نظم شاعر سمیع القاسم فلیسطین "الٰہی أنا متأسف"۔
Samīħ al-Qāsim al Kaissy was a Palestinian poet who was borne before the establishment of Israel and lived in the occupied Palestine till his death. He had to live and work with Israeli citizenship; but his work is well known throughout the Arab world. This write up in Urdu is about his Arabic Poem "الٰہی أنا متأسف".
2025-04-04 13:28:29 - Muhammad Asif Raza
بِسۡمِ ٱللهِ ٱلرَّحۡمَـٰنِ ٱلرَّحِيمِ
اللہ کے نام سے شروع جو بڑا مہربان نہایت رحم کرنے والا ہے
نظم شاعر سمیع القاسم فلیسطین "الٰہی أنا متأسف"۔
سمیع القاسم القیسی ( 1939 - 19 اگست 2014) اسرائیلی شہریت کے حامل ایک فلسطینی شاعر تھے جن کا کام پوری عرب دنیا میں مشہور ہے۔ وہ ٹرانس جارڈن میں پیدا ہوا اور بعد میں سرزمین فلسطین اور اسرائیل میں رہا۔ سمیح القاسم اردن کے قصبے زرقا میں ایک دروز خاندان میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد محمد القاسم الحسین کا تعلق بالائی گلیل کے گاؤں الرما سے تھا۔ ان کی والدہ حنا شہید محمد فیاض تھیں۔ ان کے چار بھائی تھے - قاسم، سعید، سمیع اور محمود - اور دو بہنیں، شفیقہ اور صادقہ۔ ان کے اور ان کی اہلیہ نوال سلمان حسین کے چار بچے تھے: محمد، ودہ، عمر اور یاسر۔
سمیع القاسم نے چھوٹی عمر میں ہی شاعری شروع کر دی تھی۔ ان کی نظموں کا پہلا مجموعہ پیجنٹس آف دی سن اس وقت شائع ہوا جب وہ انیس برس کے تھے۔ ان کا دوسرا مجموعہ، فٹ پاتھ کے گانے، 1964 میں شائع ہوا۔ ان کی شاعرانہ تخلیق ان کی زندگی کے آخر تک قائم رہی۔ اپنے آخری انٹرویو میں سے ایک میں، انہوں نے کہا: "میں نے اپنی زندگی شعر اور نغمہ کی خدمت میں گزاری ہے"۔
سمیح القاسم کو عصری عربی شاعری کے ستونوں میں سے ایک اور فلسطینی مزاحمت کے ممتاز شاعروں میں شمار کیا جاتا ہے۔ اسرائیل میں محمود درویش، توفیق زیاد، راشد حسین، اور دیگر شاعروں کے ساتھ، اس نے 1950 کی دہائی میں گاؤں کے اجتماعات میں بار بار زبانی شاعرانہ تلاوتوں میں اسرائیل کے خلاف فلسطینی مخالفت کا اظہار کیا-اس نے فلسطینی عوام کے مقصد کو اپنا شعار بنایا اور اس کے انسانی اور آفاقی پہلوؤں کو روشن کیا۔ ان کی شاعری میں ان کی عرب شناخت، زمین سے لگاؤ اور مذہبی رواداری پر فخر ہے۔ ان کی متعدد نظموں کو انقلابی گانوں میں تبدیل کیا گیا ہے جو بڑے پیمانے پر گردش کرتے ہیں۔ ایسی سرگرمیاں جنہیں عرب دنیا میں "مزاحمتی شاعری" کے طور پر منایا گیا اور بعد میں شائع ہوا۔
ایک حالیہ انٹرویو میں، سمیع القاسم نے صحافی لیام براؤن کو بتایا کہ انہیں اس بات کی کوئی پرواہ نہیں کہ انہیں کیسے یاد رکھا جائے گا۔ انکا کہنا تھا کہ "اگر فلسطینی عوام آزاد ہوں گے، اگر عرب دنیا متحد ہو جائے گی، اگر تمام دنیا میں سماجی انصاف کی فتح ہو گی، اگر بین الاقوامی امن ہو گا تو مجھے اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ کون مجھے یا میری نظموں کو یاد رکھے گا، مجھے کوئی پرواہ نہیں ہے"۔ قوموں کی حریت، آزادی اورغیرت کا احساس ہمیشہ شاعروں ادیبوں اور مفکروں کے دھڑکتے دل میں جنم لیتا ہے۔ انکی شاعری ؛ نظمیں اور مضامین افراد کے دلوں میں جوت جگاتی ہیں اور جو انکے ذہنوں کو مسحور کرتی ہین اور اچھے دنوں کی امید دلاتے ہیں۔
ذیل میں سمیح القاسم کی نظم "الٰہی أنا متأسف" کا اردو ترجمہ "خدایا میں شرمندہ ہوں" پیش کی جاتی ہے جس کے مترجم جناب روحل ہیں اور یہ فیسبک " عالمی ادب کےاردو تراجم" پر موجود ہے۔
سمیح القاسم کی نظم "خدایا میں شرمندہ ہوں"۔
میرے خدا، میں اپنی آنکھیں تیری طرف اٹھاتا ہوں،
میں اپنا دل اور ہاتھ تیری طرف بلند کرتا ہوں۔
اے رب،
میں غم سے نڈھال ہوں،
یتیمی نے مجھے تھکا دیا،
آگ نے میری فصلیں اور میری زمین تباہ کر دی۔
میں رو پڑا، میں رو پڑا،
اور میں نے اپنا چہرہ
تیرے عرش کی روشنی کی طرف موڑ دیا۔
اے رب…
اقوام نے مجھ پر ظلم کیا،
اور میرے سامنے تمام راستے بند کر دیے گئے۔
میں نے التجا کی، میں نے دعا کی،
میری آواز دعاؤں سے بھر گئی۔
میرے پانی کے جھرنے سوکھ گئے ہیں،
میری چیخیں جاری ہیں،
میری موم بتیاں چمک رہی ہیں۔
اسلئے میرے آنسوؤں کو معاف کر دے،
اور میرے دکھ کو مٹا دے،
میرا اندھیرا گہرا ہے،
اور میری رات لمبی اور بھاری ہے۔
مجھے آسمان کا نور عطا فرما
میری چمک کو تازہ کر،
میرے قدموں کی رہنمائی فرما
تاکہ میں اپنی جلاوطنی کو پار کر سکوں۔
اے رب، میرے گناہ معاف فرما،
اور میری دعا قبول فرما۔
میں نے مصائب کو سہا ہے،
میرے کپڑے پھٹ گئے ہیں ،
مایوسی کی ٹھنڈ سخت ہے،
اور ترکِ وطن کی گرمی ناقابلِ برداشت ہے۔
میں نے دکھ میں تکلیف جھیلی ہے،
فوجی مجھے میرے ہی گھر سے نکال دیتے ہیں۔
مجھے زندگی صرف موت میں نظر آتی ہے،
میری آگ میرے ہی تیل سے جلتی ہے،
میری خاموشی میری خاموشی کو ہلا دیتی ہے،
اور میرے حوصلے کو چکناچور کر دیتی ہے۔
تیرے سوا کوئی جائے پناہ نہیں،
تیری آواز کے سوا کوئی آواز نہیں۔
اے رب، میری روح کے آتش فشاں کو بڑھاوا دے،
میرے زخموں کو مندمل کر،
اور اپنے وقت کے ساتھ
میرے باقی ماندہ وقت کو عزت دے۔
میرے خدا، تیرے سوا کوئی معبود نہیں۔
میری چراگاہیں بنجر ہیں، زہریلی جڑی بوٹیوں سے بھری ہوئی ہیں۔
میری بھیڑیں میری بانہوں میں مر گئیں،
میرا کنواں پتھروں کے نیچے دب گیا۔
میرے پاس ایک انجیر کا درخت تھا—انہوں نے اسے تباہ کر دیا۔
ایک زیتون کا درخت—انہوں نے اسے اکھاڑ دیا۔
ایک کھجور کا درخت—انہوں نے اسے جلا دیا۔
ایک انگور کی بیل—انہوں نے اسے کچل دیا۔
ایک لیموں کا درخت—انہوں نے اسے کاٹ دیا۔
اور یہاں تک کہ ایک پودینے کا پودا—انہوں نے اسے خشک کر دیا۔
سزا کے طور پر۔
میں اپنے غم اور کمزوری کا سانس کیسے لے سکتا ہوں؟
ان کے لیے جو دل میں چھپا ہے،
اور جو میرے اندر پلتا ہے، اُس ڈر کا اقرار کیسے کروں؟
اے میرے اللہ تیرے سوا کوئی معبود نہیں۔
میں تجھے اپنے دل و جان میں دیکھ رہا ہوں،
اور تو مجھے پھندوں میں قید دیکھ رہا ہے۔
میرے باپ کی زمین قبرستان بن گئی،
اہلِ وفا کے گھر اجڑ چکے،
ان کے باغات بنجر زمینوں میں بدل گئے،
ان کے اسکولوں کی بے حرمتی ہوئی،
ان کے غم ایک تاریک اور لامتناہی بارش بن گئے۔
میرے خدا، تیرے سوا کوئی معبود نہیں۔
میں تیری رحمت کا طالب ہوں،
میں تیرے فضل کی بھیک مانگتا ہوں،
میں نے التجا کی ہے، میں نے دعا کی ہے۔
مجھے اپنی رحمت عطا فرما۔
بمباروں کو تباہ کر،
لانچروں کو نیست و نابود کر،
تباہی کے پروں سے۔
اور ہم پر فرشتوں کے پر بھیج دے۔
میرے خدا… میرے خدا… کیا معافی ہے؟
کیا کوئی معافی نہیں؟
کیا کوئی معافی نہیں؟
میرا دکھ طویل، سخت اور کٹھور ہے،
اور تو معاف کرنے والا، رحم کرنے والا اور عادل ہے۔
میرے خدا… میرے خدا… میں معذرت خواہ ہوں۔
اے اللہ! میں شرمندہ ہوں۔
اے میرے اللہ! میں نادم ہوں۔
میں معافی کا خواستگار ہوں
تیری بخشش کا طلبگار ہوں
خدایا میں شرمندہ ہوں
سميح القاسم » إلهي أنا متأسف
سميح القاسم » إلهي أنا متأسف
إلى الله أرفعُ عينيّ
أرفعُ قلبي وكفّي
ّ
يا ربّ
حزناً حزنتُ
وأرهقني اليُتمُ
أهلكتِ النارُ زرعي وضَرعي
بكاءً بكيتُ
ويمّمتُ وجهي
إلى نورِ عرشك
يا ربّ ..
جارت عليّ الشعوب
وسُدَّت أمامي الدروب
تضرّعتُ، صلّيتُ بُحَّ دعائي
وشَحتّ ينابيعُ مائي
تمادى ندائي
أضاءت شموعي
فسامحْ بكائي
وكفكفْ دموعي
ظلامي شديدٌ
وليلي ثقيلٌ طويلٌ
فأنعمْ عليّ بنور السماء
وجدّدْ ضيائي
وسدّدْ خطاي
لأعبرَ منفاي
يا ربُّ واغفر خطاياي
واقبل رجائي
شقاءً شقيتُ
وثوبي تهرّأ
بردُ الكآبةِ قاسٍ
وحرُّ التخلّي شديدٌ مقيتُ
شقاءً شقيتُ
ويطردني الجُند عن باب بيتي
وأرجو حياتي بموتي
وناري تشبُّ بزَيتي
وصمتي يزلزلُ صمتي
ويهدم سمتي
ولم يبقَ سمتٌ سواك
ولم يبقَ صوتٌ سواك
فيا ربّ باركْ براكين روحي
وأسعِف جروحي
ومجِّدْ بوقتك
ما ظلّ من بعض وقتي
إلهي وما من إلهٍ سواك
مراعيَّ ضاقت بعشبِ السموم اللئيمة
ماتت خِرافي على ساعديّ
وبئري أهالوا عليها الصخور
ولي تينةٌ أتلفوها
وزيتونةٌ جرّفوها
ولي نخلةٌ وبّخوها
وداليةٌ عنّفوها
وليمونةٌ قصّفوها
ونعناعةٌ جفّفوها
عقاباً
فكيف تفوح بحزني وضعفي
وكيف تبوح بخوفي عليها وخوفي
إلهي وما من إلهٍ سواك
أراكَ بقلبي وروحي أراك
وأنتَ تراني أسيراً حبيسَ الشِّراك
بلادُ أبي أصبحت مقبرة
منازلُ من آمنوا مُقفرة
بساتينُ من آمنوا مُصحرة
مدارسهم مُنكَرة
وأحزانهم عتمةٌ ممطرة
إلهي
إلهي وما من إلهٍ سواك
سألتُ رضاك
طلبتُ رضاك
تضرّعتُ صليتُ
هَبني رضاك
وسلّط على القاذفات
وسلّط على الراجمات
جناحَ الهلاك
ونزّل علينا جناح الملاك
إلهي، إلهي أمِن مغفرة؟
ألا مغفرة؟
ولا مغفرة؟
إلهي، عذابي طويلٌ وقاسٍ ومؤ
سفوأنتَ غفورٌ، رحيمٌ ومنصِف
إلهي إلهي أنا متأسِّف
أنا متأسِّف إلهي، إلهي أنا متأسِّف
أنا متأسِّف أنا متأسِّف
..