برِ صغیرِ ہند و پاک میں ساؤن اور بھادوں کے مہینے میں بارشیں بہت ہوتی ہیں اور جس کی وجہ مْون سْون کی فطری موسمی ہوائیں ہیں جو خلیج بنگال سے اٹھتی ہیں اور سارے برصغیر پر بادلوں کو پھیلا دیتی ہیں۔ بارشیں ہاڑ یعنی جون اور جولائی کی شدید گرمی کے بعد گرمی کا زور توڑ دیتی ہیں اسی لیے بھادوں کو اچھے موسم والا مہینہ تصور کیا جاتا ہے۔ اس مہینہ کا پورا چاند رومانیویت پسندوں کو بہت بھاتا ہے۔ یہ تحریر اسی سے متعلق ہے
ساون بھادوں کے چودھویں شب کا ماہتاب
برِ صغیرِ ہند و پاک میں ساؤن اور بھادوں بارشوں کے مہینے ہیں جس میں مْون سْون کی بارشیں ہاڑ یعنی جون اور جولائی کی شدید گرمی کے بعد گرمی کا زور توڑ دیتی ہیں اسی لیے بھادوں کو اچھے موسم والا مہینہ تصور کیا جاتا ہے۔ شاید اس کی وجہ گرمی کا قابل برداشت ہونا جانا ہے۔
ساون کے موسم کو رومانویت سے منسوب کیا جاتا ہے۔ روایات کے مطابق پرانے زمانوں میں ساون کے موسم کو ایک رسم کے طور پر منایا جاتا تھا؛ ایسے ہی جیسے بیساکھی کے میلوں کی رسم منائِ جاتی تھی۔ لڑکیاں جھولے جھولتی اور بڑی بوڑھیاں گھروں میں خصوصی پکوانوں کا اہتمام کرتی تھیں۔ شاعر اس موسم پر خصوصی گیت لکھتے جو بڑے بڑے گائیک گاتے اور مقبولیت کی انتہاووں کو چھوتے۔ اسی موسم میں اکبر علی خان اور تان سین جیسے کلاسیکل گلوکاروں نے راگ ملہار، راگ میگھ یا میا کے راگ اس انداز سے گائے کہ امر ہو گئے۔
زمین پر تمام مخلوقات ساون کے مہینے میں زیوروں سے لد جاتی ہیں؛ اور فطرت کا تقاضہ ہے کہ بہت شوق سے؛ کچھ چاؤ سے؛ فطرت کی عنایات کو ایک دوسرے کو اپنے اپنے زیور دکھائے جائیں۔ لڑکیاں بالیاں، دلہنیں، شوہر والیاں، یہاں تک کہ بڑی عمر والیاں بھی ہاتھوں میں مہندیاں رچاتی ہیں۔ پھولوں کے گہنے سر اور گلے کو زینت دیے ہوئے ہیں۔ نازک نازک پنڈے عطر کی خوشبوؤں سے مہک رہے ہیں۔ سہاگنوں میں ذکر، میاں کی چاہ پیار کا ہو رہا ہے اور کہیں تذکرے سسرال کی نازبرداریوں کے ہو رہے ہیں۔ کنواروں میں ایک دوسروں پر فقرے کسے جا رہے ہیں، قہقہوں کا غل ہے، رنگ رلیاں منائی جارہی ہیں۔ ادھر ایک بیچارا، ہجر کا مارا ہے اور ساون برس رہا ہو اور سر پر پورا چاند چمک رہا ہو تو اس کے دل کے ارمان کیسا کیسا طوفان اٹھاتے ہونگے؟ اس کا قلب امنگوں سے، حوصلوں سے، ولولوں سے کھیلتا ہوگا کہ نہیں؟
ذیل میں کچھ اشعار اور آخر میں ایک نظم آپ کے نذر:-
حالات کے کالے بادل نے
مرے چھت کے چاند کو گھیر لیا
رفیق خیال
ہر ایک رات کو مہتاب دیکھنے کے لیے
میں جاگتا ہوں ترا خواب دیکھنے کے لیے
اظہر عنایتی
عشق کے شعلے کو بھڑکاؤ کہ کچھ رات کٹے
دل کے انگارے کو دہکاؤ کہ کچھ رات کٹے
مخدومؔ محی الدین
مری نظر میں وہی موہنی سی مورت ہے
یہ رات ہجر کی ہے پھر بھی خوبصورت ہے
خلیل الرحمن اعظمی
اتنے گھنے بادل کے پیچھے
کتنا تنہا ہوگا چاند
پروین شاکر
بزم خیال میں ترے حسن کی شمع جل گئی
درد کا چاند بجھ گیا ہجر کی رات ڈھل گئی
فیض احمد فیض
احمد راہی کہتے ہیں:
ساون بھادوں نیناں میرے
تم بن برسیں شام سویرے
جب سے تم پردیس سدھارے
روٹھ گئے نظروں سے نظارے
سونے ہو گئے پیار بسیرے
ساون بھادوں نیناں میرے
رات کا استعارہ شاعری میں معنیاتی لحاظ سے بہت متنوع اور پھیلا ہوا ہے ۔ مگر اس رات کا کیا ذکر جب آسمان پر چودھویں کا چاند تمتما رہا ہو؟ اور اس پر دو آتشہ وہ رات جو ساون بھادوں کے مہینے میں آئے اور کہیں بادلوں میں سے پورا چاند نکل آئے۔ اس عاشق کے حالات اور جزبات کیا ہونگے جو ساون میں ہجر کا مارا ہو اور برستا ساون اسے پورا چاند دکھادے۔ جناب حسنین اصغر کی کاوش پیش خدمت ہے
یہ چودھویں شب کا ماہتاب؛ اور قدرت کے دلنشیں مناظر
چودھویں شب کا درخشندہ ماہتاب تھا
قمرین اپنی تمام تر لطافت و نفاست کے
ساتھ ارض پر منتشر ہو رہی تھی
کل باغ چاندنی کی سحر انگیز تجلیات میں مستغرق تھا
نسیم میں عنبریں کی مسحور کن عطر بیزی تھی
اور طیور کی خفیف چہچہاہٹ شب کو مزید
روح پرور بنا رہی تھی
۔۔۔۔۔
اشجار کے ظلال بھی منور تھے
پتوں پر قمر کی لطیف ضیاء کا انعکاس
یوں محسوس ہو رہا تھا جیسے کہکشاں ارض
پر نزول فرما چکی ہو
نہر کا آب بھی قمرین میں تاباں تھا
گویا ماہتاب نے اپنا حسن اس میں بھی مندمج کر دیا ہو
دور کہیں سے عندلیب کی مترنم صدا گونج رہی تھی
اور کوئل کی سریلی نوا دلوں میں عشق کی لہریں
بپا کر رہی تھی
۔۔۔۔۔۔۔
نسیم کی سرسراہٹ اشجار کے پتوں میں
نرم سرگوشیاں کر رہی تھی
جبال کی رفعتیں چاندنی کی شعاعوں
سے مزید دلکش نظر آ رہی تھیں
بارش کی لطیف بوندیں ارض کو معطر کر رہی تھیں
کھڑکی سے ٹکراتی بوندوں کی خفیف
نوا میں ایک شیریں سُر تھا
نسیم میں لہراتے گیسو شب کے سکون کو
اور بھی ژرف کر رہے تھے
۔۔۔۔۔۔
گلوں کی مہک اور ماہتاب کی شعاعیں
ایک دلکش منظر تخلیق کر رہی تھیں
فلک کا ماہتاب اور دل کی روشنی
ایک دوسرے سے ہم آہنگ ہو کر
یوں محسوس ہوتا تھا جیسے
اس حسین لمحے کی کوئی انتہا نہ ہو
ابر کا ہلکا سا سایہ بھی
اس منظر کو مزید دلکش بنا رہا تھا
۔۔۔۔۔
ہر سانس، ہر دھڑکن
اس عشق کی ضیاء میں محو تھی
ماہتاب کی کرنیں میرے دل کو چھو رہی تھی
اور میں خودمیں مستغرق ہو گئے تھا
نسیم کے نرم جھونکے
اشجار کے پتوں میں سرسراہٹ پیدا کر رہے تھے
گویا فطرت خود بھی محبت کی نغمگی کر رہی ہو
۔۔۔۔۔۔
یہ چودھویں شب کا ماہتاب
اور قدرت کے دلنشیں مناظر
یہ تحریر آزاد ویب نیٹ پر موجود مختلف ذرائع سے دستیاب مواد کی مدد سے مرتب کی گئی تاکہ بینگ باکس کے قارئین لطف اندوز ہوسکیں۔