نومبر؛ موسمِ خزاں کا جوبن
کرہ ارض پر زیادہ تر خطوں پر سال میں چار مرتبہ موسم تبدیل ہوتا ہے۔ موسم گرما ، موسم سرما ،موسم بہار اور خزاں۔ اور بارہ مہینے ہوتے ہیں۔ ماہِ نومبر گیارہواں مہینہ ہے اور خزاں کے موسم کا آخری مہینہ ہوتا ہے۔ رومان پرور لوگ حسن فطرت کا لطف اٹھاتے ہیں اور قدرت کی دی ہوئی فیاضیوں سے بہرامند ہوتے ہیں۔ ماہِ نومبر خزاں رت کا جوبن کا موسم ہے کہ اس مہینے میں بت جھڑ سے درخت اور پتے خوبصورت رنگوں کے ساتھ جھڑتے ہیں۔ یہ تحریر ماہِ نومبر کی بابت لکھی گئی ہے۔
2024-11-06 17:42:28 - Muhammad Asif Raza
بِسۡمِ ٱللهِ ٱلرَّحۡمَـٰنِ ٱلرَّحِيمِ
نومبر؛ موسمِ خزاں کا جوبن
خزاں ایک موسم کا نام ہے جو شمالی نصف کرہ میں ستمبر سے نومبر تک ہوتا ہے اور جنوبی نصف کرہ میں مارچ سے مئی تک ہوتا ہے۔ نومبر موسمِ خزاں کا آخری مہینہ ہوتا ہے۔ موسموں کی بنیاد زمین کی حرکت کے باعث ہے جو سورج کے گرد ایک بیضوی مدار پر حرکت کرتی ہے۔ اور ماہِ نومبر میں یہ تیزی سے سفر کرتے ہوئے ایک جانب جھک جاتی ہے اور دن بہت چھوٹے اور راتیں لمبی ہوجاتی ہیں۔ آہِ سحر گاہی کے لیے یہ مہینہ بہت خاص ہوجاتا ہے کہ ابھی دن زیادہ گرم نہیں رہتے اور رات زیادہ ٹھنڈی نہیں ہوتی۔
خزاں ایک شاندار موسم جو گرمیوں کے جھلسا دینے والے دنوں اور سردیوں کی برفیلی گرفت کے درمیان فرق کو ختم کردیتا ہے، قدرت کی طرف سے ایک دلکش شاہکار کے طور پر ابھرتا ہے، اور ماہِ نومبر خزاں کا رنگ ایک حسن بن کر ابھرتا ہے۔ موسم خزاں کی دلکشی کا راز فطرت میں ہر سو زرد اور لال رنگوں کی بہار بن جاتا ہے۔ خزاں کے رنگ واقعی سحر انگیز ہوتے ہیں اور فطرت پسندوں کو اپنی گرفت میں لے لیتے ہیں۔ ماہِ نومبر میں درختوں کے سبز پتے سرخ، نارنجی اور پیلے رنگ کے شاندار لباس پہن لیتے ہیں۔
موسم خزاں تبدیلی کا وقت ہوتا ہے جو موسم گرما کے بعد اور موسم سرما سے پہلے خوبصورت رنگوں اور سرد ہواؤں سے شروع ہوتا ہے۔ ماہِ نومبر اپنی خستہ ہوا، رنگ بدلتے ہوئے پتوں اور حسین ملاقاتوں کی خوبصورتی کے ساتھ زندگی کو سحر انگیز جادو میں لپیٹ لینے کا مہینہ ہوتا ہے۔ پت جھڑ کتنا خوبصورت لفظ ہے؛ اس ماہ میں درختوں کے پتے تیزی سے جھڑتے ہیں۔ یہ خزاں کا حسن ہے کہ ہر طرف اشجار سے جڑھے ہوئے پتوں کا قالین سا بچھا دکھائی دیتا ہے۔ درختوں پر جو پتے بچے ہوں، ان کا رنگ بھی پیلا پڑ جاتا ہے۔ زمین پر گرے ہوئے پیلے پتے سوکھ کر ہلکے نسواری رنگ میں بدل جاتے ہیں۔ اور پت جڑھ سے لٹے ہوئے درخت ٹنڈ منڈ سے اجڑے ہوئے نظر آتے ہیں۔
ماہِ نومبر پر شاعری
خزاں شاعری میں صرف ایک لفظ ہی نہیں جسے ایک موسم کے بیان کیلئے استعمال کیا جاتا ہو بلکہ زندگی کی تمام تر منفی صورتوں کا ایک استعارہ ہے ۔ یہ عاشق کے موسم ہجر کیلئے بھی استعمال ہوتا ہے اور سماجی ، سیاسی و تہذیبی سطح پر پھیلے ہوئے تاریک سایوں کے اظہاریے کے طور پر بھی استعمال کیا جاتا ہے۔ آئیے ذیل میں کچھ شاعری پر بھی نظر ڈال لیتے ہیں:۔
اس گلشن ہستی میں عجب دید ہے لیکن
جب چشم کھلی گل کی تو موسم ہے خزاں کا
محمد رفیع سودا
موسم گل پر خزاں کا زور چل جاتا ہے کیوں
ہر حسیں منظر بہت جلدی بدل جاتا ہے کیوں
علینا عترت
ہے موسم خزاں کا تسلط ہر ایک سو
کیسے منائیں جشن بہاراں نہ پوچھئے
غلام یحییٰ انجم
ٹھہر گیا تھا یہاں موسم خزاں شاہدؔ
کہ سر جھڑے ہیں چمن میں بہار لاتے ہوئے
شبیر شاہد
خزاں کے موسم میں زرد پتے، طویل راتیں گزارتے ہیں
محبتوں کے امین وارث ، نڈھال سانسیں سنبھالتے ہیں
سلمٰی سیّد
نامعلوم شاعر کا کلام
ہوا میں دهوپ اور ساون کی نمی ہے
گلاب تھک رہے ہیں
موسمی پودے کیاریوں میں ڈهےرہے ہیں
شاید نئی پنیریاں لگنےکا موسم آگیا ہے
کہ نومبر آ گیا ہے
نامعلوم شاعر کا کلام " نومبر " پیش کیا جاتا ہے
یہ نومبر کی شروعات
جہاں سورج کی تپش کم ہونے لگی ہے🍁🍁
اور آسمان کا رنگ بدل رہا ہے
وہاں ہی جاڑے کا موسم آنے کو تیار کھڑا ہے🍁🍁
پھول، پتے، درخت آمدِ خزاں کہتے ہوئے
اپنا اپنا نذرانہ پیش کر رہے ہیں🍁🍁
میں نے بھی
انگوروں کی بیل کے دو پتے اٹھائے ہیں🍁🍁
انہیں ڈائری میں سجایا ہے
عہد کر رہا ہوں 🍁🍁
کہ اس خزاں میں اداسی کو
پاس بھٹکنے بھی نہیں دوں گا🍁🍁
آخر محبت کا تعلق بہاروں سے ہی کیوں
خزاں بھی حسین ہے🍁🍁
جھڑتے پتے، اداس پہر اور ویران درخت
ہو بہو محبت کی صورت۔🍁🍁™️
ایک نامعلوم شاعرہ کی " نظم؛ موسمِ خزان " پیشِ خدمت ہے
یہ اکتوبر کے مہینے نے بتایا ہے مجھے جاکر
اداسی کی فضائیں لوٹ آئی ہیں۔
سنو لوگوں!!
خزائیں لوٹ آئیں ہیں
کہ شامیں گہری ہونے والی ہیں اب تو
کہ سائے وحشتوں کے بڑھنے والے ہیں
ہوائیں سرد ہوں گی اب تو اور احساس سارے منجمند ہوں گے!
بچھڑنے کے وہ موسم لوٹ آئے ہیں
اداسی کاٹ کھانے دوڑی آئے گی
ہماری نیند اڑنے والی ہے لوگو!
ہمارا چین کھونے والا ہے سن لو!
ہے بنجر راتوں کے لمحات کی آمد،
اداسی چاند کو اپنی لپٹ میں لینے والی ہے!
اسی غم میں تو پاگل چاندنی شاید بلک کر مرنے والی ہے!
ستارے جگمگانا بھول جائیں گے
کہ جگنو بھی نظر آتے نہیں اب تو
سبھی پیڑوں سے پتے جھڑنے والے ہیں!
کہ انکاری ہوں گے سب پھول کھلنے سے
ملیں گے بلبلوں کے گیت سننے کو نہیں اب پھر!
چمن سے تتلیاں ساری چلی جائیں گی اس غم سے
ملالِ ہجر کے دن اور محبت کے بکھرجانے کے دن پھر لوٹ آئیں ہے
سبھی کے زخم پھر اک بار دھیرے سے ہرے ہونے لگیں گے اب!
سنو لوگوں!!!
اداسی گیت گانے والی ہے رت کو
اذیت رقص کرنے والی ہے خوں میں!
مگر ان باتوں کے ہوتے ہوئے بھی شاعرہ اِک
مُسکراتی رہنے والی ہے🥰🥰🥰🥰
اسریٰ رضوی کی نظم "خزاں کا موسم " پیش خدمت ہے۔
زوال پر تھی بہار کی رت
زاں کا موسم عروج پر تھا
اداسیاں تھیں ہر ایک شے پر
چمن سے شادابیاں خفا تھیں
ان ہی دنوں میں تھی، میں بھی تنہا
اداسی مجھ کو بھی ڈس رہی تھی
وہ گرتے پتوں کی سوکھی آہٹ
یہ صحرا صحرا بکھرتی حالت
ہمی کو میری کچل رہی تھی
میں لمحہ لمحہ سلگ رہی تھی
مجھے یہ عرفان ہو گیا تھا
حقیقت اپنی بھی کھل رہی تھی
کہ ذات اپنی ہے یوں ہی فانی
جو ایک جھٹکا خزاں کا آئے
تو زندگی کا شجر بھی اس پل
خموش و تنہا کھڑا ملے گا
مزاج اور خوش روی کے پتے
دلوں میں لوگوں کے مثل صحرا
پھریں گے مارے یہ یاد بن کر
کچھ ہی دنوں تک
مگر مقدر ہے ان کا فانی
کے لاکھ پتے یہ شور کر لیں
مزاج میں سرکشی بھی رکھ لیں
یا گریہ کر لیں اداس ہو لیں
تو فرق اسے یہ بس پڑے گا
زمین ان کو سمیٹ لے گی
ذرا سی پھر یہ جگہ بھی دے گی
کرشمہ قدرت کا ہے یہ ایسا
عروج پر ہے زوال اپنا
ہر ایک کو ہے پلٹ کے جانا
الزبتھ ڈریو اسٹوڈارڈ کی نظم "نومبر" کا ترجمہ
"میں نے مرجھائے ہوئے پتے کے بارے میں بہت کچھ کہا ہے۔
میں نے ہوا کا رونا سن رکھا ہے،
اور اسے بھاری بادلوں میں ہل چلاتے ہوئے دیکھا،
خزاں کے سحر کے لیے میرا اداس ذہن۔
جب خزاں آتی ہے تو شاعروں نے ایک شعر کہا:
سال ختم ہونا چاہیے؛ تمام پھول مر چکے ہیں؛
اناج کے گھٹے جمع ہیں؛ اور دبیز بٹیر
کھونٹی میں دوڑتا ہے، لیکن لارک بھاگ گیا ہے!
پھر بھی، موسم خزاں کرسمس کی خوشی میں شروع کرتا ہے،
ہولی بیر اور آئیوی کا درخت:
وہ پرانے سال کے بیئر کے لیے ایک تسبیح دانہ بُنتے ہیں،
یہ منتظرِ ماتم میرے لیے نہیں گاتے!
مجھے خزاں کے جنگلوں کی گہرائیوں میں میٹھا سکون ملتا ہے،
کھردرے فرن اور کھردری کائی کہاں اگتے ہیں۔
ننگے، خاموش درختوں نے مجھے یہ سکھایا ہے،
خوبصورتی کا نقصان ہمیشہ نقصان نہیں ہوتا!
خزاں کے موسم کا پیغام
خزاں کے موسم میں گرتے پتے
اس بات کا پتہ دیتے ہیں
کہ ہر شے سدا بہار نہیں
ایک نا ایک دن سب ختم ہو جانا ہے
اور اسکی جگہ نئے وجود نے جنم لینا ہے
ٹھیک اسی طرح انسان مقررہ وقت پر چلے جاتے ہیں
اور انکی جگہ نئے لوگ لے لیتے ہیں
سب کو بہار میں کھلتے پھول اچھے لگتے ہیں
شعرا کی شاعری بہار کے موسم میں کھلتی نئی کونپلوں پہ ہوتی ہے محبوب کے وصل کو بہار سے تشبیہ دی جاتی ہے لیکن مجھے خزاں کے موسم میں زمین پر گرے رنگ برنگے پتے بہت بھاتے ہیں یہ زرد رنگ کے پتے اپنی زندگی کے اختتام پر بھی کتنے خوبصورت نظر آتے ہیں
اس بات کا یقین دلاتے ہیں کہ
زندگی کا آغاز اگر خوبصورت تھا
تو اختتام بھی حسین ہے ....