Sea-Fever by John Masefield : "سمندر کی ٹرپ"
John Masefield was a British poet and an experienced merchant sea man. He published a book "Salt-Water Ballads" which contained a poem "Sea-Fever." Poem "Sea Fever" is a lyrical and evocative poem that vividly describes the allure and the call of the sea. This write up is to discuss about this poem and share its translation in Urdu for the readers of Bangbox Online.
2024-12-23 18:54:33 - Muhammad Asif Raza
Sea-Fever by John Masefield
John Masefield was a British poet and an experienced merchant sea man. He published a book "Salt-Water Ballads" in 1902; which was a collection of poems based on themes of seafaring and maritime history. It contained a poem "Sea-Fever" which proved to be one of the most famous poems known for its urge and love for nature. The poetry speaks about a person who talks about his never-ending love for the sea.
Poem "Sea Fever" is a lyrical and evocative poem that vividly describes the allure and the call of the sea. The central theme of the poem is the deep, irresistible longing for the sea and the adventurous spirit of a mariner. Much of Masefield's writing is inspired by his early experiences as a merchant seaman. In this poem, the poet described his life at sea.
He yearns to return to the ocean, sailing a tall ship guided by the stars. The poem describes the sensory experiences of sailing: the movement of the ship, the sound of the wind, and the sight of the sails. Here the sea may be represented by the divine or the spiritual in Whitman's poetry, the land may represent the natural world, and the shoreline can become a meeting point between the two worlds and thus an appropriate location for spiritual perception and poetic inspiration.
Here it is important to note that the poet John Masefield lived at a time when the British Crown ruled the seas and consequently the World as well. The British Nation took to seas as their natural habitat and enjoyed to sail to unknown destinations and thus they fomented a historical rule of Britain. The Sea advocates and offers freedom and living with Nature in an un-natural way for humans. Those who master sea living, reap the fruits and bounties of vast Oceans, which is freedom and alignment with nature's biggest resources of the Earth.
The poem “Sea Fever” offers that feelings about living life on one's own terms. The poet reflects seafaring as a life of complete freedom; a ship allows him to go wherever, he pleases and never be tied down to one place. The Sea offers an adventurous life, which could be taken literally as the sea gives a sense of freedom as well as metaphorically where an individual or even a Nation yearns for an unrestricted life or life of king who directs others' actions as per his wishes. The British Empire ruled the world because of the fact that her country men once were the master mariners and they had built ships from Tall Ships to modern steel ships comprising battle ships, destroyers, frigates, aircraft carries and sub marines. They were the real part of a proud marine nations. Any Nation that cultures a marine legacy with crazy men of war, longing sea fever will rule the world.
Let's now read "Sea-Fever" by John Masefield in the following:-
I must go down to the seas again, to the lonely sea and the sky,
And all I ask is a tall ship and a star to steer her by,
And the wheel's kick and the wind's song and the white sail's shaking,
And a grey mist on the sea's face, and a gray dawn breaking
I must go down to the seas again, for the call of the running tide
Is a wild call and a clear call that may not be denied;
And all I ask is a windy day with the white clouds flying,
And the flung spray and the blown spume, and the sea-gulls crying.
I must go down to the seas again, to the vagrant gypsy life,
To the gull's way and the whale's way where the wind's like a whetted knife;
And all I ask is a merry yarn from a laughing fellow-rover
And quiet sleep and a sweet dream when the long trick's over.
جان میس فیلڈ کی نظم "سمندر کی ٹرپ"؛
جان میسفیلڈ ایک برطانوی شاعر اور ایک تجربہ کار مرچنٹ سی مین تھا۔ انہوں نے 1902 میں ایک کتاب "سالٹ واٹر بیلڈز" شائع کی۔ جو سمندری سفر اور سمندری تاریخ کے موضوعات پر مبنی نظموں کا مجموعہ تھا۔ اس میں ایک نظم "سی فیور" تھی جو سب سے مشہور نظموں میں سے ایک ثابت ہوئی اور وہ نظم فطرت سے اپنی خواہش اور محبت کے لیے مشہور ہے۔ اس میں شاعری ایک ایسے شخص کے بارے میں بات کرتی ہے جو سمندر سے اپنی کبھی نہ ختم ہونے والی محبت کے بارے میں بات کرتا ہے۔
نظم "سی فیور" ایک گیت اور اشتعال انگیز نظم ہے جو سمندر کی رغبت اور پکار کو واضح طور پر بیان کرتی ہے۔ نظم کا مرکزی موضوع سمندر کے لیے گہری، اٹل خواہش اور ایک سمندری مہم جو کی مہم جوئی کا جذبہ ہے۔ میسفیلڈ کی زیادہ تر تحریریں بطور مرچنٹ سیمین ان کے تجربات سے متاثر ہیں۔ اس نظم میں شاعر نے سمندر میں اپنی زندگی کو بیان کیا ہے۔
وہ ستاروں کی رہنمائی میں ایک بڑے بادبانی بحری جہاز پر سفر کرتے ہوئے سمندر میں واپس جانے کی خواہش رکھتا ہے۔ نظم جہاز رانی کے ساتھ جزباتی تجربات کو بیان کرتی ہے؛ جیسا کہ جہاز کی حرکت، ہوا کی آواز، اور بادبانوں کا نظارہ۔ یہاں شاعر کی مراد "سمندر" سے وہی ہوسکتی ہے جیسا کہ شاعر "وہٹ مین" کی شاعری میں خدائی یا روحانی تعلق کی نمائندگی بیان کی گئی ہے۔ اور زمین اس فانی قدرتی دنیا کی نمائندگی کر سکتی ہے، اور ساحل دونوں جہانوں کے درمیان ملاقات کا مقام بن سکتا ہے اور اس طرح سمندر اور ساحل روحانی ادراک اور شاعرانہ الہام کے لیے ایک مناسب مقام کہلا سکتا ہے۔
یہاں یہ بتانا ضروری ہے کہ شاعر جان میسفیلڈ ایک ایسے وقت میں زندہ تھے جب برطانوی قوم سمندروں اور اس کے نتیجے میں دنیا پر بھی حکومت کرتی تھی۔ برطانوی قوم نے سمندروں کو اپنے قدرتی مسکن کے طور پر اپنا رکھا تھا اور نامعلوم منزلوں پر سفر کرنے کا لطف اٹھایا اور اس طرح انہوں نے برطانیہ کی ایک تاریخی حکمرانی کو فروغ دیا۔ سمندر انسانوں کے لیے غیر فطری طریقے سے آزادی اور فطرت کے ساتھ رہنے کی وکالت کرتا ہے اور اس کا جواز پیش کرتا ہے۔ جو لوگ سمندری زندگی پر مہارت رکھتے ہیں، وہ بیکراں سمندروں کے ثمرات اور نعمتیں حاصل کرتے ہیں، جو کہ زمین کے فطرت کے سب سے بڑے وسائل کے ساتھ آزادی کے ساتھ صف بندی سکھاتا ہے۔
نظم "سمندری بخار" اپنی شرائط پر زندگی گزارنے کے احساسات پیش کرتی ہے۔ شاعر سمندری سفر کو مکمل آزادی کی زندگی کے طور پر ظاہر کرتا ہے۔ ایک جہاز اسے اجازت دیتا ہے کہ وہ جہاں چاہے جائے اور کبھی بھی ایک جگہ پر بندھے نہ رہے۔ سمندر ایک مہم جوئی کی زندگی پیش کرتا ہے، جسے لفظی طور پر لیا جا سکتا ہے کیونکہ سمندر آزادی کا احساس دیتا ہے اور استعاراتی طور پر بھی جہاں ایک فرد یا یہاں تک کہ ایک قوم ایک غیر محدود زندگی یا بادشاہ کی زندگی کے لیے ترستی ہے۔ جو دوسروں کے اعمال کو اپنی خواہشات کے مطابق ہدایت کرتا ہے۔ برطانوی سلطنت نے دنیا پر اس حقیقت کی وجہ سے حکمرانی کی کہ اس کے ملک کے آدمی کبھی بہترین ملاح / ماسٹر میرینرز تھے اور انہوں نے بڑے بادبانی بحری جہازوں سے لے کر جدید اسٹیل کے بحری جہاز بنائے تھے؛ جن میں جنگی بحری جہاز، ڈسٹرائر، فریگیٹس، ہوائی جہاز اور سب میرینز شامل تھے۔ وہ ایک قابل فخر سمندری اقوام کا حقیقی حصہ تھے۔ کوئی بھی قوم جو سمندری جنگ کے لیے تیار جری مردوں کی پرورش کرتی ہے وہ حقیقی سمندری وراثت کی ثقافت کی نمائندہ بن کر ابھرتی ہے؛ ایسے میں ان کے دلوں میں سمندر کی ٹرپ پوری دنیا پر راج کراتی ہے۔
آئیے اب ذیل میں جان میس فیلڈ کی نظم کا ترجمہ "سمندر کی ٹرپ" پڑھتے ہیں۔
مجھے سمندروں میں دوبارہ جانا ہے، وہاں سمندر اور آسمان تنہا ہیں؛
اور مجھے صرف ایک بڑا بادبانی جہاز اور ایک ستارہ اسے چلانے کو چاہیے؛
اور پتوار کے چکے کا زور؛ ہوا کا گیت اور سفید بادبان کا لہرانا؛
اور سمندری سطح پر دور تک پھیلی سرمئی دھند، اور ایک گیلی صبح کا آغاز ہوتا ہے۔
مجھے دوبارہ سمندروں میں جانا ہے کہ بہتی لہریں مجھے پکارتی ہیں؛
جو ایک جنگھاڑ ہے؛ ایک واضع پکار ہے؛ جس کا انکار نہیں کیا جا سکتا؛
اور میں صرف ایک سرسراساتی ہوا کا دن مانگتا ہوں اور آسمان پرسفید بادل تیرتے ہوں؛
اور اُڑ کر پھیلتی پھوار اور بکھرتا پانی کا جھاگ اور کراہتی سمندری فاختائیں۔
مجھے پھر سے سمندروں میں جانا ہے، آوارہ خانہ بدوش زندگی ہے جو؛
سمندری فاختاوں کے راہ پر اور وہیل مچھلی کی راہ پر؛ جہاں ہوا چھری کی تیز دھار کی مانند کاٹتی ہے؛
اور مجھے ایک ہنس مکھ آوارہ ساتھی چاہیے جو اچھی خوشگوار کہانیاں سنا سکے؛
اور پرسکون نیند اور ایک سہانا خواب، جب لمبا سفر ختم ہو جائے۔