“My Aunt’s Donkey” is a true story, officially registered with the United Nations, and it happened in the village of “Kafr Kella” in southern Lebanon on border with Israel. This story is documented in the records of the United Nations Observation Mission placed in southern Lebanon... July 1962. One hopes that readers of Bangbox Online may like this bilingual in English and Urdu too.
“My Aunt’s Donkey” - A True Story
One day in the year 1962, before the Israeli enemy erected fences separating Lebanon, my aunt’s donkey got lost, entered occupied Palestine, and disappeared there. My aunt and her husband were unable to follow it, for fear of Israeli bullets, so they decided to abandon the donkey.
A year after her disappearance, my aunt was surprised when her donkey returned home and to her stall, pulling a cart laden with peaches and pears behind her, and a number of village children were following her, cheering and joyfully.
The joy of the donkey's return was not complete. Hours later, the Lebanese police came, accompanied by the mayor and the mayor, along with the international emergency forces. They raided my aunt's house, demanding that the donkey be handed over to the international forces so that they would return it to Israel. The donkey was pregnant with a colt whose father was an Israeli donkey.
After tension and tension, and after objection and rejection, the level of anger rose, and the villagers joined the discussion and began shouting in a collective voice, “The donkey, our donkey, got lost and came back to us.”
After hours of negotiations with the Israeli occupation army, and with international mediation, everyone agreed that the donkey would return to the state of the Zionist entity, to give birth there, on the condition that the United Nations return the donkey to my aunt alone after the birth.
In the presence of the United Nations, an agreement was signed allowing the donkey to return, on the condition that her newborn colt remain in the Zionist entity.
Three months later, the donkey escaped from Israel again without security coordination and returned to the village of Kfar Kila in southern Lebanon, pulling the same cart behind her, and this time her newborn colt was running alongside her.
Within an hour, the gendarmerie, the municipality, the Mukhtar, and the United Nations came to my aunt’s house and demanded that my aunt implement the terms of the signed agreement and hand over the colt to the United Nations forces.
The surprise was that the colt refused to leave his mother, insisted on staying in Lebanon, and delayed surrendering himself to the Lebanese Gendarmerie.
In light of the colt's evasion, additional gendarmerie forces were called, the place was cordoned off, the colt was arrested, tied up, and loaded into a military truck to the control center in Naqoura, and from there, he returned captive, broken-hearted, tearful, and dispersed to the Zionist entity.
Lesson Learnt: Like all stories, one may draw some lessons from this one too.
1. My aunt’s donkey reveals the truth about the Israeli negotiator. He is tough, stubborn, and long-minded to the extent that he refused to part with a colt whose father is an Israeli donkey and whose mother is a Lebanese donkey. So how will this Israeli negotiator give up to the Palestinian negotiator about Jerusalem, the West Bank, the sky of Palestine, and Al-Aqsa Mosque, which he claims is a mountain? the structure?
2. How will this Israeli negotiator, who did not spare a small fool, give up 60% of the land of the West Bank, on which tens of thousands of homes are built, and which includes hundreds of thousands of extremist settlers?
3. The story of “My Aunt’s Donkey” is an expression of the bitter reality that the Muslim Ummah isn't experiencing.
4. The Jews killed their own Prophets, who were from their own blood relations; They worshiped a mooing calf, when their feet have not yet dried up from the sea which parted for their safety. So it is no wonder they are demanding a colt whose father is Jewish.
سنہ 1962 میں ایک دن دشمن اسرائیل کو لبنان کو الگ کرنے کے لیے باڑ لگانے سے پہلے میری خالہ کی گدھیا گم ہو گئی؛ جو مقبوضہ فلسطین میں داخل ہوئی اور وہیں غائب ہو گئی تھی۔ میری خالہ اور اس کے شوہر اسرائیلی گولیوں کے خوف سے اس کو تلاش کرنے کے عمل سے قاصر تھے، اس لیے انہوں نے گدھیا کو اپنے حال پر چھوڑنے کا فیصلہ کیا۔
اس کے لاپتہ ہونے کے ایک سال بعد، میری خالہ اس وقت حیران رہ گئیں جب اس کی گدھیا گھر اور اپنے گھر کی طرف واپس آگئی۔ اس کے پیچھے آڑو اور ناشپاتی سے لدی ایک گاڑی کھینچی چلی آئی تھی۔ اور گاؤں کے بہت سے بچے خوش ہو کر اس کا پیچھا کر رہے تھے۔
گدھیا کی واپسی کی خوشی مکمل بھ نہ ہوئی تھی کہ کچھ دیر بعد، لبنانی پولیس آئی، میئر اور میئر کے ساتھ بین الاقوامی ایمرجنسی فورسز ولاے بھی ساتھ تھی۔ انہوں نے میری خالہ کے گھر پر چھاپہ مارا اور مطالبہ کیا کہ گدھیا کو بین الاقوامی افواج کے حوالے کیا جائے تاکہ وہ اسے اسرائیل کو واپس کر دیں۔ گدھیا ایک بچے سے حاملہ تھی جس کا باپ اسرائیلی گدھا تھا۔
تناؤ اور الجھن کے بعد اور اعتراض اور تردید کی اونچی آوازوں سے غصے کی سطح بڑھ گئی اور دیگر گاؤں والے بھی اس بحث میں شامل ہو گئے اور اجتماعی آواز میں چیخنے لگے کہ ’’گدھیا ہماری، گدھیا کھو گئی اور ہمارے پاس واپس آگئی‘‘۔
اسرائیلی قابض فوج کے ساتھ کئی گھنٹوں کے مذاکرات اور بین الاقوامی ثالثی کے بعد سب نے اس بات پر اتفاق کیا کہ گدھیا واپس صہیونی ریاست میں جائے گی۔ وہاں بچے کو جنم دے گی اور اس شرط پر کہ اقوام متحدہ اس گدھیا کو اکیلے میری خالہ کو واپس کر دے گی۔
اقوام متحدہ کے نمائندوں کی موجودگی میں ایک معاہدے پر دستخط کیے گئے جس کے تحت گدھیا کو واپس آنے کی اجازت دی جائے گی اور اس شرط پر کہ اس کا نومولود بچہ صہیونی مالک کے پاس رہے گا۔
تین ماہ بعد، گدھیا دوبارہ اسرائیل سے سیکورٹی کوآرڈینیشن سے فرار ہو گئی اور اُسی گاڑی کو اپنے پیچھے کھینچتے ہوئے جنوبی لبنان کے گاؤں کفار کلی میں واپس پہنچ گئی؛ اور اس بار اس کا نوزائیدہ بچہ بھی اس کے ساتھ دوڑ رہا تھا۔
ایک گھنٹہ کے اندر، جینڈرمیری، میونسپلٹی، مختار، اور اقوام متحدہ میری خالہ کے گھر پہنچ آئے اور میری خالہ سے مطالبہ کیا کہ وہ دستخط شدہ معاہدے کی شرائط پر عمل درآمد کریں اور بچے کو اقوام متحدہ کی افواج کے حوالے کریں۔
حیرت کی بات یہ تھی کہ بچے نے اپنی ماں کو چھوڑنے سے انکار کر دیا اور لبنان میں رہنے پر اصرار کیا، اور خود کو لبنانی جنڈرمیری کے حوالے کرنے میں تاخیر کی۔
گدھیا کی چوری کی روشنی میں، اضافی جنڈرمیری فورسز کو بلایا گیا، اس جگہ کو گھیرے میں لے لیا گیا، بچے کو گرفتار کیا گیا، باندھ دیا گیا، اور ایک فوجی ٹرک میں نقورہ کے کنٹرول سنٹر میں لایا گیا، اور وہاں سے وہ اسیر، ٹوٹا پھوٹا ہو کر واپس گیا۔ شاید اس کا دل ماں کی جدائی سے آنسوؤں سے رویا ہوگا جسے صہیونی وجود کے لئے اسکی ماں سی جدا کیا گیا تھا۔
حاصلِ سبق: تمام کہانیوں کی طرح اس سے بھی کچھ سبق لیا جا سکتا ہے۔
1. میری خالہ کی گدھیا نے اسرائیلی مذاکرات کار کی حقیقت کو ظاہر کرتا ہے۔ وہ کافی حد تک سخت، ضدی اور کند ذہن تھا کہ اس نے ایک بچے کو اس کی ماں سے علیحدگی پر اصرار کیا۔ کیونکہ اس کا باپ اسرائیلی گدھا تھا؛ گرچہ اس کی ماں لبنانی گدھیا تھی۔ تو ایسے ہی اسرائیلی مذاکرات کار یروشلم، مغربی کنارے، فلسطین کے آسمان اور مسجد اقصیٰ کے بارے میں فلسطینی مذاکرات کار کے ہاتھوں کس طرح دستبردار ہو جائے گا، جس کے بارے میں اس کا دعویٰ ہے کہ وہ ایک مقدس پہاڑ ہے؟
2. یہ اسرائیلی مذاکرات کار، جس نے ایک چھوٹے سے گدھے کے بچے کو بھی نہیں بخشا، تو بھلا کیسے مغربی کنارے کی 60% زمین، جس پر دسیوں ہزار گھر بنے ہوئے ہیں، اور جس میں لاکھوں انتہا پسند آباد کار شامل ہیں، ترک کر دیں گے؟
3. "میری "خالہ کا گدھیا" کی کہانی اس تلخ حقیقت کا اظہار ہے جس کا امت مسلمہ کو سامنا ہے۔
4. یہودیوں نے اپنے ہی انبیاء کو قتل کیا، جو ان کے اپنے خونی رشتوں سے تھے۔ انہوں نے ایک سنہرے بچھڑے کی پوجا کی،حالانکہ ابھی ان کے پاؤں ابھی تک سمندر کے پانی سے خشک نہیں ہوئے تھے جو ان کی حفاظت کے لیے پھٹ گیا تھا۔ لہٰذا یہ کوئی تعجب کی بات نہیں کہ وہ ایک ایسے بچے کا مطالبہ کر رہے تھے جس کا گدھا باپ ، یہودی کی ملکیت تھا۔
"میری "خالہ کا گدھیا" ایک سچی کہانی ہے، جو باضابطہ طور پر اقوام متحدہ میں رجسٹرڈ ہے، اور یہ اسرائیل کے ساتھ سرحد پر جنوبی لبنان کے گاؤں "کفر کیلا" میں پیش آیا۔ یہ کہانی جنوبی لبنان میں رکھے گئے اقوام متحدہ کے مشاہداتی مشن کے ریکارڈ میں درج ہے... جولائی 1962۔ امید ہے کہ بینگ باکس آن لائن کے قارئین کو یہ دو لسانی انگریزی اور اردو میں بھی پسند آئے گی۔