مشرقی پاکستان کا المیہ اور مسلمان کا دکھ
خطہ زمین برصغیرِ ہندوستان کی کوئی بھی کہانی ہو خلیج بنگال اور اس سے جنم لینے والے طوفان کا اس میں ذکر نا ہو ممکن ہی نہیں۔ مون سون کا گرجتا برستا ساون خلیجِ بنگال ہی سے اٹھتا ہے اور سارے قراقرم؛ ہمالہ اور ہندوکش کے علاقوں میں سیلاب بن کر بہتا ہے۔ کبھی وہ ملک مشرقی پاکستان تھا اوراس زمین پر بسنے والے لوگوں نے پاکستان کے قیام میں سرگرم کردار ادا کیا تھا۔ آج بنگلہ دیش میں جو طوفان طالب علموں کی تحریک کی صورت میں اٹھا ہے؛ دیکھنا ہے کہ وہ خطہ برِ صغیر کے مسلمانوں کے لیے کیا پیغام لے کر آتا ہے؟ اس پر ایک مختصر تبصرہ بینگ باکس کے قارئین کے لیے پیش خدمت ہے۔
2024-08-07 13:34:57 - Muhammad Asif Raza
مشرقی پاکستان کا المیہ اور مسلمان کا دکھ
خطہ زمین برصغیرِ ہندوستان کی کوئی بھی کہانی ہو خلیج بنگال اور اس سے جنم لینے والے طوفان کا اس میں ذکر نا ہو ممکن ہی نہیں۔ مون سون کا گرجتا برستا ساون خلیجِ بنگال ہی سے اٹھتا ہے اور سارے قراقرم؛ ہمالہ اور ہندوکش کے علاقوں میں سیلاب بن کر بہتا ہے۔ کبھی وہ ملک مشرقی پاکستان تھا اوراس زمین پر بسنے والے لوگوں نے پاکستان کے قیام میں سرگرم کردار ادا کیا تھا۔ آج بنگلہ دیش میں جو طوفان طالب علموں کی تحریک کی صورت میں اٹھا ہے؛ دیکھنا ہے کہ وہ خطہ برِ صغیر کے مسلمانوں کے لیے کیا پیغام لے کر آتا ہے؟ اس پر ایک مختصر تبصرہ بینگ باکس کے قارئین کے لیے پیش خدمت ہے۔
انسانی تاریخ کتنی پرانی ہے یہ تیقّن سے کوئی بھی نہی بتا سکتا؟ مگر زیادہ تر افراد کی تحقیق چار ہزار سال تک ہی پہنچ پاتی ہے۔ برِ صغیر ہندوستان کی تاریخ بھی تقریبا" چار ہزار سال ہی کی داستان سناتی ہے۔ ان چار ہزار سالہ تاریخ کا اہم ترین ثبوت رگ وید؛ مہا بھارت، رام لیلا اور مہان انڈیا کی داستانیں ہیں؛ قصے ہیں اور کہانیاں ہیں۔ ان سب میں مرکزی کردار دھرم ہے؛ دھرم داس اور دھرم داسیاں ہیں۔ یہ سب بھارت؛ انڈیا یا ہندوستان کے سب سے محترم عزت والے تھے۔ پھر وادی بطحاء سے اٹھنے والے اسلام نے اس زمیں پر اپنا قدم رکھا اور اپنے مزاج کے حساب سے پورے ہندوستان میں جم گیا۔
برصغیر کی زمین جب ہندوستان تھی تو رشی و جوگی تھے؛ سادھو تھے اور سنیاسی تھے۔ پھر مسلمان آئے تو درویش آباد ہوئے؛ قلندر ابھرے؛ غوث و ولی بسے اور صوفیوں کو رواج ملا۔ برِصغیر کی زمین پر لوگوں کا دھرم بدلا، مذہب بدلا مگر نیم نہیں بدلے؛ طریقہ نہیں بدلا۔ رواج نہیں بدلے۔ رہن سہن نہیں بدلا اور تقدر بھی نہیں بدلی۔ پراتھنا کرنے والے؛ عبادت گذار ہوگئے؛ ماتھا ٹیکنے والے سجدہ ریز ہوگئے؛ پرشاد بانٹنے والے نیاز بانٹنے اور کھانے لگے۔ بھگوان داس رام دین کا بھگت؛ اللہ وسایا کی رعایا بن گئی؛ الغرض برصغیرِ ہندوستان کے انسان غلام ہی رہے آزاد منش نہیں بن سکے۔ انکے گلے میں کوئی نا کوئی طوق پڑا ہی رہا۔ " پہلے پیٹ پوجا؛ پھر کوئی کام دوجا " کے مصداق آج بھی دو ارب انسان رہٹ کا بیل بنے ہوئے ہیں۔ مگر اس سب کے باوجود آج بھی اس خطہ زمین کا سے سے بڑا نیم، سب سے مستحکم نعرہ؛ اور سب سے مضبوط دلیل دھرم ہے، مذہب ہے۔
تقدیر اور تدبیر آزاد انسانوں کی ہوتی ہے؛ غلاموں کی پاس نا تو تدبیر کے عمل کا موقع ہوتا ہے اور نا ہی انکی کوئی تقدیر ہوتی ہے۔ برِ صغیر کے انسان ساری دنیا کے اولادِ آدم سے کچھ مختلف تھے اور اس کی وجہ اس خطہ زمین کی ساخت؛ اس کے موسم اور اس پر خداوندِ عالم کی مہربانیاں اور نعمتیں تھیں۔ سارے انسان اپنے نفس کے غلام ہیں؛ اور اپنی جبلتوں کے تحت اپنی روٹی روزی کا انتظام کرتے ہیں۔ برصغیر کے انسان اپنے نفس کے ساتھ ساتھ آسیب زدہ بھی تھے؛ وہم پرست تھے اور ان دیکھی طاقتوں کے غلام بھی ہوتے تھے۔ انکی زمین پر زرخیزی سے سبب غلہ خوب اگتا تھا، جانور خوب پلتے تھے اور پھل، پھول اور درخت بے بہا رنگ جماتے تھے اور ان سب میں انکی زیادہ محنت شامل نہیں ہوتی تھی۔ اس لیے یہ کاہل اور کام چور ہوتے تھے اور آزادی کو کوئی نعمت اور فخر نہی سمجھتے تھے۔
روٹی کپڑا اور مکان پچھلی صدی تک کے انسانوں کی بنیادی ضرورت ہوتی تھی۔ مگر صنعتی ترقی سے انسانوں کی ضروریاتِ زندگی میں تغیر آیا ہے۔ اب روٹی کپڑا اور مکان کے ساتھ ساتھ تعلیم، صحت اور روزگار بھی اس فہرست میں شامل ہیں۔ ان ضروریات نے انسانوں میں آزادئیے فرد کی اہمیت کو اجاگر کیا ہے۔ آزادئیے فرد؛ آزادی اظہار کے بغیر مکمل نہیں ہوتا۔ آج اکیسویں صدی کے چوبیسویں سال میں انٹرنیٹ بھی بنیادی انسانی حق کے لیے لازم و ملزوم ہوگیا ہے۔ برصغیر کے انسان اپنی جبلتوں کی انفرادیت کے باوجود دنیا بھر سے عمومی رویوں میں مختلف نہیں ہیں۔ اور دنیا کے دوسری قوموں سے سیکھنے کی ابتداء خود انگریز قوم کا تحفہ کی وجہ سے ہے؛ جس نے آج سے تقریبا" پونے تین سو سال قبل نواب سراج الدولہ کو شکست دے کر بنگال کی حکومت پر قبضہ کیا تھا۔
سرزمین بنگال اس وقت ایک آزاد زمین تھی جس پر بسنے والے ہندو تھے اور مسلمان بھی تھے۔ اور ہنسی خوشی بس رہے تھے اور انکا آپس میں کوئی دنگا فساد بھی نہیں تھا۔ بنگال کی زمین پر بہتے دریا تھے؛ دھان اور جوٹ تھا اور مچھلی تھی اور عام لوگ زندگی میں مگن تھے۔ انکی زندگی میں میگھا؛ میگھ ملہار اور دریاوں میں وافر مچھلیاں تھیں اور وہ تھے۔ وہ آزاد تھے اور بھگوان پرست اور خدا نصیب تھے۔ انگریز نے انکی زمین پر قبضہ کیا تو انکی آزادی کو سلب کیا؛ انکے رہن سہن کو چھیڑا؛ ان پر لگان لگائے اور بنیادی ضروریاتِ زندگی کا حصول بھی تنگ کردیا۔ انگریز نے ان سے بہت کچھ چھینا اور اور صرف اییک چیز سکھائی؛ جمہوری طرزِ حکمرانی اور اس کے تحت بنیادی انسانی حقوق۔ برصغیر ہندوستان میں جمھوری طرزِ حکمرانی اور بنیادی انسانی حقوق کا سبق سیکھنے والے سب سے پہلے بنگال والے تھے۔ اس میں دوسری کوئی اور رائے محض وقت کا ضیاع ہے۔
بنگال کے لوگ راسخ العقیدہ؛ شدت پسند مسلمان نہیں تھے مگر خدا نصیب ضرور تھے اور صوفیاء کی تعلیم کے تحت اللہ سبحان تعالی کی وحدانیت اور حقانیت کے قائل ضرور تھے۔ اور رسالتِ محمدﷺ کے دیوانے بھی تھے۔ انگریز کے دورِ غلامی میں سب سے پہلے مسلمانوں کی پہلی سیاسی تنظیم بنام مسلم لیگ کی بنیاد بھی مسلمانان بنگال کا مرہونِ منت تھا۔ یہ بنگال کے مسلمانوں کی سیاسی بلوغت کی واضع نشاندھی ہے۔ ہندوستان میں جب علامہ محمد اقبال نے آزاد مسلم ریاست کا خواب دیا اور قائدِ اعظم محمد علی جناح نے پاکستان کی جدوجہد کا اعلان کیا تو یہ بنگال کے مسلمانوں کی روح کو تحریک دینے سبب بنا؛ اور وہ تن من دھن سے اس کا حصہ بن گئے۔ اور پاکستن بن گیا تو اس کا نہایت مضبوط بندھن دو قومی نظریہ تھا جو ایک آزاد خودمختار اسلامی ریاست کا خواب تھا جس کی نظیر ریاست مدینہ کا ماڈل تھا اور اس کا نقشِ ثانی بننا تھا۔
مگر ملک خداداد کے بنتے ہی ردِ انقلاب کی قوتیں پس پردہ متحرک ہوگئیں اور قائدِ اعظم کے انتقال اور لیاقت علی خان کے قتل کے بعد نظریاتی بندھن توڑ دیا گیا۔ سکولر لبرل طاغوتی گروہ پھیل گئے اور مغربی، صیہونی اور ہندتوا کے غلام سازشوں کا جال بچھانے لگے۔ اورحکمران اشرافیہ جو دراصل مغربی آقاوں کےغلام تھے؛ نے نفرت کے بیج بوئے۔ اس کے لیے سرکاری ظلم کو روا رکھا گیا اور ایک بےدرد رسواکن رویے سے عام بنگالی کو تکلیف دی گئی اور اس کو نفرت کرنے پر مجبور کیا گیا۔ ظلم سے نفرت اگتی ہے اور نفرت سے بغاوت جنم لیتی ہے۔
پاکستان کا قیام حضرت قائد اعظم محمد علی جناح کی بصیرت اور تدبر کا نتیجہ تھا اور مسلمان عامۃ الناس کی والہانہ شمولیت کا پھل تھا اور اس کی بنیاد ایک نعرہ " پاکستان کا مطلب کیا ؟ لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللہُ مُحَمَّدُ رَّسُولُ اللہ" تھا اور حکمران اشرافیہ جو دراصل انگریز کے سدھائے ہوئے ملازم تھے اور جن کی وفاداری تاجِ برطانیہ سے تھی؛ انکا اس تحریک میں کوئی کردار نہی تھا۔ وقت نے بتایا کہ حکمران اشرافیہ وہ بدترین منافق گروہ بھی تھا جس نے قومی نعرہ "پاکستان کا مطلب کیا؟ لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللہُ مُحَمَّدُ رَّسُولُ اللہ" کو مذاق بنایا اور ریاست کو اس خواب سے الٹی راہ پر چلایا۔ جس کے نتیجے میں مشرقی پاکستان میں مغربی پاکستانی کی پہچان ایک گالی " شالہ پُنجابی"" بن گیا۔
تاریخ کا جبر اور ظلم تو یہ ہے کہ جب نفرت اور بغاوت کو ہوا دی گئی تو اس کے پیچھے پس پردہ ہاتھ سامنے آیا تو اس نے قبا سیکولر لبرل نظریات کا پہنا ہوا تھا۔ اور سادگی یا کم عقلی کی انتہاء دیکھیے کہ دوںوں طرف کھل کھیلنے والے لبرل سیکولر ہی تھے۔ ایک طرف مجیب الرحمن اور دوسری طرف ذولفقار علی بھٹو تھے۔ اور وہ نظریہ جس کے تحت پاکستان قائم ہوا تھا کہیں پیچھے رہ گیا۔ بالآخر پاکستان ٹوٹ گیا اور مغربی پاکستان بھٹو کا نیا پاکستان بنا اور مشرقی پاکستان بنگلہ بندھو مجیب کا سیکولر لبرل بنگلہ دیش بن گیا۔ دونوں ملکوں کے مسلمان جو اللہ کی حاکمیت کا خواب دیکھ رہے تھے اور نظام مصطفی ﷺ کے تحت رہنے کی امید رکھتے تھے؛ پس مژدہ ہو کر رہ گئے۔ ان کی ہمت ٹوٹ گئی؛ وہ بدحال ہوگئے۔ مگر دین اسلام کے ماننے والے زیادہ دیر تک مایوس نہی رہتے کیونکہ " اسلام کی فطرت میں قدرت نے لچک دی ہے؛ اتنا ہی یہ ابھرے گا جتنا کے دباو گے"۔
آج دوہزار چوبیس میں اگست کے مہینے میں بنگال نے ایک کروٹ لی ہے اور پاکستان میں بھی ایک جنگ جاری ہے۔ کیا پاکستان اور بنگلہ دیش کے مسلمانوں کی بیداری کی داستان پھر چھڑ گئی ہے؟ کیا مشرقی اور مغربی پاکستان کے عوام پھر ایک ہی طرح سوچنے پر مجبور ہو گئے ہیں؟ بنگلہ دیش کے مسلمان جب بھی اسلام کی طرف لوٹے توکیا وہ ریاستِ اسلام پاکستان کا خواب ہی ہوگا؟ اور کیا یہ دونوں مسلمان ملک اللہ کی حاکمیت اور رسول اللہ ﷺ کے نام پر باہم ایک متحد ریاست کا نمونہ بن سکتے ہیں؟