شمار فوائد ہیں۔ سرسوں کے تیل کی خوشبو اور ذائقہ بہت فرحت بخش ہوتا ہے۔ سرسوں کا تیل اعصاب، ہڈیوں اور جوڑوں کے درد کے علاج کے لیے استعمال کیا جاتا ہے، اس کے علاوہ یہ تیل وزن کم کرنے میں بھی مددگار ثابت ہوتا ہے کیونکہ اس میں متعدد وٹامنز پائے جاتے ہیں جو جسم کی چربی پگھلانے میں مدد دیتے ہیں۔ سرسوں کا تیل مقامی طبیبوں کے ذریعہ نزلہ زکام اور انفلوئنزا کے علاج کے لیے بھی استعمال کیا جاتا ہے۔ سرسوں کے کھیت نباتات کی دنیا میں صرف ایک خوبصورت چہرہ نہیں ہیں۔ یہ ایک ورک ہارس ہے. نقدآور فصل کے طور پر، یہ کسانوں کا حلیف ہے، پائیدار کاشتکاری کے طریقوں کو تقویت دیتا ہے۔ اس کے گہرے جڑ مٹی کو توڑ دیتے ہیں، پانی اور ہوا کو اپنا کام کرنے کے لیے جگہ بناتے ہیں۔
سرسوں کی فصل ہمارے دیہاتوں کی زندگی میں حسن اور خوبصورتی کا ایک خاص نمونہ ہے۔ حسن فطرت کو دیکھنے والی آنکھ ہو تو کیسے ممکن ہے کہ انسان سنہری سرسوں کے کھیتوں کے درمیان سے گزرے تو جادوئی منظر اسے مسحور نہ کردے؟ دور تک پھیلے زرد پھولوں کی سیج سجی ہوتی ہے اور سورج کی روشنی میں ایسے دمکتی ہے جیسے مصور اعلی نے زمین پر رنگ بکھیر دیے ہوں کہ کون ہے جو دیکھے اور قدرت کی فیاضی کا قائل نہ ہو۔ سرسوں کے کھیت دیہاتوں کی زندگی کی رونق ہیں، جو ہر سال موسمِ بہار میں ایک نئی تازگی اور خوشی لے کر آتے ہیں، جیسے قدرت نے اپنی محبت کا اظہار زمین پر بکھیر دیا ہو۔
ہندوستان میں موسم بہار ایک نئی زندگی اور نئے دور کا پیامبر ہوتا ہے۔ محمد قلی قطب شاہ کے کلیات میں بسنت کے موضوع پر ۹ نظمیں درج ہیں۔ ان کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ قطب شاہیوں کے عہد حکومت میں بسنت کی تقریب پورے اہتمام اور شان وشوکت سے منائی جاتی تھی۔ محلوں کے صحن پھولوں کے انبار سے لد جاتے تھے، باغوں کے گوشوں میں بہار کی تمام رنگینیاں سمٹ آتی تھیں۔ مغل بادشاہوں کی طرح قلی قطب شاہ کا دل بھی ہندوستانی سوبھاؤ کی نرم آنچ میں گداز ہو گیا تھا۔ پھولی ہوئی سرسوں اس کے دل پر گہری چوٹ کرتی تھی اور اسے رنگ کھیلنے کی دعوت دیتی تھی۔
ناجیہ علی نے انسٹاگرام پر سرسوں کے کھیتوں کی شاندار خوبصورتی کے بارے میں لکھا۔ "سرسوں کے کھیت جنوبی ایشیاء، خاص طور پر پاکستان میں دیہی زندگی کی ایک متحرک علامت ہیں۔ جب سرسوں کے پودے پوری طرح کھلتے ہیں تو وہ سنہری پیلے پھولوں کی شاندار وسعت سے پورے کھیتوں کو ڈھانپ دیتے ہیں۔ یہ چمکدار نظارہ موسم بہار کی آمد کا مترادف ہے، اور اس کی خوبصورتی اس کی سادگی اور قدرتی طور پر نیلے آسمان کے نیچے میدانوں کے نیچے چمکدار پیلے بسنتی رنگ کی خوبصورتی میں ہے۔ ایک دلکش، تقریباً خوابوں کی طرح کا منظر پیش کرنے سے لگتا ہے کہ وہ دیہی علاقوں میں زندگی کا سانس لے رہے ہیں، ان شعبوں نے ان گنت نظموں، گانوں اور فلموں کو متاثر کیا ہے، جو کہ بہت سے لوگوں کے لیے، فطرت کے ایک گہرے تعلق کو بناتا ہے۔
محمود الرحمان بنگش ریٹائرد کموڈور ہیں اور بحریہ ٹاؤن، اسلام آباد / راولپنڈی میں رہتے ہیں اور وہ حسن فطرت سے محظوظ ہونے والی آنکھوں کے مالک ہیں اور ہماری رہائش گاہوں کے قریب پھیلے ہوئے قدرتی حسن کے مناظر میں مسحورکن دلفریبی کو محسوس کرنے والے دل کے حامل ہیں۔ فیس بک پر ان کی ٹائم لائن سے درج ذیل تاثرات ہیں:-۔
"اس شام کورنیش روڈ پر سیر کرتے ہوئے، میں نے ایک ایسا نظارہ دیکھا جس نے میری سانسیں چھین لیں — سنہری پیلے سرسوں کے پھولوں کا ایک وسیع سمندر، سوان اور کورنگ ندیوں کے سنگم پر، بحریہ فیز تین کے بالکل باہر، بے انتہا پھیل رہا ہے۔ ان کی پرسکون، خوشگوار خوبصورتی کے ساتھ زمین کی تزئین۔"
"یہ میدان، فطرت کی چمکیلی رنگت کے ساتھ زندہ ہے، لازوال امن اور پرسکون شان و شوکت کی کہانی سناتا ہے۔ غروب آفتاب کے پس منظر میں سرسوں کے پھول، نازک لیکن متحرک، دریاؤں کے بہاؤ کی تال پر سر ہلاتے نظر آتے ہیں، دنیا میں اپنی حیثیت کو منواتے ہوئے کہ اس طرح کی دنیا میں کسی بڑی چیز کے حصے کے طور پر اپنا مقام رکھتے ہیں۔ ان لمحات مین فطرت مدھم سروں میں گیت گاتی ہے مگر ہم اسے تب سن پائیں گے جب ہم کچھ دیر توقف کریں"۔
امیر خسرو ہماری زمین کے ممتاز اور مشہور صوفی شاعر ہیں؛ انہوں نے سرسوں کی خوبصورتی سے متاثرہوکر ایک نظم کہہ رکھی ہے؛ جو ذیل میں پیش کی جاتی ہے:-۔
سکل بن پھول رہی سرسوں
بن بن پھول رہی سرسوں
امبوا پھوٹے ٹیسو پھولے
کوئل بولے ڈار ڈار
اور گوری کرت سنگار
ملنیاں گڈھوا لے آئیں کر سوں
سکل بن پھول رہی سرسوں
طرح طرح کے پھول کھلائے
لے گڈھوا ہاتھن میں آئے
نجام الدین کے دروجے پر
آون کہہ گئے عاشق رنگ
اور بیت گئے برسوں
سکل بن پھول رہی سرسوں