Thomas Moore's is an Irish Poet who has offered many valuable poems to English literature. "Oft In The Stilly Night" is one of his famous poems. The poet is remembering all the old memories of his friends while laying in his bed. This poem has been translated in Urdu by Poet Nadir Kakoravi. Here both the poems are presented.
Oft, in the Stilly Night (Scotch Air) : اکثر شب تنہائی میں
نادر کاکوروی کی شہرہ آفاق نظم '' اکثر شب ِ تنہائی میں '' دراصل آئرلینڈ کے انگلش شاعر "تھومس مور" کی ایک مشہور نظم ’’آف ان دی اسٹیلی نائٹ‘‘ کا منظوم ترجمہ ہے۔ مترجم نادر کاکوروی بہت خوبصورتی سے ترجمہ کا حق ادا کیا ہے کہ اصل نظم میں موجود احساسات اور جذبات کو عمدہ انداز میں اردو میں ڈھالا ہے۔ ایک تہذیب سے وارد ہونے والی تحریر کا دوسری زبان میں ترجمہ نہایت پیچیدہ بھی ہوسکتا ہے مگر اس نظم کی خوبصورتی یہ ہے کہ یہ اردو پڑھنے والوں کو بھی مبہوت کردیتا ہے کہ خیال بہت انسانی تجربات کا ہے۔
نظم ’’آف ان دی اسٹیلی نائٹ‘‘ شاعر کی یادوں کے بارے میں ہے، اس نظم میں وہ بستر پر لیٹے تمام پرانی یادیں یاد کر رہے ہیں، وہ اس اچھے وقت کے بارے میں سوچ رہے ہیں؛ جو انہوں نے اپنے دوستوں کے ساتھ گزارا تھا۔ یہ یادیں اس کے پاس اس سے پہلے آتی ہیں-" پہلے" -- وہ سو جاتا ہے -- دوسرے لفظوں میں، اس سے پہلے کہ "نیند" اس پر غالب آجائے۔ جب وہ کہتا ہے کہ نیند یا نیند کی زنجیر نے اسے جکڑ لیا ہے، تو وہ اس طریقے سے مراد کرتا ہے جس طرح نیند ہمیں اپنی جگہ پر رکھتی ہے اور ہمارے خیالات کو کنٹرول کرتی ہے۔
آپ خود یہ نظم پڑھیے اور سر دھنیے ۔ احباب کی تفریح ِ طبع کے لئے ذیل میں دونوں ہی نظمین پیش کی جارہی ہیں۔ ۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔*۔*۔*۔*۔*۔*۔*۔*۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اکثر شب تنہائی میں
کچھ دیر پہلے نیند سے
گزری ہوئی دلچسپیاں
بیتے ہوئے دن عیش کے
بنتے ہیں شمع ِ ذندگی
اور ڈالتے ہیں روشنی
میرے دل ِ صد چاک پر
وہ بچپن اور وہ سادگی
وہ رونا اور ہنسنا کبھی
پھر وہ جوانی کے مزے
وہ دل لگی، وہ قہقہے
وہ عشق ،وہ عہدِ و فا
وہ وعدہ اور وہ شکریہ
وہ لذتِ بزم ِ طرب
یاد آتے ہیں ایک ایک سب
دل کا کنول جو روز و شب
رہتا شگفتہ تھا سو اب
اسکا یہ ابتر حال ہے
اک سبزۂ پا مال ہے
اک پھول کُملایا ہُوا
ٹوٹا ہوا، بکھرا ہُوا
روندا پڑا ہے خاک پر
یوں ہی شبِ تنہائی میں
کچھ دیر پہلے نیند سے
گزری ہوئی ناکامیاں
بیتے ہوئے دن رنج کے
بنتے ہیں شمع ِ بےکسی
اور ڈالتے ہیں روشنی
ان حسرتوں کی قبر پر
جو آرزوئیں پہلے تھیں
پھر غم سے حسرت بن گئیں
غم دوستو ں کی فوت کا
ان کی جواناں موت کا
لے دیکھ شیشے میں مرے
ان حسرتوں کا خون ہے
جو گرد ش ِ ایام سے
جو قسمتِ ناکام سے
یا عیش ِ غم ِ انجام سے
مرگِ بتِ گلفام سے
خود میرے غم میں مر گئیں
کس طرح پاؤں مَیں حزیں
قابو دلِ بےصبر پر
جب آہ ان احباب کو
مَیں یاد کر اٹھتا ہوُں جو
یوں مجھ سے پہلے اُٹھ گئے
جس طرح طائر باغ کے
یا جیسے پُھول اور پتیاں
گر جائیں سب قبل از خزاں
اور خشک رہ جائے شجر
اس وقت تنہائی مری
بن کر مُجسّم بےکسی
کر دیتی ہے پیش ِ نظر
ہُو حق سا اِک ویران گھر
ویراں جس کو چھوڑ کے
سب رہنے والے چل بسے
ٹو ٹے کواڑ اور کھڑ کیاں
چھت کے ٹپکنے کے نشاں
پرنالے ہیں روزن نہیں
یہ ہال ہے آنگن نہیں
پردے نہیں، چلمن نہیں
اک شمع تک روشن نہیں
میرے سوا جس میں کوئی
جھانکے نہ بُھولے سے کبھی
وہ خانۂ خالی ہے دل
پُوچھے نہ جس کو دیو بھی
اُجڑا ہُوا ویران گھر
یوں ہی شب ِ تنہائی میں
کچھ دیر پہلے نیند سے
گزری ہوئی دلچسپیاں
بیتے ہوئے دن عیش کے
بنتے ہیں شمع ِ زندگی
اور ڈالتے ہیں روشنی
میرے دل صد چاک پر
( شاعر :نادر کاکوروی )
Oft, in the stilly night,
Ere slumber’s chain has bound me,
Fond memory brings the light
Of other days around me;
The smiles, the tears,
Of boyhood’s years,
The words of love then spoken;
The eyes that shone,
Now dimm’d and gone,
The cheerful hearts now broken!
Thus, in the stilly night,
Ere slumber’s chain hath bound me,
Sad memory brings the light
Of other days around me.
When I remember all
The friends, so link’d together,
I’ve seen around me fall,
Like leaves in wintry weather;
I feel like one
Who treads alone
Some banquet-hall deserted,
Whose lights are fled,
Whose garlands dead,
And all but he departed!
Thus, in the stilly night,
Ere slumber’s chain has bound me,
Sad memory brings the light
Of other days around me.
This poem is in the public domain.