ریاست اسرائیل قریب المرگ ہے

The creation of Israel was a conspiracy hatched by British Government (UK) in London. London based UK's politicians were the main players for scheming of the Zionist Jews home land, Israel. Balfour was thus an act of injustice and turmoil. Then the Muslims were not very effective in matters of world. However the Palestinian never accepted the illegitimate act and kept on resisting and sacrificing precious life. The Gaza Mujahedeen on 7 October 2023 surprised the most overrated IDF. This article is reflection of the reality shoved upon Zionist Jews.

2023-11-05 15:48:23 - Muhammad Asif Raza


ریاست اسرائیل قریب المرگ ہے

 

معلوم ہوتا ہے کہ ہمارا واسطہ تاریخ کے مشکل ترین لوگوں سے پڑ گیا ہے اور فلسطینیوں کی زمین پر ان کا حق تسلیم کیے بغیرکوئی چارہ کارنہیں باقی رہتا۔ میراخیال ہے کہ ہم بند گلی میں داخل ہوچکے ہیں اوراب اسرائیلیوں کے لیے ارض فلسطین پر قبضہ کا تسلسل، باہرسے آئے یہودیوں کی آبادکاری اورحصول امن، ایک ساتھ ممکن نہیں رہا۔ اوراسی طرح صہیونیت میں تحریک تجدید، تحفظ جمہوریت اور مملکت میں آبادی کاپھیلاؤ بھی اب مزید نہیں چل پائیں گے۔ ان حالات میں اس ملک میں رہنے کا کوئی مزا باقی نہیں رہااوراسی طرح "روزنامہ ہارٹیز" میں لکھنا بھی بد مزہ ہوگیا ہے اور "روزنامہ ہارٹیز" کےمطالعہ میں بھی اب کچھ کشش باقی نہیں رہی۔

 

اب ہمیں وہی کرنا پڑے گا جو دوسال پہلے "روگیل الفار" نے کیا تھا اور وہ یہ ملک؛ یہ ارض مقدس، چھوڑ کر چلا گیا تھا۔ مملکت اسرائیل نے ہمیں اپنی شناخت نہیں دی کیونکہ ہر اسرائیلی شہری اورہر یہودی کے پاس باہر کے کسی نہ کسی دوسرے ملک کا پاسپورٹ بھی اس کی جیب میں موجود ہے۔ اوراس کی وجہ کو ئی مجبوری نہیں ہے بلکہ اسرائیل کا ہرشہری نفسیاتی طورپر اس عمل کے لیے قائل ہے۔ اس لیے اب سمجھ لینا چاہیے کہ صیہونیت کا کھیل ختم ہوچکا ہے اورآپ کوچاہیے اپنے دوستوں کو خداحافظ کہ کر سان فرانسسکو، برلن یا پیرس کو سدھارجائیں۔

 

اس طرح جرمن قوم پرستوں میں بیٹھ کر سرزمین امریکہ میں امریکی قوم پرستوں میں بیٹھ کر کم ازکم وہ آرام سے ، سکون اور اطمان سے دیکھ سکے گا اسرائیل کی ریاست دم توڑ رہی ہے اوراپنی آخری سانسیں لے رہی ہے اورقریب المرگ ہے۔ ہمیں لازمی طور پرتین قدم پیچھے ہٹ کر یہودی جمہوری ریاست کے ڈوبنے کے مناظر دیکھنے ہوں گے کیونکہ مسائل ابھی تک اپنے حل سے کوسوں دورہیں۔

 

شاید ابھی بھی ہم بندگلی سے نکل سکتے ہیں، ابھی بھی ارض فلسطین پرقبضہ ختم کیاجاسکتاہے، ابھی بھی مواقع موجود ہیں کہ صہیونیت کی تازہ تحریک میں اصلاحات ہوسکیں، ابھی بھی جمہوریت کی بحالی کے امکانات موجود ہیں اور ابھی بھی تقسیم مملکت ہوسکتی ہے۔ میرادل کرتاہے کہ میں بن یامین یتن ناہو، لیب مین اورنیونازیس کی آنکھیں کھولوں اورانہیں صہیونیت کی تباہی و بربادی کامشاہدہ کراؤں۔ اورانہیں باورکراؤں کہ ڈالنلڈ ٹرمپ، کوشنر، بائڈن، بارک اوباما اورہلری کلنگٹن کبھی ارض فلسطین پر یہ قبضہ ختم نہیں ہونے دیں گے۔ اور اقوام متحدہ اوریورپی یونین بھی غیرملکی یہودیوں کی آبادکاری کبھی بھی نہیں روکیں گے۔ بس پوری دنیامیں اگرکوئی اسرائیلی سلطنت اور اسرائیلی عوام کے بچاسکتاہے تووہ خود اسرائیلی عوام ہیں جنہیں ایک نوزائدہ سیاسی معاہدے کے تحت  بہرحال تسلیم کرنا ہوگا کہ اس ارض فلسطین کے اصل مالک فلسطینی ہی ہیں اوریہ انہی کاوطن ہے۔ میں اپنے اسی تیسرے راستے کے موقف کو ہی پرزور طریقے سے پیش کروں گا ۔ اگرہم یہاں زندہ رہناچاہتے ہیں اورمرنا نہیں چاہتے۔

 

اسرائیلی عوام جب سے فلسطین میں آباد ہوئی ہے تو انہیں اسے تب سے تحریک صہیونیت نے تاریخی طور پر جھوٹ بول بول کر یہ دھوکا دیے چلی جارہی ہے اورصہیونی کارندے ہولوکاسٹ کوغیرمعمولی طورپربڑھا چڑھا کر پیش کرنے کے بعد سے ملت بنی اسرائیل کوباربار یہ جھوٹ کہتے چلے آرہے ہیں کہ خداوند خد نے تم سے ارض فلسطین کاوعدہ کررکھاہے اور ہیکل سلیمانی بھی دراصل مسجداقصی کے نیچے موجودہے۔ 

 

پس اس طرح ٹیکس کی بھاری رقوم چوس چوس کر بھیڑیے ایٹمی طاقت بن گئے۔ اب تو تل ابیب یونیورسٹی کے محققین اوربہت سے مغربی ماہرین آثارقدیمہ بھی کہ چکے ہیں کہ ہزاروں سال پہلے ہیکل سلیمانی کا وجود ختم ہوچکا اور کہیں بھی اس کا کوئی نام و نشان موجود نہیں ہے۔ آخری دفعہ ۱۹۶۸ء میں برطانوی سکول آف آثارقدیمہ( برٹش سکول آف آرکیولوجی) یروشلم کی ڈائرکٹر کیٹلین کبی نوس نے بھی کھدائی کرکے ہیکل سلیمانی کے آثارتلاش کرنے کی کوشش کی تھی لیکن کچھ بھی نہ ملا، جسے اسرائیلی ہیکل سلیمانی کہتے ہیں۔ اس طرح کی عمارت کے کئی نقشے کتابوں میں ملتے ہیں اورارض فلسطین کے متعدد مقامات اس کی تعمیرکی شہادتیں بھی میسرہیں لیکن مسجد اقصی کے نیچے ایسی کسی عمارت کا تصورایک مفروضے کے سوا کچھ نہیں۔ اس سے قبل انیسویں صدی کے وسط میں بھی "کیتھلین کینون" فلسطین اسی لیے آئی تھی کہ عہدنامہ قدیم کی کتب کے مطابق اس مقام کی نشاندہی کی جاسکے جہاں یہ عمارت قائم کی گئی تھی۔

 

کیا یہ اسرائیلیوں کے لیے کسی لعنت سے کم ہے کہ مقدسیوں، خلیلیوں اورنابلوسیوں سے روزانہ چھریوں اورچاقوں جیسے تھپڑ اپنے چہروں پر کھائیں یا ان کی ڈرائیورزجفا، حیفہ اور ایسر جاتے ہوئے پتھروں پرپتھر کھاتے ہوتے ہوئے وہاں پہنچیں۔ اب اسرائیلی جان چکے ہیں کہ فلسطین میں ان کا کوئی مستقبل نہیں ہے، ایسا نہیں ہے کہ ارض فلسطین کے کوئی وارث نہ ہوں۔ بائیں بازوکے کے ایک صہیونی دانشوراورمصنف "گڈون لیوے" نے بہت پہلے کہ دیا تھا کہ یہودیوں کو نہ صرف یہ کہ فلسطینیوں کا حق ملکیت ماننا پڑے گا بلکہ ارض فلسطین پر انہیں برتری دینا ہوگی۔

 

 کیونکہ فلسطینی باقی دنیا سے مختلف فطرت کے لوگ ہیں۔ ہم انہیں بدکاراور نشئی کہتے ہیں اور پھر ہم نے ان کی زمینوں پرقبضہ کیا ہے اورپھر بھی ہم چاہتے ہیں کہ وہ اپنے وطن کوفراموش کردیں، تب ہی وہ ۱۹۸۷ سے حالت مظاہرہ میں ہیں اورہم انہیں قید خانوں میں بھرتے جارہے ہیں۔ سالوں بعد جب ہم سمجھے کہ اب انہیں سبق سکھایا جا چکا ہے۔ لیکن ۲۰۰۰ء میں اپنی کھائی گئی زمینیں واگزار کرانے کے لیے وہ مسلح ہو کر ہمارے سامنے آگئے۔ اس کے باوجود ہم نے ان کا محاصرہ جاری رکھا ۔ اور ان کے گھروں کو ملیامیٹ کرتے رہے۔ اب کی دفعہ جب انہوں نے ہمارے اوپرمیزائل داغنا شروع کردیے توہم نے ان کے اوراپنے درمیان بلند بالا دیواریں اور باڑھ لگانے کی منصوبہ بندی کرنی شروع کردی۔ اس کے ردعمل میں انہوں سرنگیں کھودیں اور زیرزمین سے ہم پر حملہ آورہوئے یہاں تک کہ حالیہ جنگ کے آغاز میں انہوں نے ہماری ریاست اسرائیل کے اندر گھس کر ہمیں قتل کرنا اورمارناشروع کردیا۔ ہم نے اپنی فکراور سوچ سے ان کے لڑائی شروع کی لیکن انہوں نے ہمارے خلائی سیارہ "آموس" کو ہی جام کردیا۔ وہ مسلسل ہمیں دھمکیوں پردھمکیاں دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہمارے نوجوان اسرائیلی نشریاتی اداروں کوبھی بند کرکے جام کردیں گے۔

 

پس مختصرا" صرف یہ کہ ہمیں تاریخ کے مشکل ترین افراد سے پالا پڑ گیا ہے اور انہیں مانے بغیر اور سر زمین فلسطین پراپنا قبضہ ختم کیے بغیر اس مسئلے کا کوئی حل موجود نہیں ہے۔

 

(Israel is breathing its last breath, by Ari Shavit)

(اسرائیلی اخبار"ہارٹیز،10اکتوبر"میں شائع ہونے والامضمون)

تحریر: "عاری شابیط"( یہودی دانشور،مصنف،صحافی)

ترجمہ:ڈاکٹر ساجد خاکوانی (اسلام آباد، پاکستان) drsajidkhakwani@gmail.com


بینگ باکس نے اپنے قارئین کے لیے پیش کیا ہے تا کہ اسرائیل فلسطین جنگ میں پھیلائے ہوئے مذموم پرپیگینڈا اور دیگر ہونے والی کاروائی سے آگاہ کرسکیں اور وہ ان معاملات کے حقائق سے باخبر رہیں اورانکی دلچسپی قائم رہے۔

یہ مضمون مندرجہ ذیل لنک پر موجود ہے

https://neptuneprime.com.ng/2023/10/israel-is-breathing-its-last-breath-by-ari-shavit/

The YouTube video below is also a talk from the author of the article.


More Posts