#QuaidEAzam "مسلمان مصیبت میں گھبرایا نہیں کرتا"
#QuaidEAzam was born on #25december 1877 and Nation Pakistan celebrates his #happybirthday with reverence. He said during his address to nation on Eid "مسلمان مصیبت میں گھبرایا نہیں کرتا" and this write up in Urdu is a a tribute to that Great Man.
2024-12-25 11:32:13 - Muhammad Asif Raza
#QuaidEAzam "مسلمان مصیبت میں گھبرایا نہیں کرتا"
آج 25 دسمبر ہے؛ بابائے قوم پاکستان حضرت قائداعظمؒ محمد علی جناح کا یومِ پیدائش۔ حکومتِ پاکستان آج کے دن چھٹی دیتی ہےاور دامے درمے سخنے کچھ سرکاری سطح پر اس دن کو منایا جاتا ہے۔ حضرت علامہ اقبالؒ نے جو خواب دیکھا تھا اسے حضرت قائداعظمؒ محمد علی جناح تکمیل کی منزل عطا کروائی کہ 14 اگست 1947 عیسوی کو ایک مسلمان ریاست پاکستان معرضِ وجود میں آیا۔ اس وقت جب تحریک پاکستان عمل پذیر تھا تو دوںوں عظیم اصحاب یہ سمجھتے تھے کہ ہندوستان میں بسنے والی مسلمان قوم مضبوط اعصاب کی قوم ہے۔ قائداعظمؒ محمد علی جناح ایک مدبر زیرک اور دور اندیش انسان اور کامل مسلمان تھے۔
حضرت علامہ اقبالؒ اور حضرت قائداعظمؒ محمد علی جناح نے ایک پژمزدہ، مایوس اور کمزور مسلمان قوم کو ناصرف بیدار کیا بلکہ ان میں ایک نئی روح بھی پھونکی۔ ایک غلام قوم کے دلوں میں انکی دگرگوں حالات کا احساس جگایا اور آزادی کی تڑپ کو محرک کیا۔ مسلمان کی شرست میں آزادی ہے اگر اسےآخرت کی اصل زندگی پر کامل یقین ہو؛ ایک ایسی زندگی کا تصور جونہ کبھی ختم ہو گی اور نہ وہاں کبھی کوئی جدا ہو گا۔ پاکستان کا قیام ایک جمھوری جدوجہد کے نتیجے میں ہوئی اور یہ کارہائے نمایاں حضرت قائداعظمؒ محمد علی جناح کی کوششوں کے مرہینِ منت تھا۔
مگر قدرت کو کچھ اور ہی منطور تھا؛ ظلم یہ ہوا کہ حضرت قائداعظمؒ محمد علی جناح آزادی کے بعد محض ایک سال ہی زندہ رہے اور لیاقت علی خان کو بھی دو سال بعد شہید کردیا گیا۔ پھر اس کے بعد دو قومی نظریہ یا نظریہ پاکستان کو پسِ پشت ڈال دیا گیا اور ملک کو غیر جمھوری اور غیر اسلامی راہ پر ڈال دیا گیا۔ نتیجتا" دسمبر 1971 میں ملک دولخت ہوگیا۔ اور مزید 53 سال بھی گذر گئے ہیں مگر ملک آج بھی نا تو جمھوری ہے اور نہ ہی اسلامی۔ ایک حکران اشرافیہ ہے جو غالب ہے اور اس کی چھتر سایہ میں کرپشن، فراڈ، دھوکہ دہی، ملک فروشی اور ایمان فروشی کا دھندہ جارہی ہے۔
آج ٢٥ دسمبر ۲۰۲۴ عیسوی ہے اور یومِ وِلادت ہے ہمارے بانی پاکستان #قائدِ_اعظم_محمد_علی_جناحؒ کی؛ بابائے قوم نے اپنا کام بڑی جانفشانی اور پورے خلوص، محبت اور دیانت سے ادا کیا تھا۔ اللہ تعالی قائداعظمؒ محمد علی جناح کو غریقِ رحمت کرے اور انکو وہ مقام عطا فرمائے کہ سارے جنتی رشک کریں اور پاکستانی فخر کریں۔ آمین ثم آمین
سو ذیل میں کچھ حالاتِ حاضرہ پر وطنِ عزیز کے شاعروں کا شعری تبصرہ پیش خدمت ہے؛ مقصد یہ ہے کہ قارئین کو یہ پڑھ کر دکھ ہو اور ان کے دل میں ان حالت کو بدلنے کی آرزو پیدا ہو۔ اگر ایسا ہوا تو یہ کوشش بیکار تو نہی ہوگی۔
ممتاز شاعر جناب افتخار حسین عارف کا کلام " قائد ؒکے حضور" پیشِ خدمت ہے۔
بے اثر ہو گئے سب حرف و نوا تیرے بعد
کیا کہیں دِل کا جو احوال ہُوا تیرے بعد
تُو بھی دیکھے تو ذرا دیر کو پہچان نہ پائے
ایسی بدلی ترے کُوچے کی فِضا تیرے بعد
اور تو کیا کسی پیماں کی حفاظت ہوتی
ہم سے اِک خواب سنبھالا نہ گیا تیرے بعد
کیا عجب دن تھے کہ مقتل کی طرح شہر بہ شہر
بین کرتی ہوئی پھرتی تھی ہوا تیرے بعد
ترے قدموں کو جو منزل کا نشاں جانتے تھے
بھُول بیٹھے تیرے نقشِ کف ِپا تیرے بعد
مہر و مہتاب دو نِیم، ایک طرف خواب دو نِیم
جو نہ ہونا تھاوہ سب ہو کے رہا تیرے بعد
ہمارے ایک اور شاعر ہیں جناب امیر الاسلام ہاشمی صاحب؛ انہوں نے حضرت علامہ اقبالؒ کو مخاطب کرکے نظم "اقبال ترے دیس کا کیا حال سناؤں" مں دکھڑا سنایا ہے؛ وہ ذیل میں موجود ہے۔
اقبال ترے دیس کا کیا حال سناؤں
دہقان تو مر ہی گیا اب کس کو جگاؤں
اگتا ہی نہیں خوشہ ِگندم کہ جلاؤں
شاہیں کا تو ہے گنبدِ شاہی پہ بسیرا
کُنجشکِ فرد مایہ کو اب کس سے لڑاؤں
اقبال ترے دیس کا کیا حال سناؤں
ڈوبا ہوا ڈونگے میں کہیں قاب میں گُم ہے
ہوٹل کی کسی گوشۂ بے خواب میں گُم ہے
گم جس میں ہوا کرتا تھا آفاق وہ مومن
مینڈک کی طرح اب کسی تالاب میں گُم ہے
اقبال ترے دیس کا کیا حال سناؤں
ہر داڑھی میں تنکا ہے، ہر اک آنکھ میں شہتیر
مومن کی نگاہوں سے بدلتی نہیں تقدیر
توحید کی تلواروں سے خالی ہیں نیامیں
اب ذوقِ یقیں سے نہیں کٹتی، کوئی زنجیر
اقبال ترے دیس کا کیا حال سناؤں
تھامے ہوئے ہم اب بھی ہیں فولاد کی تلوار
ہے کُند مگر فقر کی شمشیر جگر وار
قرآں بھی وہی ہے وہی یٰسیں وہی طہٰ
لیکن کوئی خالد ہے نہ اب حیدر کراّر
اقبال ترے دیس کا کیا حال سناؤں
شاہیں کا جہاں آج ممولے کا جہاں ہے
ملتی ہوئی ملّا سے ، مجاہد کی اذاں ہے
مانا کہ ستاروں سے بھی آگے ہیں جہاں اور
شاہین میں اب طاقتِ پرواز کہاں ہے
اقبال ترے دیس کا کیا حال سناؤں
جھگڑے ہیں یہاں صوبوں کے ذاتوں کے نسب کے
اگتے ہیں تہ سایہ ِگُل خار غصب کے
یہ دیس ہے سب کا مگر اس کا نہیں کوئی
اس کے تنِ خیستہ پہ تو اب دانت ہیں سب کے
اقبال ترے دیس کا کیا حال سناؤں
بہتا ہے علاقائی تعصب کا وہ دھارا
نفرت کو جنم دیتا ہے ہر کھیت ہمارا
اقبال نے جس مٹی کو زرخیز کہا تھا
وہ آج زرا نم ہو تو بن جاتی ہے گارا
اقبال ترے دیس کا کیا حال سناؤں
بے باکی و حق گوئی سے شرماتا ہے مومن
مکاری و روباہی پہ اتراتا ہے مومن
جس رزق سے پرواز میں کوتاہی کا ڈر ہو
وہ رزق بڑے شوق سے اب کھاتا ہے مومن
اقبال ترے دیس کا کیا حال سناؤں
دیکھے کوئی محلوں کے پردوں کو اٹھاکر
شمشیر و سِناں رکھے ہیں طاقوں میں سجا کر
آتے ہیں نظر مسندِ شاہی پہ رنگیلے
تقدیرِ اُمم سوگئی، طاؤس پہ آکر
اقبال ترے دیس کا کیا حال سناؤں
مکاری و غداری و عیاری و ہیجان
بنتا ہے اب ان چار عناصر سے مسلمان
قاری اسے کہنا تو بڑی بات ہے یارو
اِس نے تو کبھی کھول کے دیکھا نہیں قرآن
اقبال ترے دیس کا کیا حال سناؤں
محمودوں کی صف آج ایازوں سے پرے ہے
جمہور سے سلطانیِ جمہور ڈرے ہے
تھامے ہوئے دامن ہے، یہاں جو بھی خودی کا
مر مر کے جئے ہے، کبھی جی جی کے مرے ہے
اقبال ترے دیس کا کیا حال سناؤں
مَرمَر کی سِلوں سے کوئی بے زار نہیں ہے
رہنے کو حرم میں کوئی تیار نہیں ہے
کہنے کو ہر اک شخص مسلمان ہے لیکن
دیکھو تو کہیں نام کو کردار نہیں ہے
اقبال ترے دیس کا کیا حال سناؤں
پیدا کبھی ہوتی تھی سحر، جس کی اذاں سے
وہ بندہِ مومن کوئی اب لائے کہاں سے
گفتار میں جو تھا کبھی اللہ کی برہان
کہتے ہوئے ڈرتا ہے حق بات زباں سے
اقبال ترے دیس کا کیا حال سناؤں
پابند نہیں خوبیِ اعمال کا مومن
قائل نہیں اس طور کے جنجال کا مومن
سرحد کا ہے مومن کوئی بنگال کا مومن
ملتا نہیں اب ڈھونڈے سے اقبال کا مومن
اقبال ترے دیس کا کیا حال سناؤں
حضرت قائداعظمؒ محمد علی جناح نے آزادی کے فورا" بعد پہلی عید کے موقع پر خطاب کرتے ہوئے فرمایا تھا کہ "مسلمان مصیبت میں گھبرایا نہیں کرتا" اور درست فرمایا تھا اور مزید کہا تھا کہ "ہمیں جو دکھ دیا گیا ہے اسکی مثال تاریخ میں نہیں ملتی، مگر ہمیں پاکستان قائم رکھنے کے لیے ابھی بھی بہت محنت کرنا ہوگی"۔ میرے پاکستانیو! ہمیں 77 سالوں میں سوائے دکھ، درد اور غموں کے کیا دیا گیا ہے؟ آج ہم نہ تو ایک اسلامی فلاحی جمھوری ریاست ہیں اور نہ ہی کوئی انسانی آبادی جہاں کچھ فکرِ انساں پنپ رہی ہو؛ مگر کب تک؟ آخر ہم کب خود کو بدلیں گے؟ یاد رہے اس قوم کی تقدیر نہیں بدلتی جو خود اپنا نصیب بدلنا نہ چاہتی ہو۔ ہم بدلیں گے تو زمانہ خود ہی مارے سنگ ہوگا۔