نیا سال کیسا ہوگا؟
Our Solar Calendar year comprises 12 months, four seasons, 52 weeks and 365 days. The year ends with December and starts with January. Each year, the world celebrates Happy New Year as soon as the bell rings midnight of 31 December. Here this write up is about some selection from Urdu Poetry and carries message as a human being and life to be lived.
2024-01-11 16:34:04 - Muhammad Asif Raza
کائنات میں نظام شمسی کے جس زمینی گولے کے ہم باسی ہیں وہ سورج کے گرد اپنے مدار کو ایک سال میں پورا کرتا ہے۔ چنانچہ اس سالانہ گردش میں نیا شمسی سال سب سے پہلے بحرالکاہل کے دور دراز جزائر وسطی بحرالکاہل کے جزائر ٹونگا اور کیریباتی میں شروع ہوتا ہے۔ پھر یہ نیوزی لینڈ ؛ آسٹریلیا سے ہوتا ہوا انڈونیشیا؛ ملائیشیا؛ جاپان؛ چین ، ہندوستان، عرب زمین؛ افریقہ، یورپ امریکہ سے گذر کر نئے سال کے آغاز کے 25 گھنٹے بعد امریکن جزیرے سمووا کے بعد بیکر آئی لینڈ دنیا کا وہ آخری مقام ہوگا جو نئے سال میں داخل ہوگا۔ ایسا اس لیے ہوتا ہے کہ ہماری زمین گول ہے اور یہ بذاتِ خود اپنے مدار کے گرد ایک دن میں چکر پورا کرتی ہے۔
انسانی تہذیب میں یہ دن ایک ممتاز معنی میں لیا جاتا ہے؛ اور دنیا بھر کے انسان نئے سال کی آمد کو جشن کے ساتھ مناتے ہیں ۔ لوگ پچھلے سال کے حسن و قباحت سے الگ ہوکر الوداع کہتے ہیں اور نئے سال کا استقبال کرتے ہیں۔ یہ عجیب و غریب لمحہ ہوتا ہے کہ جب انسان زندگی کے گزرنے اور فنا کی طرف بڑھنے کے احساس کو بھول کر ایک لمحاتی سرشاری میں محو ہوجاتا ہے۔
نئے سال کی آمد سے وابستہ کئی فکری اور جذباتی رویے ہیں؛ جن کا بہت تواتر سے اظہار کیا جاتا ہے۔ یہ بات اہم ہے کہ نیا سال کا آغاز زیادہ تر انسانی آبادی کو شدید ٹھنڈ میں ملتا ہے۔ اور اس سے قبل ماہ دسمبر ان فکری اور جذباتی رویوں کو مہمیز کر چکا ہوتا ہے۔ آئیے ذرا شاعروں کی نظر سے ان افکار اور جذبات کو سمجھتے ہیں۔
کچھ خوشیاں کچھ آنسو دے کر ٹال گیا
جیون کا اک اور سنہرا سال گیا
نامعلوم
پرانے سال کی ٹھٹھری ہوئی پرچھائیاں سمٹیں
نئے دن کا نیا سورج افق پر اٹھتا آتا ہے
علی سردار جعفری
ماضی بھی ہے اداس میرے حال کی طرح
یہ سال بھی گزر گیا ہر سال کی طرح
ساقی امروہی
دُھند کی شال میں لپٹے ہوئے منظر کی طرح
یاد آیا ہے کوئی آج پھر گزرتے دسمبر کی طرح
نامعلوم
تو نیا ہے تو دکھا صبح نئی شام نئی
ورنہ ان آنکھوں نے دیکھے ہیں نئے سال کئی
فیض لدھیانوی
نہ شب و روز ہی بدلے ہیں نہ حال اچھا ہے
کس برہمن نے کہا تھا کہ یہ سال اچھا ہے
احمد فراز
آج زمینی گولے پر آٹھ ارب انسان بستے ہیں۔ اس انبوہ اولاد آدم کی ایک کثیر تعداد شطر بے مہار کی طرح جی رہی ہے۔ یقین کیجیے کہ ہم لوگ " صبح ہوتی ہے شام ہوتی ہے؛ عمر یونہی تمام ہوتی ہے" کے مصداق جیے جارہے ہیں۔ کسی دن کسی جگہ پر انسانوں کے درمیان گھومتے پھرتے یہی معلوم ہوتا ہے کہ " نے ہاتھ باگ پر ہے نہ پا ہے رکاب میں "؛ ہر کوئی بلا وجہ بلا مقصد کسی نامعلوم منزل کی جانب رواں ہیں۔ سوال یہ ہے کہ کیا انکو کوئی منزل ملے گی بھی کہ نہیں؟
گزشتہ سال کوئی مصلحت رہی ہوگی
گزشتہ سال کے سکھ اب کے سال دے مولا
لیاقت علی عاصم
نہ کوئی رنج کا لمحہ کسی کے پاس آئے
خدا کرے کہ نیا سال سب کو راس آئے
فریاد آزر
مارٹن لوتھر کنگ نے ایک دفعہ کہا تھا کہ " ہم نے اڑنا سیکھ لیا ہے پرندوں کی طرح ہوا میں ، ہم سمندروں میں مچھلیوں کی طرح تیرتے ہیں ، آج تک ہم نے جینا نہیں سیکھا؛ زمین پر بھائیوں کی طرح" ۔
میں تنہا لڑکی دیار شب میں جلاؤں سچ کے دیئے کہاں تک
سیاہ کاروں کی سلطنت میں میں کس طرح آفتاب لکھوں
نوشی گیلانی
آج انسانی تہذیب خود اپنے وجود کے خلاف متحرک ہے۔ جھوٹ، دھوکا؛ خود غرضی کا دور دورا ہے۔ کیا ہم نہی جانتے کہ ضرورت سے زیادہ چالاکی اور ایک معصوم کو دیا گیا دھوکا؛ ہماری بربادی کے تمام دروازے کھول دیتا ہے؟ پھر چاہے کوئی شطرنج کا کتنا ہی بڑا کھلاڑی کیوں نہ ہو بلآخر شکست ہی سے دوچار ہوتا ہے؛ موت کو کوئی بھلا کیسے ہرا سکتا ہے؟
کیا ہم اشیاء ؛ اجسام؛ اور انسان کے انجام سے واقف نہیں ہیں؟ سب جانتے ہہیں کہ ہم فانی ہیں؛ سب کو موت کا مزا چکھنا ہے تو پھر بھی دنیا کی ہزاروں رعنائیاں ہمیں اپنی جانب کھینچتی ہیں اور ہم اس کی چاہ میں؛ خرابیوں میں پہل کرنے سے باز نہیں رہتے۔
نئے سال میں پچھلی نفرت بھلا دیں
چلو اپنی دنیا کو جنت بنا دیں
نامعلوم
کوٸی بھی اتنا مصروف نہیں ہوتا
ساری بات اہمیت کی ہوتی ہے!
نامعلوم
ہم جَلا بیٹھے ہیں اپنے آپ میں چنگاریاں
سرد لہجوں کا کوئی تِریاق ہونا چاہیے
ہما علی
عزیزانِ گرامی؛ دین اسلام توبہ کا راستہ دکھاتا ہے کہ آتی جاتی سانسوں کی دوڑ میں جب بھی احساس ہو تو اپنی غلیطیوں کا اعتراف کریں اور زندگی کونئے ڈھب سے گزارنے کا عزم کریں۔ یاد رکھیے کہ " لمبی ہے غم کی شام مگر شام ہی تو ہے"؛ یعنی کچھ بھی مستقل نہی ہے۔ قدرت کے اس کارخانے میں سکون محال ہے؛ تغیر و تبدل اس بہتے وقت کا خاصہ ہے، یہ ہر لمحے، ہر پل ارتقائی مراحل طے کرتا ہوا آگے بڑھتا ہے اور ہمیشہ ایک نئے روپ میں ظاہر ہوتا ہے۔ کوشش کیجیے کہ اس کا نیا روپ ہماری چاہت کا ہو۔
نغمہ جو ھے تو رُوح میں ھے ، نَے میں کچھ نہیں
گر تجھ میں کچھ نہیں ، تو کسی شَے میں کچھ نہیں
تیرے لہو کی آنچ سے ، گرمی ھے جسم کی
مئے کے ھزار وصف سہی ، مَے میں کچھ نہیں
جس میں خلوصِ فکر نہ ھو ، وہ سخن فضُول
جس میں نہ دِل شریک ھو ، اُس لَے میں کچھ نہیں
کشکولِ فن اُٹھا کے ، سُوئے خُسرواں نہ جا
اب دستِ اختیارِ جم و کے میں کچھ نہیں
ساحر لدھیانوی
اس کائنات کا خالق اور مالک اللہ سبحان تعالی ہے اور وہی اصل اور صحیح وارث ہے۔ یہ زندگی اللہ کریم کا تحفہ ہے اور اس نے کوئی ذی روح بے مقصد پیدا نہیں کی؟ ہر اولاد آدم کو اپنی زندگی کا سراغ پانا چاہیے اور اپنی منزل کا سفر کرنا چاہیے۔ یاد رکھیے کہ چڑھتا، ڈوبتا سورج؛ اوپر نیچے جاتا وقت؛ اور سانسوں کی آمد و رفت ہماری دسترس میں نہیں اور اور نہ ہم اس پر قابو پا سکتے ہیں۔ ہم تو اس بہتے سمے کے ساتھ ساتھ کچھ اچھی یادیں، کچھ پختہ روایاتیں اور کچھ سچی فائدہ مند رفاقتوں کی بنیاد ڈال سکتے ہیں جو ہمارے اعمال کار کی گواہی دے سکیں۔ سال آئیں گے اور گذر جائیں گے، انکی گرہ میں ایسی گانٹھیں لگائیں؛ ایسے بیج بوئیں؛ ایسے درخت اگائیں کہ بعد کے آنے والے اسکے ثمر سے بار یاب ہوسکیں۔ صدقہ جاریہ بن جائیں۔
آس نگر میں رہنے والے سادہ سچے لوگو
نیند کا موسم بیت گیا ہے اپنی آنکھیں کھولو
کل کیا کھویا کل کیا پایا آؤ حساب لگائیں
آنے والا کل کیا ہوگا آؤ نصاب بنائیں
جانے والے کل میں ہم نے دکھ کے صحرا دیکھے
آش نراش میں گھلتی دیکھی غم کے دریا دیکھے
سوکھے جسموں والے دیکھے بھوکے ننگے سائے
لمحہ لمحہ رینگ رہے تھے سب کشکول اٹھائے
جانے والے کل میں ہم نے دستاروں کو بیچا
اونچے ایوانوں میں ہم نے سیپاروں کو بیچا
جانے والے کل میں ہم نے دکھ کی فصل کو کاٹا
بستی بستی بھوک افلاس کی اڑتی خاک کو چاٹا
خالی ہاتھ اور ویراں آنکھیں پاؤں زنجیر پڑی
چاروں جانب زہر سمندر سر پہ دھوپ کڑی
دھرتی پر بارود اگایا امن کے گانے گائے
ایک دوجے کے خون سے ہم نے کیسے جشن منائے
آنے والا کل کیا ہوگا آؤ کھوج لگائیں
دیواروں پہ زائچے کھینچیں نا معلوم کو پائیں
آنے والے کل میں شاید خوابوں کی تعبیر ملے
بھوکی خلقت رزق کو دیکھے انساں کو توقیر ملے
بچوں کی تعلیم کے نام پہ ماں نہ زیور بیچے
اس دھرتی پر اب نہ کوئی زہر سمندر سینچے
آس نگر میں رہنے والے سادہ اچھے لوگو
ممکن ہو تو کل کا سوچو اپنی آنکھیں کھولو
- سرفراز سید -
عزیزانِ گرامی؛ کسی فارسی بان نے کہا ہے کہ " درمیان ہمہ گل گشتم و عاشق نہ شدم۔ تو چہ بودی کہ ترا دیدم و دیوانہ شدم"۔ میں پھولوں کے درمیان رہا اور عاشق نہ ہوا؛ تو کیا تھا کہ تجھے دیکھا اور دیوانہ ہو گیا ؟ اے کاش یہ دیدار معبود حقیقی کا ہو اور دیوانگی عبدیت، انسانیت اور خدمت خلق کی ہو۔