شہادت ہے مطلوب و مقصودِ مومن : الشهادة هي الهدف المنشود للمؤمن

The Palestine-Israel Conflict is almost a hundred years old, although it intensified with establishment of Zionist Jewish State in 1948. The Gaza Jihad which completed a year on 7th October 2024 has severely affected the sentiments of the Muslims and the world is witnessing the ugliness of Zionist Jews. This write is a bilingual write up in Urdu and Arabic (شہادت ہے مطلوب و مقصودِ مومن : الشهادة هي الهدف المنشود للمؤمن) about the martyrdom of Hamas Leader Yahya Sinwar.

2024-10-19 21:09:58 - Muhammad Asif Raza

بِسۡمِ ٱللهِ ٱلرَّحۡمَـٰنِ ٱلرَّحِيمِ

 

شہادت ہے مطلوب و مقصودِ مومن

 

اللہ سبحان تعالی نے اس زمین پر اور اس پر بسنے والی مخلوقات پر اور خاص طور پر ابنِ آدم پر یہ احسان کیا کہ اپنا حبیب آنحضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو نبی آخرالزمان بنا کر مبعوث کیا۔ آقا کریمﷺ نے عملی طر پر جہاد میں حصہ لیا اور اس کی افضلیت اور اہمیت کو اجاگر کیا جس کے نتیجے میں انکے اصحاب اکرام رضوان اللہ علیھم نے انسانی تاریخ میں جہاد فی سبیل اللہ کے وہ مظاہر نقش کئے کہ رہتی دنیا تک وہ امتِ محمدﷺ کے لیے مشعل راہ بن گئے۔

 

اللہ تعالیٰ نے سورة الصف کی آیت میں ارشاد فرمایا کہ " اے ایمان والو! کیا میں تمہیں وہ تجارت بتلا دوں جو تمہیں دردناک عذاب سے بچائے؟ اللہ تعالی پر اور اس کے رسول پر ایمان لاؤ اور اللہ کی راہ میں اپنے مال اور اپنی جانوں سے جہاد کرو۔ یہ تمہارے لئے بہتر ہے اگر تم میں علم ہو"۔

 

ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریمﷺ سے کسی نے پوچھا کہ کون سا کام بہتر ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا کہ" اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لانا۔ پوچھا گیا کہ پھر اس کے بعد ؟ آپ ﷺ نے فرمایا کہ اللہ کے راستے میں جہاد کرنا۔ پھر پوچھا گیا کہ پھر اس کے بعد ؟ آپﷺ نے فرمایا حج مبرور یعنی جس حج کو اللہ نے قبول کر لیا ہو"۔

( صحیح بخاری: كتاب الحج، باب فضل الحج المبرور؛ اور صحيح مسلم )(متفق عليه)

 

سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ کا قول ہے کہ "خدا کی قسم اگر میرے پاس صرف لکڑی بھی ہو تب بھی میں تم سے جہاد کروں گا"۔ ہم جانتے ہیں کہ کیسے مولا علی رضی اللہ عنہ نے اللہ پاک کی ذات اور نام کی بڑائی کے لیے جہاد جاری رکھا؟ پھر ہم نے دیکھا کہ امام عالی مقام حضرت حسین رضی اللہ عنہ نے کیسے جہاد کو ایک نئی روح عطا کی؟

اور پھر چودہ سو سال کی تاریخ جو آج تک گذرے ہیں؛ امتِ محمدﷺ کے صفحوں میں سے ابھرنے والے مجاہدوں، غازیوں اور شہیدوں کی داستان سے بھری ہوئی ہے۔

 

پچھلے دوسو سال کی تاریخ میں مسلمان ایک عجب طور کی غلامی میں گھرے ہوئے ہیں۔ مسلمانوں کے درمیان غداروں کی فصل کچھ زیادہ ہی پھل پھولتی رہی ہے۔ خود ہماری زمین پر میر جعفر؛ میر صادق اور متعدد ننگِ ملت، ننگِ دین اور ننگ وطن نظر آتے ہیں۔ مگر ان تمام حالات کے باوجود شاعر مشرق علامہ محمد اقبال، قائد اعظم محمد علی جناح؛ سید قطب جیسے اصحاب بھی چمکتے نظر آئے ہیں۔


ایسی چنگاری بھی یا رب، اپنی خاکستر میں تھی!


مسلمان تاریخ میں پچھلے سو سال سے مسلسل کشمکش کا دور چل رہا ہے۔ فلسطین اور کشمیر مسلسل سلگ رہے ہیں اور امت کا وسیع حصہ محض تماشہ دیکھ رہا ہے۔ لیکن مجاہد ہیں کہ ہمت نہیں ہار رہے۔ ہر روز ایک مجاہد قربانی دے رہا ہے۔ پچھلے سال اکتوبر 7، 2023 کو غزہ میں حماس کے مجاہدین نے دنیا کی طاقتور فوج کے خلاف طوفان الاقصی مہم کا آغاز کیا۔ اور ہم دیکھ رہے ہیں کہ کیسے ایک خوفناک جنگ لڑی جارہی ہے؟ تاریخِ انسانیت نے اس نوع کی جنگ پہلے شاید ہی دیکھی ہو۔ ایک طرف اسرائیل کے فوج ہے جسے ساری مغربی اقوام کی سیاسی، معاشی اور فوجی مدد حاصل ہے اور دوسری طرف مبحوس اور محدود حماس مجاہدین ہیں۔

 

کل خود اسرائیل فوج نے ایک ویڈیو ریلیز کی جس نے اس جنگ کے ایک مجاہد کا تصور واضع ہوا ہے۔ ابھی محض چند ماہ پہلے ہی یحیی سنوار کو حماس کا رہنماء مقرر کیا گیا تھا۔ بزدل اسرائیلی اور مغربی دنیا نے مشہور کر رکھا ہے کہ حماس والے زمین دوز چھپے ہوئے ہیں۔ لیکن مسلمان مجاہد تو اللہ کی خاطر لڑتا ہے؛ موت اس کو زندگی سے زیادہ محبوب ہوتی ہے۔ قرآن نے تو موت کی چاہت ہی کو مومن اور کافر کے درمیان فرق کہا ہے۔ تو وقت نے دیکھا کہ جسے یہودی اور مغربی طاقتیں سرنگوں میں تلاش کرتی رہی تھیں؛ وہ مجاہدِ اسلام؛ یحیی سنوار رہنماء حماس؛ دو مجاہدین کے ساتھ رفح کی سب سے خطرناک فرنٹ لائن پر دشمنوں سے براہِ راست مقابلہ کرتا ہوا شہید ہوا۔ 


اسرائیلی میڈیا کے مطابق، ایک آئی ڈی ایف فورس نے رفح میں حماس کے 5 جنگجوؤں کو اپنے 'فرائض' انجام دیتے ہوئے دیکھا۔ پھر، اسرائیلی ٹینکوں نے ان جنگجوؤں پر گولا چلایا تو تمام جنگجو مارے گئے، سوائے ایک کے، جو یحییٰ سنور تھا۔ چنانچہ، آئی ڈی ایف نے سنوار کے ساتھ عمارت پر کندھے سے مار کرنے والا دھماکہ خیز میزائل داغا، جس سے وہ بھی ہلاک نہیں ہوا۔ اس کے بعد آئی ڈی ایف نے سنوار کی سمت ایک ایف پی وی ڈرون لانچ کیا۔ اس پر یحیی نے کھڑے ہوکر ایک لکڑی کا ٹکڑا اٹھا کر پھینکا اور ڈرون کو مارنے کی کوشش کی۔ پھر، بالآخر، 15 منٹ سے زیادہ کے بعد، یہ ایک آئی ڈی ایف فورس سنائپر تھا جس نے یحییٰ سنور کے سر میں اس وقت گولی مار دی جب وہ ڈرون سے منسلک ہوتے ہوئے کور سے باہر تھے۔ یہ تصاویر میں نظر آنے والے گولی کے زخم کی وضاحت کرتا ہے۔ ایک مسلم مجاہد کے ورثے کی لاج رکھتے ہوئے، وہ آخری دم تک لڑتا رہا۔ اس نے ایمان کو تازہ رکھا اور متاع الغرور کو ٹھکرا دیا۔ 

اے راہِ حق کے شہیدو ، وفا کی تصویرو!

تمہیں امت کی مائیں بہنیں سلام کہتی ہیں

گئے ہو ایسے شہادت کا جام پی کر تم

رسول ِپاکؐ نے بانہوں میں لے لیا ہو گا

علیؓ تمہاری شجاعت پہ جھومتے ہوں گے

حسینِ پاکؓ نے ارشاد یہ کیا ہو گا

تمہیں خدا کی رضائیں سلام کہتی ہیں


یحیی سنوار، اسماعیل ہانیہ کے بعد دوسرے حماس رہنماء ہیں جنہوں نے یہودی اسرائیل کے ہاتھوں شہادت پائی ہے۔ حماس شہید شیخ احمد یاسین کی بنائی تنظیم ہے جنہوں نے تمام تر مجبوریوں اور سختیوں کے باوجود فلسطین کے مجبور اور محصور مسلماںوں کو مزاحمت کی تعلیم دی؛ انکو جہاد فی سبیل اللہ کی اہمیت اور افضیلیت کی ترغیب دی۔ اور ساری مسلم دنیا کے سیاسی اشرافیہ کے غداروں کو اپنی جان کی قربانی دے کر ثابت کیا جسے قرآن میں یوں کہا گیا ہے

اور بعض لوگ ایسے ہیں جو کہتے ہیں کہ ہم خدا پر اور روزِ آخرت پر ایمان رکھتے ہیں حالانکہ وہ ایمان نہیں رکھتے " سُورَةُ البَقَرَةِ آیت 8۔

 

یحیی سنوار، اسماعیل ہانیہ اور شیخ احمد یاسین نے جان کی قربانی دے کر شہیدوں کی مسلم تاریخ کی لاج رکھی اور ثابت کیا کہ یہ شیروں کی امت ہے۔ انہوں نے خود کو محمدِ عربیﷺ کے غلاموں کی امت میں ممتاز کیا ہے۔ غزہ مجاہدین ثابت کررہے ہیں کہ کیسے متاع الغرور اور حیاتِ ارضی کا ناقص پن مجاہد کو دل کو دو عالم سے بیگانہ کرتی ہے۔ بقول اقبال "عجب چیز ہے لذّتِ آشنائی"؛ تو یہ لذتِ آشنائی کیا ہے؟ یہ موت، کیسے زندگی سے زیادہ محبوب ہوجاتی ہے؟

 

جہاد کرنے والے تو اپنا فرض ادا کررہے ہیں مگر باقی کی امت کیا کررہی ہے؟ وہ کس شے کی چاہت میں گرفتار ہے؟ وہ کس امید کی تلاش میں ہے؟ وہ کس آس میں جی رہے ہیں؟ اے امتِ نبی رحمت اور خاتم النبیینﷺ ہم کس منہ سے کل شفاعت کی امید رکھتے ہیں جب ہم دیکھتے ہیں کہ ہمارے معصوم بھائی اور بہنیں کشمیر اور فلسطین میں دینِ اسلام کے دشمنوں کے ہاتھوں میں تکلیف دہ ندگی گزار رہے ہیں؟ آخر ہم کب بیدار ہونگے؟ مسلمان تاریخ نے اپنے غداروں سے زیادہ تر رحم سے کام لیا ہے؛ مگر کب تک؟ کیا اب وقت نہیں آگیا کہ ہم اپنے غداروں کو سبق سکھانا شروع کریں کہ اس کے بغیر ہماری صفحوں سے ان کی صحیح بیخ کنی نہیں ہوسکے گی؟

 


یہاں مندرجہ ذیل میں ترجمے کے ساتھ عبد اللہ بن مبارک کے وہ مشہور کلمات پیش کئے جاتے ہیں؛ جو انہوں نے میدان کارزار سے فضیل بن عیاض کو لکھ کر ارسال کیے تھے 


یَا عَابِدَ الْحَرَمَیْنِ لَوْ اَبْصَرْتَنَا

اے حرمین شریفین کے عابد! اگر آپ ہم مجاہدین کو دیکھ لیں،

لَعَلِمْتَ اَنَّکَ فِی الْعِبَادَۃِ تَلْعَبُ

تو آپ جا ن لیں گے کہ آپ تو عبادت کے ساتھ کھیل رہے ہیں۔

۔

مَنْ کَانَ یَخْضِبُ خَدَّہُ بِدُمُوْعِہِ

اگر آپ کے آنسو آپ کے رخساروں کو تر کرتے ہیں ،

فَنُحُوْرُنَا بِدِمَائِنَا تَتَخَضَّبُ

تو ہماری گردنیں ہمارے خون سے رنگین ہوتی ہیں۔

۔

اَوَ کَانَ یَتْعَبُ خَیْلُہُ فِیْ بَاطِلٍ

اور لوگوں کے گھوڑے فضول کاموں میں تھکتے ہیں ،

فَخُیُوْلُنَا یَوْمَ الصَّبِیْحَۃِ تَتْعَبُ

مگر ہمارے گھوڑے تو حملے کے دن تھکتے ہیں ۔

۔

رِیْحُ الْعَبیْرِ لَکُمْ وَنَحْنُ عَبِیْرُنَا

عنبر وزعفران کی خوشبو آپ کو مبارک ہو ،جبکہ ہماری خوشبو تو

رَھْجُ السَّنَابِکِ وَالْغُبَارُ الْاَ طْیَبُ

گھوڑے کے کھروں سے اڑنے والی مٹی اوراﷲ تعالیٰ کے راستے کاپاک غبار ہے۔

۔

وَلَقَدْ اَتَانَا مِن مَّقَالِ نَبِییِّنَا

ہم آپکو اپنے نبی صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کا ایک فرمان سناتے ہیں،

قَوْلُ، صَحِیْحٌُ صَادِقٌُ لَایَکْذِبُ

ایسا فرمان جو بلاشبہ درست اور سچا ہے۔

۔

لَا یَسْتَوِیْ غُبَارُ خَیْلِ اﷲِ فِی

جمع نہیں ہوسکتی، اﷲتعالیٰ کے راستے کی مٹی

اَنْفِ امْرِیٍ وَدُخَانُ نَارٍتَلْھَبُ

اور جہنم کی بھڑکتی آگ کسی شخص کی ناک میں ۔

۔

ھَذَا کِتَابُ اﷲِ یَنْطِقُ بَیْنَنَا

یہ اﷲتعالیٰ کی کتاب ہمارے درمیان اعلان فرمارہی ہے کہ

لَیْسَ الشَّھِےْدُ بِمَیِّتٍ لَایَکْذِبُ

شہید مردہ نہیں ہوتا ،یہ فرمان بلاشبہ سچا ہے۔

الشهادة هي الهدف المنشود للمؤمن

بِسۡمِ ٱللهِ ٱلرَّحۡمَـٰنِ ٱلرَّحِيمِ 

 

لقد أنعم الله سبحانه وتعالى على هذه الأرض وعلى الكائنات التي تعيش عليها، وخاصة على ابن آدم، بإرسال حبيبه محمد (صلى الله عليه وسلم) نبي آخر الزمان. وقد شارك الرسول الكريم صلى الله عليه وسلم في الجهاد بشكل عملي وأبرز تفوقه وأهميته، ولذلك نحت أصحابه الكرام صلى الله عليه وسلم تلك المظاهر الجهاد في سبيل الله في تاريخ البشرية، وأنهم سيكونون جزءاً من أمة محمد (ص) حتى نهاية العالم، فأصبحوا منارة.

 

قال الله تعالى في آية سورة الصف:

"یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا هَلْ اَدُلُّكُمْ عَلٰى تِجَارَةٍ تُنْجِیْكُمْ مِّنْ عَذَابٍ اَلِیْمٍ(10)تُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰهِ وَ رَسُوْلِهٖ وَ تُجَاهِدُوْنَ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰهِ بِاَمْوَالِكُمْ وَ اَنْفُسِكُمْؕ-ذٰلِكُمْ خَیْرٌ لَّكُمْ اِنْ كُنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ(11)


عن أبي هريرة (رضي الله عنه) أن رجلا سأل النبي (ص) أي العمل أفضل؟ قال النبي صلى الله عليه وسلم: «إيمان بالله ورسوله»، قيل: ثم بعد ذلك؟ قال: «الجهاد في سبيل الله».

(صحيح البخاري: كتاب الحج، باب فضل الحج المبرور، وصحيح مسلم) (متفق عليه).

 

فقال سيدنا عمر الفاروق رضي الله عنه: والله لو لم يكن لي إلا حطبا لقاتلتك. نحن نعلم كيف واصل المولى علي (رضي الله عنه) الجهاد من أجل تمجيد اسم الله وصفاته. ثم رأينا كيف أعطى الإمام الحسين روحاً جديدة للجهاد.

ثم تاريخ ألف وأربعمائة سنة مضت حتى اليوم؛ الأمة مليئة بقصص المجاهدين والغازات والشهداء الخارجة من صفحات محمد.

 

في تاريخ المائتي سنة الماضية، تم استعباد المسلمين بطريقة غريبة. لقد ازدهر محصول الخونة بين المسلمين أكثر قليلاً. مير جعفر نفسه على أرضنا؛ يُنظر إلى مير صادق والعديد من الأشخاص الآخرين على أنهم نينغ آي ميلات ونينغ آي دين ونينغ وطن. ولكن رغم كل هذه الأحوال فإن شاعر المشرق العلامة محمد إقبال القائد الأعظم محمد علي جناح؛ كما يُرى رفاق مثل سيد قطب متألقين.

 

مثل هذه الشرارة، يا رب، كانت في رماده!

 

لقد كانت هناك فترة من الصراع المستمر في تاريخ المسلمين خلال المائة عام الماضية. إن فلسطين وكشمير تحترقان باستمرار، وجزء كبير من الأمة يشاهد المشهد فحسب. لكن المجاهدين لن يستسلموا. كل يوم يضحي مجاهد. في العام الماضي، في 7 أكتوبر 2023، أطلق مجاهدو حماس في غزة حملة اقتحام الأقصى ضد أقوى جيش في العالم. ونرى كيف يتم خوض حرب رهيبة؟ لم يشهد تاريخ البشرية حربًا من هذا النوع من قبل. فمن ناحية، هناك الجيش الإسرائيلي، الذي يحظى بدعم سياسي واقتصادي وعسكري من جميع الدول الغربية، ومن ناحية أخرى، مجاهدو حماس المرتبكون والمحدودون.

 

بالأمس، أصدر الجيش الإسرائيلي نفسه مقطع فيديو يصور مفهوم مجاهد هذه الحرب. قبل بضعة أشهر فقط، تم تعيين يحيى السنوار زعيما لحركة حماس. لقد أعلن الإسرائيليون الجبناء والعالم الغربي أن إرهابيي حماس يختبئون. ولكن المجاهد المسلم يقاتل في سبيل الله؛ الموت أحب إليه من الحياة. وقد ذكر القرآن أن رغبة الموت هي الفرق بين المؤمن والكافر. وهكذا رأى الزمن ما كانت تبحث عنه القوى اليهودية والغربية في الأنفاق؛


وبحسب وسائل الإعلام الإسرائيلية، شاهدت قوة من جيش الدفاع الإسرائيلي خمسة مقاتلين من حماس يقومون بـ "واجبهم" في رفح. وبعد ذلك فتحت الدبابات الإسرائيلية النار على المقاتلين، مما أدى إلى مقتلهم باستثناء واحد وهو يحيى السنوار. ولذلك، أطلق الجيش الإسرائيلي صاروخاً متفجراً محمولاً على الكتف على المبنى الذي يضم السنوار، ولكنه لم يقتله أيضاً. ثم أطلق الجيش الإسرائيلي طائرة بدون طيار من طراز FPV باتجاه السنوار. وعلى ذلك وقف يحيى وألقى قطعة خشب وحاول قتل الطائرة بدون طيار. وأخيراً، بعد أكثر من 15 دقيقة، أطلق قناص من قوات الجيش الإسرائيلي النار على يحيى سنور في رأسه بينما كان خارج الغطاء أثناء الاشتباك مع الطائرة بدون طيار. وهذا ما يفسر جرح الرصاصة الذي يظهر في الصور. يحمل تراث مجاهد مسلم، قاتل حتى النهاية. لقد حافظ على الإيمان طازجًا ورفض الجشع.

يا شهداء الصراط، يا صور الوفاء!

أمهات وأخوات الأمة يسلمون عليكم

لقد ذهبت لشرب مربى هذا الاستشهاد

وربما أخذها النبي الكريم بين ذراعيه

قد يتأثر علي بشجاعتك

ربما قال حسين باك هذا

بارك الله فيكم


إنه مجاهد الإسلام؛ ويحيى السنوار، زعيم حماس؛ استشهد مع اثنين من المجاهدين في قتال مباشر مع العدو على أخطر جبهة في رفح. ويحيى السنوار هو ثاني قيادي في حماس، بعد إسماعيل هنية، يستشهد على يد إسرائيل.

حماس هي منظمة أنشأها الشهيد الشيخ أحمد ياسين، الذي علم المقاومة لمسلمي فلسطين المستضعفين والمحاصرين رغم كل المعوقات والمصاعب؛ وشجعهم على أهمية وفضل الجهاد في سبيل الله. وقد أثبت ذلك بالتضحية بحياته لخونة النخبة السياسية في العالم الإسلامي بأكمله، وهو ما جاء في القرآن.

وَ مِنَ النَّاسِ مَنْ یَّقُوْلُ اٰمَنَّا بِاللّٰهِ وَ بِالْیَوْمِ الْاٰخِرِ وَ مَا هُمْ بِمُؤْمِنِیْنَ سُورَةُ البَقَرَةِ آیت 8۔۔

 قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «لا يجتمع غبار المتطاير في سبيل الله ودخان جهنم في بطن عبد أبدا، ولا يجتمع البخل والإيمان أبدا» في قلب العبد." المؤنث 3112، 3113، 3114


يحيى السنوار وإسماعيل هنية والشيخ أحمد ياسين ضحوا بحياتهم ليسجلوا رقم الشهداء في تاريخ المسلمين ويثبتوا أن هذه أمة الأسود. وتميز بين أمة عبيد محمد العربي (صلى الله عليه وسلم). مجاهدو غزة يثبتون كيف أن الانغماس في الذات وعدم كمال الحياة الأرضية ينفر قلب المجاهدين من العالمين. وبحسب إقبال: "الشيء الرائع هو متعة الألفة". إذن ما هذه المعرفة؟ وكيف يكون هذا الموت أحب إلى الحياة؟

 

إن الذين يجاهدون يقومون بواجبهم، فماذا تفعل بقية الأمة؟ ما هو في الحب مع؟ ما هو الأمل الذي يبحث عنه؟ في أي حي يعيشون؟ يا أمة نبي الرحمة وخاتم النبيين صلى الله عليه وسلم، ممن نرجو الشفاعة غدا عندما نرى إخواننا وأخواتنا الأبرياء يعانون بشدة على أيدي أعداء دين الإسلام فيهم؟ كشمير وفلسطين؟ متى سنستيقظ أخيرًا؟ لقد كان التاريخ الإسلامي في الغالب لطيفًا مع خونةه؛ ولكن إلى متى؟ ألم يحن الوقت لأن نبدأ في تلقين خونةنا درسا بدونه لن يتم طردهم بشكل صحيح من صفحاتنا؟


More Posts