رقص میں ہے سارا جہاں

رقص ایک فن کی شکل ہے جس میں جسم کو تال کے انداز میں منتقل کرنا شامل ہے، اکثر موسیقی، خیالات، جذبات کا اظہار کرنے کے لیے، یا محض تحریک سے لطف اندوز ہونے کے لیے کیا جاتا ہے۔ رقص ایک پرفارمنگ آرٹ ہے اور دنیا کی تمام تہذیبوں، معاشرے اور قبائل میں رائج ہے۔ یہ تحریر "رقص میں ہے سارا جہاں" شاعری کی زبان میں اس محرک کی گفتگو ہے۔ جو قارئین کو یقینا" پسند آئے گی۔

2024-11-24 15:38:46 - Muhammad Asif Raza


رقص میں ہے سارا جہاں


ابھی تاریخ میں کچھ عرصہ قبل ساری دنیا کے دانشور یہ سمجھتے تھے کہ ہماری یہ کائنات جو ہمارے وہم اور گمان اور بصارتوں میں ہے؛ محض ایک فریبِ نگاہ، سراب، مایا یا " الوژن " ہے۔ یونان کے حکماء میں سرِ فہرست افلاطون کا نام آتا ہے’ اس نے یہ تخیل دیا کہ یہ کائنات موجود فی الخارج ہے’ یہ موجود ہی نہیں ہے۔ اس کی حقیقت ہی کچھ نہیں ہے’ یہ وجود ہی کچھ نہیں ہے’ یہ ہمارے تخیلات ہیں اور اصل کائنات عالمِ امثال ہے؛ کسی دوسری دنیا میں ہے۔ اقبالؒ کے الفاظ میں" عالم تمام حلقۂ دامِ خیال ہے"۔ یہ دانشوروں کی باتیں ہیں مگر ایک حقیقت ایک ذرا سی کوشش سے ہر ذ روح کو سمجھ آجاتی ہے کہ یہ دنیا کی کچھ بھی حقیقت ہو؛ ہے بے معنی ہی کہ خود قرآن نے کہا یہ دنیا کی زندگی "متاع الغرور" ہے۔ اور اس کائنات کا مرکز و محور صرف اللہ سبحان تعالی کی ذاتِ بابرکت ہے۔ 




علامہ محمد اقبال ہمارے قومی شاعرہیں اور علم والے انہیں شاعر مشرق اور حکیم الامت بھی گردانتے ہیں۔ انہوں نے ایک قطعہ بعنوان " رقص و موسیقی" میں فرمایا ہے کہ 


شعر سے روشن ہے جانِ جبرئیل و اہرمن

رقص و موسیقی سے ہے سوز و سرورِ انجمن

 فاش یوں کرتا ہے اک چینی حکیم اسرارِ فن

شعر گویا روحِ موسیقی ہے رقص اس کا ہے بدن


 اس میں علامہ نے ناچ اور راگ کے اچھے اور برے دونوں پہلو سامنے رکھے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ شعر سے سننے والے میں جبرائیلی جان یا فرشتوں کا سا جذبہ بھی پیدا ہو سکتا ہے ۔ اور اس سے شعر سننے والا شیطان خصلتوں کا حامل بھی ہو سکتا ہے ۔ یہی صورت حال ناچ اور راگ کی ہے کہ اس سے محفل میں تپش بھی پیدا ہو سکتی ہے اور عیش کے جذبات بھی ابھر سکتے ہیں ۔


 چینی فلسفی کے بقول ناچ سے شاعری کا حُسن اجاگر ہوتا ہے۔ فرق شاعری رقص اور موسیقی کے مقاصد اور انداز اظہار میں ہے ۔ چین کے ایک مفکر نے فن کے بھیدوں کو اس طرح فاش کیا ہے کہ اس کے نزدیک شاعری یا شعر موسیقی کی روح ہے اور رقص اس کا بدن ہے ۔ کیونکہ شعر گائیکی کی چیز ہے جس کا بدن کے ساتھ کوئی تعلق نہیں اور ناچ کا تعلق بدن کے ساتھ ہے ۔ اگر ان دونوں فنون کے بدن اور ان کی روح صحیح ہے تو یہ فنون بھی صحیح ہیں اگر اس کے برعکس ہیں تو دونوں ہی غلط ہیں ۔


محترم حسنین جمال ایک جگہ لکھا ہے کہ " ترک درویشوں نے سفید اور خاکستری سے رنگوں کے چوغے پہنے تھے، کچھ کی لمبی ٹوپیاں سرخ تھیں، چند سیاہ ٹوپیوں میں تھے۔ ان میں سے جنہوں نے کلام پڑھنا تھا وہ کھڑے ہوئے، پہلے ترنم سے چند مقدس کلمات پڑھے اس کے بعد مولانا رومی کی زبان میں بول پڑھنے شروع کر دئیے۔ بول ابھی آہستہ تھے۔ رباب، ستار، بانسری اور لمبوترے سے ڈھول ان کا ساتھ دیتے تھے۔ باقی سب ٹوپیوں والے قطار بنائے ایک دوسرے کے پیچھے چلتے جاتے تھے، سر جھکائے، آہستہ آہستہ چلتے وہ ایک دائرے کی سی شکل میں آ جاتے تھے۔ کچھ ہی دیر میں بول ذرا نسبتاً اونچی آواز میں پڑھے جاتے تھے۔ دائرے میں کھڑی ٹوپیاں اپنے ہی گرد گھومنا شروع ہو جاتیں۔ ان کے فراک نما چوغے پھولنے لگ جاتے؛ اور لے غیر محسوس طریقے سے بڑھتی جاتی تو ان کے ہاتھ جو پہلے پیٹ کے اوپر بندھے رکھے تھے وہ بڑھتی رفتار میں سینے تک پہنچ جاتے۔ رومی پڑھے جاتے۔ " پیش یار می رقصم"؛ ٹوپیوں والے، ہاتھ کندھوں پر رکھے پہلے سے تیز گھومی روع کردیتے تھے۔ بانسری پر دوسرے ساز غالب آ جاتےاور ہاتھ جسم سے ہٹ کر آزاد ہو جاتے اور لے مزید تیز ہوتی، تو ٹوپیاں اور تیزی سے گھومنے لگتی تھیں"۔ 


کوئی محوِ رقص ہے، تو کوئی گُم ہے خیالِ یار میں

یہ عشق کے رنگ ہیں، نہیں کچھ کسی کے اختیار میں

مبشر حسین


ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ زمین گھومتی ہے یوں کہ سورج کے گرد چکر لگاتی ہے؛ سورج خود اپنے ہی گرد لٹو ہوا جاتا ہے۔ چاند زمین کے چکر لگاتا ہے اور یہ سب اجرامِ فلکی ایک نظام میں ایک ان دیکھی قوت کے گرد گھومتے جاتے بحاگ رہے ہیں۔ سب کچھ کسی نظام کے تحت اپنے محور کے گرد گھوم رہے ہیں؛ ایسے جیسے محو رقص ہوں۔ اسی طرح ایک نظام کے تحت دیکھنے والے اور دکھانے والے بھی گھوم رہے ہیں؛ ٹوپیاں، بازو، بانسری، چوغے، چاند، زمین، سورج، الغرض سب رقص میں ہیں اور سارا جہاں گھومتا جارہا ہے؛ جیسے گویا رقص میں ہے۔  


کرۂ خاک صد انوار و صد آثار کے ساتھ

رقص میں ہے تری پازیب کی جھنکار کے ساتھ

جوش ملیح آبادی

جناب افتخار عارف کا کلام " اکیلا میں نہیں، کل کائنات رقص میں ہے" پیش خدمت ہے۔


میانِ عرصۂ موت و حیات رقص میں ہے

اکیلا میں نہیں، کل کائنات رقص میں ہے


ہر ایک ذرہ، ہر اک پارۂ زمین و زمان

کسی کے حکم پہ، دن ہو کہ رات، رقص میں ہے


اُتاق ِکُنگرۂ عرش کے چراغ کی لو

کسی گلی کے فقیروں کے ساتھ رقص میں ہے


سنائیؔ ہوں کہ وہ عطّارؔ ہوں کہ رومی ؔہوں

ہر اک مقام پہ اِک خوش صفات رقص میں ہے


یہ جذب و شوق، یہ وارفتگی، یہ وجد ووفُور

میں رقص میں ہوں کہ کُل کائنات رقص میں ہے


کسے مجال کہ جنبش کرے رضا کے بغیر

جو رقص میں ہے، اجازت کے ساتھ رقص میں ہے


میں اپنے شمسؔ کی آمد کا منتظر تھا ،سو اب

مرے وجود میں رومیؔ کی ذات رقص میں ہے


وہ قونیہ ہو کہ بغداد ہوکہ سیہون ہو

زمین اپنے ستاروں کے ساتھ رقص میں ہے

زاہدہ زیدی کا کلام " بوئے گل رقص میں ہے، باد خزاں رقص میں ہے" پیش کیا جاتا ہے۔

بوئے گل رقص میں ہے باد خزاں رقص میں ہے

یہ زمیں رقص میں ہے سارا جہاں رقص میں ہے


روح سرشار ہے اور چشم تخیل بیدار

بعد مدت کے وہی شعلۂ جاں رقص میں ہے


جل اٹھے ذہن کے ایوان میں لفظوں کے چراغ

آج پھر گرمئ انداز بیاں رقص میں ہے


پھر کسی یاد کی کشتی میں رواں ہیں لمحات

جوئے دل رقص میں ہے وادئ جاں رقص میں ہے


کتنا جاں بخش ہے یہ عشق کی وادی کا سفر

نغمہ زن طائفۂ لذت جاں رقص میں ہے


بند آنکھوں میں لرزتا ہے کوئی منظر نور

جیسے تابندہ ستاروں کا جہاں رقص میں ہے


محضر شوق میں پیکار گماں سے آگے

ذہن ہے نغمہ سرا جذب نہاں رقص میں ہے


خواب تو خواب ہیں پل بھر میں بکھر جاتے ہیں

سچ تو یہ ہے کہ بس اک کاہش جاں رقص میں ہے


بیچ ساگر میں تو تھے حوصلے موجوں سے بلند

اور ساحل پہ اک احساس زیاں رقص میں ہے

ن م راشد رقص کی نظم " اے مری ہم رقص مجھ کو تھام لے" پیش کی جاتی ہے۔

اے مری ہم رقص مجھ کو تھام لے

زندگی سے بھاگ کر آیا ہوں میں

ڈر سے لرزاں ہوں کہیں ایسا نہ ہو

رقص گہ کے چور دروازے سے آ کر زندگی

ڈھونڈ لے مجھ کو، نشاں پا لے میرا

اور جرم عیش کرتے دیکھ لے!


اے مری ہم رقص مجھ کو تھام لے

رقص کی یہ گردشیں

ایک مبہم آسیا کے دور ہیں

کیسی سرگرمی سے غم کو روندتا جاتا ہوں میں!

جی میں کہتا ہوں کہ ہاں،

رقص گاہ میں زندگی کے جھانکنے سے پیشتر

کلفتوں کا سنگ ریزہ ایک بھی رہنے نہ پائے!


اے مری ہم رقص مجھ کو تھام لے

زندگی میرے لیے

ایک خونیں بھیڑیے سے کم نہیں

اے حسین و اجنبی عورت اسی کے ڈر سے میں

ہو رہا ہوں لمحہ لمحہ اور بھی تیرے قریب

جانتا ہوں تو مری جاں بھی نہیں

تجھ سے ملنے کا پھر امکاں بھی نہیں

تو مری ان آرزؤں کی مگر تمثیل ہے

جو رہیں مجھ سے گریزاں آج تک!


اے مری ہم رقص مجھ کو تھام لے

عہد پارینہ کا میں انساں نہیں

بندگی سے اس در و دیوار کی

ہو چکی ہیں خواہشیں بے سوز و رنگ و ناتواں

جسم سے تیرے لپٹ سکتا تو ہوں

زندگی پر میں جھپٹ سکتا نہیں!

اس لیے اب تھام لے

اے حسین و اجنبی عورت مجھے اب تھام لے!

احمد فراز کا کلام " آبگینہ خیال کا " پیش کیا جاتا ہے

کل شب ہوئی کسی سے ملاقات رقص میں

وہ کب تھی زندگی تھی مرے ساتھ رقص میں


 اک دوسرے کو تھامے ہوئے بے سبب نہ تھے

محسوس کی ہے گردشِ حالات رقص میں


 اُس کے بدن کی آنچ مرے دل تک آ گئی

آوارہ ہو رہے تھے مرے ہاتھ رقص میں


 وہ ایڑیوں پہ مثلِ زمیں گھومتی رہی

سات آسماں تھے رقص کناں ساتھ رقص میں


 کوئی نہیں تھا گوش بر آواز پھر بھی وہ

سرگوشیوں میں کرتی رہی بات رقص میں


یہ دل کہ اپنا سود و زیاں جانتا نہیں

آئے طرح طرح کے خیالات رقص میں


 لمحوں کا التفات کہیں عارضی نہ ہو

میں کر رہا تھا خود سے سوالات رقص میں


موسیقیوں کی لے سے لہو موج موج تھا

وہ اس کے با وجود تھی محتاط رقص میں


 پھر آ گئے کچھ اہلِ عبا بھی سبو بہ دست

کیا کیا دِکھا رہے تھے کرامات رقص میں


 کچھ دیر بعد جیسے بہم ہو گئے تھے سب

اہلِ قبا و اہلِ خرابات رقص میں


آخر کو رقص گاہ میں ایسی پڑی دھمال

اک دوسرے سے چھوٹ گئے ہاتھ رقص میں


وہ کون تھی کہاں سے تھی آئی کدھر گئی

اتنا ہے یاد بیت گئی رات رقص میں


دل اکیلا ہی نہیں رقص میں جاں رقص میں ہے

دل اکیلا ہی نہیں رقص میں جاں رقص میں ہے

میں نے کہا خراب ہوں گردشِ چشم مست سے اس نے کہا کہ رقص کر سارا جہاں خراب ہے علی زریون

دل ایوبی کا کلام "دل اکیلا ہی نہیں رقص میں جاں رقص میں ہے" آپ کے نذر ہے۔

دل اکیلا ہی نہیں رقص میں جاں رقص میں ہے

ہم اگر رقص میں ہیں سارا جہاں رقص میں ہے


حیرت آئنہ تنہا نہ یہاں رقص میں ہے

جانے کیا دیکھ لیا دل نے کہ جاں رقص میں ہے


چشم ساقی میں ہے جس دن سے مرا شیشۂ دل

عالم کار گہ شیشہ گراں رقص میں ہے


جب سے اس نام کا آیا ہے ادا کر لینا

کون جانے یہ حقیقت کہ زباں رقص میں ہے


اے دلؔ اس بارگہہ حسن میں ہوں جب سے مقیم

عشق شاید کہ مری طبع رواں رقص میں ہے

"کلِمہ پڑھتے تھے ہم چھاؤں میں تلواروں کی"

بعض اقوام میں رقص ایک دینی فریضہ ہے؛ چنانچہ رقص کا ایک محرک ''روحانی جذبہ'' بھی ہے ۔ ہمارے ہاں صوفیاء میں ''وجد'' کی شکل میں رقص دیکھنے کو ملتا ہے۔ کشف المحجوب میں حضرت داتا گنج بخش علی ہجویری رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں؛ وجد کی کیفیت بیان نہیں کی جا سکتی، کیونکہ یہ وہ غم ہے جو محبت میں ملتا ہے؛ محبوبِ حقیقی کی چاہ میں انسان جو رقص کرتا ہے؛ لوگ اسے جہاد سے تعبیر کرتے ہیں۔ آجتک کوئی شہید اس دنیا میں واپس آکر یہ نہیں بتاتا کہ وہ کیسا جزبہ تھا کہ "کلِمہ پڑھتے تھے ہم چھاؤں میں تلواروں کی" جو دوسروں کو سمجھا سکے؟ مگر ہر دور میں ایک گروِ انسان ایسے ضرور ہوتے ہیں جو اپنے معبود برحق کے راستے میں جان سے گذر جاتے ہیں۔ عشقِ حقیقی میں ڈوبا انسان ہر دم اپنی محبوبِ حقیقی یعنی اللہ جلہ شانہ کی رضا میں مصروف رہتا ہے؛ وہ بے شک رقص میں مصروف نہیں دکھتا مگر اس کی روح ایک وجد کے عالم میں ہوتی ہے؛ وہ ہر دم " نماز عشق ادا ہوتی ہے تلواروں کے سائے میں" کے مصداق مصروف ہوتا ہے۔ ایسے انسانوں کو غلام نہی کیا جا سکتا؛ کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ "رقص زنجیر پہن کر بھی کیا جاتا ہے"۔ ایک ایسا معاشرہ جہاں ایسے افراد کی تعداد مناسب حد تک ہو تو وہ آزاد انسانوں کی ریاست اسلام ہوتی ہے۔ جیسا کہ تاریخ نے کئی مثالوں سے دیکھا اور سیکھا کہ سب سے مثالی ریاست آقائے کریم محمدﷺ کی ریاستِ مدینۃ رسولِ اطہر تھی۔ 


نام تیرا سبب جنبش لب ہائے رسول

اے قلم موت کے لمحے کی تمنائے رسول

جوش ملیح آبادی

More Posts