رمضان المبارک: تزکیہ و تقوی کے حصول کا مہینہ ہے

اسلامی کیلنڈر کا نوّاں مہینہ رمضان المبارک ہے اور پوری دنیا کے مسلمانوں کے لیے ایک مقدس حیثیت رکھتا ہے۔ رمضان المبارک کے مہینے میں لیلۃ القدر نامی ایک خاص رات میں قرآن پاک کا نزول نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر ہونا شروع ہوا تھا۔ یہ مینہ روزہ رکھنے اور تزکیہ نفس کا مہینہ ہے۔ جس کا مقصد تزکیہ یا تقویٰ ہوتا ہے۔ یہ تحریر اسی حوالے سے ایک مختصر مضمون ہے۔

2024-03-10 20:52:39 - Muhammad Asif Raza

بِسۡمِ ٱللهِ ٱلرَّحۡمَـٰنِ ٱلرَّحِيمِ

 

رمضان المبارک: تزکیہ و تقوی کے حصول کا مہینہ ہے

 

ماہِ رمضان المبارک مسلمان کی روح کو پاک کرتا ہے۔آخر روح کو پاک کرنا کیوں ضروری ہے؟

 

قرآن کے " سورۃ الشمس " میں ارشاد ہے۔

 

قَدْ أَفْلَحَ مَن زَكَّاهَا) بیشک جس نے نفس کو پاک کرلیا وہ کامیاب ہوگیا (9)

 

وَقَدْ خَابَ مَن دَسَّاهَا ) اور بیشک جس نے اپنے نفس کو گناہوں میں چھپادیا وہ ناکام ہوگیا.(10)

 

مندرجہ بالا آیات واضح طور پر اشارہ کرتی ہیں کہ وہی انسان کامیابی حاصل کرے گا جو پاکیزگی کا مالک ہوگا اور جس کا نفس آلودہ ہوگا وہ برباد / ناکام ہوگا۔

 

رمضان المبارک روزے کا مہینہ ہے اور اللہ رب العزت نے اس کا مقصد یوں بیان کیا ہے۔

 

قرآن الکریم کی سورۃ البقرہ کی آیت 183 میں ارشاد ہوا ہے

اے ایمان والو! تم پر روزے فرض کیے گئے ہیں جس طرح تم سے پہلے لوگوں پر فرض کیے گئے تھے، تاکہ تم تقوی یا پرہیزگاری اختیار کرو۔

 

اس لیے تقوی یعنی پاکیزگی کا حصول یا نیک لوگوں میں شامل ہونا ماہِ رمضان المبارک کا حتمی مقصد قرار دیا جا سکتا ہے۔


حدیث قدسی ہے رسول کریم محمد ﷺ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ؛ ’’ہلاک ہوگیا وہ شخص جس نے رمضان کو پایا اور اللہ کی عبادت کرکے خود کو جہنم سے آزاد ی کا مستحق نہ بناسکا"۔



حضور آقا کریم ﷺ فرماتے ہیں کہ رمضان کی پہلی رات اللہ تعالیٰ کے حکم سے فرشتے آسمان دنیا پر آتے ہیں اور منادی کرتے ہیں کہ اے اللہ کی رضااور خوشنودی کے طالب، آگے بڑھ اور اللہ کو راضی کرلے، اور اے اللہ کے نافرمان، ماہ مبارک کی عزت و وقار کو دیکھ اور حیا کراور اپنے گناہوں سے باز آجاؤ۔

 

روح کا تزکیہ کیسے روبہ عمل ہوسکتا ہے؟

 

آئیے طہارت کے عمل کے امکانات کو سمجھنے کے لیے ایک متوازی مثال پرغور کرتے ہیں۔

 

جیسا کہ ہم جانتے ہیں کہ سمندر کا پانی بہت سی تحلیل شدہ اور غیر حل ہونے والی نجاستوں سے آلودہ ہوتا ہے۔ سمندر کا پانی اس میں ڈوبی ہوئی ایک جاندار کو بھی گھلا دیتا ہے۔ تاہم، اسی پانی کو کشید یا صاف کرکے انسانی استعمال کے لیے لایا جاتا ہے۔ کشید کرنے والا پلانٹ سمندر کے پانی کو پینے کے پانی میں صاف کرتا ہے۔ کشید کرنے کے عمل کی وضاحت درج ذیل میں کی جاتی ہے۔

 

 سمندری پانی کو گرم کیا جاتا ہے اور نتیجے میں بننے والے بخارات کو دوبارہ ٹھنڈا کرکے خالص پانی کی پیداوار حاصل کی جاتی ہے۔ صاف پانی سمندر کے پانی کو ابالنے اور بخارات کو ٹھنڈا کرکے دوبارہ پانی بنانے کے نتیجے میں پیدا ہوتا ہے۔ سمندری پانی میں بتیس ہزار حصے فی ملین تحلیل شدہ ٹھوس ذرات یا مواد ہوتا ہے جس کو کشید کرکے محض ایک یا دو پی پی ایم کی سطح تک لایا جاتا ہے جو پھر اس صاف پانی کو انسانوں کے استعمال کے قابل بناتا ہے۔

 

اس عمل میں سمندری پانی کو ڈسٹلر میں مطلوبہ سطح تک بھرا جاتا ہے اور پھر اسے ابلنے کی حد تک گرم کیا جاتا ہے۔ اس کے نتیجے میں پانی کے بخارات پیدا ہوتے ہیں، مگر ان گرم بخارات میں پھر بھی کچھ غیر مطلوبہ نمک کے ذرات شامل رہتے ہیں جن کومحدود کرنے کے لیے فلٹرز سے گزارا جاتا ہے۔ ان خالص گرم بخارات کو مائع بنانے کے لیے ٹھنڈے پانی کا غسل دیا جاتا ہے اور پھر اس طرح تازہ صاف پانی حاصل ہوجاتا ہے جس کے پھر ٹینک میں پمپ کرکے جمع کرلیا جاتا ہے۔ یہ صاف پانی انسانی استعمال کے قابل ہوتا ہے۔ ڈسٹلر کے نچلے حصے میں بہت زیادہ کثیف گھنا مائع اکھٹا ہوجاتا ہے جس کو " برائین" کہا جاتا ہے اور جسے ضائع کرنے کے لیے سمندر میں واپس پھینک دیا جاتا ہے۔

 

ایک بھاپ سے چلنے والے بحری جہاز میں " میرین بوائلرز" کو متعلقہ سٹیم انجن کے لیے؛ جو جہاز کو آگے بڑھاتا ہے؛ کو اعلی توانائی کی بھاپ فراہم کرنے کے لیے فیڈ واٹر کی مسلسل فراہمی کی ضرورت ہوتی ہے۔ اوپر بیان کردہ صاف پانی دراصل فیڈ واٹر ہی ہوتا ہے۔

 

کشید کا عمل اگر احتیاط سے نہ کیا جائے تو اس کے نتیجے میں غیر مطلوبہ پیداوار حاصل ہو سکتی ہے؛ جو دو پی پی ایم سے زیادہ ٹھوس ذرے کا حامل فیڈ واٹر ہوتا ہے۔ ضرورت سے زیادہ ٹھوس مواد یا آلودگی کشید کےعمل کی خرابی کو ظاہر کرتا ہے جس کی وجہ مہروں یا جوڑوں کے رسنا وغیرہ ہو سکتا ہے۔ اس خرابی سے مطلوبہ نتائج کی ناکامی کا نتیجہ خالص پانی کا غیر حصول ہوتا ہے جو جہاز کو روک لیتا ہے۔

 

رمضان المبارک کسی مسلمان کی روح کی تطہیر یا پاکیزہ کرتا ہے

 

رمضان کا مہینہ مسلمان کی روح اور جسم کو پاک کرنے کے لیے عطا کیا گیا ہے۔

 

ہم مسلمان یقین رکھتے ہیں کہ اللہ نے ہمیں روح اور جسم (مٹی کے مادے) کے امتزاج سے پیدا کیا ہے۔ اس نے تقویٰ کی پابندی کرنے کی بھی ہدایت کی ہے، جس کی تعریف آخرت تک پہنچنے کے لیے انسان کی زمینی زندگی کے سفر کو دنیاوی آلودگیوں سے پاک رکھنے سے کیا جاسکتا ہے۔

 

قرآن الکریم کی سورۃ البقرہ کی آیت 183 میں ارشاد ہوا ہے

اے ایمان والو! تم پر روزے فرض کیے گئے ہیں جس طرح تم سے پہلے لوگوں پر فرض کیے گئے تھے، تاکہ تم تقوی یا پرہیزگاری اختیار کرو۔

اس لیے تقوی یعنی پاکیزگی کا حصول یا نیک لوگوں میں شامل ہونا ماہِ رمضان المبارک کا حتمی مقصد قرار دیا جا سکتا ہے۔

 

اوپر کی آیت میں روزوں کی فرضیت کا بیان ہے۔’’شریعت میں روزہ یہ ہے کہ صبح صادق سے لے کر غروب آفتاب تک روزے کی نیت سے کھانے پینے اور ہم بستری سے بچا جائے"۔ اگر وہ جسمانی طور پر ایسا کرنے سے قاصر ہیں، تو انہیں چاہیے کہ وہ ہر روزہ کے بدلے ایک مسکین کو کھانا کھلائیں۔

 

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”جب رمضان آتا ہے تو جنت کے دروازے کھول دیے جاتے ہیں، جہنم کے دروازے بند کر دیے جاتے ہیں اور شیطانوں کو بیڑیاں پہنا دی جاتی ہیں“۔ 

صحیح - متفق علیہ

 

اسی طرح حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی ایک یہ بھی حدیث ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: " جب ماہ رمضان کی پہلی رات ہو تو شیاطین اور سرکش جن جکڑ دیے جاتے ہیں، اور جہنم کے دروازے بند کر دیے جاتے ہیں ان میں سے کوئی دروازہ بھی کھلا نہیں رہتا، جنت کے تمام دروازے کھول دیے جاتے ہیں کوئی دروازہ بھی ان میں سے بند نہیں رہتا"۔ الحدیث، ترمذی: (682) ابن ماجہ: (1642)

 

اس کا مطلب ہے کہ باہر کے برے اثرات کو روک دیا جاتا ہے؛ اور جس کے بعد صفائی کا عمل شروع ہو سکتا ہے۔ (روح کی آلودگی کو روکا جائے)

 

حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’بے شک ماہ رمضان کا نام اس لیے رکھا گیا ہے کہ یہ گناہوں کو جھلسا دیتا ہے۔‘‘ [کنز العمال، ح: 23688]

 

حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ یہ (رمضان) وہ مہینہ ہے جس کی ابتداء رحمت، درمیانی بخشش اور انتہا آگ سے نجات ہے۔ " [بہار الانوار، جلد 1۔ 93، ص۔ 342 ]

 

رمضان المبارک کے پہلے دس دن رحمت ہیں، جن میں روح سے گناہوں کی علیحدگی (ابلنے) کا عمل ہوتا ہے۔ یہ یقیناً اللہ کی رحمت ہے کہ وہ اس دنیا میں یہ پاکیزگی یعنی گناہوں سے جدائی عطا کرتا ہے، ورنہ جہنم کی آگ اس کام کو انجام دے گی۔

رسول کریم محمد ﷺ سے منسوب پہلے عشرے کی دعا پر غور کریں تو یہ مزید واضع ہوجاتی ہے


 رَبِّ اغْفِرْ وَارْحَمْ وَاَنْتَ خَیْرُ الرّٰحِمِیْنَ۔

ترجمہ: اے میرے رب مجھے بخشش دے مجھ پر رحم فرما،توسب سے بہتر رحم فرمانے والا ہے۔

 

اگلے دس دن معافی کے ہیں، جن میں گناہوں کودور کردیا جاتا ہے؛ بخش دیا جاتا ہے۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: " جو شخص ایمان کے ساتھ اور ثواب کی نیت سے رمضان المبارک کی راتوں میں قیام کرتا ہے، اس کے سابقہ ​​گناہ بخش دیئے جاتے ہیں"۔ (بخاری ومسلم)

 رسول کریم محمد ﷺ سے منسوب دوسرے عشرے کی دعا پر غور کریں تو یہ مزید واضع ہوجاتی ہے


اَسْتَغفِرُاللّٰہَ رَبِّیْ مِنْ کُلِ ذَنْبٍ وَّاَتُوْبُ اِلَیْہ۔ِ

ترجمہ:میں اللہ سے تما م گناہوں کی بخشش مانگتا/مانگتی ہوں جو میرا رب ہے اور اسی کی طرف رجوع کرتا /کرتی ہوں۔


ہماری زندگیوں میں ڈسٹلر کے فلٹر (ڈیمسٹرز) وہ رہنما اصول و ضوابط اور اعمال ہیں جو قرآن کریم میں بیان کے گئے ہیں اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث میں فراہم کیے گئے ہیں (جن پر صحیح طریقے سے عمل کیا جائے تو) روح کو آلودہ کرنے والے برے اعمال کو روک دیں گے۔

 

آخری دس دن آگ سے نجات کے ہیں۔ ہماری اوپر کی مثال میں خالص پانی انسانی استعمال کے لیے درکار ہے (اسی طرح جیسے فیڈ واٹر بوائلر اور بھاپ کے انجن کے لیے)؛ اسی طرح ایک رمضان المبارک سے حاصل کردہ پاکیزہ روح اس عمل کے اختتام کے بعد ایک غیر آلودہ متنازعہ زندگی گزارنے سے بچا سکے گی، جس کا آغاز عید الفطر کی خوشی کے دن تقریبات سے ہوتا ہے۔

 

 رسول کریم محمد ﷺ سے منسوب تیسرے عشرے کی دعا پر غور کریں تو یہ مزید واضع ہوجاتی ہے


۔:اَللّٰھُمَّ اِنَّکَ عَفُوُّٗا تُحِبُّ الْعَفْوَفَاعْفُ عَنَّا

ترجمہ: اے اللہ بے شک تو معاف کرنے والاہے معاف کرنے کو پسند کرتا ہے پس ہمیں معاف فرمادے۔


حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ ” جب آخری عشرہ شروع ہوتا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رات بھر جاگتے اور اپنے گھروالوں کو بھی جگاتے۔ اور کمر بستہ ہو کر خوب عبادت کرتے ۔“ ( البخاری : 2024 ، مسلم : 1174 )



اسی طرح حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا یہ بھی بیان کرتی ہیں کہ ”رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عبادات میں جتنی محنت آخری عشرے میں کرتے تھے اتنی کبھی نہیں کرتے تھے “ )مسلم : (1157

 

دنیاوی کاموں کی انجام دہی کے دوران بد عملی وہ رکاوٹیں ہیں جو رمضان المبارک کی برکت کو چھین سکتی ہیں اس لیے ان سے احتیاط کرنی چاہیے۔ روزہ اللہ کے لیے ہے اس لیے روزے کا پورا مقصد خالق کو راضی کرنا ہے۔ رمضان کا مہینہ بابرکت ہے کیونکہ ایک مسلمان اللہ پر اخلاص کے ساتھ ایمان اور سنتِ نبوی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی کے ساتھ ؛ نماز اور روزے کی بدولت اپنے گناہوں سے بخشش حاصل کر سکتا ہے۔

 

حضرت ابو ھرہرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ” پانچوں نمازیں، ایک جمعہ دوسرے جمعہ تک اور ایک رمضان دوسرے رمضان تک اپنے مابین سرزد ہونے والے گناہوں کا کفارہ بن جاتے ہیں، بشرطے کہ کبیرہ گناہوں سے اجتناب کیا جائے“۔

 [صحیح مسلم 233]

 

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: " اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ”بنی آدم کا ہر عمل اس کے لئے ہے سوائے روزے کے، کہ وہ خاص میرے لئے ہے اور میں ہی اس کا بدلہ دوں گا۔ اور روزہ (گناہوں سے) سپر (ڈھال) ہے۔ پھر جب کسی کا روزہ ہو تو اس دن گالیاں نہ بکے اور آواز بلند نہ کرے پھر اگر کوئی اسے گالی دے یا لڑنے کو آئے تو کہہ دے کہ میں روزے سے ہوں اور قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کی جان ہے کہ بیشک روزہ دار کے منہ کی بو اللہ تعالیٰ کے نزدیک قیامت کے دن مشک کی خوشبو سے زیادہ پسندیدہ ہے اور روزہ دار کو دو خوشیاں ملتی ہیں جن سے وہ خوش ہوتا ہے۔ ایک تو وہ اپنے افطار سے خوش ہوتا ہے اور دوسرا وہ اس وقت خوش ہو گا جب وہ اپنے روزے کے سبب اپنے پروردگار سے ملے گا۔ [ صحيح مسلم 571]

 

میرے پیارے ساتھیو برادران اسلام ؛ پیغمبر اکرم محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے پیروکار، آئیے اس مشن کو اپنائیں اور درج ذیل طریقے سے کامیاب ہوں:-

 

حضرت عبداللہ بن امر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

"روزہ اور قرآن قیامت کے دن اللہ کے بندے کی شفاعت کریں گے: روزہ کہے گا "اے میرے رب! میں نے اسے دن کے وقت کھانے پینے اور خواہشات سے روکا، اس لیے اس کے حق میں میری شفاعت قبول فرما۔" اور قرآن کہے گا کہ " اے میرے رب میں نے اسے رات کو سونے سے روکا تو اس کے حق میں میری شفاعت قبول فرما۔ اس طرح دونوں کی شفاعت قبول کی جائے گی"۔ (احمد)

 

قَدْ أَفْلَحَ مَن زَكَّاهَا)

وہ کامیاب ہوا جس نے اپنی روح کو پاک کیا۔

 

یہ اللہ سبحان تعالی کا احسان ہے کہ اس نے ہمیں ایک بار پھر رمضان المبارک کا مقدس مہینہ عطا فرمایا ہے۔ اللہ سبحان تعالیٰ ہمیں توفیق بخشے کہ ہم اسکی رضا کیلئے کامل یکسوئی اور ایمان و احتساب کے ساتھ روزے رکھیں۔ آنحضرتﷺ کا فرمان ہے کہ " ہوشیار اور عقل مند وہ ہے جو اپنے نفس کو قابو میں رکھے اور اپنا ہر عمل آخرت کی نجات و کامیابی کو سامنے رکھتے ہوئے کرے جبکہ وہ نادان اور بے وقوف ہے جو اپنے آپکو خواہشاتِ نفس کا تابع کردے اور بجائے احکام خداوندی کے اپنے نفس کے تقاضوں پر چلے اور پھر اللہ سے اُمیدیں باندھے"۔



اللہ تعالی ہمارا حامی و ناصر ہو۔ آمین ثم آمین

More Posts