وقت کی قید میں زندگی ہے مگر؟
Life is gift of Nature. We have involved into quest for material gains and have lost the touch of the beauty and sense of laughter in real sense. There is a need to relook into the affairs of life and identify the real purpose of life. This write up the sums up the meanings of real life and targets to achieve.
2023-10-04 19:25:01 - Muhammad Asif Raza
وقت کی قید میں زندگی ہے مگر؟
یہ دنیا ایک نظامِ زندگی کی پابند ہے۔ ہر روز سورج مشرق سے طلوع ہوتا ہے تو دن کا آغاز ہوتا ہے اور پھر یہ روشن آگ کا گولہ سفر کرتا ہوا مغرب کی طرف جاتا ہے اور کہیں ڈوب جاتا ہے تو شام ہوچکی ہوتی ہے اور کچھ سمے گذرتے ہے رات آ پڑتی ہے۔ شاعر منشی امیر اللہ تسلیم نے کیا خوب کہا ہے کہ
صبح ہوتی ہے شام ہوتی ہے
عمر یوں ہی تمام ہوتی ہے
زندگی بڑھتی رہی اور تہذیبیں جنم لیتی رہیں۔ مگر وقت نے شاید ایسی تیزی نہی دیکھی جیسے آج کی دنیا میں دیکھنے والی ہے۔ وقت ہے کہ بھاگا جا رہا ہے۔ دن گذرتے ہیں؛ ہفتے گذر رہے ہیں اور ماہ و سال بدل رہے ہیں؛ ایسے جیسے بس کچھ ہے سمے میں زندگی بیتی جارہی ہے۔ لوگ اکثر کہتے پائے جارہے ہیں کہ پتہ ہی نہی لگا کہ سال گذر گیا۔ ابھی کل ہی کی بات ہے کہ میں کالج آیا تھا؛ ابھی کل ہی کی بات ہے کہ ہم نے یونیورسٹی جوائن کی تھی۔ ارے ابھی تو کل ہی ہماری شادی ہوئی تھی اور سال بھی گذر گیا؛ پتہ ہی نہی چلا۔ وقت ہے کہ بھاگا جارہا ہے۔ مگر آج سے کہیں پہلے استاد الغزل و استاد الشعراء اسد اللہ کان غالب نے کہا ہے کہ
رو میں ہے رخش عمر کہاں دیکھیے تھمے
نے ہاتھ باگ پر ہے نہ پا ہے رکاب میں
اب اگر وقت کا دھارا تیزی سے بہہ رہ ہے تو کیا آدمی جینا بھول جائے؟ کیا بشر گھڑی کا قیدی بن گیا ہے؟ اور کیا حوا کی اولاد زندگی کے حسن اور رعنائی سے ماوراء مشقت کاٹے گا؟ کیا یہ زندگی جبرِ مسلسل ہے اور انسان خود اپنی دنیا کا قیدی ہے؟ کیا اب ہم مشینوں کے محتاج ہوگئے ہیں اور کیا اب ہم زمین و آسمان اور اس کے درمیان پھیلی ہوئے حسن و عشق؛ خوبصورتی اور رعنائی؛ محبت اور ہمدردی؛ احسان و مروت سب ختم ہوجائے گا؟
آئیے خود کو ذرا تھوڑی دیر کے لیے ہی سہی مگر خود کو وقت کی قید سے آزاد کرالیتے ہیں۔ کیا ضروری ہے کہ گھڑی پر نظر ڈالی جائے اور کسی انجانے خوف کے تحت ہاتھ میں آیا لمحہ موجود کا سما بکھر جانے دیا جائے۔ آئیے ذرا فیاض ہاشمی کی سن لیتے ہیں
آج جانے کی ضد نہ کرو
یونہی پہلو میں بیٹھے رہو
ہائے ! مر جائیں گے، ہم تو لُٹ جائیں گے
ایسی باتیں کیا نہ کرو
یاد رکھنے کی بات تو یہ ہے کہ پروردگار عالم نے اگر ہم ایک گروہِ آدم کو، ایک دوستوں کے جھرمٹ کو؛ ایک محبت کرنے والے دو مختلف الجنس انسانوں کو ایک لمحہ موجود میں اکھٹا کر دیا ہے تو ہم اس ساتھ کو، اس ملاقات کو امر کیوں نہی کرسکتے۔ اگر ہم ایک وقت میں، ایک جگہ پر موجود ہوں تو کیا ہمیں اس وجہ ملاقات، اس ملاپ یا اس مقابلے کو خوش رنگ نی بنانا چاہیے۔ آئیے اس لمحہ میں دوسرے کو اس حال میں جدا نہیِ کریں کہ وہ ناخوش ہو، ناراض ہو، یا مایوس جائے۔ ہونا تو یوں چاہیے کہ
تم ہی سوچو ذرا کیوں نہ روکیں تمہیں
جان جاتی ہے جب اُٹھ کے جاتے ہو تم
تم کو اپنی قسم جانِ جاں
بات اتنی میری مان لو
یقین کیجیے کہ کسی روٹھے کو منا لینا؛ کسی بچھڑے کو اپنوں سے ملا دینا؛ کسی مایوس کی امید کو بر لانا؛ کسے گرے ہوئے کو سنبھالا دینا؛ کسی کی دھوپ میں سایہ بننا؛ کسی کی الجھن کا حل بننا؛ کسی نفرتوں میں لپٹے کو شفقت سے آشنا کرادینا؛ کسی شکست خوردہ کو ہنسا دینا؛ علم و حکمت؛ تدبیر و تقدیر کی گرہوں سے الگ عبادت ہے اور موجبِ سکون ہے۔ یقین کیجے وقت کتنا ہی کیوں نا تیز ہو اس لمحے آپکی قید میں ہوگا۔ اور آپ آزاد ہونگے
وقت کی قید میں زندگی ہے مگر
چند گھڑیاں یہی ہیں جو آزاد ہیں
ان کو کھو کر ابھی جانِ جاں
عمر بھر نہ ترستے رہو
کیا ہم نے کبھی ان لوگوں کو دیکھا ہے یا انکے بارے میں جانا ہے جو رنگ، نسل، ذات پات، زبان اور قومیت کی تفریق سے سوا انسانوں اور حیوانات کی بھلائی میں جڑی زندگی گذارتے ہیں؟ انکی زندگیاں کتنی معصوم و رنگیں ہوتی ہے؟ اور گمان کریں اس سماں کا؛ حسنِ کردار اور عشقِ حقیقی کی اس معراج کا جو وہ حاصل کر پاتے ہیں۔ ایسے لوگ ہوتے ہیں جنکو کل کی پروا نہی ہوتی؛ کیونکہ آنے والے کل انکی زندگی کو مزید حسین بنا دینے والا ہوتا ہے۔ یہ وہ لوگ ہوتے ہیں جو جب چاہیں وقت کو روک لیتے ہیں؛ وہ نہی کہتے کہ کل کی کس کو خبر جانِ جاں؛ انکا دن بھی اپنا ہوتا ہہے اور رات بھی۔ انکا دن روز عید اور رات شبِ برات ہوتی ہے۔
عزیزانِ گرامی؛ ابھی بھی کچھ نہی بگڑا؛ کیوں کہ وقت کا دھارا آج بھی آپ اپنی گرفت میں لے سکتے ہیں؛ ابھی تلک گیسوؤں کی شکن شبنمی ہے اور پلکوں کے سائے بھی مد ہوش ہیں۔ ہاں صرف آپکی نظر دھندلا گئی ہے؛ آپ نے غور کرنا چھوڑ دیا ہے؛ آپکی فکر توانا نہی رہی۔ پیدا کرنے والے نے تو آپ کو حسنِ معصوم کی ادا اور کائنات کی جانِ جاں بنا کر بھیجا ہے مگر آپ خود ہی مادہ پرستی کی دوڑ میں اس قدر تیز بھاگ رہے ہیں کہ احساس کی تمام لذت سے عاری ہوگئے ہیں۔ اس ہوس کی بے خودی میں خود کو نہ رسوا کریں۔
اپنے ہاتھ میں بندھی گھڑی کو اتاریں اور سمارٹ فون سے خود کو الگ کریں۔ آئیں ذرا اس وادی کو چلیں؛ دیکھیں کہ کیا خوب سبزہ ہے؟ کیا قطار اندر قطار پھولوں کی بہار ہے؛ اودے اودے، نیلے نیلے، پیلے پیلے پیرہن ہیں۔ کہیں جوہی ہے تو کہیں گیندا، کہیں چمپا ہے تو کہیں نرگس؛ کہیں موتیا ہے تو کہیں گلاب؛ الغرض قدرت نے خوب رنگ بکھیر رکھے ہیں؛ اور ان رنگوں کو دو آتشہ کرنے کو شاخوں، ٹہنیوں؛ درختوں پر اڑتے پھرتے مختلف النوع اقسام کے طیور اپنے اپنے گیت گارہے ہیں۔ آئیے خود کو انکے درمیان لے چلتے ہیں؛ ائیے انکی بولی سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں؛ جب ہم ایسا کریں گے تو دیکھیے گا کہ وہیں کہیں کوئی چشمہ؛ کوئی آبشار؛ کوئی ندی ہمیں پکارے گی۔
آپ جائیے؛ ان سے باتیں کریں، انکی سنیں اور انکو سنائیں؛ اور خدا کی حممد بیان کریں تو پھر آسمان سے بادل بھی آپ کے سنگ گنگنائیں گے۔ ان گیتوں کو اپنے من میں؛ اپنے دل میں، اپنی یادوں میں بسا لیجیے گا۔ اس کے بعد جب بھی زندگی مصروف ہوجائے اور فرصت محال ہوجائے تو تھوڑی دیر کو رک جائِے گا اور اپنے اندر بسی ان یادوں کو ٹھٹولیے گا تو وہ گیت؛ وہ خوشبو؛ وہ اپنائیت؛ وہ نغمگی؛ وہ رسانیت؛ وہ اپناییت آپ کے اندر کھل اٹھیں گے اور آپ کو ہلکا کردیں گے۔ آئیے زندگی کو جیتے ہیں
کھویا جسے نظر نے، تصور نے پا لیا
دل کا معاملہ تھا، بگڑ کر سنور گیا
تحریر محمد آصف رضا
آخر میں ایک بہترین گائیکی سے بھی لطف اندوز ہوں