وَ مَا الْحَیٰوةُ الدُّنْیَاۤ اِلَّا مَتَاعُ الْغُرُوْرِ (20) سورۃ الحدید

Islam is a complete code of Life. The life of Prophet Muhammad (PBUH) is a lesson for all the Muslims and ALLAH has sent his all prophets to teach the humans- the son of Adam, the ways of life. Here are one example each from the life of Holy Prophets Muhammad (PBUH) and Isa (AS).

2023-09-14 18:24:19 - Muhammad Asif Raza

اِعْلَمُوْۤا اَنَّمَا الْحَیٰوةُ الدُّنْیَا لَعِبٌ وَّ لَهْوٌ وَّ زِیْنَةٌ وَّ تَفَاخُرٌۢ بَیْنَكُمْ وَ تَكَاثُرٌ فِی الْاَمْوَالِ وَ الْاَوْلَادِؕ- كَمَثَلِ غَیْثٍ اَعْجَبَ الْكُفَّارَ نَبَاتُهٗ ثُمَّ یَهِیْجُ فَتَرٰىهُ مُصْفَرًّا ثُمَّ یَكُوْنُ حُطَامًاؕ- وَ فِی الْاٰخِرَةِ عَذَابٌ شَدِیْدٌۙ- وَّ مَغْفِرَةٌ مِّنَ اللّٰهِ وَ رِضْوَانٌؕ- وَ مَا الْحَیٰوةُ الدُّنْیَاۤ اِلَّا مَتَاعُ الْغُرُوْرِ (20) سورۃ الحدید


جان لو کہ دنیا کی زندگی توصرف کھیل کود اورزینت اور آپس میں فخرو غرور کرنا اور مالوں اور اولاد میں ایک دوسرے پر زیادتی چاہنا ہے ۔(دنیا کی زندگی ایسے ہے) جیسے وہ بارش جس کا اُگایاہواسبزہ کسانوں کواچھا لگا پھر وہ سبزہ سوکھ جاتا ہے تو تم اسے زرد دیکھتے ہو پھر وہ پامال کیا ہوا (بے کار) ہوجاتا ہے اور آخرت میں سخت عذاب ہے اور اللہ کی طرف سے بخشش اور اس کی رضا (بھی ہے) اور دنیاکی زندگی تو صرف دھوکے کاسامان ہے۔



معزز قارئین؛ دنیا کی چاہت میں اولادِ آدم کن حالات سے دوچار ہوتی ہے اس حکایت سے آسانی سے سمجھا جا سکتا ہے


کہتے ہیں کہ حضرت عیسیٰؑ علیہ السلام اپنے کسی شاگرد کوساتھ لے کر سفر پر نکلے، راستے میں ایک جگہ رکے اور شاگرد سے پوچھا کہ :

" تمہاری جیب میں کچھ ہے ...؟ "

شاگرد نے کہا :

" میرے پاس دو درہم ہیں ...! "

حضرت عیسیؑ نے اپنی جیب سے ایک درہم نکال کر اسے دیا اور فرمایا :

" یہ تین درہم ہوجائیں گے، قریب ہی آبادی ہے، تم وہاں سے تین درہم کی روٹیاں لے آئو ...! "


وہ گیا اور تین روٹیاں لیں، راستے میں آتے ہوئے سوچنے لگا کہ حضرت عیسیٰؑ نے تو ایک درہم دیا تھا اور دو درہم میرے تھے جبکہ روٹیاں تین ہیں، ان میں سے آدھی روٹیاں حضرت عیسیٰؑ کھائیں گے اور آدھی روٹیاں مجھے ملیں گی، لہٰذا بہتر ہے کہ میں ایک روٹی پہلے ہی کھال لوں، چنانچہ اس نے راستے میں ایک روٹی کھالی اور دو روٹیاں لے کر حضرت عیسیٰؑ کے پاس پہنچا ....!

آپ نے ایک روٹی کھالی اور اس سے پوچھا :

" تین درہم کی کتنی روٹیاں ملی تھیں ...؟ "

اس نے کہا :

" دو روٹیاں ملی تھیں، ایک آپ نے کھائی اور ایک میں نے کھائی ...! "


حضرت عیسیٰؑ وہاں سے روانہ ہوئے، راستے میں ایک دریا آیا، شاگرد نے حیران ہو کر پوچھا :

" اے اللہ کے نبی ...!

ہم دریا عبور کیسے کریں گے جبکہ یہاں تو کوئی کشتی نظر نہیں آتی ...؟ "

حضرت عیسیٰؑ نے فرمایا :

" گھبراؤ مت، میں آگے چلوں گا تم میری عبا کا دامن پکڑ کر میرے پیچھے چلتے آو ،خدا نے چاہا تو ہم دریا پار کرلیں گے ....! "

چنانچہ حضرت عیسیٰؑ نے دریا میں قدم رکھا اور شاگرد نے بھی ان کا دامن تھام لیا، خدا کے اذن سے آپ نے دریا کو اس طرح پار کر لیا کہ آپ کے پاؤں بھی گیلے نہ ہوئے ...!


شاگرد نے یہ دیکھ کر کہا :

" میری ہزاروں جانیں آپ پر قربان ...!

آپ جیسا صاحب اعجاز نبی تو پہلے مبعوث ہی نہیں ہوا ...! "

آپ نے فرمایا :

" یہ معجزہ دیکھ کر تمہارے ایمان میں کچھ اضافہ ہوا ...؟ "

اس نے کہا :

" جی ہاں ...!

میرا دل نور سے بھر گیا ...! "

پھر آپ نے فرمایا :

" اگر تمہارا دل نورانی ہوچکا ہے تو بتاؤ روٹیاں کتنی تھیں ...؟ "

اس نے کہا :

" حضرت روٹیاں بس دو ہی تھیں ...! "


پھر آپ وہاں سے چلے، راستے میں ہرنوں کا ایک غول گزر رہا تھا، آپ نے ایک ہرن کو اشارہ کیا، وہ آپ کے پاس چلا آیا، آپ نے ذبح کر کے اس کا گوشت کھایا اور شاگرد کو بھی کھلایا۔

جب دونوں گوشت کھا چکے تو حضرت عیسیٰؑ نے اس کی کھال پر ٹھوکر مار کر کہا :

" اللہ کے حکم سے زندہ ہو جا ...! "

ہرن زندہ ہو گیا اور چوکڑیاں بھرتا ہوا دوسرے ہرنوں سے جا ملا ...!


شاگرد یہ معجزہ دیکھ کر حیران ہو گیا او رکہنے لگا :

" اللہ کا شکر ہے جس نے مجھے آپ جیسا نبی اور معلم عنایت فرمایا ہے ...! "

حضرت عیسیٰؑ نے فرمایا :

" یہ معجزہ دیکھ کر تمہارے ایمان میں کچھ اضافہ ہوا ...؟ "

شاگرد نے کہا :

" اے اللہ کے نبی ...!

میرا ایمان پہلے سے دوگنا ہو چکا ہے ...! "

آپ نے فرمایا :

" پھر بتاؤ کہ روٹیاں کتنی تھیں ...؟ "

شاگرد نے کہا :

" حضرت روٹیاں دو ہی تھیں ...! "


دونوں راستہ چلتے گئے کہ کیا دیکھتے ہیں کہ ایک پہاڑی کے دامن میں سونے کی تین اینٹیں پڑی ہیں،

آپ نے فرمایا :

" ایک اینٹ میری ہے اور ایک اینٹ تمہاری ہے اور تیسری اینٹ اس شخص کی ہے جس نے تیسری روٹی کھائی ....! "

یہ سن کر شاگرد شرمندگی سے بولا :

" حضرت تیسری روٹی میں نے ہی کھائی تھی ...! "

حضرت عیسی نے اس لالچی شاگرد کو چھوڑ دیا اور فرمایا :

" تینوں اینٹیں تم لے جاؤ ...! "

یہ کہہ کر حضرت عیسی وہاں سے روانہ ہوگئے اور لالچی شاگرد اینٹوں کے قریب بیٹھ کر سوچنے لگا کہ انہیں کیسے گھر لے جائے ...!


اسی دوران تین ڈاکو وہاں سے گزرے انہوں نے دیکھا، ایک شخص کے پاس سونے کی تین اینٹیں ہیں، انہوں نے اسے قتل کر دیا اور آپس میں کہنے لگے کہ اینٹیں تین ہیں اور ہم بھی تین ہیں، لہٰذا ہر شخص کے حصے میں ایک ایک اینٹ آتی ہے، اتفاق سے وہ بھوکے تھے، انہوں نے ایک ساتھی کو پیسے دئیے اور کہا کہ شہر قریب ہے تم وہاں سے روٹیاں لے آو، اس کےبعد ہم اپنا اپنا حصہ اٹھالیں گے، وہ شخص روٹیاں لینے گیا اور دل میں سوچنے لگا اگر میں روٹیوں میں زہر ملا دوں تو دونوں ساتھ مر جائیں گےاور تینوں اینٹیں میری ہو جائیں گی، ادھر اس کے دونوں ساتھوں نے آپس میں مشورہ کیا کہ اگر ہم اپنے اس ساتھی کو قتل کر دیں تو ہمارے میں حصہ میں سونے کی ڈیڑھ ڈیڑھ اینٹ آئے گی ...!

جب ان کا تیسرا ساتھ زہر آلود روٹیاں لے کر آیا تو ان دونوں نے منصوبہ کے مطابق اس پر حملہ کر کے اسے قتل کر دیا، پھر جب انہوں نے روٹی کھائی تو وہ دونوں بھی زہر کی وجہ سے مر گئے، 

 سوئے اتفاق حضرت عیسیٰؑ اپنے سفر سے واپسی پر وہاں سے گزرے تو دیکھا کہ اینٹیں ویسی کی ویسی رکھی ہیں جبکہ ان کے پاس چار لاشیں بھی پڑی ہیں، آپ نے یہ دیکھ کر ٹھنڈی سانس بھر ی اور فرمایا :

" دنیا اپنی چاہنے والوں کے ساتھ یہی سلوک کرتی ہے ...! " (واللہ تعالٰی اعلم)


 یہ حکایت کی روایت یہاں سے لی گئے ہے (انوار نعمانیہ ص۳۵۳)


تو معزز قارئین کرام یہ ہے دنیا اور اس کی محبت جس کے لیے اولادِ آدم دن رات ایک دوجے سے سبقت لے جانے کے لیے بیتاب ہوئے جا رہے ہیں اور دراصل یہ ہمیں پل، پل موت سے قریب کیے جا رہی ہے ....!

حضرت عبد اللہ بن مِسور ہاشمی رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،

رسولِ کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا:

’’ا س بندے پر انتہائی تعجب ہے جو آخرت کے گھر کی تصدیق کرتا ہے لیکن وہ دھوکے والے گھر (یعنی دنیا) کے لئے کوشش کرتا ہے۔( مسند شہاب، الباب الثالث، الجزء الخامس، یا عجب اکل العجب... الخ، ۱ / ۳۴۷، الحدیث: ۵۹۵)



آئیے اب حضورِ پرنور خاتم الانبیاء حضرت محمد صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی حیاتِ طیبہ سے ایک سبق آموز حدیث پڑھتے ہیں۔


حضرت صعصعہ بن ناجیہ ؓ دروازہ رسول الله ﷺ پر کلمہ پڑھنے آئے۔ مسلمان ہونے کے بعد نبی کریم ﷺ کی بارگاہ میں عرض کرنے لگے

یا رسول الله ﷺ ایک بات پوچھنی ہے

حضور ﷺ نے فرمایا پوچھو

کہنے لگے یا رسول الله ﷺ دور جاہلیت میں ہم نے جونیکیاں کی ہے؛ اُن کا بھی الله ہمیں آجر عطا کرے گا؛ کیا اُسکا بھی آجر ملے گا تو

نبی کریمﷺ نے فرمایا : تُو بتا تُو نے کیا نیکی کی"۔

تو کہنے لگے، یا رسول الله ﷺ میرے دو اونٹ گم ہوگئے میں اپنے تیسرے اونٹ پر بیٹھ کر اپنے دو اونٹوں کو ڈھونڈنے نکلا

میں اپنے اونٹوں کو ڈھونڈتے ڈھونڈتے جنگل کے اُس پار نکل گیا؛ جہاں پرانی آبادی تھی۔ وہاں میں نے اپنے دو اونٹوں کو پا لیا

ایک بوڑھا آدمی جانوروں کی نگرانی پر بیٹھا تھا؛ اُس کو جا کر میں نے بتایا کہ یہ دو اونٹ میرے ہیں

وہ کہنے لگا یہ تو چرتے چرتے یہاں آگئے تھے تمہارے ہیں تو لے جاؤ

اُنہی باتوں میں اُس نے پانی بھی منگوا لیا چند کھجوریں بھی آ گئی میں پانی پی رہا تھا کھجوریں بھی کھا رہا تھا کہ ایک بچے کے رونے کی آواز آئی تو

بوڑھا پوچھنے لگا

بتاؤ بیٹی آئی کہ بیٹا

میں نے پوچھا بیٹی ہوئی تو کیا کرو گے کہنے لگا اگر بیٹا ہوا تو

قبیلے کی شان بڑھائے گا

اگر بیٹی ہوئی تو ابھی یہاں اُسے زندہ دفن کرا دوں گا؛ اِس لیئے کہ میں اپنی گردن اپنے داماد کے سامنے جھکا نہیں سکتا؛ میں بیٹی کی پیدائش پر آنے والی مصیبت برداشت نہیں کر سکتا۔ میں ابھی دفن کرا دوں گا

حضرت صعصعہ بن ناجیہ ؓ فرمانے لگے ؛ یا رسول الله ﷺ یہ بات سن کے میرا دل نرم ہوگیا

میں نے اُسے کہا؛ پھر پتہ کرو بیٹی ہے کہ بیٹا ہے

اُس نے معلوم کیا تو پتہ چلا کہ بیٹی آئی ہے

میں نے کہا کیا واقعی تو دفن کرے گا ۔ کہنے لگا ہاں !

میں نے کہا دفن نہ کر مجھے دے دے ؛ میں لے جاتا ہوں

یا رسول اللّٰه ﷺ وہ مجھے کہنے لگا اگر میں بچی تم کو دے دوں تو تم کیا دو گے

میں نے کہا

تم میرے دو اونٹ رکھ لو؛ بچی دے دو کہنے لگا نہیں

دو نہیں یہ جس اونٹ پہ تو بیٹھ کے آیا ہے یہ بھی لے لیں گے


حضرت صعصعہ بن ناجیہ ؓ عرض کرنے لگے ایک آدمی میرے ساتھ گھر بھیجو؛ یہ مجھے گھر چھوڑ آئے میں یہ اونٹ اُسے واپس دےدیتا ہوں

یا رسول اللّٰه ﷺ؛ میں نے تین اونٹ دے کر ایک بچی لے لی۔ اُس بچی کو لا کے میں نے اپنی کنیز کو دیا نوکرانی اُسے دودھ پلاتی

یا رسول الله ﷺ وہ بچی میرے داڑھی کے بالوں سے کھیلتی؛ وہ میرے سینے سے لگتی

حضور ﷺ پھر مجھے نیکی کا چسکا لگ گیا پھر میں ڈھونڈنے لگا کہ کون کون سا قبیلہ بچیاں دفن کرتا ہے

یا رسول الله ﷺ؛ میں تین اونٹ دے کے بچی لایا کرتا۔۔ یا رسول الله ﷺ میں نے 360 بچیوں کی جان بچائی ہے

میری حویلی میں تین سو ساٹھ؛ بچیاں پلتی ہیں ۔ حضور ﷺ مجھے بتائیں؛ میرا مالک مجھے اِس کا اجر دے گا ؟

کہتے ہے حضور ﷺ کا رنگ بدل گیا داڑھی مبارک پر آنسو گرنے لگے مجھے سینے سے لگایا؛ میرا ماتھا چوم کے فرمانے لگے

یہ تو تجھے اجر ہی تو ملا ہے؛ رب نے تجھے دولتِ ایمان عطا کر دی ہے

نبی کریم ﷺ فرمانے لگے یہ تیرا دنیا کا اجر ہے اور تیرے رسولﷺ کا وعدہ ہے قیامت کے دن رب کریم تمہیں خزانے کھول کے دے گا۔

اَللّٰھُمَّ صَلِ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَّ عَلٰی آلِہٖ مُحَمَّدٍ وَ بَارِکْ وَسَلِّم ❤



معزز قارئین؛ اسلام سیکھنے اور سکھانے کا دین ہے۔ یقین کیجیے کہ اللہ سبحان تعالی نے احسان کیا جو ہمیں انسان بنایا اور اس پر مزید احسان کیا کہ ہمیں آقا کریم حضرت محمد صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا امتی بنایا۔ آئیے اپنی زندگی کو اخلاق حسنہ رسول اللہ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے مزین کریں۔ اللہ کریم ہمارا حامی و ناصر ہو؛ آمین ثم آمین


More Posts