موسم بہار؛ شاعرانہ محبوبیت

بہار فطرت کے باقی موسموں کی طرح ایک موسم ہے؛ مگر یہ اپنی فضا کی خوشگواریت؛ حسن آفرینی اورخوبصورتی کی بنا پراکثر کا پسندیدہ ہوتا ہے لیکن شاعری میں موسمِ بہار محبوب کے حسن کا استعارہ بھی ہے اورزندگی میں میسر ہونے والی آسانی اور خوشی کی علامت بھی سمجھی جاتی ہے۔ اس تحریر کا مقصد تعلیمی ہی کہ ہم انسان قدرت کی دی ہوئی عنایات؛ آسانیوں اور مہربانیوں کے لیے شکر گذار ہوں۔ اپنی قیمتی رائے سے ضرور آگاہ کریں۔

2024-04-23 18:08:46 - Muhammad Asif Raza

بِسۡمِ ٱللهِ ٱلرَّحۡمَـٰنِ ٱلرَّحِيمِ

 

موسم بہار؛ شاعرانہ محبوبیت

 

کہیں پڑھا تھا کہ ہم جو اپنے آس پاس بکھری ہوئی خوبصورتی دیکھتے ہیں وہ کہیں ہمارے اندر ہی چھپی ہوتی ہے یا پھر شاید یہ ہمارے اندر کی خوبصورتی ہوتی ہے جو ہمیں اپنے اردگرد کی خوبصورتی کو پہچاننا ممکن بناتی ہے۔ موسم بہار مگر شاید ہر انسان کو ہی خوبصورت بناتی ہےجو دیکھنے والی آنکھ ہر طرف قدرت کے پھیلائے ہوئے حسن آفرینی سے متاثر ہوجاتی ہے۔ "ساون کے اندھے کو ہر جانب ہرا ہرا دکھتا ہے" تو موسم بہار میں شاید ہر دکھی خوشی میں جھوم جاتا ہے۔ ہر صاحبِ دل کسی محبوب کی تلاش میں نکل پڑتا ہے۔

کلم عاجز نے شاید اسی لیے کہا ہے کہ " زخموں کے نئے پھول کِھلانے کے لئے آ؛ پھر موسمِ گُل یاد دلانے کے لئے آ؛ مستی لئے آنکھوں میں بکھیرے ہوئے زُلفیں آ، پھر مجھے دِیوانہ بنانے کے لئے آ ۔

 

 

بہار

 

آخر جب سردیوں کی جمی برف پگھلتی ہے؛ تو

وہ پانی قطرہ قطرہ زمین میں اترتا ہے۔

بیجوں سے لدی مٹی کو پھر آباد ہونا ہوتا ہے؛

تبھی بہار کے پہلے پھول کھلتے ہیں۔

زعفران کھلتے ہیں، گلاب کھلتےہیں؛

خوبصورت سورج کی طرح؛ نارنجی پیلے پھول اگتے ہیں

جیسے وقت بدلتا ہے؛

حسن فطرت بھی آشکار ہوجاتا ہے

ہم بنی آدم بھی اپنا نقطہ نظر بہتر کر سکتے ہیں

[ماخوذ]

 

شاخوں سے برگ گل نہیں جھڑتے ہیں باغ میں

زیور اتر رہا ہے عروس بہار کا

امیر مینائی

 

شگفتہ باغ سخن ہے ہمیں سے اے صابرؔ

جہاں میں مثل نسیم بہار ہم بھی ہیں

فضل حسین صابر

 

مرے خیال کی وسعت میں ہیں ہزار چمن

کہاں کہاں سے نکالے گی یہ بہار مجھے

شوق اثر رامپوری

 

بہار آتے ہی ٹکرانے لگے کیوں ساغر و مینا

بتا اے پیر مے خانہ یہ مے خانوں پہ کیا گزری

جگن ناتھ آزاد

 

گلوں کا دور ہے بلبل مزے بہار میں لوٹ

خزاں مچائے گی آتے ہی اس دیار میں لوٹ

حبیب موسوی

 


 

بہار کے لیے

 

خوش آمدید، نرم سٹرلنگ،

فطرت کے پیارے آپ!

پھولوں سے بھری اپنی ٹوکری کے ساتھ،

اب خوش آمدید!

آہ!--اور تم لوٹ آئے،

ہم آپ کو دل کی گہرائیوں سے سلام پیش کرتے ہیں-

محبت کرنے والا اور انصاف کرنے والا،

خوشی سے ہم آپ سے ملتے ہیں!

تم میری محبوبہ کے بارے میں سوچو

خوشی کے اپنے دل میں؟

میں ابھی تک اس سے پیار کرتا ہوں، لڑکی...

اور لڑکی ابھی تک مجھ سے پیار کرتی ہے!

لڑکی کے لیے، بہت سے پھول

میں نے منت کی - اور بیکار نہیں!

میں پھر بھیک مانگتا ہوا آیا

اور تو پھر دیتا ہے:

خوش آمدید، نرم سٹرلنگ،

فطرت کے پیارے آپ...

پھولوں سے بھری اپنی ٹوکری کے ساتھ،

اب خوش آمدید!

 

 [ فریڈرک شلر ترجمہ شدہ ]


 

جب مارچ کا مہینہ اپنے جوبن پر پہنچتا ہے؛ تو ان دنوں میں سورج گرم چمکتا ہے مگر ہوا ٹھنڈی چلتی ہے۔ پھر یہی چلن آگے بڑھ کر اپریل میں توانا ہوجاتا ہے اور سورج کی روشنی میں تپش ہوتی ہے اور سایہ ٹھنڈا ہوتا ہے۔ اور ان دنوں میں بارش برستی ہے تو بادِ صبا دیوانی ہوجاتی ہے اور بدن کو گدگداتی ہے؛ تو اس سمے جوان جذبوں کو تحریک ملتی ہے۔

آپ عمر کی کسی منزل میں ہوں اور موسمِ بہار آپکو لبھاتا ہے تو آپ موسم بہار سے یہ نہیں کہہ سکتے کہ ' اب جو تم آؤ تو ہمیشہ کے لیے قائم رہو'۔ ہاں مگر ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ  آؤ اور مجھے اپنی امید کے ساتھ برکت دو، اور جب تک ہو سکے رہو اور میری دنیا کو حسن آفرین بنائے رکھو۔

 

یہ موسم یہ بہار پھر آئے نہ آئے

پیئے جاؤں خُمار پھر آئے نہ آئے

 

ڈِبو ہی کیوں نہ دُوں میں کشتی اپنی

یہ طوفان بار بار آئے نہ آئے

 

گُلوں کو دیکھ لے جی بھر کے بُلبُل

چمن میں پھر بہار آئے نہ آئے

 

میں اپنے ضبط کا وعدہ تو کر لُوں

پر دِل ہے قرار آئے نہ آئے

 

[ شاعر نامعلوم ]


 

اپنے جزبات کی ہمیشہ پر خلوص آبیاری کریں۔ یاد رکھیں کہ فطرت ہمیشہ پر امید افراد کے ساتھ ہوتی ہے۔ موسم بہار کا سب سے بڑا پیغام یہی ہے کہ کبھی مشکل میں، کسی بھی نقصان کی صورت میں؛ کسی بھی چیز پر کبھی پچھتاوا نہ کریں ۔ قدرت پر مشکل کے بعد آسانی فراہم کرتی ہے جیسے ہر خزاں کے بعد بہار کا موسم آتا ہے۔ یقین رکھین کہ آپ نے جو مخلصانہ پیار سے کیا ہے؛ وہ کبھی کھویا نہی جاتا؛ وہ کہیں وہیں آبیاری کا منتظر ہوتا ہے؛ امید و آس کا قطرہ قطرہ بوند اس پر گل کھلاتا ہے؛ کچھ بھی کھویا نہیں جاتا جو دل سے پیدا ہوتا ہے؛ "کھویا جسے نظر نے، تصور نے پالیا " ۔

 

رومی کی نظم "ایک عظیم ویگن" سے اقتباس

 

غلطی اور صحیح کام کے خیالات سے باہر، ایک میدان ہے؛

 میں تم سے وہاں ملوں گا۔

جب روح اس گھاس میں لیٹ جاتی ہے؛

دنیا بات کرنے کے لیے بہت بھری ہوئی ہے۔

خیالات، زبان، یہاں تک کہ جملہ 

کوئی معنی نہیں رکھتا۔

صبح کی ہوا آپ کو بتانے کے لیے راز رکھتی ہے۔

سونے کے لیے واپس مت جاؤ۔

آپ کو ضرور پوچھنا چاہئے کہ آپ واقعی کیا چاہتے ہیں؟

سونے کے لیے واپس مت جاؤ۔

لوگ دروازے کے اس پار آگے پیچھے جا رہے ہیں۔

جہاں دو جہانیں چھوتی ہیں۔

دروازہ گول اور کھلا ہے۔

واپس سونے مت جانا۔"


 

خوشی ایسی چیز نہیں ہے جس کی ہم خواہش کریں تو مل جائے؛ یہ ہمارے پیدا کرنے کی چیز ہے۔ جو کچھ ہم کرتے ہیں، جو بیج ہم بوتے ہیں؛ وہی ہماری کوشش ہوتی ہے؛ سو ویسے ہی پودے اگتے ہیں اور پھر ہم ویسا ہی گلشن بنا پاتے ہیں۔ کچھ جو ہم دیتے ہیں؛ وہی ہمیں واپس ملتا ہے۔

 

 

وہ ادا شناس خزاں ہوں میں وہ مزاج دان بہار ہوں

نہ ہے اعتبار خزاں مجھے نہ یقین فصل بہار پر

عزیز وارثی دہلوی

 

مرا وقت مجھ سے بچھڑ گیا مرا رنگ روپ بگڑ گیا

جو خزاں سے باغ اجڑ گیا میں اسی کی فصل بہار ہوں

مضطر خیرآبادی

 

 

بہار میں تھوڑا جنون

بادشاہ کے لیے بھی صحت بخش ہے؛

لیکن خدا مسخرے کا ساتھ دے تو

اس دلخراش منظر پر کون غور کرے۔

سبزے کا یہ پورا تجربہ

گویا اس کا اپنا تھا

[ ایملی ڈکنسن کا ترجمہ ]

 


 

صبا کی مست خرامی تہِ کمند نہیں

اسیرِ دام نہیں ہے بہار کا موسم

یوں بہار آئی ہے امسال کہ گلشن میں صبا

پوچھتی ہے گزر اس بار کروں یا نہ کروں

فیض احمد فیض

 

ٹک دیکھ لیں چمن کو چلو لالہ زار تک

کیا جانے پھر جئیں نہ جئیں ہم بہار تک

میر حسن

 

نہ سیر باغ نہ ملنا نہ میٹھی باتیں ہیں

یہ دن بہار کے اے جان مفت جاتے ہیں

ناجی شاکر

 

جب سے چھوٹا ہے گلستاں ہم سے

روز سنتے ہیں بہار آئی ہے

جلیل مانک پوری

 

مری بہار میں عالم خزاں کا رہتا ہے

ہوا جو وصل تو کھٹکا رہا جدائی کا

جلیل مانک پوری

 

تنکوں سے کھیلتے ہی رہے آشیاں میں ہم

آیا بھی اور گیا بھی زمانہ بہار کا

فانی بدایونی

 

میں اس گلشن کا بلبل ہوں بہار آنے نہیں پاتی

کہ صیاد آن کر میرا گلستاں مول لیتے ہیں

حیدر علی آتش

 


 

بہار فطرت کے باقی موسموں کی طرح ایک موسم ہے؛ مگر یہ اپنی فضا کی خوشگواریت؛ حسن آفرینی اورخوبصورتی کی بنا پراکثر کا پسندیدہ ہوتا ہے لیکن شاعری میں موسمِ بہار محبوب کے حسن کا استعارہ بھی ہے اورزندگی میں میسر ہونے والی آسانی اور خوشی کی علامت بھی سمجھی جاتی ہے۔


 

 

بہار : نظم

 

ہر بار اسی طرح سے فطرت

سونے کی ڈلی سے ڈھالتی ہے

سرسوں کی کلی کی زرد مورت

تھاما ہے جسے خم ہوا نے

 

ہر بار اسی طرح سے شاخیں

کھلتی ہوئی کونپلیں اٹھائے

رستوں کے سلاخچوں سے لگ کر

کیا سوچتی ہیں یہ کون جانے

 

ہر بار اسی طرح سے بوندیں

رنگوں بھری بدلیوں سے چھن کر

آتی ہیں مسافتوں پہ پھیلے

تانبے کے ورق کو ٹھنٹھنانے

 

ہر سال اسی طرح کا موسم

ہر بار یہی مہکتی دوری

ہر صبح یہی کٹھور آنسو

رونے کے کب جائیں گے زمانے

 

مجید امجد


More Posts