پاکستان کی علاقائی زبانوں کے ممتاز نعت گو شعراء

Naat is a Poetic expression of love and respect in the honour of Hazrat Muhammad (PBUH). The art of saying Naat was established during the life of Holy Prophet (PBUH). This article takes a cursory look into the Poetic Expressions of excellence in the languages spoken in Pakistan (Sindhi, Pushtu, Bulochi) over a period of time and selected verses are mentioned.

2023-09-29 15:45:25 - Muhammad Asif Raza

پاکستان کی علاقائی زبانوں کے ممتاز نعت گو شعراء


اسلام کا پیغام سلامتی اور رحمت کی دعوت کا ہے۔ خاتم النبیین حضرت محمد ﷺ اور صحابہ کرام کی حیات طیبہ اسلامی تعلیم، تبلیغ و تلقین اور جہاد فی سبل اللہ کا منبع و مرکز تھا۔آپ ﷺ کی سیرت داعیان اسلام کے ایک بڑے سلسلہ کے لیے مشعلِ راہ اور ہرزِ جاں رہی ہے۔ انکی محنتِ شاقہ کی بدولت دنیا کے ہر گوشہ میں ایمان اور اسلام کی شمع کا نور پھیلا۔ اسلام کا پیغام جزیرہ نما عرب کی حدود سے نکل کر دنیا کے دور دراز علاقوںتک پہنچا تو ان علاقوں میں اسلامی حکومتیں قائم ہوئیں۔ اسلام کے بدولت ان حصوں میں سیاسی، سماجی، معاشی و معاشرتی تبدیلیاں رونماں ہوئیں۔


سندھی زبان کی نعت گوئی


بر صغیرِ ہند میں سندھ وہ پہلا خطہ ہے جہاں پر اسلام کی کرنیں پہنچی ، اور ان کرنوں نے بعد میں پورے برصغیر کو روشن کیا۔ سندھ میں اسلامی علوم و فنون کے تمام شعبہ جات میں علمی وتحقیقی کام ہوا ہے۔ سندھ کے صوفیاء کی کوششوں سے اسلام کی تبلیغ و اشاعت بڑا کام سرانجام پزیر ہوا۔ ان صوفیاء میں سب سے بڑا مقام شاہ عبداللطیف بھٹائیؒ کا ہے۔ جنہوں نے اپنے کلام کے توسط سے محبت، امن و یکجہتی کا پیغام عام کیا۔


شاہ عبد اللطیف بھٹائی، سندھی زبان کے سرتاج شاعر کہے جاتے ہیں۔ وہ نہ فقط سندھ کے سب سے بڑے شاعر ہیں بلکہ برصغیر کے عظیم صوفی بزرگ بھی مانے جاتے ہیں۔ آپ نے اپنی شاعری کے ذریعے اللہ اور اس کے حبیب، حضور اکرم ﷺ کے پیغام کو عام لوگوں تک پہنچایا۔ ان کےشعری مجموعے ’’شاہ جو رسالو‘‘ نے دنیا بھر میں پذیرائی حاصل کی ہے۔ ذیل میں انکے کلام کا ایک نمونہ دیا جاتا ہے۔ اَوَلِ اللهُ عَلِيمُ، اَعلیٰ عالَمَ جو ڌَڻِي،قادِرُ پَنھِنجيءَ قُدرَتَ سين، قائِمُ آھِ قَدِيمُ،والِي واحِدُ وَحدَہٗ، رازِقُ رَبُ رَحِيمُ،سو ساراھِ سَچو ڌَڻِي، چَئِي حَمدُ حَڪِيمُ،ڪَري پاڻَ ڪَرِيمُ، جوڙُون جوڙَ جَھانَ جِي. تیری ہی ذات اول و آخر تو ہی قائم ہے اور تو ہی قدیمتجھ سے وابستہ ہر تمنا ہے تیرا ہی آسرا ہے ربّ کریمکم ہے جتنی کریں تیری توصیف تو ہی اعلیٰ ہے اور تو ہی علیموالیِ شش جہات واحد ذات رازقِ کائنات، ربِ رحیم وَحۡدَہٗ لا شَرِيڪَ لَهٗ ، جانۡ ٿو چَئِين اِيئَن،تانۡ مَڃُ مُحَّمَدُ ڪارَڻِي، نِرتو مَنجهان نِينھَن،تان تُون وَڃِئو ڪِيئَن، نائِين سِرُ ٻِئَنِ کي. اگر اللہ پر رکھتے ہو ایماں رسول اللہ سے بھی لو لگائوسمائے جس میں ان دونوں کا سودا کسی در پر نہ اس سر کو جھکائو بیت: (کَڻِي نيڻَ خُمارَ مان، جان ڪيائون نازُ نَظَرُ؛سُورجَ شاخُون جَھڪِيُون، ڪُوماڻو قَمَرُ؛تارا ڪَتِيُون تائِب ٿيا، ديکِيندي دِلبَرُ؛جَھڪو ٿيو جَوهَرُ، جانِبَ جي جَمالَ سين) ترجمہ: نور الہدیٰ شاہاٹھی جو نگاہِ یار، خمار سے بوجھلاک نظرِ ناز بنی چار سوُ کا منظر سمٹ گیا سورج خود اپنے ہی اندر بجھ گری ہر شاخِ آفتابکُمھلا گیا رُخِ ماہتاب ٹھہر گیا افلاک کا رقصِ گردشسب ہی سیارے و ستارے و ماہ پارے حیراں و ساکت ہوا تائب حُسن و تکبر دیکھا جو چہرہِ دلبر کیا ہیرے! کیا موتی! کیا لعل و جوہر! سب ہی کی آب و تاب ہوئی مدھم ہوا جونہی روشن، رُخِ جمالِ جانم


 سچل سرمست کی نعت گوئیشاہ عبداللطیف بھٹائی کے بعد سچل سرمست کو سندھی زبان کا ممتاز ترین شاعر سمجھا جاتا ہے۔ سچل سرمست سندھ سے تعلق رکھنے والے مشہور صوفی بزرگ، شاعر، فلسفی اور مفکر تھے۔ آپ کو ’’شاعر ہفت زباں‘‘ کہا جاتا ہے کیونکہ آپ مشہور فکرِ سخن (کلام) سات زبانوں میں لکھا ہے جس کے باعث ادبی حلقوں میں آپ کی شہرت انمنٹ ہے۔ مزید برآں؛ سندھی معاشرے میں سچ کی پہچان کے لیے آپ کا نام ’’سچل‘‘ بطور استعارہ استعمال کیا جاتا ہے۔ ذیل میں انکے کچھ اشعار ہین جن کا منظوم اردو ترجمہ شیخ ایاز کا ہے: اوتڙ ڪنهن نه اوليا، ستڙِ ويا سالمهيڪائي هيڪ ٿيا، احد سين عالمبي بها بالم، آگي ڪيا اڳهين. اگر اللہ پر رکھتے ہو ایمانرسول اللہ سے بھی لو لگاؤسمائے جس میں ان دونوں کا سوداکسی در پر نہ اس سر کو جھکاؤ آگي ڪيا اڳهِين، نسورو ئي نورلَا خَوفٌ عَلَيهِمۡ وَلَا هُمۡ يَحۡزَنُونَ، سچن ڪونهي سورمولي ڪيو مَعمور، انگ ازل ۾ اُن جو جنہوں نے دل سے اس یکتا کو مانامحمد کو بصد اخلاص جانانہ ان کو کوئی گمراہی کا خطرہنہ ان سے دور ہے ان کا ٹھکانا


 پشتو کی نعت گوئی پشتوزبان میں خوشحال خان خٹک ایک نہایت ہمہ گیر شخصیت ہیں۔ خوشحال خان شاعر تھے، ادیب تھے، امیر تھے اور فقیر بھی تھے۔ اپنی زمین کی اٹھان اور چلن کے مطابق انہیں تلوار اور ڈھال سے بھی عشق تھا اور ساز و سخن سے بھی لگاؤ تھا۔ وہ کتابوں کی خطاطی بھی کیا کرتے تھے اور شکار کے میدان میں بھی طالع آزماء بھی تھے۔ الغرض زندگی کے ہمہ جہت رخوں پر انہوں نے طبع آزمائی کی۔ اور ادب کی ہر صنف میں انہوں نے پشتو زبان کو دوسری زبانوں کے ساتھ ہم پلہ کھڑا کیا۔ سچ تو یہ ہے کہ پشتو زبان پر خوشحال خان بابا کا جتنا احسان ہے اتنا کسی دوسرے شخص کا نہیں ہے۔ آپ نے اپنی شاعری کے ذریعے اللہ اور اس کے حبیب حضور اکرم ﷺ کے پیغام کو عام لوگوں تک پہنچایا۔ خوشحال خان خٹک؛ پشتو شعر و شاعری میں ایک نمایاں شخصیت ہیں اور اللہ کریم اور رسول اللہﷺ کی محبت میں شرسار آپ کی شاعری کو ایک اونچا مقام حاصل ہے۔ آپ کے چند اشعار یہ ہیں

د خداي عرفان می وشو په عرفان د محمد​

پاک دَي محمد پاک دي سبحان د محمد​

 مجھے محمد(ص) کے عرفان سے خدا کا عرفان ملا۔محمد(ص) پاک ہیں اور محمد(ص) کے سبحان بھی پاک ہیں۔ راشه نظر وکړه په طه او په یسین کښخدای دي صفت کړي په قرآن د محمدآؤ (سورۃ) طحٰا اور (سورۃ)یٰس پر نظر کرو۔خدا نے قرآن میں محمد(ص) کی تعریف کی ہے۔ ډیر خلق پیدا دي انبیاء که اولیاء دينشته په خلقت کښ یو په شان د محمد(دنیا میں) بہت سے لوگ پیدا ہوئے ہیں، چاہے انبیاء ہوں یا پھر اولیاء-لیکن پوری خلقت میں کوئی محمد(ص) کی شان والا نہیں ہے۔ خداي سره موسی په کوه طور کړلې خبريدَې د عرش د پاسه لامکان د محمدخدا نے تو موسٰی (ع) کیساتھ کوہ طور پر کلام کیا۔لیکن محمد(ص) کا مکان عرش سے بھی اونچا ہے۔ پیک ئې جبرئیل وُ دَ رفرف جلب نیولَيپاس ئې چه معراج وُ په آسمان د محمدرفرف کا جلاب پکڑے جبرائیل ان کے کوچوان بنے تھے۔جب اوپر آسمان پر محمد(ص) کا معراج تھا۔ خوان د موسی خوړمن سلوي یو لك وگوريانس و جن مړیږي تل په خوان د محمدموسٰی (ع) کے دسترخوان سے من و سلویٰ میسر تھا جس سے کچھ لاکھ لوگ بھوک مٹاتے تھے-(تمام) انسان اور جن ہمیشہ محمد(ص) کے دسترخوان سے فیض پاتے ہیں خواست به نور څوک نکا دَ خسته وُو عاصیانوخواست به محمد کا، خاندان د محمد(اللہ کے حضور یوم قیامت) کوئی اور گناہ گاروں اور خستہ حال لوگوں کی شفاعت نہ کر سکے گاسوائے محمد(ص) اور ان کے خاندان کے- لاس دي لگولي ما خوشحال په دواړو کونهغم اندوه مي نشته په دامان د محمدمیرے ہاتھوں نے، اے خوشحال، دونوں کونوں کو ہاتھوں سے پکڑا ہوا ہے۔مجھ کوئی غم و اندوہ نہیں ہے، کیونکہ میرے ہاتھوں نے محمد(ص) کا دامن تھاما ہوا ہے۔


 رحمن بابا کی نعت پشتو کے عظیم صوفی شاعر عبد الرحمن بابا ایک تاریخی شخصیت ہیں۔ آپ کو پشتون شاعری میں ایران کے فارسی شاعر حافظ شیرازی کا مقام دیا جاتا ہے۔ آ پ کا کلام تصوف کے رموز سے مامور ہے۔ آپ کا مجموعہ کلام دیوان کے نام سے شائع ہو چکا ہے۔  کہ رڼا دہ پیروی د محمدﷺدہګڼہ نشتہ پہ جہان بلہ رنڑا یعنی اگر اس جہان میں اگر کوئی ہدایت اور پیروی کے لائق روشنی ہے تو وہ صرف محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات اقدس کی راہ ہے۔ ورنہ اس جہاں میں اس کے علاوہ کوئی روشنی والا راستہ نہیں ہے۔ زه رحمان د محمد د در خاکروب یمکه مې نه کا خدای له دې دره جدامَیں «رحمان» حضرتِ مُحَمّد ﷺ کے در کا خاکروب ہوں۔۔۔ کاش کہ خُدا مجھ کو اِس در سے جُدا نہ کرے۔

 بلوچی / براہوی زبان کی نعت گوئی بلوچی / براہوی زبان مختلف لہجوں میں بولے جانے والی اپنے اندر تاریخی چاشنی رکھتی ہے۔ برصغیر ہند کے مختلف علاقوں سمیت زمینِ بلوچستان میں اسکا اثر ورسوخ بہت واضع نظر آتا ہے۔ بلوچی / براہوی زبان تاریخی طورپر قصے وکہانیوں کے لیے مشہور ومعروف ہے۔ پاکستا کی دوسری علاقائی زبانوں کی طرح صوفیانہ شاعری کا اثر اور رنگ وسیع ذخیرہ کے طور پر دکھتا ہے۔ بلوچی / براہوی زبان کے کئی ایک نامور صوفی شعراء ہیں جنہوں نے نعت گوئی میں طبع آزمائی کی ہے۔ ان میں بابا جوانسال بگٹی(ڈیرہ بگٹی) سمیت مستیں توکلی(کوہلو)، صوفی رکھیل شاہ، صوفی چیزل شاہ (فتح پور)، پہلوان فقیر(جیکب آباد)، اشرف فقیر(کچھی) احمد فقیر(بھاگناڑی)، مولوی قادربخش (صحبت پور) ودیگرشامل ہیں۔بابا جوانسال بگٹی کی شاعری میں حمد ونعت‘ حسن وعظمت کے علاوہ بلوچی اخلاقی قدروں کی پاسداری کی تلقین وہدایات واضح انداز میں چمکتی دمکتی نظر آتی ہیں۔ ذیل میں ایک نعت کا نمونہ پیش کیا جا رہا ہے:کوڑی تختہ من مےذانامنتھ و جکھثہ اژ جانادر کھپتہ حےا گوں شانا ۔دےمےں پے دہِ ئةُ بےواناگوشتہ عاجزےں جوانسالابےارے محمد ی اسلاماہندے دنےائے بے ثباتی آں چوں ظاہر کنت۔اے دنےا دروگےں ےہ گھڑی ئے نوقےامتئے چھوشےں پٹری ئے نو۔ 

 رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینے میں اپنی آمد پر گائے اشعار سن کر اپنی آرام گاہ سے باہر تشریف لائے اور ان بچیوں سے فرمایا کہ کیا تم محمدؐ سے محبت کرتی ہو؟ انہوں نے عرض کیا: اللہ کی قسم، یارسولؐ اللہ! آپ نے فرمایا: میں بھی اللہ کی قسم! تم سب سے محبت کرتا ہوں، آپ نے یہ جملہ تین مرتبہ ارشاد فرمایا، آپ ﷺنے ان بچیوں کو دعائیں بھی دیں۔ (سنن ابن ماجہ، رقم الحدیث، ۱۵۵۳، مسند ابی یعلی، رقم ۳۴۰۹)

آئیے اپنی زندگی کو نعتِ رسول ﷺ سے مزین کریں کہ اس سے بہتر کوئی ورد نہی؛ کوئی ذکر نہی۔ اوپر کی حدیث کے مطابق کیا خبر آقا کریم محمدﷺ ہماری ضمن میں ایسے ہی جذبات کا اعادہ کردیں۔ ہم تو غلام ابنِ غلام ہیں اور ہر عاشقِ رسول ﷺ کا اعجاز یہی ہے کہ آقا کریم ﷺ ہمیں اپنا کہہ دیں

اللهم صل على محمد و على آل محمد كما صليت على ابراهيم و على آل ابراهيم انك حميد مجيد 🌹 

اللهم بارك على محمد و على آل محمد كما باركت على ابراهيم و على آل ابراهيم انك حميد مجيد 🌹

More Posts