ڈوبتے سورج کا منظر کیسا لگتا ہے؟

زندگی ماہ و سال کی کہانی ہے؛ ہر روز ایک نیا سورج طلوع ہوتا ہے اور وہی سورج مشرق سے نکل کر مغرب جی جانب ڈوب جاتا ہے؛ سو ایک دن گذرجاتا ہے۔ ہر گزرتا دن تاریخ کا حصہ بن جاتا ہے اور یہ زمین پر بسنے والے انسانی تاریخ کی کہانی بن جاتی ہے۔ فطرت نے اس زمین کو رنگینیوں سے سجا رکھا ہے؛ ضروری ہے کہ ہم انسان فطرت سے ہم آہنگ ہو کر گذر بسر کریں۔ یہ تحریر اس ضمن میں لکھی گئی ہے۔

2024-10-30 18:58:32 - Muhammad Asif Raza

بِسۡمِ ٱللهِ ٱلرَّحۡمَـٰنِ ٱلرَّحِيمِ


ڈوبتے سورج کا منظر کیسا لگتا ہے؟


 

آج کے تیز رفتار زندگی میں اس زمین پر بسنے والے کتنے لوگ ایسے ہیں جو پو پھٹتی ہی اٹھتے ہوں؟ لیکن خدا کی دوسرے ساری مخلوق علی الصبح ہی بیدار ہوجاتی ہے؛ جیسے پرندے چہچہاتے ہوئے اپنے اپنے گھونسلوں سے نکل پڑتے ہیں۔ اسی طرح ہم انسانوں کو شاید اب ڈوبتے سورج کے وقت، افق کی جانب دیکھنے کی فرصت نہیں رہی۔مگر باقی کی ساری مخلوق شام ڈھلے ہی اپنے مستقر کی جانب رواں دواں ہوتے نظر آتے ہیں۔ ایسے ہی مصروف انسانوں کے لیے، جن کے پاس خود اپنی زندگی جینے کا وقت نہیں ہے؛ ذیل میں ڈوبتے سورج کے سمے کی کچھ منظر کشی کی جاتی ہے۔

 

مجھے یاد ہے آج بھی وہ ڈوبتے سورج کا منظر

اس کی آنکھ میں لالی تھی، میری آنکھ میں سمندر

 

 سورج کا رنگ سفید ہے جو بالائی فضاء میں روشنی کے انتشار کے باعث زمین سے اکثر زردی مائل نظر آتا ہے۔ یہ روشنی کی کچھ طول موجوں کو منہا کرنے والا اثر ہے جس کے تحت روشنی میں سے چھوٹی طول موجیں، جن میں نیلی اور بنفشی روشنی شامل ہیں، نکل جاتی ہیں۔ باقی ماندہ طول موجیں انسانی آنکھ کو زردی مائل دکھائی دیتی ہیں۔ آسمان کا نیلا رنگ اسی الگ ہونے والی نیلی روشنی کے باعث ہے۔ سورج نکلتے یا ڈوبتے وقت جب سورج آسمان پر نیچا ہوتا ہے، تو روشنی کو ہم تک پہنچنے کے لیے اور بھی زیادہ ہوا میں سے گذرنا پڑتا ہے جس کے باعث یہ اثر اور زیادہ شدید ہو جاتا ہے اور سورج ہمیں نارنجی اور کبھی سرخ تک نظر آتا ہے۔

 

احمد شناس کے اشعار

 

کچھ شفق ڈوبتے سورج کی بچا لی جائے

رنگ امکاں سے کوئی شکل بنا لی جائے

 

ساتھ ہو لیتا ہے ہر شام وہی سناٹا

گھر کو جانے کی نئی راہ نکالی جائے

 

سورج ڈوبتے ہی رات در آتی ہے اور رات کالی سیاہ ہوتی ہے اور بہت سے انسان بصارت اور بصیرت کی کمی کے باعث خوفزدہ ہوجاتے ہیں۔ بصیرت والے تو یہ خواہش کرتے ہیں کہ " پھینک آنکھوں کو کسی جھیل کی گہرائی میں؛ بت کوئی سوچ کہ آوارہ خیالی جائے"؛ اور بصارت والے فطرت کے پھیلائے حسن سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔

 

جیسے ہی سورج غروب ہونے لگتا ہے تو خوفزدہ ہونے کی کوئی ضرورت نہیں؛ فطرت کی اس نشانی کو اپنے اندر جذب کیجیے۔ شفق رنگ آسمان بہت خوبصورت ہوتا ہے اور چہچہاتے پرندے اپنے گھروں کو لوٹ جاتے دیکھیں۔ شام ڈھلے گھر کی چھت پر یا کسی کھلی جگہ پر آسمان کی جانب دیکھیں۔ کچھ ہی دیر میں دور بہت دور افق سے چاند کو ابھرتا ہوا دیکھیں۔ اور اس کے ساتھ ابھرنے والے دُب اکبر ستارے کو ٹمٹماتا ہوئے دیکھیں؛ اور سارا آسمان روشنی کم ہوتے ہی ستاروں سے بھرتا دیکھیں۔ ،

 

دل شفق رنگ ہوا ڈوبتے سورج کی طرح

رات آئے گی تو ہر خواب بکھر جائے گا

مشفق خواجہ

 

ناشر نقوی کی غزل " ڈوبتے سورج جیسا منظر لگتا ہے"؛

 

ڈوبتے سورج جیسا منظر لگتا ہے

ہجر میں بوجھل آنکھوں سے ڈر لگتا ہے

 

گھس آتا ہے گھور اندھیرا شام ڈھلے

چاند جب آ جاتا ہے تو گھر لگتا ہے

 

جیون میں ہر شام سویرا اور سہی

کہاں کہاں پر اپنا بستر لگتا ہے

 

ہستی کو بے سمجھے بوڑھے ہونے لگے

جانے ناشرؔ کیوں یہ اکثر لگتا ہے

 

حسین تاج رضوی کے اشعار

 

ڈھلی جو شام نظر سے اتر گیا سورج

ہوا کسی نے اڑا دی کہ مر گیا سورج

 

یہ کیسا جلوہ کہ بینائی لٹ گئی میری

کہ میری آنکھ کے اندر اتر گیا سورج

 

ظہیر احمد ظہیر کے اشعار

 

 رَنگ شفق سے لے کر جیسے رُخ پہ مَلی ہے شام

اور نکھرتا جاتا ہے وہ جب سے ڈھلی ہے شام

 

دُھوپ کنارہ زلفوں میں اور چاندنی گالوں پر

ایک اُفق پر چاند اور سورج! کیسی بھلی ہے شام

 

پت جھڑ جیسے رنگوں میں ہے جگنو جیسی آنچ

عمر کی جھکتی ٹہنی پر اک کھِلتی کلی ہے شام

 

رنگ فضا میں بکھرے ہیں اور شہنائی کی گونج

کس آنگن سے ہنستی روتی آج چلی ہے شام


 سائے بھی آخر ڈھلتے ڈھلتے چھوڑ گئے ہیں ساتھ

رات سے کیسے اُلجھے آخر، چھاؤں جلی ہے شام


 فکرِ جہاں کی بستی میں پُر پیچ سڑک ہے د ن

رات ہے روشن دروازہ اور تیری گلی ہے شام

جناب لیفٹنٹ کرنل ابرار خان [ ریٹائرڈ ] کے ڈوبتے سورج کے حوالے سے تاثرات


ہمارے کرم فرماوں میں ایک جناب لیفٹنٹ کرنل ابرار خان [ ریٹائرڈ ] بھی ہیں؛ انہوں نے ڈوبتے سورج کے حوالے سے مندرجہ ذیل تاثرات قلم بند کئے ہیں:-۔

 

دفتر سے تھکا ہارا گھر لوٹ رہا تھا کہ ڈوبتے سورج کے اس منظر نے مجھے اپنے سحر میں جکڑ لیا۔ اس منظر کو میں نے کیمرے کی آنکھ سے محفوظ کیا تو مجھے اپنے اور پرندوں میں حصولِ رزق کی جستجو اور جہدوجہد میں کچھ قدر مشترک لگی۔ بس ہم انسانوں میں پرندوں والا توکّل نہیں وہ تو اگلے دن کے رزق کی پرواہ کیے بغیر ہی اپنے گھونسلوں کو لوٹ جاتے ہیں جبکہ انسان فکرِ فردا میں ہی مبتلا رہتا ہے۔

 

بہرحال میں نے اپنے خیالات کا تذکرہ اپنی ہمشیرہ سے کیا تو انھوں نے فی البدِیہہ ہی ان خیالات کو خوبصورت اشعار کا روپ دے دیا جس کے لیے میں ان کا تہ دل سے شکر گزار ہوں۔[ اتنی مصروف زندگی میں فطرت کی رنگینی کی طرف توجہ دلانے پر آپکا بھی شکریہ]۔ الله تبارک وتعالیٰ ہم سب کا بہترین پالنہار ھے۔ اللہ کریم ہمیں آسانیاں عطا کرے اور آسانیاں تقسیم کرنے کی توفیق بھی دے۔ خوش رہیں، خوشیاں بانٹیں۔ سب کو دعاؤں میں یاد رکھیں۔ اللہ ہمارا حامی و ناصر ہو۔ آمین ثم آمین


More Posts