ساون بھادوں؛ ملن یا دکھ کا موسم؟
جولائی اگست میں وارد ہونے والا ہماری زمین کا موسم ساون اور بھادوں ہے۔ سکھوں کے بابا گُرو نانک نے "گُرو گرنتھ صاحب" میں لکھا ہے کہ " بھادوں بارش کا مہینہ انتہائی خوبصورت مہینہ ہے اور ساؤن اور بھادوں رحمت والے مہینے ہیں"۔ ساون بھادوں کا موسم اپنے اندر حزن و ملال اور رجائیت دونوں جہات رکھتا ہے۔ یہ تحریر اس موسم کی رنگینی کو واضع کرنے کے لیے لکھی گئی ہے۔
2024-08-17 18:15:04 - Muhammad Asif Raza
بِسۡمِ ٱللهِ ٱلرَّحۡمَـٰنِ ٱلرَّحِيمِ
ساون بھادوں؛ ملن یا دکھ کا موسم
جولائی اگست میں وارد ہونے والا ہماری زمین کا موسم ساون اور بھادوں ہے۔ دیسی کیلنڈر کا آغاز 100 قبل مسیح میں اُس وقت کے ہندوستان کے بادشاہ راجہ بکرم اجیت کے دور میں ہوا۔ راجہ بکرم کے نام کی وجہ سے یہ کلینڈر بکرمی کیلنڈر بھی کہلاتا ہے۔ بکرمی یا دیسی کیلنڈر بھی تین سو پینسٹھ (365) دنوں کا ہوتا ہے اور اس کیلنڈر کے 9 مہینے تیس (30) دنوں کے ہوتے ہیں جبکہ ایک مہینہ وساکھ اکتیس (31) دن ہوتا ہے اور باقی دو مہینے جیٹھ اور ہاڑ بتیس (32) دن کے ہوتے ہیں۔ سارے کے سارے بکرمی مہینے عیسوی انگریزی مہینے کے درمیان سے شروع ہوتے ہیں۔
بابا گُرو نانک جو سکھوں کے سب سے بڑے گُرو ہیں اپنی کتاب گُرو گرنتھ صاحب میں لکھتے ہیں کہ "بھادوں بارش کا مہینہ انتہائی خوبصورت مہینہ ہے اور ساؤن اور بھادوں رحمت والے مہینے ہیں جس میں بادل نیچے اُترتا ہے اور تیز بارش برساتا ہے جس سے پانی اور زمین شہد سے بھر جاتے ہیں اورخالق زمین پر گھومتا ہے”۔
"روایات میں ہے کہ پنجابی کے 12 مہینوں کے نام گیاراں بھائیوں (ویساکھ، جیٹھ، ہاڑ، ساون، اسو، کتک، مگھر، پوہ، ماگھ، پھگن، جیت اور 1 بہن (بھادوں) کے نام پر رکھے گئے یعنی سال کے سارے مہینوں میں بھادوں گیاراں بھائیوں کی اکلوتی اور انتہائی لاڈلی بہن ہے۔"
مزید روایات میں ہے کہ بھادوں جہاں انتہائی لاڈلی اور میٹھی ہے وہاں منہ زور، نک چڑھی، تیکھی اور چُبھنے والی بھی ہے اسی لیے اس مہینے کی گرمی اگر تیز ہوجائے تو انسان پسینے سے شرابور ہوجاتا ہے، اس مہینے میں ہوا اگر چلتی ہو تو انتہائی سہانہ موسم ہوتا ہے اور ہوا اگر بند ہو جائے تو سانس بھی بند ہو جاتی ہے۔
کہتے ہیں بھادوں اگر برسے تو زمین پر رہنے والی مخلوق چرند، برند، حشرات سبھی اپنے گھروں سے باہر نکلتے ہیں اور اس دلفریب موسم کے مزے لُوٹتے ہیں اور بھادوں اگر خُشک ہو جائے تو یہ ہر چیز کو خشک کرکے رکھ دیتی ہے اس لیے اس موسم میں رب کائنات سے رحمت کی دُعائیں مانگنی چاہیے تاکہ اس موسم کی سختی سے بچا جا سکے۔
ساون اور بھادوں برِ صغیر ہند و پاک میں مون سون کا موسم ہے۔ ان دو مہینوں میں خوب برکھا برستی ہے اور برسات اپنے جوبن پر ہوتی ہے اور ہر طرف جل تھل ہوجاتا ہے۔ یہ بارشیں دراصل فطرت کی صناعی یا شاندار نمونہ ہیں۔ ہم اس موسم کو فطرت کی شاعری کا نام دے سکتے ہیں۔ ساون بھادوں میں برستی بارش کا ایک ایک قطرہ موتیوں سے زیادہ قیمی ہوتا ہے۔ کسی بھی شاعر کا برسات اور ساون سے متاثر ہونا ایک فطری عمل ہے۔ ساون میں اور حساس شاعر میں بہت سی قدریں مشترک بھی ہیں۔ وہ بھی جل تھل ہوجاتا ہے۔ اور شاعر گنگنانے لگتا ہے؛ اور ایسے میں اس کے قلب و دماغ میں شعر ٹپکنے لگتے ہیں۔
رومان پسند اور فطرت شناس شاعر کے اندر کی حساسیت برسات میں جاگ جاتی ہے۔ اس کے قلب و نظر میں نکھار، شباب، تازگی، تراوٹ، جل ترنگ، شگفتگی، رم جھم کی آوازیں، انتظار اور تڑپ کی پھوار برس جاتی ہیں۔ ایک رومان پسند انسان کے اندر یہ سب موسم پنہاں ہوتے ہیں تو فطرت آشنا شاعر کے اندر کا موسم میں بھی یہ سب رنگینی ہوتی ہے۔ برسات کا موسم اپنے اندر حزن و ملال اور رجائیت دونوں جہات رکھتا ہے اور یہ دونوں پہلو ہماری اردو شاعری میں بکثرت پائے جاتے ہیں۔ آئیے ایک اجمالی جائزہ لیتے ہیں۔
آئے ہیں آسمان پر بادل
چھائے ہیں آسمان پر بادل
ابر ہی ابر دیکھتے ہیں ہم
ہے برسنے کو جو ابھی چھم چھم
لطیف فاروقی
آج بادل خوب برسا اور برس کر کھل گیا
گلستاں کی ڈالی ڈالی پتا پتا دھل گیا
حفیظ جالندھری
مٹیالے مٹیالے بادل گھوم رہے ہیں میدانوں کے پھیلاؤ پر
دریا کی دیوانی موجیں ہمک ہمک کر ہنس دیتی ہیں اک ناؤ پر
احمد ندیم قاسمی
دور تک چھائے تھے بادل اور کہیں سایہ نہ تھا
اس طرح برسات کا موسم کبھی آیا نہ تھا
سرخ آہن پر ٹپکتی بوند ہے اب ہر خوشی
زندگی نے یوں تو پہلے ہم کو ترسایا نہ تھا
قتیل شفائی
برسات کے موسم میں شاعر کا خیال اس کی انگلی پکڑ کر اسے وصال کا جھولا جھولاتا ہے تو اس کی تخلیق میں مزید چستی در آتی ہے۔جس کی ایک تصویر ہمیں معروف زمانہ اس گیت میں نظر آتی ہے
باغوں میں پڑے جھولے
تم بھول گئے ہم کو
ہم تم کو نہیں بھولے
ایک اور شاعر نے کہا ہے کہ
اس موسم کی شان نرالی
چڑیا گائے، کوئل گائے
پھرسے ایسا موسم آئے
بارش چومے ڈالی ڈالی
خوش ہوتا ہے باغ کا مالی
رنگ برنگے پھول کھلے ہیں
بچھڑے دو دل آن ملے ہیں
جناب صوفی تبسم نے کہا ہے کہ
کالے بادل آئیں گے
آ کر مینہ برسائیں گے
مینہ میں لوگ نہائیں گے
کالے بادل آئیں گے
مینہ برسے گا ٹپ ٹپ ٹپ
ساز بجے گا ٹپ ٹپ ٹپ
ہم ناچیں گے گائیں گے
کالے بادل آئیں گے
بلبل گانا گائے گی
کوئل راگ سنائے گی
مینڈک بھی ٹرائیں گے
کالے بادل آئیں گے
جناب عمیق حنفی نے برسات سے متعلق فرمایا ہے کہ
ساون آیا چھانے لگے گھور گھن گھور بادل
کرتے ہیں پھر دل کو پریشان چت چور بادل
جنگل جنگل سنکی ہوا بانس بن جھوم اٹھے
ناچے کودے گرجے مچانے لگے شور بادل
ڈھولک نقارے بانسری جھانجھنیں بج رہی ہیں
اس پر یہ ست رنگی دھنک بن گئے مور بادل
بجلی کا پہلو گدگدایا بھریں چٹکیاں بھی
جھوما جھٹکی کر کے دکھانے لگے زور بادل
دل میں دکھ آنکھوں میں نمی آسماں پر گھٹائیں
اندر باہر اس اور اس اور ہر اور بادل
ابن انشا کی نظم " ساون بھادوں ساٹھ ہی دن ہیں"۔
ساون بھادوں ساٹھ ہی دن ہیں، پھر وہ رت کی بات کہاں
اپنے اشک مسلسل برسیں اپنی سی برسات کہاں
چاند نے کیا کیا منزل کرلی نکلا ، چمکا، ڈوب گیا
ہم جو آنکھ جھپک لیں سو لیں، اے دل ہم کو رات کہاں
پیت کا کاروبار بہت ہے، اب تو اوربھی پھیل چلا
اور جو کام جہاں کے دیکھیں فرصت دیں حالات کہاں
قیس کا نام سنا ہی ہو گا ہم سے بھی ملاقات کرو
عشق و جنوں کی منزل مشکل سب کی یہ اوقات کہاں
اختر شیرانی کو شاعر فطرت کہا جاتا ہے وہ کہتے ہیں کہ
گھٹائوں کی نیلی فام پریاں
افق پہ دھومیں مچا رہی ہیں
ہوائوں کو گدگدا رہی ہیں
فضائیں موتی لٹا رہی ہیں
اختر شیرانی کی برسات پر کیا خوب نظم ہے؛ آپ کے نذر ہے
آسماں پر چھا رہا ہے ابر پاروں کا ہجوم!
نو بہاروں کا ہجوم
آہ یہ رنگین آوارہ نظاروں کا ہجوم
کوہساروں کا ہجوم
بدلیاں ہیں یا کسی کے بھولے بسرے خواب ہیں
بے خود و بیتاب ہیں!
یا ہوا پر تیرتا ہے رود باروں کا ہجوم
آبشاروں کا ہجوم
پھرتی ہیں آوارہ متوالی گھٹائیں اس طرح
اور ہوائیں اس طرح
جھومتا پھرتا ہو جیسے مے گساروں کا ہجوم
بادہ خواروں کا ہجوم
وادیٔ گنگا ہے، برکھا رت ہے، کالی رات ہے
رات ہے برسات ہے
اور فضا میں تیرنے والے نظاروں کا ہجوم
نشہ زاروں کا ہجوم
نیلگوں پریاں افق میں پر ہیں پھیلائے ہوئے
بال بکھرائے ہوئے
یا امنڈ آیا ہے ساون کی بہاروں کا ہجوم
ابر پاروں کا ہجوم
ننھی ننھی بوندیں گرتی ہیں حجاب ابر سے
یا نقاب ابر سے
چھن رہا ہے قطرے بن بن کر ستاروں کا ہجوم
نور پاروں کا ہجوم
یہ گھٹائیں ہیں کہ خوابوں کے سفینے ہیں رواں
بے قرینے ہیں رواں
بادبانوں میں چھپائے چشمہ ساروں کا ہجوم
جوے باروں کا ہجوم
بجلی ہے یا نور کی زنجیر لہرائی ہوئی
پیچ و خم کھائی ہوئی
یا خمیدہ مرمریں پھولوں کے ہاروں کا ہجوم
اور ستاروں کا ہجوم
یہ سماں بجلی کا یہ مہتاب کی سی وادیاں
خواب کی سی وادیاں
نشے میں بھیگا ہوا یہ سبزہ زاروں کا ہجوم
کوہساروں میں خوشی کی بستیاں آباد ہیں
مستیاں آباد ہیں
چار سو بکھرا پڑا ہے سبزہ زاروں کا ہجوم
مرغزاروں کا ہجوم
یوں نظر آتے ہیں کہسار مسوری دور سے
مست سے مخمور سے
جوں سمندر سے جزیروں کی قطاروں کا ہجوم
سبزہ زاروں کا ہجوم
یہ سفر، یہ رات، یہ برسات اور پھر ہم سفر
الامان و الحذر
یک حسن یاسمیں رنگیں بہاروں کا ہجوم
ماہ پاروں کا ہجوم
یہ سہانے منظر اختر مدتوں یاد آئیں گے
مدتوں تڑپائیں گے
آہ یہ رات، اف یہ مستانہ نظاروں کا ہجوم
یہ بہاروں کا ہجوم
اختر شیرانی کی ایک غزل کے چند اشعارآپ کے نذر ہے
آج قسمت سے نظر آئی ہے برسات کی رات
کیا بگڑ جائے گا رہ جاؤ یہیں رات کی رات
سطح دویا پہ ادھر نشہ میں لہرائی ہوئی
رنگ لائی ہوئی چھائی ہوئی برسات کی رات
اف وہ سوئی ہوئی کھوئی ہوئی فطرت کی بہار
اف وہ مہکی ہوئی بہکی ہوئی برسات کی رات
اختر شیرانی کی نظم " ساون کی گھٹا " آپ کے نذر ہے
مسکراتی ہوئی آتی ہے گھٹا ساون کی
جی لبھاتی ہوئی آتی ہے گھٹا ساون کی
گیت کوئل کے پپیہوں کی صدا مور کا شور
گنگناتی ہوئی آتی ہے گھٹا ساون کی
کیوں نہ ہم جولیاں گلزار میں جھولا جھولیں
لہلہاتی ہوئی آتی ہے گھٹا ساون کی
کوہساروں کا خیابانوں کا گلزاروں کا
منہ دھلاتی ہوئی آتی ہے گھٹا ساون کی
موج نکہت سے خدائی مہک اٹھی اخترؔ
پھول اڑاتی ہوئی آتی ہے گھٹا ساون کی
ابنِ انشاء کی ایک نظم میں کیسا استعارہ استعمال ہوا ہے کہ بس واہ واہ کیجیے
سینے سے گھٹا اٹھے آنکھوں سے جھڑی برسے
پھاگن کا نہیں بادل، جو چار گھڑی برسے
برکھا ہے یہ بھادوں کی، برسے تو بڑی برسے
دروازہ کھلا رکھنا
ابنِ انشاء کی ایک اور نظم " اس بستی کے اک کوچے میں" میں برکھا، ساون بھادوں کا کیا خوب استعمال ہوا ہے کہ واہ واہ بھی کم ہی ہے؛ ذرا دیکھیے
اک روز مگر برکھا رت میں وہ بھادوں تھی یا ساون تھا
دیوار پہ بیچ سمندر کے یہ دیکھنے والوں نے دیکھا
مستانہ ہاتھ میں ہاتھ دیئے یہ ایک کگر پر بیٹھے تھے
یوں شام ہوئی پھر رات ہوئی جب سیلانی گھر لوٹ گئے
کیا رات تھی وہ جی چاہتا ہے اس رات پہ لکھیں افسانا
اس بستی کے اک کوچے میں اک انشاؔ نام کا دیوان
نظیر اکبرآبادی اردو زبان و ادب کے ممتاز حوالہ ہیں اور شاعر فطرت بھی کہلاتے ہیں۔ ان کی نظم " برسات کی بہاریں" پیش کی جاتی ہے
ہیں اس ہوا میں کیا کیا برسات کی بہاریں
سبزوں کی لہلہاہٹ باغات کی بہاریں
بوندوں کی جھمجھماوٹ قطرات کی بہاریں
ہر بات کے تماشے ہر گھات کی بہاریں
کیا کیا مچی ہیں یارو برسات کی بہاریں
بادل ہوا کے اوپر ہو مست چھا رہے ہیں
جھڑیوں کی مستیوں سے دھومیں مچا رہے ہیں
پڑتے ہیں پانی ہر جا جل تھل بنا رہے ہیں
گلزار بھیگتے ہیں سبزے نہا رہے ہیں
کیا کیا مچی ہیں یارو برسات کی بہاریں
جنگل سب اپنے تن پر ہریالی سج رہے ہیں
گل پھول جھاڑ بوٹے کر اپنی دھج رہے ہیں
بجلی چمک رہی ہے بادل گرج رہے ہیں
اللہ کے نقارے نوبت کے بج رہے ہیں
کیا کیا مچی ہیں یارو برسات کی بہاریں
بادل لگا ٹکوریں نوبت کی گت لگاویں
جھینگر جھنگار اپنی سرنائیاں بجاویں
کر شور مور بگلے جھڑیوں کا منہ بلاویں
پی پی کریں پپیہے مینڈک ملاریں گاویں
کیا کیا مچی ہیں یارو برسات کی بہاریں
ہر جا بچھا رہا ہے سبزہ ہرے بچھونے
قدرت کے بچھ رہے ہیں ہر جا ہرے بچھونے
جنگلوں میں ہو رہے ہیں پیدا ہرے بچھونے
بچھوا دیے ہیں حق نے کیا کیا ہرے بچھونے
کیا کیا مچی ہیں یارو برسات کی بہاریں
کیا کیا رکھے ہیں یا رب سامان تیری قدرت
بدلے ہے رنگ کیا کیا ہر آن تیری قدرت
سب مست ہو رہے پہچان تیری قدرت
تیتر پکارتے ہیں سبحان تیری قدرت
کیا کیا مچی ہیں یارو برسات کی بہاریں
کوئل کی کوک میں بھی تیرا ہی نام ہے گا
اور مور کی زٹل میں تیرا پیام ہے گا
یہ رنگ سو مزے کا جو صبح و شام ہے گا
یہ اور کا نہیں ہے تیرا ہی کام ہے گا
کیا کیا مچی ہیں یارو برسات کی بہاریں
بولیں بئے بٹیریں قمری پکارے کو کو
پی پی کرے پپیہا بگلے پکاریں تو تو
کیا حدحدوں کی حق حق کیا فاختوں کی ہو ہو
سب رٹ رہے ہیں تجھ کو کیا پنکھ کیا پکھیرو
کیا کیا مچی ہیں یارو برسات کی ماریں
جو وصل میں ہیں ان کے جوڑے مہک رہے ہیں
جھولوں میں جھولتے ہیں گہنے جھمک رہے ہیں
جو دکھ میں ہیں سو ان کے سینے پھڑک رہے ہیں
آہیں نکل رہی ہیں آنسو ٹپک رہے ہیں
کیا کیا مچی ہیں یارو برسات کی بہاریں
جب کوئل اپنی ان کو آواز ہے سناتی
سنتے ہی غم کو مارے چھاتی ہے امنڈی آتی
پی پی کی دھن کو سن کر بے کل ہیں کہتی جاتی
مت بول اے پپیہے پھٹتی ہے میری چھاتی
کیا کیا مچی ہیں یارو برسات کی بہاریں
ہے جن کی سیج سونی اور خالی چارپائی
رو رو انہوں نے ہر دم یہ بات ہے سنائی
پردیسی نے ہماری اب کے بھی سدھ بھلائی
اب کے بھی چھاؤنی جا پردیس میں ہے چھائی
کیا کیا مچی ہیں یارو برسات کی بہاریں
چھت گرنے کا کسی جا غل شور ہو رہا ہے
دیوار کا بھی دھڑکا کچھ ہوش کھو رہا ہے
در در حویلی والا ہر آن رو رہا ہے
مفلس سو جھوپڑے میں دل شاد سو رہا ہے
کیا کیا مچی ہیں یارو برسات کی بہاریں
مدت سے ہو رہا ہے جن کا مکاں پرانا
اٹھ کے ہے ان کو مینہ میں ہر آن چھت پہ جانا
کوئی پکارتا ہے ٹک موری کھول آنا
کوئی کہے ہے چل بھی کیوں ہو گیا دوانا
کیا کیا مچی ہیں یارو برسات کی بہاریں
کوئی پکارتا ہے لو یہ مکان ٹپکا
گرتی ہے چھت کی مٹی اور سائبان ٹپکا
چھلنی ہوئی اٹاری کوٹھا ندان ٹپکا
باقی تھا اک اسارا سو وہ بھی آن ٹپکا
کیا کیا مچی ہیں یارو برسات کی بہاریں
بدنوں میں کھب رہے ہیں خوبوں کے لال جوڑے
جھمکیں دکھا رہے ہیں پریوں کے لال جوڑے
لہریں بنا رہے ہیں لڑکوں کے لال جوڑے
آنکھوں میں چبھ رہے ہیں پیاروں کے لال جوڑے
کیا کیا مچی ہیں یارو برسات کی بہاریں
اور جس صنم کے تن میں جوڑا ہے زعفرانی
گلنار یا گلابی یا زرد سرخ دھانی
کچھ حسن کی چڑھائی اور کچھ نئی جوانی
جھولوں میں جھولتے ہیں اوپر پڑے ہے پانی
کیا کیا مچی ہیں یارو برسات کی بہاریں
جو کسبیاں جوانیں حسنوں میں پرتیاں ہیں
سینوں میں لال انگیاں اور لال کرتیاں ہیں
نظریں بھی بدلیاں ہیں دل میں بھی سرتیاں ہیں
اک اک نگہ میں کافر بجلی کی پھرتیاں ہیں
کیا کیا مچی ہیں یارو برسات کی بہاریں
جو نوجواں ہیں ان کی تیاریاں بڑی ہیں
ہاتھوں میں لال چھڑیاں کوٹھوں پہ وہ کھڑی ہیں
اور وہ جو آشنا سے جھگڑی ہیں یا لڑی ہیں
منہ کو چھپا پلنگ پر مچلی ہوئی پڑی ہیں
کیا کیا مچی ہیں یارو برسات کی بہاریں
کوئی اپنے آشنا سے کر ناز کا جھپٹا
کہتی ہے ہنس کے کافر چٹکی لے یا نہٹا
تم سے تو دل ہمارا اب ہو گیا ہے کھٹا
تم آج بھی نہ لائے رنگوا مرا دوپٹا
کیا کیا مچی ہیں یارو برسات کی بہاریں
کرتی گلابی جن میں گوٹے لگے ہوئے ہیں
انگیاں کے گرد جھوٹے گوٹے ٹکے ہوئے ہیں
کہتی ہیں ان سے ہنس ہنس جو جو کٹے ہوئے ہیں
لا اب تو میرے تجھ پر بارہ ٹکے ہوئے ہیں
کیا کیا مچی ہیں یارو برسات کی بہاریں
اس رت میں ہیں جہاں تک گلزار بھیگتے ہیں
شہر و دیار کوچے بازار بھیگتے ہیں
صحرا و جھاڑ بوٹے کہسار بھیگتے ہیں
عاشق نہا رہے ہیں دل دار بھیگتے ہیں
کیا کیا مچی ہیں یارو برسات کی بہاریں
کوئی یار سے کہے ہے اے دل ستان آؤ
بدلی بڑی اٹھی ہے کہنے کو مان آؤ
کیا مینہ برس رہا ہے ہر اک مکان آؤ
راتیں اندھیریاں ہیں اے میری جان آؤ
کیا کیا مچی ہیں یارو برسات کی بہاریں
کوئی رات کو پکارے پیارے میں بھیگتی ہوں
کیا تیری الفتوں کے مارے میں بھیگتی ہوں
آئی ہوں تیری خاطر آ رے میں بھیگتی ہوں
کچھ تو ترس تو میرا کھا رے میں بھیگتی ہوں
کیا کیا مچی ہیں یارو برسات کی بہاریں
کوئی پکارتی ہے دل سخت بھیگتی ہوں
کانپے ہے میری چھاتی یک لخت بھیگتی ہوں
کپڑے بھی تر بہ تر ہیں اور سخت بھیگتی ہوں
جلدی بلا لے مجھ کو کمبخت بھیگتی ہوں
کیا کیا مچی ہیں یارو برسات کی بہاریں
شیشہ کہیں گلابی بوتل جھمک رہی ہے
رابیل موتیا کی خوشبو مہک رہی ہے
چھاتی سے چھاتی لگ کر عشرت چھلک رہی ہے
پائے کھٹک رہے ہیں پٹی چٹک رہی ہے
کیا کیا مچی ہیں یارو برسات کی بہاریں
کیچڑ سے ہو رہی ہے جس جا زمیں پھسلنی
مشکل ہوئی ہے واں سے ہر اک کو راہ چلنی
پھسلا جو پاؤں پگڑی مشکل ہے پھر سنبھلنی
جوتی گری تو واں سے کیا تاب پھر نکلی
کیا کیا مچی ہیں یارو برسات کی بہاریں
کتنے تو کیچڑوں کی دلدل میں پھنس رہے ہیں
کپڑے تمام گندی دلدل میں بس رہے ہیں
کتنے اٹھے ہیں مرمر کتنے اکس رہے ہیں
وہ دکھ میں پھنس رہے ہیں اور لوگ ہنس رہے ہیں
کیا کیا مچی ہیں یارو برسات کی بہاریں
یہ رت وہ ہے کہ جس میں خرد و کبیر خوش ہیں
ادنیٰ غریب مفلس شاہ و وزیر خوش ہیں
معشوق شاد و خرم عاشق اسیر خوش ہیں
جتنے ہیں اب جہاں میں سب اے نظیرؔ خوش ہیں
کیا کیا مچی ہیں یارو برسات کی بہاریں
یہ تحریر آزاد ویب نیٹ پر موجود مختلف ذرائع سے دستیاب مواد کی مدد سے مرتب کی گئی تاکہ بینگ باکس کے قارئین لطف اندوز ہوسکیں۔